شارٹ کٹ اصل راستہ ہے، بس بدنام ہے۔

حسنین جمال

محنت میں عظمت ہوتی ہوگی لیکن شارٹ کٹ اپنی جگہ برابر عظیم ہے بلکہ محنت اس میں بھی برابر لگتی ہے، ہاں اسے سمارٹ محنت کہا جا سکتا ہے۔

شارٹ کٹ بے چارہ اتنا برا نہیں ہوتا، جتنا ہم نے اسے بدنام کر دیا ہے۔۔ اور اس سارے دھندے کے پیچھے اصل میں وہ لوگ ہیں، جنہیں کبھی شارٹ کٹ ملا ہی نہیں۔

فرض کریں آپ پرانے زمانے کے فوٹوگرافر ہیں، بلکہ فوٹو ایڈیٹر بھی ہیں۔ اب ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر کو آپ ایڈٹ کرنے بیٹھتے ہیں، اس میں کہیں کہیں آپ نے رنگ بھی لگانا ہے۔

کم لائٹ والی جگہ پہ بیٹھیں گے، ایک انتہائی باریک برش لیا جائے گا، تصویر کے نیگیٹو پہ بہت دھیان سے پورا دن لگائیں گے، باریک ترین اسٹروک سے اپنی آنکھیں پھوڑیں گے، کہیں پہ نیگیٹیو کھرچیں گے، کہیں روئی باریک کر کے تھوڑا سا کیمیکل لگائیں گے.

یہ سب کچھ کرنے کے بعد پھر جا کے ڈویلپ ہوگی تصویر، تب اس پہ دوبارہ قلم کاری ہوگی اگر آپ مطمئن نہیں ہوتے۔

یوں ایک طویل مغز ماری کے بعد وہ تصویر سامنے آئے گی جو آپ کے 24 یا اس سے بھی زیادہ گھنٹوں کا حاصل ہوگا۔

یہ سب محنت آپ نے اس لیے کر لی، کیونکہ آپ کے پاس فوٹو شاپ نہیں تھا، آپ پرانی صدی میں پیدا ہوئے تھے۔ 20 برس پہلے جو فوٹوگرافر تھے، وہ فوٹو شاپ پہ بیٹھ کے یہ سارا کام ایک دو گھنٹے میں کر لیتے تھے۔

اب اگر کوئی بچہ انسٹاگرام پہ یا کسی دوسرے آن لائن پورٹل سے یہ کام سیکنڈوں میں کر لیتا ہے تو اسے کیا مہارت نہیں مانا جائے گا؟ آپ اسے شارٹ کٹ کہہ کے مسترد کر دیں گے؟

زندگی کے سفر پہ چلتے ہیں۔ ایک بچہ سارا سال پڑھ کے پاس ہوتا ہے، دوسرا پیپر کی رات پڑھا اور صبح پرچہ بھگتا کے آ گیا، نتیجہ نکلا تو انیس بیس کے فرق سے دونوں پاس تھے۔

جس نے امتحان سے ایک رات پہلے پڑھا، اس نے پانچ سال کے امتحانی پیٹرن دیکھے اور اہم موضوع نکال کر ان پہ کام کر لیا، اس میں کیا برائی ہے؟

اس میں تو بلکہ بہادری ہے، اس نے رسک لیا، کوئی چیز ہٹ کے آ جاتی تو وہ فیل بھی ہو سکتا تھا، تو اس سمارٹ محنت کا پھل اگر اسے مل گیا تو اس شارٹ کٹ میں مسئلہ ہے؟

نصاب ویسے بھی جو کچھ سکھاتا ہے، دنیا اس سے آگے نکل رہی ہوتی ہے، اس نے اچھا کیا کہ اوقات کے حساب سے چیزوں کو وقت دیا۔

ہم سوچ سکتے ہیں کہ وہ فیل ہو جاتا تو ’سال ضائع‘ ہو سکتا تھا، یہ بھی صرف ہماری سوچ ہی کا ایک طے شدہ فارمولا ہے، جنہوں نے سال ضائع نہیں کیے، وہ کون سے بل گیٹس بنے بیٹھے ہیں؟

اور جس کا سال ضائع ہوا، اس نے یہ 365 دن نرے کھیل کود میں بھی گزارے ہوں تو کیا وہ سب ضائع کہلائے گا؟ بھرپور بچپن آپ میں سے کتنوں کے پاس ہے؟

جن کے پاس ہے، وہ جانتے ہوں گے کہ سال کبھی ضائع نہیں ہوتے، یہ بندے ہوتے ہیں جو ضائع ہوا کرتے ہیں برسوں کے پھیر میں۔

نوکری کو دیکھ لیں۔ ایک صاحب ہیں کہ جو 20 برس سے ایک ہی کرسی پہ بیٹھے ہیں، کوئی دوسرا آیا اور اسے سمجھ آ گئی کہ یہاں کام کیسے نکلے گا۔

اب وہ طریقہ جو بھی ہو، اگر دوسرا بندہ آگے نکل جاتا ہے، پانچ چھ سال میں تین چار کرسی اوپر پہنچ جاتا ہے تو آپ اسے ملتے وقت وزیٹنگ کارڈ پہ شارٹ کٹ لکھا ہوا دیکھیں گے یا ڈائریکٹر کا لفظ نظر آئے گا؟

طریقہ تھا، 20 سال لگانے والے ہمارے آپ کے جیسے تھے، نیا بچہ سمارٹ تھا، اسے غلط مت سمجھیں، خوش ہوں کہ ایک بندہ اچھا کھیل کے نکل گیا۔

ہاں یہ ماننے کی بات ہے کہ شارٹ کٹ دماغ کی گیم ہے اور وہ ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ دنیا میں کتنے فیصد لوگ ہوں گے جو شارٹ کٹ پہ یقین رکھتے ہیں؟

تو باقی جو ہیں، وہ شام و سحر خیریت سے ہیں اور اکثریت سے ہیں اور اسی لیے غلطیاں کر کے انہیں شارٹ کٹ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں اور اسے بدنام کیے جاتے ہیں۔

شارٹ کٹ، بس جہاں قانون سے ٹکرا جائے، وہاں تھوڑا پیچھے مڑ کے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، باقی اللہ کا نام ہے۔

کُل ملا کر یہ کہ شارٹ کٹ سے ڈرنا نہیں چاہیے۔۔ جو نہیں ملنا، وہ لمبے راستے سے بھی مقدروں میں نہیں ہوگا۔

فرق یہ پڑے گا کہ جس خواب میں آپ دو سال گزاریں گے، وہ دو دن میں چھناک سے ٹوٹ کے بکھرنے کا خطرہ ہوگا، جس سے آپ ڈرتے ہیں، اور اس خوف کو شارٹ کٹ کا نام دے کر آسروں پہ زندگی کرنا پسند کرتے ہیں۔

برائی اس میں بھی کوئی نہیں ہے، عین معزز کام ہے، شرفا کا چلن یہی ہے کہ بھئی دھیرے دھیرے بس چلتے رہیں اور منزل کی بجائے سفر کو انجوائے کریں، اس کا اپنا مزہ ہے، بلکہ نشہ ہے، لت ہے اور بہترین ہے۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close