اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں۔۔

حفیظ بلوچ

آبادی کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر، کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ ایک ایسا شہر، جسے بغیر کسی ماسٹر پلان کے پھیلایا گیا، حالانکہ ایک پورٹ سٹی کے طور پر اسے ایک خوبصورت شہر ہونا چاہیئے تھا، مگر یہ آبادی کے بوجھ تلے کچھ اس طرح کچلا گیا کہ آج کراچی شہر مشکل سے سانس لے پا رہا ہے۔

یوں کراچی شہر نہیں، ایک مسائلستان بنا ہوا ہے، پھر بھی نہ حاکموں کو نہ اس شہر کے نام نہاد مالکی کے دعویداروں کو اس پہ کوئی رحم آیا۔ اس کی بڑی وجہ میری نظر میں کراچی کی زمینی ساخت سے نا آشنائی اور سیاست تجارت اور مفاد پرست قبضہ مافیا بلڈر مافیا کی سرمایہ کے حصول کی دوڑ ہے۔

اس میں جو سب سے بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے وہ ہے کچی آبادیوں کا، جب بھی دیکھو کسی نہ کسی جگہ کراچی کے مختلف حصوں میں تجاوزات کے نام پر کاروائیاں ہیں۔ کراچی میں کچی آبادی کا ذکر ہو تو اکثر کے ذہین میں کچی آبادی کی جو شبیہ آتی ہے، وہ جھونپڑی نما گھر یا چھوٹے بے ترتیب گھر، گندی گلیاں اور بنیادی سہولیات سے محروم آبادیاں آ جاتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کچی آبادی کا مطلب ہمیشہ غلط لیا گیا۔ کچی آبادی وہ آبادی کہلاتی ہے جو پرمننٹ نہ ہو اور سرکاری ریکارڈ میں Documented نہ ہو یا جو ریاست کی زمین پر قبضہ کر کے بنائی گئی ہو۔ جو کسی بھی سرکاری ادارے سے تصدیق شدہ نہ ہو (جیسے ہم جب کوئی چیز یا زمین خریدتے ہیں اکثر ہم پوچھتے ہیں کاغذ تو پکے ہیں نا۔۔؟) مطلب ہر وہ انسانی آبادی، جو State Land پر غیر قانونی طور پر بنی ہوئی ہو، چاہے وہ عالی شان محل ہوں یا گھاس پھوس اور مٹی سے بنے گھر، کچی آبادی میں شمار ہوتے ہیں۔

اس طرح کی کچی آبادیاں جا بہ جا پاکستان کے ہر بڑے شہر میں موجود ہیں، ان کچی آبادیوں کی زمینوں پر قبضہ کے لیئے سرمایہ دار لینڈ گریبر یا لینڈ مافیا نت نئے طریقے ڈھونڈتے ہیں۔ آج کراچی اسی صورتحال سے دوچار ہے۔ کراچی میں زمینوں کی کمی سے بلڈر مافیا اور قبضہ مافیا کی رال ملیر کے بچے کھچے گرین زون کو دیکھ کر ٹپکتی ہے یا ملیر کی ان زمینوں پر، جو کبھی سرسبز شاداب ہوا کرتی تھیں، مگر ریاست کی عدم توجہی کی وجہ سے بنجر ہو گئی ہیں ـ بلڈر مافیا یا قبضہ مافیا تو ایک طرف، یہاں مختلف ادارے، جن کے ذمہ کراچی کو آسانیاں فراہم کرنا ہے، وہ بھی ملیر کی زمینوں پر دھندا کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی پلاننگ کر رہے ہیں۔ اس میں سب سے برا کردار ایم ڈی اے کا رہا۔ پہلے بحریہ ٹاؤن کراچی کو کوڑیوں کے مول زمینیں دے کر اپنی حدود سے تجاوز کرنا اور حالیہ سیٹلائیٹ ٹاؤن کے نام پر ایک بار پھر ملیر باقی رہ گئی زمینوں پر نگاہیں جمانا۔۔ اب تو ایک اور ادارہ بھی ملیر کی زمینوں کو حریص نظروں سے دیکھ رہا ہے، کے ڈی اے ڈائریکٹر اپنے ادارے کو سرمایہ سے توانا کرنے کے لیئے 14 ہزار ایکڑ ملیر کی زمین کمرشل پاؤسنگ اسکیم کے لیئے سندھ سرکار سے مانگنے جا رہے ہیں۔

کراچی جیسا شہر، جو اب کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے، چاروں طرف سے سیمنٹ اور ڈامر سے ڈھک چکا ہے، جس میں اب گنجائش ہی نہیں۔۔ اس شہر کو آکسیجن دینے کا ایک ہی ذریعہ باقی رہ گیا ہے، وہ ہے ملیر کی زراعت، اس کی ندیاں پہاڑ اور جنگلات، اور جن زمینوں پر کے ڈی اے کے ڈائریکٹرز کی رال ٹپک رہی ہے، وہ کھیرتھر نیشنل پارک سے محلقہ ایریا ہے، اگر یہ سب بھی یہ لے جائیں گے تو کراچی کیسے سانس لے پائے گا ـ خدارا اب کراچی پر رحم کریں ـ

بات پھر کچی آبادیوں کی کرتے ہیں۔ کراچی میں کچی آبادیاں اب رہیں کہاں، کیونکہ سندھ حکومت نے 17 فروری 2016 کو ایک نوٹیفیکشن کے ذریعے صوبے بھر میں 1997 تک قائم تمام کچی آبادیوں کو ریگولر کر دیا۔ اس وقت کے صوبائی وزیر کچی آبادی طارق مسعود آرائیں نے کہا تھا کہ ”اس ریگولرائزیشن سے ہزاروں کچی آبادیوں کے لاکھوں مکینوں کو مالکانہ حقوق ملیں گے۔ اس سے قبل ہمیں 1987 تک قائم کچی آبادیوں کے مکانات کو لیز پر دینے کی اجازت دی گئی تھی“ انہوں نے مزید کہا تھا کہ 1997 تک قائم تمام کچی آبادیاں، جن کی تعداد 3,000 کے قریب ہے، کو لیز پر دیا جائے گا۔

اب سوال بنتا ہے کہ کراچی میں ان کچی آبادیوں کو روکنے میں سندھ حکومت کیوں مسلسل ناکام ہے؟ ان کچی آبادیوں کی آڑ میں کئی جعلی گوٹھ بنے، لینڈ مافیاز سرگرم ہوئے اور اس طرح کراچی میں سینکڑوں پرائیوٹ سوسائیٹیز ہیں، جو جو نہ کے ڈی اے، ایم ڈی اے یا ایل ڈی اے اور نہ ہی ایس بی سی اے سے منظور شدہ ہیں، یہ کن کے ایما پر شروع ہوئئں۔ ایسے غیر قانونی منصوبے کس طرح نمودار ہوئے، جب وہ کہیں کسی ادارے سے منظور شدہ نہیں پھر ان کو کیوں غیر قانونی قرار دیے کر گرایا نہیں جاتا۔

ان کچی آبادیوں کی زمینوں پر قبضہ کے لیئے سرمایہ دار لینڈ گریبر یا لینڈ مافیا نت نئے طریقے ڈھونڈتے ہیں،
اسی طرح اگر دیانت داری سارے صورتحال کو دیکھتے ہوئے اگر میں یہ سوال پوچھوں کہ ایشیا کے سب سے بڑیلے کمرشل ہاؤسنگ پراجیکٹ بحریہ ٹاؤن کراچی کیا واقعی میں امیروں کی سب سے بڑی کچی آبادی ہے؟ یہ سوال نہیں حقیقت ہے۔۔ بس تھوڑا سا فرق ہے کراچی شہر کی کچی آبادیاں غریبوں کی ہیں، جہاں غریب لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم بھوک بیماریوں میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، اور بحریہ ٹاؤن کراچی میں امیر سرمایہ دار زندگی کی تمام سہولتوں سے آراستہ پُر تعش زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر وہ کچی آبادیاں ہیں تو بحریہ ٹاؤن کراچی کو بھی حقائق کی نظر سے دیکھا جائے تو کچی آبادیوں سے بدتر بد صورت نظر آئے گا، کیونکہ کراچی کی دیگر کچی آبادیاں نالوں، اداروں یا سرکاری زمینوں پر بنی ہیں، مگر بحریہ ٹاؤن کراچی ملیر کی قدیم باسیوں کی زمینوں پر ان کے تاریخی مقامات پر، ان کی حیثیت، ان کی شناخت اور ان کے وجود کو قتل کر کے بنایا گیا۔

حیراں ہونے کی ضرورت نہیں، یہ تو بحریہ ٹاؤن کراچی کا ایک تاریک پہلو ہے جس پہ بہت کم بات ہوتی ہے، یہاں یہ سوال بھی اہم کہ کچی آبادی تو واضح ہے، انہیں کچی آبادی کیوں کہا جاتا ہے، میں بحریہ ٹاؤن کو کیوں کچی آبادی سے لنک کر رہا ہوں؟ اس کا سیدھا اور آسان جواب 2018 میں سپریم کورٹ کا وہ تاریخی فیصلہ ہے، جس میں بحریہ ٹاؤن کراچی کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا، یہ اور بات ہے کہ بعد میں اسی فیصلے کا سودا کیا گیا، مگر تاریخ کے صفحوں میں وہ فیصلہ موجود رہے گا۔۔ اب اگر اس فیصلے کے حساب سے دیکھا جائے تو بحریہ ٹاؤن کراچی ایک مکمل غیر قانونی کمرشل ہاؤسنگ پراجیکٹ ہے، اس لیئے جملہ ایک حقیقت پر مبنی ہوگا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی ایشیا کا سب سے بڑا فراڈ، سب سے بڑی غیر قانونی کچی آبادی ہے یہ اور بات ہے کہ سرمایہ کے طاقت سے بحریہ ٹاؤن کراچی کے رہائشیوں کو تمام سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

اگر کچی آبادیوں کے تسلسل اور کراچی میں گھروں کی کمی کے مسئلے کو آبادی کے بڑھتے بوجھ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کہنے میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی شہر ایک ایسے نقطے پر آ گیا ہے، کہ جہاں آبادی کو مزید بڑھنے سے روکنا ہے، نا کہ صرف امیروں کے لیئے کمرشل ہاؤسنگ پراجیکٹ بنانا ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سائنسی بنیاد پر ماحولیاتی تحفظ کے ماہرین کے نگرانی میں کراچی شہر کا ماسٹر پلان تیار کیا جائے، جس میں مزید ہاؤسنگ پراجیکٹس کے بغیر کراچی شہر کو اس طرح استوار کیا جائے، تا کہ کراچی شہر سانس لے سکے، اگر اس کے لیئے کچھ آبادیاں گرانا پڑیں، پارکس کھیل میدان اور جنگلات بنانے کے لیئے زمین کا حصول ممکن ہو تو اس کے لیئے تمام اقدامات ضروری ہوں، اٹھائے جائیں۔

ملیر کراچی کا بچا گرین زون ہے، اس کو تمام ہاؤسنگ پراجیکٹس غیر قانونی فیکٹریوں سے پاک کیا جائے۔ ملیر میں زراعت کو فروغ دینے کے لیئے ہنگامی بنیاد پر کام کیا جائے، ملیر کی ندیوں کی حفاظت پہاڑوں کی حفاظت کے لیئے قوانین بنائے جائیں۔ کراچی کے اندر تمام برساتی نالے جنہیں گٹر نالوں میں تبدیل کیا گیا ہے، انہیں پھر سے برساتی نالوں میں تبدیل کرنے کے لیئے کراچی کے لیئے الگ سے زیر زمین سیورج سسٹم بنایا جائے اور ان نالوں کے ساتھ درخت لگائے جائیں۔

کراچی کے ساحل کو تحفظ دینے کی اشد ضرورت ہے، ساحل کو بین القوامی طرز پر صاف کر کے اسے تفریح گاہوں میں تبدیل کیا جائے۔ ساحل سمندر کے گرد مینگروز کے جنگلات بنا کر انہیں سیاحتی طرز پر استوار کیا جائے۔ سندھ کے ساحلی جزائر کو نیلام کرنے کے بجائے انہیں قدرتی اور ماحولیاتی تحفظ کے طور پر خوبصورت بنایا جائے ـ

یہ سب اس اکیسویں صدی میں ممکن ہے، اگر کراچی شہر کو بچانا ہے تو اسے بحریہ ٹاؤن ڈی ایچ اے سٹی یا دیگر کمرشل ہاؤسنگ پراجیکٹس کی ضرورت نہیں، بس کراچی کو انیسویں صدی کے مائی کلاچی کی نظر سے دیکھنے کی اور سمجھنے کی ضرورت ہے ـ کراچی کو بحثیت ایک اربن کنکریٹ کے شہر کے بجائے ایک ماحول دوست ساحلی شہر بنانے کی ضرورت ہے ـ

کچی آبادیاں صرف غریبوں کی مزدوروں کی بری نہیں ہیں، بحریہ ٹاؤن ڈی ایچ اے جیسی امیروں کی کچی آبادیاں، سچ کی نظر سے دیکھا جائے تو سب سے بری ہیں ـ کراچی شہر کے بڑھتے اربنائیزیشن میں جو سب سے بڑا مسئلہ ہے، جس پہ بہت کم بات ہوتی ہے، وہ ہے کراچی کی انڈیجینئس آبادی جیسے لیاری، پرانا گولیمار، کیاماڑی، جہانگیر روڈ، ریڑھی میان ابراھیم حیدری اور گلشن اقبال و کراچی کے دیگر بڑی آبادیوں کے درمیان صدیوں سے قائم گوٹھ، جنہیں کراچی کے اس اربنائیزیشن میں سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے، اس نام نہاد ترقی میں انہیں کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی، ان کی بقا ثقافت زبان رسم رواج آج خطرے میں ہیں۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ نہ کسی جماعت کے منشور میں نہ ریاستِ پاکستان کے کسی ادارے کے پاس ان کے لیئے کوئی منصوبہ ہے ـ ڈر اس بات کا ہے کہ مائی کلاچی کی یہ قدیم بستیاں آہستہ آہستہ منہدم ہو کر ختم نہ ہو جائیں ـ انہیں بچانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی مائی کلاچی کے وہ زمین زادے ہیں، جن کی بدولت آج کا کراچی بنا ہوا ہے، ان کی مالکی نہیں۔ انہیں کچی آبادیاں نہیں بلکہ کراچی کے وارث تسلیم کر کے ان کی زمینیوں، زبانوں، رواجوں سمیت تسلیم کیا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close