جن دنوں میں برصغیر کے کتب خانوں کے سفر پر جانے کی تیاریاں کر رہا تھا، ان ہی دنوں ایک روز فیض احمد فیض سے ملاقات ہوئی۔ میں نے فیض صاحب کو بتایا ہم لوگ ایک دستاویز ترتیب دیں گے، جس میں دیکھیں گے کہ ہماری قدیم کتابیں کہاں کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟ میری بات سن کر فیض صاحب بہت خوش ہوئے۔ میں نے بتایا کہ برصغیر میں ایک مہینے کام کروں گا۔ ان کے سننے میں مغالطہ ہوا۔ فیض صاحب ایک مہینے کو ایک سال سمجھے اور کہنے لگے کہ اتنے بڑے کام کے لئے ایک سال تو بہت کم اور ناکافی ہوگا۔
وہ ٹھیک ہی کہتے تھے۔
میں نے پاکستان اور ہندوستان کا سفر شروع کیا تو احساس ہوا کہ چھوٹے بڑے کتب خانوں کا حال جاننے کے لئے ایک سال نہیں، ایک عمر درکار ہے اور عمر بھی ایسی کہ جس میں ہر برس کے پچاس ہزار دن ہوں۔
بہرحال میں جتنی بھی معلومات سمیٹ سکتا تھا، بٹور لایا۔ میرے سامنے کتابوں اور کتابچوں کے نوٹس خطوط، مضامین اور تراشوں کے انبار لگے ہیں اور یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کہاں سے شروع کروں اور کہاں تمام کروں۔
ہر چند کہ وہ زمانہ گیا، جب گھر گھر کتب خانے ہوا کرتے تھے اور امراء کو تو جانے دیجئے، غریب غربا تک، جیسے بھی بن پڑتا تھا، گھر کے ایک طاق میں کچھ نسخے ضرور سجا لیا کرتے تھے اور یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جب خوش نویس راتوں کو چراغ کی روشنی میں کتابیں نقل کرکر کے بیچا کرتے تھے، ان دنوں کوئی گھر کتابوں سے خالی نہ تھا مگر جب راتوں رات چھاپ کر ارزاں کتابوں کے ڈھیر لگا دینے والا چھاپہ خانہ آیا تو کتابوں کا ذوق جاتا رہا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس کے جانے کی آہٹ ابھی نہیں گئی ہے، اس کے قدموں کی چاپ سننے میں آ رہی ہے۔ اس کے پیروں کے نقش ماند سہی مگر باقی ہیں۔۔ تو آئیے آج وہی نقوش دیکھتے چلیں۔
انسٹیٹیوٹ آف سندھالوجی میں صرف سندھ کے موضوع پر پچپن ہزار کتابیں جمع ہیں اور ان میں زیادہ تر اب نایاب ہیں۔ جام شورو میں سندھ یونیورسٹی سے وابستہ اس ادارے میں بہت بڑے کتب خانے کے ساتھ ساتھ قدیم کتابوں کو محفوظ کرنے کے وہ تمام انتظامات بھی ہیں، جو مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔
وہاں فیومی گیشن چیمبر ہیں، جن کے اندر رکھی ہوئی پرانی کتابوں کے کیڑے مکوڑے ختم ہو جاتے ہیں، سلین نکل جاتی ہے اور پرانا کاغذ گلنے سے بچ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں کتاب کے ہر ورق پر جھلی جیسا کاغذ چڑھانے کا بندوبست بھی ہے جس کے بعد پرانا کاغذ صدیوں کے لیے محفوظ ہو جاتا ہے۔
انسٹیٹیوٹ آف سندھالوجی میں کتابوں کے ایک ایک صفحے کی چھوٹی سی فلم بنانے کے جدید انتظامات بھی ہیں اور اس مائیکرو فلمنگ کے علاوہ ہر صفحے کی فوٹو کاپی اتارنے کے آلات بھی لگے ہیں۔ پرانی کتابوں کی ازسرنو جلد بندی ہوتی ہے اور قابل ذکر اور قابل دید کتابوں کو شوکیسوں میں سجادیا جاتا ہے اور وہیں اس کتاب کے بارے میں تمام ضروری معلومات تحریر کردی جاتی ہیں۔ چنانچہ وہاں سیکڑوں کتابیں ایسی ہیں کہ انہیں پڑھنا تو رہا ایک طرف، دیکھنا ہی نصیب ہو جائے تو خود کو خوش نصیب جانیے۔
انسٹیٹیوٹ آف سندھالوجی کو ملاکر صوبے میں اس نوعیت کے تین ادارے ہیں۔ ان کے متعلق ڈاکٹر الانا نے بتایا:
’’ان میں سب سے سینئر ادارہ سندھی ادبی بورڈ ہے۔ اس کے بعد ہے انسٹیٹیوٹ آف سندھالوجی۔ اس کے بعد ہے خیرپور کی پبلک لائبریری۔ ان تینوں اداروں میں جہاں تک قلمی نسخوں کا تعلق ہے تو سندھی ادبی بورڈ اول ہے۔ وہاں سب سے پرانے نسخے ہیں کیونکہ وہ پرانا ادارہ ہے۔ اس کے بعد سندھ کے عالموں اور فاضلوں کی لکھی ہوئی کتابیں سندھالوجی میں ملیں گی لیکن خیرپور کی لائبریری بھی کم نہیں کیونکہ تعداد کے لحاظ سے وہاں قلمی نسخے زیادہ ہیں۔ اس لائبریری میں تالپور حکمرانوں کے زمانے کا کلکشن موجود ہے۔ وہاں خود سندھ کے متعلق کتابیں اتنی زیادہ نہیں لیکن برصغیر کے قلمی نسخے وہاں زیادہ ہیں۔‘‘
حیدرآباد سندھ کے بڑے کتب خانوں میں شاہ ولی اللہ اکیڈمی کی لائبریری قابل ذکر ہے، اس میں خود شاہ صاحب کی تصانیف کے علاوہ اسلام اور تاریخ اسلام پر مخطوط اور مطبوعہ کتابوں کا ایسا نادر ذخیرہ محفوظ ہےکہ یورپ اور امریکہ میں تحقیق کرنے والوں کو بھی اپنی بات تکمیل کو پہنچانے کے لیے وہاں جانا پڑتا ہے۔
سندھ یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری میں بھی کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے اور وہاں پانچ چھ سو قلمی کتابیں موجود ہیں، جن کی اب مائیکرو فلم بنائی جا رہی ہے تاکہ ان کا عکس ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائے۔ اس کے علاوہ حیدرآباد میں صوبائی میوزیم کے پاس بھی بہت سی نایاب کتابیں ہیں اور انہوں نے تقریباً ڈیڑھ سو قلمی نسخوں کا ایک ذخیرہ حال ہی میں خریدا ہے۔ حیدرآباد شہر میں پاکستان نیشنل سینٹر کا کتب خانہ بھی ہے جہاں تقریباً بیس ہزار نئی اور پرانی کتابیں ہیں۔
ان سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے بعد اب ہم آپ کو سندھ کے ایک عجیب و غریب کتب خانے کے بارے میں بتاتے ہیں، جو پتھریلے میدانوں اور سنگلاخ چٹانوں کے پچھواڑے ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹری محمد کبیر میں ہے اور علم کا یہ ذخیرہ دنیا کی نگاہوں سے روپوش ہے۔
کوٹری محمد کبیر نواب شاہ میں نیشنل ہائی وے پر ایک قدیم گاؤں ہے، جہاں کبھی مخدوم شیخ محمد کبیر اور سخی شیخ اللہ یار کی درسگاہیں تھیں اور اب ان دو بزرگوں کی درگاہیں ہیں۔ وہاں پرانی درسگاہوں کی کتابیں ابھی تک موجود ہیں، جن کے بارے میں ڈاکٹر الانا نے کہا:
’’وہاں میری نظر میں سب سے زیادہ قیمتی اور نایاب کتابیں مخطوطوں کی شکل میں پائی جاتی ہیں۔ کوٹری محمد کبیر ایک ایسا گاؤں ہے، جہاں کے بزرگوں نے صدیوں پہلے کتابیں اکٹھا کرنا شروع کی تھیں۔ سندھ کے بزرگ شاعر شاہ لطیف بھی وہاں گئے تھے اور انہوں نے بھی کچھ کتابیں دیکھی تھیں۔‘‘
کوٹری محمد کبیر کے اس کتب خانے کے بارے میں پہلے یہ سنا جاتا تھا کہ وہاں کتابوں کی حالت اچھی نہیں کیونکہ وہاں قدیم کاغذوں کے تحفظ کا انتظام نہیں، لیکن اب سنا جاتا ہے کہ درگاہوں کے سجادہ نشین میاں غوث محمد گوہر ان نایاب کتابوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کام کے لئے متعلقہ اداروں کی مدد لے کر رہے ہیں۔
کوٹری محمد کبیر کے بعد سندھ میں نایاب کتابوں کا دوسرا بڑا ذخیرہ بھی ایک چھوٹے سے قصبے منصورہ ہے۔ منصورہ کا دینی علوم کا مدرسہ، جہاں یہ کتابیں موجود ہیں، عالم اسلام میں بہت مشہور ہے چنانچہ اس میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے طالب علم بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک اور ذخیرہ سندھ کے ایک گاؤں پیر جھنڈو شریف میں تھا۔ وہاں برطانیہ، ترکی اور مصر کے کتب خانوں سے نایاب کتابوں کی نقلیں منگوا کر جمع کی گئی تھیں۔ اب یہ کتب خانہ نیشنل میوزیم کو دے دیا گیا ہے۔
سندھ میں دو اور ایسے پرانے مدرسے ہیں، جہاں دینیات اور سیرت پر نایاب کتابیں اور مخطوطے پائے جاتے ہیں۔ ان کے متعلق ڈاکٹر الانا نے بتایا:
’’خیرپور میرس کی طرف ایک چھوٹا سا شہر ہے ’ٹھیڑی‘ جہاں جامعہ دارالہدیٰ ہے۔ اس مدرسے میں بھی پانچ چھ سو قلمی نسخے موجود ہیں جو دینیات اور فقہ پر بڑی نادر کتابیں ہیں۔ اسی طرح اگر ہم زیریں سندھ میں جائیں تو وہاں میرپور بٹھورو کی طرف ایک چھوٹا سا گاؤں ہے’چنہاں‘ جس کو سومرو بھی کہتے ہیں، وہاں بھی ایک پرانا مدرسہ ہے، اس میں قدیم زمانے کے سندھی کاتبوں کی لکھی ہوئی فقہ اور سیرت پر کتابیں ملتی ہیں۔
اسی طرح ضلع ٹھٹہ کے ایک گاؤں چوہڑ جمالی میں شاہ بندر ادبی سوسائٹی کا کتب خانہ اور اس علاقے میں مدرسہ ہاشمیہ سجاول کا کتب خانہ نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔ ضلع سانگھڑ کے دیہات میں بھی دو بڑے کتب خانے ہیں، ان میں سے ایک چوٹیاریوں اور دوسرا ڈبھروں نامی گاؤں میں ہے، جو سادات کا بڑا کتب خانہ تصور کیا جاتا ہے۔
حیدرآباد سے تقریباً بیس میل دور ٹنڈو سائیں داد میں سرہندی بزرگوں کا ایک بڑا کتب خانہ ہے، جس میں مخطوطات اور نوادر کا ذخیرہ ہے۔ لاڑکانہ کے قریب پیر جو گوٹھ میں پیر نجیب اللہ شاہ کا کتب خانہ موجود ہے جو بڑا علمی سرمایہ ہے ۔ اسی نام کا ایک گاؤں خیرپور میرس کے قریب ہے، جس میں پیر صبغت اللہ شاہ مرحوم کی کتابیں اور ان کے بزرگوں کی چھوڑی ہوئی کتابیں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ زیادہ تر کتابیں حدیث، تاریخ، صرف و نحو، فقہ اور لسانیات کے موضوع پر ہیں۔ دو بڑے دینی مدرسے کراچی کے علاقوں کھڈو اور ملیر میں موجود ہیں، جو مخطوطوں اور نایاب کتابوں سے مالا مال ہیں۔ ایک اور مدرسہ بھی ہے جو کہ جناب مولانا عبدالحق ربانی کا ہے اور یہ میرپور خاص کے قریب واقعہ ہے، وہ بھی کتابوں سے خالی نہیں ہے۔
یہ تھا سندھ کے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں اور مدرسوں میں موجود تاریخ کے شہ پاروں کا ایک جائزہ۔بلاشبہ اس میں کئی نام اور مقام شامل ہونے سے رہ گئے اور یہ مقام معذرت طلبی کا ہے۔
صوبہ سندھ کے امیروں، عالموں، اشاعت کاروں اور غریبوں کے گھروں میں ان کی اپنی ذاتی ملکیت میں موجود ہیں۔ ان میں سے کئی کتب خانے تباہ ہو رہے ہیں، کئی کو بچا لیا گیا ہے اور کتنے ہی کتب خانے ایسے ہیں، جنہیں ہم اور آپ دیکھ ہی نہیں سکتے۔ البتہ جانتے ہیں کہ وہاں تاریخ کی ایسی ایسی نادر یادگاریں موجود ہیں کہ انہیں خدانخواستہ نقصان پہنچا تو پھر تلافی کی کوئی صورت نہیں۔
(معروف لکھاری رضا علی عابدی کی کتاب ’تیس سال بعد‘ سے لیا گیا ایک باب)