کراچی تب سے ہوش ربا رہا ہے، جب کراچی کو لوگ کلاچی یا کولاچی کے نام سے جانتے تھے۔ مجھے لگتا ہے میرا ایک بھرپور جنم کولاچی میں گزرا ہے۔ گنتی کے لوگوں کی ہماری بستی سمندر کے کنارے شو مندر کے قریب ہوا کرتی تھی۔ چاندنی راتوں میں سمندر جب بپھرتا تھا، تب ہم اپنی بستی کنارے سے دور لے جاتے تھے۔ شِوا یا شو مندر چونکہ ایک پہاڑی کے بہت بڑے غار میں بنا ہوا تھا۔ بپھرے ہوئے سمندر کے سامنے سینہ سپر رہتا تھا۔ پندت مندر چھوڑ کر کہیں نہیں جاتے تھے اور نہ پجاری پوجا پاٹ کے لئے مندر آنا ترک کرتے تھے۔ ان دنوں عبداللہ شاہ غازی کا مزار نہیں بنا تھا۔ وہ پہاڑی اب جہاں عبداللہ شاہ غازی کا مزار ہے، اور مزار پر عالیشان مقبرہ بنا ہوا ہے، وہ پہاڑی اپنی جگہ موجود تھی۔ وہ پہاڑی سمندر سے منسلک تھی۔ چاندنی راتیں ہوں یا اماوس کی بھیانک کالی راتیں ہوں، سمندر کی لہریں پہاڑی سے ٹکرا کر لوٹ جاتی تھیں۔ وہ پہاڑی ہم کولاچی والوں کے لئے اس لیے بھی اہم تھی کہ پہاڑی میں قدرتی میٹھے پانی کا چشمہ تھا، اب بھی ہے۔ بستی کے ہم لوگ کھانا پکانے اور پینے کے لئے پانی اسی پہاڑی کے چشمہ سے لیتے تھے، ضرورت پڑنے پر شوا یا شو مندر کے چشمہ سے لیتے تھے۔
اس جنم میں، میں عجیب و غریب باتیں سنتا ہوں۔ عبداللہ غازی کے معتقد کہتے ہیں کہ یہ عبداللہ شاہ غازی کا کرشمہ ہے کہ کراچی کو آج تک سمندری طوفان یعنی سونامی کا سامنا کرنا نہیں پڑا ہے۔ شوا کے پجاری اس کو شو کی شکتی کہتے ہیں کہ سمندر نے کبھی بھی شہر میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کی ہے۔ مگر جب سیکڑوں برس پہلے کراچی کا نام کولاچی تھا ، تب ایسی باتیں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ سمندر کی حد بندی اور بے بسی کو لوگ قدرت کا کرشمہ سمجھتے تھے۔ بہرحال کولاچی ہو یا کراچی ہو، آپ سمندر کے کھارے پانی سے کھیتی باڑی نہیں کر سکتے۔ آپ کھانا نہیں پکا سکتے۔ آپ سمندر کا پانی پی نہیں سکتے۔ سمندر کے پانی سے آپ نہا نہیں سکتے۔ آپ کپڑے اور برتن دھو نہیں سکتے۔ آپ سمندر کے پانی سے تعمیراتی کام نہیں کر سکتے۔ آپ مکان نہیں بنا سکتے۔ آپ پل نہیں بنا سکتے۔ آپ ایئر پورٹ اور بندر گاہ نہیں بنا سکتے۔
کولاچی کے لوگوں کے گھریلو کام کاج، کھانا پکانا، نہانا دھونا، اوڑھنا بچھونا چشموں کے پانی سے ہوتا تھا۔ دریا کے میٹھے پانی کا نام و نشان، دور دراز تک دکھائی نہیں دیتا تھا۔ دریائے سندھ کا پانی کولاچی سے تقریباً چالیس میل دور سمندر میں جا گرتا تھا۔ وہ بھی مچھیروں کا گائوں تھا اور آج تک اپنی جگہ کسمپرسی کی حالت میں موجود ہے۔ اس گائوں کا نام ہے کیٹی بندر۔ کولاچی کے ہم باسی گزر بسر کے لیے سمندر سے مچھلیاں پکڑتے تھے اور بیچتے تھے۔ میں بھی ہفتہ میں دو تین مرتبہ ٹھٹہ ضلع میں جھرک نام کے صنعتی حرفتی شہر جھرک میں مچھلیاں بیچنے جاتا تھا۔ جھرک کولاچی سے پچیس تیس میل کے فاصلے پر تھا۔ بڑا ہی تجارتی شہر تھا۔ وہاں بیرون ملک سے کام کی چیزیں آتی تھیں اور اندرون ملک میں بنی ہوئی چیزیں، پھل اور سبزیاں باہر جاتی تھیں۔ جھرک میں آغا خان اول کا محل نما گھر تھا، اور وہ گھر یا کوٹھی آج بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ گوکہ اب جھرک کسمپرسی کی حالت میں ہے، آغا خان اول کی محل نما کوٹھی آج بھی سالم سلامت ہے۔ چوکیدار چوکیداری اور رکھوالی کرنے والے، رکھوالی کرتے ہیں۔ اگر آپ دیکھنا چاہیں تو وہ لوگ آپ کو آغا خان کا گھر دکھا بھی دیتے ہیں۔ اسی تجارتی اور کاروباری شہر جھرک میں قائد اعظم محمد علی جناح نے اٹھارہ سو چھہتر میں جنم لیا تھا۔ تاریخ تھی پچیس دسمبر 1876، اس وقت کراچی میں نہ کھارا در اور نہ تھا میٹھا در۔ انگریز کی تمام تر توجہ کیماڑی کو مضبوط اور مستحکم بندر گاہ بنانے پر لگی ہوئی تھی۔ انیس سو ساٹھ کے لگ بھگ کسی کو اس حقیقت کی سچائی اور صحت پر اعتراض نہیں تھا۔ انیس سو ساٹھ کے بعد کچھ دانشوروں نے قائد اعظم کی جائے پیدائش تبدیل کر دی۔ دانشوروں کی باتیں دانشور جانیں۔ جھرک کی بجائے انہوں نے درسی کتابوں میں قائد اعظم کی جائے پیدائش کھارا در کراچی لکھوا دی۔
انیس سو ساٹھ تک کراچی چھوٹے موٹے لندن کے مشابہ لگتا تھا۔ جھرک زبوں حال ہو چکا تھا۔ دانشوروں نے اتنے بڑے لیڈر کو جھرک جیسے خستہ حال شہر سے وابستہ دیکھنا قبول نہیں کیا۔ اتنے بڑے لیڈر کو بڑے شہر میں پیدا ہونا چاہیے ۔مجھے لگتا ہے اگر دانشوروں کے بس میں ہوتا، تو وہ خلیل جبران کو لبنان کے چھوٹے سے گائوں بسیری میں پیدا ہونے کی بجائے لبنان کے کسی بڑے شہر یا پھر نیو یارک میں پیدا ہوتے ہوئے دکھاتے۔ بہرکیف، دانشوروں نے طے کر لیا ہے کہ تاریخ ساز بڑے آدمی بڑے شہروں میں پیدا ہوتے ہیں۔
دانشوروں سے کچھ بعید نہیں۔ انہوں نے ہمیں اور ہمارے بچوں کو باور کروا لیا ہے کہ قائد اعظم سندھ مدرسہ کراچی میں پڑھتے تھے۔ دانشوروں نے بڑی کامیابی سے اس کرسچن اسکول کا نام غائب کروا دیا ہے۔ جہاں سے قائد اعظم نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی، اور بمبئی یونیورسٹی کی جانب سے منعقد ہونے والے امتحان میں بیٹھے تھے اور میٹر ک کاامتحان پاس کیا تھا۔ کرسچن اسکول کا نام تھا CMS کرسچن مشنری اسکول۔ مگر دانشور نہ جانے کیوں تاریخی حقائق کو دفن کر دیتے ہیں۔ ہم سب سے چھپاتے ہیں۔ قائد اعظم کرسچن مشنری اسکول کراچی میں پڑھتے تھے۔ وہیں سے بمبئی یونیورسٹی کے امتحان میں بیٹھے اور میٹروکیورلیٹ ہوئے تھے۔ اس میں چھپانے والی کون سی بات ہے؟ آپ قائد اعظم کو توڑ مروڑ کر اپنے سانچے میں نہیں ڈال سکتے۔
کولاچی کو انگریز نے کراچی کیسے بنایا؟ یہ کتھا میں آپ کو اگلے کالم میں سناؤں گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)