غزہ میں اسرائیلی جنگ سے ایسے ایسے واقعات کی نمو ہو رہی ہے، جو بہت سے چہروں سے نقاب الٹنے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ چہرے افراد اور شخصیات سے زیادہ حکومتوں اور مملکتوں کے ہیں۔
حکومتوں اور مملکتوں سے زیادہ بین الاقوامی اداروں اور عالمی طاقتوں کے ہیں اور عالمی طاقتوں سے بھی زیادہ اس عالمی نظام کے بے نقاب ہونے کا معاملہ ہے، جس کے ہم سب دنیا والے وفادار ہونے اور رہنے کا دم بھرتے ہیں۔
یاد رہے موجودہ عالمی نظام کی نمو دوسری جنگ عظیم کی کوکھ سے ہوئی تھی۔ جس کی پناہ میں دوسری عالمی جنگ کو جوہری بموں کے زور پر لڑنے والے اس وقت کے عالمی ہیروز نے انسانی معاشرے کو اس نئے نظام کی طرف دھکیل دیا تھا۔
اسی عالمی نظام سے اقوام کی تشکیل اور شناخت کی ایک نئی اور واضح تعریف کی کوشش کی گئی۔ قومی ریاستوں کا قیام جہاں جہاں اور جیسا جیسا مفید سمجھا گیا، کر دیا گیا۔ اسی کے نتیجے میں بین الاقوامی ادارے تشکیل دیے گئے اور اسی کی خاطر نیا نظام ایک ’نیلم پری‘ کی طرح بنا سنوار کر نافذ کر دیا گیا۔
بدقسمتی سے غزہ میں جاری جنگ کی آگ اس نئے نظام کو آج بھسم کر رہی ہے۔ اس نظام پر یہ حملہ باہر سے نہیں اندر سے کیا جا رہا ہے۔ اس حملے کی کئی جہتیں ہیں۔ ان سطور میں سب کا احاطہ کیا جانا طولانی اختیار کر سکتا ہے۔ اس لیے تازہ واقعات نما حملوں پر ہی اکتفا کیا جائے گا۔
عالمی نظام پر تازہ ترین حملوں میں سے ایک اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنز ورکس اینڈ ریلیف ایجنسی (UNRWA) اونروا پر کیا گیا ہے۔ یقیناً اس حملے کی کوئی وجہ بھی بنی یا بنائی گئی ہے اور کوئی جواز بھی بنا ہے، یا گھڑا گیا ہے۔ اس وجہ اور جواز سے پہلے ’اونروا‘ کا ہلکا سا تعارف بھی ذہن میں تازہ کرنا ضروری ہے۔
’اونروا‘ فلسطینی پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کا اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے۔ اس ادارے کی سرگرمیاں مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ’اونروا‘ کے ہزاروں کارکن دکھی، بے گھر اور ستم رسیدہ انسانیت کے لیے کئی شعبوں میں خدمات انجام دیتے ہیں۔
ان شعبوں میں پناہ گزین کیمپوں کا قیام اور ان کے لیے مسلسل خدمات بھی شامل ہیں۔ ’اونروا‘ کے زیر اہتمام اس وقت 58 پناہ گزین کیمپ قائم ہیں۔ جن میں مجموعی طور پر 19 لاکھ پناہ گزین بےگھری کی زندگی گزار رہے ہیں۔
’اونروا‘ کے ذریعے پناہ حاصل کرنے والوں میں 12 لاکھ فلسطینی شامل ہیں۔ ویسے مجموعی طور پر ’اونروا‘ کے پاس 59 لاکھ ایسے افراد رجسٹرڈ ہیں، جو بےگھر ہیں، نقل مکانی کر چکے ہیں اور ’اونروا‘ ان کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ انہی پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والوں کے لیے 140 صحت مراکز کام کرتے ہیں جن میں ’اونروا‘ کے ہی کارکن خدمات انجام دیتے ہیں۔
پناہ گزین کیمپوں میں دہائیوں سے رہنے والوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے ’اونروا‘ کے 706 سکول قائم ہیں۔ یہ سکول کتنے بڑے اور کتنے چھوٹے ہیں، اس سے قطع نظر اقوام متحدہ کی دستاویزات کے مطابق ان سکولوں کے لیے 19725 ’اونروا‘ کارکن کام کرتے ہیں۔ یقیناً ان میں اساتذہ کی تعداد زیادہ ہے۔
علاوہ ازیں صحت مراکز میں کام کرنے والے ’اونروا‘ کے کارکن بھی ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ گویا یہ سب اور ان کے علاوہ انفراسٹرکچر کے شعبے میں کام کرنے والے سارے ’اونروا‘ کارکن درحقیقت اس ظلم کی واردات کے اثرات کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو عالمی سیاست اور طاقت کی ضرورت کے تحت کئی دہائیوں سے جاری ہے اور فلسطینیوں کو ان کے حق خودارادیت سے محروم رکھے ہوئے ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس واردات کے کلیدی کردار اسرائیل کو عالمی سطح پر ایک لاڈلے کے طور پر رکھا گیا ہے۔
بات غزہ کی ہو رہی تھی۔ صرف غزہ کے 24 لاکھ فلسطینیوں کے لیے ’اونروا‘ کے 13000 کارکن خدمات کی انجام دہی پر مامور ہیں۔ لگ بھگ 130 ’اونروا‘ کارکن جاری غزہ جنگ کے دوران اسرائیلی بمباری کی زد میں آ کر جان سے جا چکے ہیں۔ زخمی ’اونروا‘ کارکن اس کے علاوہ ہیں۔ ان 13 ہزار ’اونروا‘ کارکنوں میں سے 12 پر اسرائیل نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ مبینہ طور پر سات اکتوبر کے اس حملے میں شامل تھے، جس نے اسرائیل کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
اگر ’اونروا‘ کے غزہ میں کارکنوں کی کل تعداد میں سے ان 12 پر یہ الزام ثابت بھی ہو جائے تو یہ کوئی غیر معمولی بات شاید نہ ہو کہ اکا دکا دانے تو دنیا کی بڑی بڑی خفیہ ایجنسیوں کے حکام اور اہلکاروں میں بھی ایسے نکل آتے ہیں جو نظم و ضبط کی خلاف ورزی تو کیا ایجنڈے اور مقاصد کی بھی الگ دنیا بسائے ہوتے ہیں۔
تیسری دنیا کے ممالک میں تو بعض اوقات ایسے الزامات حکومتی وزیروں اور مشیروں پر بھی موجود رہتے ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں میں ’سی آئی اے‘ اور ’کے جی بی‘ کو اپنے اپنے ایجنٹوں سے ’ڈبل ایجنٹ‘ کی شکایت پیدا ہو جاتی رہی ہے۔ لیکن کبھی اتنا بڑا طوفان نہیں اٹھا جتنا بڑا طوفان اس طوفان الاقصیٰ کے برپا ہونے کے بعد جاری جنگ کے تناظر میں ان 12 ’اونروا‘ کارکنوں کی وجہ سے اٹھا ہے۔
ان بارہ کی تفصیل اقوام متحدہ نے بتائی ہے کہ ان میں سے ایک مارا جا چکا ہے، دو کی شناخت اور تلاش جاری ہے۔ جبکہ نو اہلکاروں کو ’اونروا‘ نے ملازمت سے برطرف کر دیا ہے۔ ان کی برطرفی کے بعد کیا حالت ہے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ ’اونروا‘ نے یہ فیصلہ تحقیقات کے آغاز میں ہی کر لیا ہے۔
ادھر امریکہ نے 12 ‘اونروا’ کارکنوں کے کھاتے میں ایک بڑا اقدام اسی عجلت کے انداز میں کیا ہے جس سرعت کے انداز میں سات اکتوبر کے بعد اسرائیل کی مدد کے لیے اپنے سب سے بڑی جنگی بیڑے کو بحر متوسط میں بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔
امریکی فیصلے کے تحت ‘اونروا’ کے لیے اضافی فنڈنگ روک دی گئی ہے۔ یہ اس حال میں کہ ابھی اقوام متحدہ نے ان زیر الزام کارکنوں کے بارے میں تحقیقات کی رپورٹ مرتب نہیں کی ہے۔
امریکہ کی پیروی میں برطانیہ، اٹلی، سوئٹزرلینڈ، نیوزی لینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا اور جاپان وغیرہ بھی شامل ہو چکے ہیں اور ان سب نے بھی ‘اونروا’ کے لیے فنڈز کی فراہمی روک دی ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے تمام ملکوں سے اپیل کی ہے کہ ‘اونروا’ کی بےگھر افراد کی دیکھ بھال کے تسلسل لیے امداد جاری رکھی جائے۔
سعودی عرب نے بھی اقوام متحدہ کی اسی اپیل کے امداد میں مؤقف کو اپنایا ہے کہ ’اونروا‘ کارکنوں پر الزامات کی تحقیقات سامنے لائی جائیں تاہم ’اونروا‘ کے لیے فنڈنگ جاری رکھی جائے۔ یہ مؤقف ایسے حالات میں سامنے آیا ہے کہ جب اسرائیل کے ایک سابق وزیر خارجہ نوگا اربیل یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ’اونروا‘ کو تباہ کیے بغیر غزہ کی جنگ جیتنا ناممکن ہے۔
’اونروا‘ کی تباہی کے لیے اسرائیل کے اہداف اسی طرح سامنے آئے ہیں جس طرح اس سے قبل حماس کی تباہی کے لیے آ رہے تھے اور اسرائیلی اہداف کے ساتھ امریکہ اور روس کے اہم یورپی اتحادی کندھے سے کندھا ملا کر اور بعض غیر یورپی اتحادی قدم سے قدم ملا کر براہ راست یا بالواسطہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہو گئے تھے۔
اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے لیے صرف ’اونروا‘ ہی درد سر نہیں ہے۔ ان کی سر دردی کا باعث بین الاقوامی عدالت انصاف بھی بنی ہے۔ جس نے جنوبی افریقہ کی درخواست پر ایک فیصلے میں اسرائیل کو نسل کشی پر اکسانے والے اقدامات سے دور رکھنے کا کہا ہے۔
نیز ایک ماہ تک اس بارے میں اسرائیل سے رپورٹ طلب کی ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کا یہ فیصلہ اگرچہ ایک ’ہومیو پیتھی‘ طرز کا ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیل نے فیصلے سے پہلے ہی پورے دھڑلے سے کہہ دیا تھا کہ کوئی عدالت غزہ میں اسرائیل کو جنگ سے نہیں روک سکتی۔
گویا اسرائیل، جس کا قیام خالصتاً اقوام متحدہ کی 1948 میں منظور کردہ قرارداد کے نتیجے میں مصنوعی نسل کشی کا نتیجہ ہے۔ وہ فلسطینیوں کی نسل کشی سے باز آنے کو اقوام متحدہ کے اس ادارے بین الاقوامی عدالت انصاف کی سننے کو بھی تیار نہیں ہے۔
براہ راست اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر کی آتش زبانی کی زد میں آ چکے ہیں اور سیکرٹری جنرل کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا جا چکا ہے۔
صاف مطلب ہے کہ اسرائیلی اہداف کی راہ میں کسی قاعدے، قانون، اصول اور ادارے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بلکہ ان سب کی تباہی اسرائیل اسی طرح لازمی سمجھتا ہے جس طرح کے حماس کی تباہی اس کے لیے ضروری ہے۔
سلامتی کونسل میں غزہ جنگ روکنے سے متعلق قراردادوں کو ویٹو کرنے کا امریکی اقدام بطور خاص اور دنیا بھر میں اصولوں اور اخلاقی ضابطوں کے تحت چلنے کے مطالبات کو ویٹو کر دینے کا پانچ ملکی اختیار بجائے خود اقوام متحدہ کے قیام کی روح پر حملہ ہے۔ یہ حملہ اقوام متحدہ پر درجنوں بار سامنے آ چکا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام نے جاری غزہ جنگ کے بارے میں متعدد بار اپنی بےبسی کا اظہار بھی کیا ہے۔ اس لیے غزہ کی جنگ حماس کی تباہی کا باعث بن پاتی ہے یا نہیں وہ تو معاملہ ابھی چل رہا ہے اور اسرائیل نے 2024 کے سال میں اس جنگ کو جاری رکھنے کا عندیہ دے دیا ہے مگر بین الاقوامی اداروں اور عالمی نظام پر جو ضرب کاری لگ رہی ہے وہ شاید غزہ پر جاری بمباری سے بھی زیادہ سنگین ہے۔
سنگین صورتحال کا اظہار امریکہ کی سابق اسپیکر اور ڈیموکریٹ لیڈر نینسی پیلوسی کے اس انٹرویو سے بھی ہوتا ہے، جو انہوں نے ’سی این این‘ کو دیا۔ اس میں انہوں نے انسانی آزادیوں اور اظہار رائے کی آزادی کی بنیاد پر امریکہ کے طول و عرض غزہ میں جنگ بندی کرنے کا مطالبہ آگے بڑھانے کے لیے ہونے والے مظاہروں کی حمائت میں نہیں کیا بلکہ انہیں ’روسی دراندازی‘ طرز کی چیز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ پیلوسی کے بقول امریکہ میں جنگ بندی کے حق میں مظاہروں کے پیچھے روسی فنڈنگ کی ’ایف بی آئی‘ کو تحقیقات کرنی چاہییں۔
صاف مطلب ہے کہ امریکہ خود کثیر نسلی اقوام کا ملغوبہ ہے اور اس کے آزادی و جمہوریت کے لیے خیالات نے دنیا کے سامنے جوڑ رکھا ہے۔ خود امریکی انتظامیہ کے اندر موجود عناصر نے انہی خیالات اور تصورات پر حملے شروع کر دیے ہیں۔
امریکہ کے اندر امریکی اقدار، روایات اور تصورات پر یہ حملے ’اونروا‘ کے ان 12 کارکنوں کے اسرائیل پر حملے میں مبینہ شرکت سے کہیں زیادہ سنگین معاملہ ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہوگا کہ جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کی جگہ ری پبلکن کے ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے انتخابی ماحول کی سازگاری کی راہ ہموار کی جائے۔
اگر امریکہ کے اندرونی انتظام و انصرام اور سیاسی و جمہوری عمل کی حد تک معاملہ ہو تو اس پر بھی اعتراض نہیں کیا جا سکتا مگر معاملہ صرف اس حد تک نہیں۔ معاملہ اس سے آگے امریکہ کی ان اقدار کا ہے جو ڈیموکریٹس کے نزدیک امریکہ اور امریکہ کے عالمی سطح پر پیش کردہ نظام کے لیے ’بائنڈنگ فورس‘ کے کمزور ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر یہ ’بائنڈنگ فورس‘ کمزور ہوتی ہے تو امریکہ کا صرف ’آئیڈیولاجیکل انفراسٹرکچر‘ ہی بھونچالوں کی زد میں نہیں ہو گا موجودہ عالمی نظام بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔
اس لیے ضروری ہے کہ عالمی نظام کے پیش کار اور بین الاقوامی اداروں کے ہدایت کار کے طور پر امریکہ اور اس کی قیادت اپنی ذمہ داریوں کے دائرے کے ساتھ ساتھ عالمی استحکام کے تقاضوں کو اسرائیلی انداز میں تہس نہس کرنے کے راستے پر نہ چلے۔ کم از کم امریکی عوام کی آواز تو سننے کا کلچر باقی رکھنے کا اہتمام کرے کہ خود وائٹ ہاؤس اور ڈیموکریٹس میں جوبائیڈن کی اسرائیل پالیسی کے خلاف غم و غصہ بڑھ چکا ہے۔
نومبر 2024 میں یہ غم و غصہ اپنے اظہار کے پیرائے کو تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ جوبائیڈن انتظامیہ اپنے ہاں ہونے والے جمہوری انتخابی عمل کو اسرائیلی بمباری کی زد میں نہ آنے دے، اسرائیل تو اس وقت سب کچھ تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو