جب کوئی شخص پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے تو اُس کے سامنے ہر چیز کھلی اور صاف نظر آتی ہے۔ وہ دُور تک بغیر کسی رکاوٹ کے دیکھ سکتا ہے۔ بُلند و بالا عمارتیں بھی اس کی حدِ نگاہ میں رکاوٹ نہیں بنتی ہیں۔ جب وہ بلندی سے نیچے دیکھتا ہے تو چلتے پھرتے انسان اُسے بونے نظر آتے ہیں اور نیچے کی دنیا چلتے پھرتے کھلونوں کی مانند ہوتی ہے۔ بلندی اور پستی ذہنی کیفیت کو بدل دیتی ہے۔
یہی صورتحال اُس فرد کی ہوتی ہے، جو زندگی کی آخری منزل پر ہوتا ہے۔ ماضی کی یادیں ایک ایک کر کے آتی ہیں اور اُس کو یادوں کی دنیا میں لے جاتیں ہیں۔ طویل زندگی اُس کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کا تجزیہ کر سکے۔ تاریخ میں قوموں کے عروج و زوال کو مفکرین نے بیان کیا ہے۔ اُن کا نقطہِ نظر ماضی کی دستاویزات اور تاریخ کے مخطوطات کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے لیکن ایک فرد بھی اپنی طویل زندگی کے تجربات کی روشنی میں اخلاقی قدروں کے زوال، لوگوں کی ذہنی پسماندگی، سیاسی اور سماجی انتشار کو ذوال پزیر ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔
میری صورتحال بھی یہی ہے کہ زندگی کے اس آخری مرحلے پر میری پوری زندگی میرے سامنے ہے۔ ایک کھلے میدان کی طرح اس میں خوشگوار یادیں بھی ہیں اور غم سے بھرے واقعات بھی، وقت کے ساتھ زندگی میں تبدیلیاں آتی رہیں، کچھ پرانے واقعات یاد رہے اور کچھ ذہن کی تہوں میں گم ہو گئے۔ اب میں یہ سوچتا ہوں کہ مجھے ملازمت کرنا آیا ہی نہیں، ملازمت میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ اَفسر کی ماتحتی میں رہا جائے۔ اُس کی خوشامد کی جائے اور اپنی آزادی کو پابند کر دیا جائے۔ چونکہ یہ مجھ سے نہیں ہو سکا، اس لیے میں اپنی تمام ملازمتوں میں ناکام رہا۔ یہاں تک کہ جرمنوں کی ملازمت میں بھی یہی اُصول کار فرما تھا کہ باس کی ماتحتی کی جائے اور اُس سے کوئی اختلاف نہ کیا جائے۔
میری جوانی کے زمانے میں میرے پاس طاقت اور توانائی تھی۔ اپنے اُوپر اعتماد تھا۔ اس لیے میں نے اپنے حق کے لیے ہر موقع اور جگہ پر لڑائی لڑی۔ مجھے یاد ہے کہ میری پہلی ملازمت ایک اسکول میں تھی۔ جب گرمیوں کی چھٹیاں آئیں تو تنخواہ دینے کی وجہ سے مجھے ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔ اس پر میں نے اسکول کو قانونی نوٹس دیا۔ جس پر اُنہوں نے تنخواہ تو دے دی مگر مجھے دوبارہ ملازم نہیں رکھا۔
میری قانونی جنگ جاری رہی۔ جب شیخ ایاز نے مجھے (جو سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے) معطل کیا اور ایک سال بعد کسی وزیر کی سِفارش پر میری ملازمت بحال کر دی، لیکن معطلی کے وقت کی تنخواہ نہیں دی۔ اس پر میں نے یونیورسٹی کو قانونی نوٹس دیا اور اپنے واجبات وصول کیے۔ جب 1989ء میں لاہور آیا تو فرنٹیئر پوسٹ میں کالم لکھنا شروع کیے۔ جب تک خالد احمد، ایڈیٹر تھے، کالم کا معاوضہ پابندی سے ادا ہوتا تھا۔ اُن کے جانے کے بعد ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے میرے معاوضے کی رقم جمع ہوتی گئی تو میں نے عدالتی کاروائی کی اور اخبار سے رقم وصول کی۔
اُس کے بعد میرا واسطہ پبلشروں یا ناشران سے پڑا۔ انہوں نے میری کتابیں تو شائع کیں مگر یہ ان کتابوں کی رائلٹی دینے کو تیار نہ تھے۔ لہٰذا یہاں بھی میں نے کچھ ناشران کے خلاف عدالتی کاروائی کی۔ ان سے لڑنا بہت مشکل ہے کیونکہ وہ تعداد سے زیادہ کتابیں چھاپ کر فروخت کرتے رہتے ہیں، لہٰذا میں نے آخر میں یہی سوچا کہ کتابیں تو لِکھوں مگر اُنہیں شائع نہ کراؤں۔
اِس وقت پاکستان میں پبلشروں کے رویے میں ایک تبدیلی آئی ہے کہ وہ مصنف سے کتاب چھاپنے کے پیسے لیتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرونِ ممالک میں رہنے والے مصنفین پیسے دے کر اپنی کتابیں شائع کراتے ہیں۔ ان میں اکثر کتابیں شاعری کی ہوتیں ہیں، جنہیں کوئی پڑھنا گوارا نہیں کرتا۔ اس صورتحال میں ان مصنفین کے لیے، جو سنجیدہ موضوعات پر لِکھتے ہیں اور مالی طور پر اس قابل نہیں کہ پیسے دے کر اپنی کتاب چھپوائیں، ان کی کتابیں شائع نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً ضائع ہو جاتی ہیں۔
اس صورتحال کا اثر معاشرے میں تخلیق شدہ ادب پر ہوتا ہے، جو روز بروز غیرمعیاری ہو رہا ہے۔ شاعری افسانہ نگاری، ناول نگاری اور سماجی علوم میں کوئی اعلیٰ پائے کی تخلیق سامنے نہیں آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سستی اور سنسنی خیز کتابیں مقبول ہو جاتیں ہیں اور یہی لوگوں کی ذہن سازی کرتی ہیں۔
ایک زمانہ تھا، جب اخباروں میں اعلیٰ معیاری مضامین چھپتے تھے لیکن اب یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ خاص طور پر اُردو اخباروں میں جو کالم شائع ہوتے ہیں اُن کا کوئی معیار نہیں ہے۔ اُردو اخبار کالم نویسوں کو بھی معاوضہ نہیں دیتے ہیں۔ اب رہا چینل کا سلسلہ تو ان میں سوائے ٹاک شوز کے اور کوئی معیاری معلوماتی پروگرام نہیں ہوتا نہ ہی اَدبی پروگرام، نہ موسیقی کی محفلیں اور نہ سنجیدہ موضوعات پر بحث و مباحثہ۔ اس نے بھی لوگوں کے ذہنوں کو بدل دیا ہے۔ روزمرّہ کی زبان غیرمعیاری ہو گئی ہے۔ غلط معلومات کے ذریعے ناظرین کو گمراہ کیا جاتا ہے۔
کسی بھی معاشرے کی تہذیب کا سب سے بڑا معیار اُس کی اخلاقی قدریں ہوتیں ہیں ۔ یعنی ایمانداری، دیانت، اُصول کی پابندی، ادب، آداب اور نشست و برخاست میں سلیقہ، محفلوں میں رکھ رکھاؤ، دعوتوں میں کھانے کے آداب کو ملحوظ رکھنا اب یہ سب آہستہ آہستہ ختم ہو گیا ہے۔ دعوتوں میں جس طرح لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں میں نظم و ضبط ناپید ہو گیا ہے اور کھانے کے آداب، جو کسی زمانے میں ہمارے معاشرے میں موجود تھے، اب کہیں نظر نہیں آتے۔ جب کسی بھی معاشرے میں سیاسی استحکام نہ رہے، علمی اور ادبی سوچ کا خاتمہ ہو جائے، فرد کو اپنی عزت اور آبرو کا خیال نہ رہے، تو معاشرے میں بدعنوانیاں رِشوت ستانی، سازشوں، فریب اور جعلسازی کو فروغ ملتا ہے۔ کیونکہ معیاری روایات اس وقت تک رہتی ہیں، جب تک اخلاقی قدروں کا وجود ہوتا ہے۔ جب یہ زوال پذیر ہو جائیں تو پھر معاشرہ بھی انحطاط کا شکار ہو جاتا ہے۔
میں نے اپنی ابتدائی زندگی میں ایماندار اساتذہ اور افسروں کو بھی دیکھا ہے اور وہ وقت بھی یاد ہے کہ جب رشوت لینے والے کے گھر کھانے پینے کو حرام سمجھا جاتا تھا لیکن یہ روایات آہستہ آہستہ دم توڑتی چلی گئیں۔ اب کسی فرد کی عزت اُس کی ایمانداری پر نہیں بلکہ اُس کی دولت و اَثر و رسوخ پر منحصر ہے۔
اب جب میری حق تلفی ہوتی ہے تو مجھ میں ہمت نہیں کہ میں عدالتوں میں جا کر انصاف کے لیے لڑوں۔ اب جرائم پیشہ اور مافیا کے لوگ اس قدر طاقتور ہیں، چاہے یہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں، اُن سے نہیں لڑا جا سکتا۔ اب میں نے نہ صرف ہمت ہار دی ہے، بلکہ اپنی شِکست کو بھی تسلیم کر لیا ہے۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)