چند دنوں بعد پاکستان کے عوام ایک ایسے ماحول میں نئی پارلیمنٹ منتخب کرنے والے ہیں کہ جب ملک میں شدید نوعیت کی نسلی، لسانی، مسلکی، فرقہ وارانہ اور سیاسی تقسیم موجود ہے۔
امید یہی ہے کہ عوام ان جماعتوں اور امیدواروں کے حق میں اپنا ووٹ ڈالیں گے جو امن اور رواداری پر یقین رکھتے ہیں۔ اس موقع پر میں انتہا پسندی کے خلاف مزاحمت کرنے والے ان دو بڑے دانشوروں کا ذکر کرنا چاہوں گی، جو اس وقت ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔
انگریزی کے معروف ادیب، نامور صحافی اور دانشور خوشونت سنگھ نے ایک کانفرنس میں کہا تھا: ’’ہر ملک میں، جس میں ہندوستان بھی شامل ہے، مذہبی تعصب اور عدم رواداری پہلے سے زیادہ بڑھ رہی ہے۔ اس ملک میں ایسی سیکڑوں بلکہ ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ بہت سی فلموں پر یا تو پابندی لگادی گئی ہے یا کانٹ چھانٹ کر دی گئی ہے۔ جب یہ فلمیں دکھائی گئیں تو سینما گھروں پر حملے اور توڑ پھوڑ شروع ہوگئی۔ معروف مصوروں کی تصویریں پھاڑ دی گئیں۔ اگر آپ ہندوستان میں پابندی لگائی جانے والی کتابوں کی تعداد دیکھیں تو آپ کی سمجھ میں آئے گا کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔ تاریخ کی کتابیں دوبارہ لکھی جا رہی ہیں۔ تاریخی یادگاریں جن میں تاج محل جیسا شاہکار بھی شامل ہے، تباہ کی جا رہی ہیں۔ اگر حکومت اس سلسلے میں کچھ نہیں کرتی تو کسی عام شہری کو یہ ذمے داری لینا پڑے گی۔ اگر حکومت کوئی اقدام نہیں کرتی تو میں معزز ادیبوں کی توجہ اس مسئلہ کی طرف دلاؤں گا۔ وہ حلف اٹھائیں کہ اس مسئلے کے لیے آواز اٹھائیں گے۔ ‘‘
بھیشم ساہنی نے، جو ان دنوں بھی بیمار تھے، اس موقع پر اٹھ کر خوشونت سنگھ کو داد دی تھی اور ان کی آواز میں آواز ملائی تھی۔ عظیم اداکار بلراج ساہنی کے وہی انسان دوست چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی برصغیر میں امن اور آشتی کے خواب دیکھتے دیکھتے ختم ہو چکے ہیں۔
امن اور رواداری کی آواز بلند کرنے والے ایک بہت بڑے دانشور، ادیب اور شاعر فراق گورکھپوری بھی تھے۔ فراق صاحب جن کا پورا نام پنڈت رگھوپتی سہائے فراق تھا، الہٰ آباد کے ایک کائستھ گھرانے میں پیدا ہوئے جو چار سو برس پہلے مغل بیوروکریسی سے وابستہ ہوا، جسے ایک مغل بادشاہ نے پانچ گاؤں کی جاگیر دی اور یہ لوگ پنچ گاواں کائستھ کہلائے، فارسی اس خاندان کا اوڑھنا بچھونا تھی، ہندی اور اردو ان کے لہو میں شیر و شکر ہوکر بہتی تھیں۔ فراق صاحب کے والد عبرت گورکھ پوری صاحب بیاض شاعر تھے اور انھوں نے فراق صاحب کی تہذیبی، علمی، ادبی اور شعری تربیت میں بنیادی کردار ادا کیا۔
فراق ہندوستان میں اردو زبان کے اتنے بڑے عاشق تھے کہ 50 کی دہائی میں جب مردم شماری ہوئی تو مذہب کے خانے میں انھوں نے خود کو اردو پنتھی قرار دیا۔ فراق صاحب برصغیر میں امن، رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بلند آہنگ وکیل تھے اور اسی لیے کٹرپنتھی ہندوؤں سے ان کا ہمیشہ جھگڑا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ انسانوں کا وطن ہے اور آج بھی ہمارے سینوں میں تہذیب کی پہلی صبحیں سانس لے رہی ہیں۔
فراق تقسیم سے پہلے اور اس کے دوران ہونے والی فرقہ وارانہ خوں ریزی اور نفرتوں کو برصغیر کے لیے ایک عظیم خطرہ سمجھتے تھے۔ 50 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں انھوں نے ’’ہمارا سب سے بڑا دشمن‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ تحریر کیا اور پھراسے اپنی ہی جیب سے شایع کرایا۔ فراق صاحب تحریک آزادی کے ایک سرگرم اور جوشیلے کارکن تھے، انھیں مہاتما گاندھی کی سیاست سے اختلاف تھا، ’’میری زندگی کی دھوپ چھاؤں‘‘ میں فراق، مہاتما گاندھی کے خلاف جملے لکھ کر جلے دل کے پھپھولے پھوڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
انھوں نے انگریز کی جیل کاٹی تھی، برصغیر کے دوسرے تمام ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں کی طرح آزادی کے خواب دیکھے تھے۔ یہ تو ان کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ آزادی آئے گی تو اس کا لباس خون میں تر بتر ہوگا۔
اسی عظیم المیے نے ان سے ’’ہمارا سب سے بڑا دشمن‘‘ لکھوایا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’اگر ہم نے فرقہ واریت کے عفریت کو نہیں کچلا تو وہ ہمیں سموچا نگل جائے گا۔‘‘ فرقہ واریت کو وہ کس نظر سے دیکھتے تھے، اس کا اندازہ ان کی اس تحریر سے کیا جاسکتا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’فرقہ پرستی کا جذبہ اور خیالات دیکھنے میں بہت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں مگر وہ ہمارے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ فرقہ واریت ہمیں ڈس لے گی، ہم ہل کر پانی بھی نہ مانگ سکیں گے۔ اس سانپ کا سونگھا ہوا لہر نہیں لیتا ہے۔‘‘
ان کا موقف تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں سے زیادتی کرنے والے ہندو، مسلمانوں کو صرف جسمانی اور مالی اعتبار سے نقصان پہنچائیں گے، جب کہ اصل نقصان ہندوستان کا ہوگا اور اس کے منہ پر کالک مل جائے گی۔ ’’ہمارا سب سے بڑا دشمن‘‘ میں انھوں نے لکھا: ’’ہندوستان کی کئی ہزار پرانی ثقافت جس پر ہم ناز کرتے ہیں، وہ دنیا کی نظر میں کتنی گری ہوئی اور داغ دار سمجھی جائے گی، اگر ہم نے مسلمانوں کو یہاں بسنے اور پھلنے پھولنے نہیں دیا ۔
اس موقع پر مجھے پاکستان کے عظیم دانش ور سوبھوگیان چندانی بھی بے ساختہ یاد آ جاتے ہیں۔ جن کی سوچ اور فکر فراق سے کافی حد تک ہم آہنگ تھی۔ یہ کامریڈ سوبھو اور ان کے ساتھی تھے، جنھوں نے پاکستان بننے سے پہلے سندھ میں 18 جنوری 1946ء کو پہلا ’’یوم پاکستان‘‘ منایا تھا۔ ایک عظیم الشان ریلی کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے مسلم لیگ، کمیونسٹ پارٹی اور سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکن شریک تھے۔
سعید ہارون کے ہاتھ میں مسلم لیگ کا پرچم تھا۔ کیرت بابا نے سرخ پرچم اٹھا رکھا تھا اور سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا جھنڈا سوبھو گیان چندانی کے شانے پر لہرا رہا تھا۔ کیسے الم کی بات ہے کہ ہم نے ان کی تعلیمات اور ان کے آدرش سے اپنا رشتہ نہ جوڑا۔ہم نے اپنے لوگوں سے دکھ درد کی ساجھے داری نہ کی اور یہ ان ہی خود غرضیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہماری مثال اس نابینا کی سی ہے جو آئینوں کے بازار میں خریدار بن کر نکلا ہے۔
وہ ان نادرِ روزگار لوگوں میں سے تھے، جنھوں نے بدترین حالات میں بھی اپنی دھرتی نہیں چھوڑی، جنھوں نے سائیں جی ایم سید کا یہ کہنا نہیں مانا کہ یہاں کی زمین تم لوگوں پر تنگ ہورہی ہے۔ تم یہاں سے ترک وطن کرو۔ ان کا دھرتی سے یہ پیمان وفا اس لیے تھا کہ وہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر اپنی زندگی کو استوار نہیں کرسکتے تھے۔ وہ ایک ایسے دادا کے پوتے تھے جو اپنی دعائوں میں آس پاس کے ڈھائی گھروں کے سکھ چین کی دعا کرتا تھا۔ ان کے دادا پو پھٹے جو دعا کرتے اس میں یہ جملہ بھی شامل ہوتا کہ پربھو میری اولاد کے خون میں اپنی دھرتی ، اپنی جنم بھومی کی محبت یوں شامل کردے کہ وہ اس دھرتی کی موہ سے کبھی نکل نہ پائیں۔
یہ ایسی دعا تھی جو ہمیشہ سوبھو صاحب کے وجود سے لپٹی رہی اوروہ اس دعا کے حصار میں رہے اور سندھ اور سندھو کے سحر سے کبھی آزاد نہیں ہوئے۔ ہندوستان کا بٹوارا ہوا تو سوبھونے یہ طے کیا کہ فرقہ واریت کا خنجر انھیں اپنے لوگوں سے نہیں کاٹ سکے گا۔ تب ہی انھوں نے لکھا کہ ’’میرا ماضی، میرا حال اور میرا مستقبل اسی دھرتی سے وابستہ ہے اور یہی دھرتی اور اس دھرتی پر آباد لوگوں کی بہبود میرا آدرش ہے جسے ترک کرنے کا خیال بھی اذیت ناک ہے۔‘‘
سوبھو صاحب نے ہمیشہ یہ کہا کہ ریاست کو زیادہ سے زیادہ جمہوری بنایا جائے اور استحصال سے پاک منصفانہ معاشی نظام قائم کیا جائے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو مسلسل یہ کہتے رہے کہ پاکستان کو ایک جدید وفاقی جمہوری ریاست بنایا جائے، مذہب کو ریاست سے الگ رکھا جائے، وفاقی اکائیوں کو وسائل اور حقوق دیے جائیں۔ تمام زبانوں کو برابری کا درجہ دیا جائے۔ آئین اور قانون سے ایسی شقیں نکال دی جائیں جو امتیازی ہوں۔ یہ فکر رکھنے والے مسلمان ہوں یا ہندو ہمارے یہاں انھیں غدار، ملک دشمن اور ہندوستان کا ایجنٹ قرار دیاجاتا ہے۔
متحدہ اور آزاد ہندوستان کی پوری تاریخ میں فرقہ وارانہ فسادات میں جتنے لوگ ہلاک ہوئے اس سے کہیں زیادہ بے گناہ لوگوں کو ہم نے ہلاک کردیا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ جب آپ ووٹ ڈالنے جائیں تو نفرت اور انتہا پسندی کے خلاف ان دو عظیم انسانوں کے افکار و خیالات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)