ایودھیا میں رام کی واپسی یا مودی کی تاج پوشی؟

محمد حنیف

آج ایودھیا میں دس لاکھ دیے جلائے جائیں گے۔ کیونکہ پانچ سو سال کے بعد رام کی جنم بھومی پر ایک مہامندر کا افتتاح ہے۔ ایودھیا کے مناظر دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ہر لحاظ سے ایک تاریخی موقع ہے۔ سینکڑوں پرائیوٹ جیٹوں (طیاروں) پر سیٹھ آئیں گے، کئی سادھو ہزاروں میل کا سفر پیدل طے کر کے پہنچ رہے ہیں، کئی گھٹنوں کی بل رینگ کر پہنچ رہے ہیں، خصوصی ہیلی کاپٹرسروس شروع کی گئی ہے جبکہ پورے ہندوستان سے موسیقی کے بڑے نام بھجن گائیں گے۔

لیکن اس سے پہلے جو مسافر فضائی پروازوں سے آ رہے ہیں وہ بھی بھجن گاتے آ رہے ہیں۔ ایک ایئر لائن کے عملے نے جہاز اڑانے کے لیے رام کا روپ بھی بھرا۔ جہاں ٹی وی والوں نے اپنا میلہ سجایا ہے، اس کے بارے میں ایک ہندوستانی صحافی نے بتایا بھجن گانے والے تو بھجن گا رہے ہیں لیکن ساتھ ٹی وی اینکرز بھی سادھوؤں کا روپ بھر کر بھجن گا رہے ہیں۔

ہر رنگ میں بھنگ ڈالنے والے عادی نقاد ہمیں یہ یاد کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہاں پر پانچ سو سال سے ایک بابری مسجد بھی تھی۔ سنہ 1949 میں ایک مقامی سادھو نے رات کی تاریکی میں مسجد میں کچھ مورتیاں رکھ دیں۔ مقامی مجسٹریٹ نے مسجد والوں سے کہا آپ چند دن یہاں نماز نہ پڑھیں کیونکہ نقضِ امن کو خطرہ ہے۔ اس کے بعد وہاں رام مندر اور بابری مسجد تنازع شروع ہوا۔ ایک گمنام محلے میں کی گئی ایک چھوٹی سی شرارت پہلے ہندو انتہاپسندوں کا اور پھر آہستہ آہستہ پورے ہندوستان کا خواب بن گئی۔

اب کہا جا رہا ہے کہ ایودھیا میں بننے والا عظیم مندر ہندو مذہب کا ویٹیکن ہو گا جس طرح مسیحی مذہب ماننے والوں کا ہے۔ چونکہ ہندو مذہب میں ایک مرکزی روحانی رہنما یا پوپ جیسی کسی ہستی کی گنجاِش نہیں ہے تو وزیرِاعظم مودی نے شاید یہ نیا منصب بھی اپنے نام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ہندوستان میں دھرم کے چار بڑوں کو اس بات پر اعتراض ہے، اُن کو شنکر اچاریہ کہتے ہیں۔ وہ مندر کے افتتاح کا بائیکاٹ کر رہے ہیں، بنیادی اعتراض ان کا یہ ہے کہ ایک تو مندر کی تعمیر ابھی مکمل نہیں ہوئی اور سرکار اسے اپنی مشہوری کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔

اِدھر پاکستان میں دو قومی نظریے کے نعرے مارنے والے بھی تالیاں بجا رہے ہیں کہ دیکھا ہم نے تو سو سال پہلے ہی جان لیا تھا کہ ہندو مسلم ساتھ نہیں رہ سکتے۔ پاکستان کی طرح دار شاعرہ فہمیدہ ریاض نے جلا وطنی کا کچھ زمانہ ہندوستان میں گزارا تھا۔

جب انھوں نے ہندوستان میں ہندوتوا کی آتی ہوِئی یلغار دیکھی تو ایک مشہورِزمانہ نظم لکھی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ تم بھی ہم جیسے نکلے بھائی۔ اور جب اپنے خواب کے سورگ میں پہنچ جاؤ تو وہاں سے ہمیں چِھٹی وٹھی ڈالتے رہنا۔

اگر فہمیدہ ریاض آج ہوتیں اور رام کے نام پر گائے جانے والے نئے بھجن سنتیں جس میں مار دینے، کاٹ دینے اور پاکستان میں بابر کا مندر بنانے کے وعدے کیے جاتے ہیں تو شاید کہہ دیتیں کہ بھائی تم سورگ میں ہو بس اب اپنی چِٹھیاں اپنے پاس ہی رکھو-

ایودھیا میں رنگ و نور کی برسات قدیم بادشاہوں کے تاج پوشی کی یاد دلاتی ہے۔ ویسے تو مودی اور اُن کے بھگتوں نے ہندوستان کی تاریخ اور سکولوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں سے مغل بادشاہوں کے نام و نشان کو مٹانے کا تہیہ کیا ہوا ہے لیکن وزیرِاعظم مودی خود اپنی اداؤں میں بادشاہ نظر آتے ہیں۔

ایودھیا پہنچنے والے کچھ صحافیوں نے بھی یہ شکایت کی یہاں پر رام سے زیادہ مودی کی تصویریں لگی ہیں (اب سُنا ہے کچھ ہٹا دی گئی ہیں)۔

بادشاہ بننے کے لیے یا کم از کم اپنے آپ کو بادشاہ منوانے کے لیے دو کام ضروری ہیں۔ ایک بڑا قتلِ عام اور ایک تاریخی عمارت کی تعمیر جو صدیوں تک بادشاہ کے نام سے یاد رکھی جائے۔ جیسا کہ تاج محل، اہرامِ مصر، یا بادشاہی مسجد۔ قتلِ عام کا الزام مودی پر تب سے تھا جب گجرات کے وزیرِاعلیٰ کے طور پر انھوں نے دہلی کی طرف اڑان بھری تھی۔ اب رام مندر بنا کر انھوں نے بادشاہی کی دوسری شرط بھی پوری کر دی ہے۔ اور ساتھ رام کو بھی واپس اپنے گھر لائے ہیں۔ اور ان کی جنم بھومی پر ایک مہامندر تعمیر کیا ہے اب تاریخ انھیں کم از کم اگلے پانچ سو سال تو یاد رکھے گی۔

بادشاہ بننے کی ایک تیسری شرط بھی ہے کہ بادشاہ زمین پر خدا کا سایہ سمجھا جائے۔ بادشاہ وہ بنتا ہے جو پہلے گفتار سے اور پھر تلوار سے اپنی رعایا کو یقین دلائے کہ اس کا حکم اللہ کا حکم ہے۔

علامہ اقبال نے ایک شعر میں رام کو ’امامِ ہند‘ کہا تھا۔ بہت سے ہندوستانی مانتے ہیں کہ رام دلوں میں رہتا ہے، ہر دل رام کی جنم بھومی ہے۔ وزیرِاعظم مودی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے منتخب وزیرِاعظم ہیں۔ الیکشن آیا چاہتا ہے لیکن اس سے پہلے ہی مودی جی نے اپنے آپ کو رام کا اوتار اور ایک نئے ہندو راشٹر کا بادشاہ بننے کی تاج پوشی کا بندوبست کیا ہے۔ اس لیے آج ایودھیا میں دس لاکھ دیے جلائے جائیں گے۔

بشکریہ بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close