ماڈل بھی وہی ستر برس پرانا ہے اور خواہش بھی جوں کی توں، یعنی انتخابات اچھے ہیں اگر نتائج کنٹرول میں رہیں۔۔ مگر سوار لاکھ اچھا ہو، کبھی کبھی گھوڑا بدک بھی جاتا ہے۔
جیسے 1970 میں صدرِ مملکت کو حساس اداروں نے رپورٹ پیش کی کہ ’ایک آدمی، ایک ووٹ‘ کے اصول پر پہلے عام انتخابات کی تاریخی کلغی پی کیپ میں سجانے میں کوئی حرج نہیں۔ کسی بھی پارٹی کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔ مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں میں سے اگرچہ عوامی لیگ زیادہ نشستیں لے گی، مگر نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) اور جماعتِ اسلامی کو بھی اچھی خاصی نشستیں ملیں گی۔ اسی طرح مغربی پاکستان کی 148 نشستیں پیپلز پارٹی، قیوم لیگ، جماعتِ اسلامی اور نیپ وغیرہ میں انیس بیس کے فرق سے تقسیم ہو جائیں گی۔ ان جماعتوں کے پاس مخلوط حکومت بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ چار و ناچار انہیں آپ کا تعاون حاصل کرنا ہوگا اور یوں آپ چاہیں تو وردی اتار کے بھی معقول حد تک بااختیار صدر بنے رہیں گے۔
پھر یوں ہوا کہ حساس اداروں کی تجزیاتی رپورٹیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ ووٹروں نے ملک کے دونوں بازوؤں میں وہ میز ہی الٹ دی، جس پر مستقبل کا نقشہ بچھایا گیا تھا اور پھر یہ میز ہی چھینا جھپٹی میں ٹوٹ ٹاٹ گئی۔
2018 میں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ وہی ڈیزائن دوبارہ استعمال ہوا اور کم و بیش سب چیزیں توقعات کے مطابق کنٹرولڈ ماحول میں خوش اسلوبی سے انجام پا گئیں۔
جن کی مشکیں کسنی تھیں، انہوں نے بہت زیادہ چوں چاں نہیں کی۔ جس جماعت کو فری ہینڈ ملا اس نے بھی لگ بھگ ڈھائی سال تک تابعداری دکھائی اور اس کے عوض اسے بھی ریاستی بزرگ انگلی پکڑ کے چلاتے سکھاتے رہے۔
پھر پتہ ہی نہ چلا کہ بچے کا قد کیسے بانس کی طرح بڑھنے لگا مگر بزرگ تو بزرگ ہوتے ہیں، وہ اسے ببلو گبلو سعادت مند بچہ ہی سمجھتے رہے۔ یہ کرو وہ نہ کرو، یہ کھاؤ وہ کھاؤ، اس سے ملو اس سے گریز کرو وغیرہ وغیرہ۔۔
ایک دن اس کی بس ہو گئی اور اس نے کوئی ایسی گستاخی کی کہ بزرگوں سے برداشت نہ ہو سکا اور انہوں نے کھڑے کھڑے یہ کہہ کر نکال دیا کہ لاڈ پیار نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔۔ کچھ دن ٹھوکریں کھانے کے بعد خود ہی سمجھ جائے گا اور آ کے معافی مانگ لے گا اور پھر پہلے کی طرح ہمارے کہنے پر چلتا رہے گا۔
مگر آپ کو تو پتہ ہے کہ آج کل کے بچے کیسے ہوتے ہیں۔۔ مر جائیں گے، پر اپنی غلطی تسلیم نہیں کریں گے۔ چنانچہ بزرگوں کی پگڑی ہوا میں اڑا دی گئی اور پھر جو ہوا، وہ آپ کے سامنے ہے۔ برخوردار برابری کی سطح پر منھ کو آ گیا۔ لہٰذا تمام مروتیں اور روایات ایک طرف رکھ کے کمبل کٹائی شروع ہو گئی اور اسے عاق نامہ تھما دیا گیا۔
منصوبہ یہ تھا کہ اس گستاخ بے وفا برخوردار کے چکر میں جن نسلی تابعداروں کو چور ڈاکو بدعنوان قرار دے کر راندہِ درگاہ کیا گیا، انہیں دوبارہ منا کے واپس لایا جائے اور آئندہ کسی نئے لمڈے کو اس کے شجرہِ وفاداری کی چھان پھٹک کے بغیر گود نہ لیا جاوے۔
مگر ضدی بچہ کچھ لے دے کے بھی جان چھوڑنے پر تیار نہیں بلکہ مسلسل مفاداتی کباب میں ہڈی بنا ہوا ہے اور فیصلہ خدا پر چھوڑ کے سائیڈ پکڑنے کے بجائے اپنے حصے سے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔
1970 کے بعد پہلا موقع ہے کہ پلان اے، بی، سی یکے بعد دیگرے ناکام ہوتے جا رہے ہیں اور بزرگوں کو ستر پوشی مشکل ہو رہی ہے۔ ان کے اعمال انہی کے سامنے ناچ رہے ہیں۔ انہی کے ہاتھوں میں پلنے والا برخوردار انہی کو اپنی جیتی ہوئی نشستیں ہلا ہلا کے دکھا رہا ہے اور مزید کا بھی دعویٰ دار ہے۔
مگر بزرگ ہیں کہ اس لمحے تک بھی سوشل میڈیا کے بدتمیز دور میں بیسویں صدی کے مائنڈ سیٹ میں مبتلا ہیں کہ ’ڈنڈا پِیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا۔‘ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ یہ 1979 نہیں کہ لٹکانے سے کام چل جائے۔ انیس سو ستانوے بھی نہیں کہ دو تہائی اکثریت کو ٹھکانے لگا کے ڈنڈا ڈولی کر کے جہاز میں بٹھا دیا جائے۔
یہ تو عقل سے پیدل گروہ ہے، جو اپنا نفع نقصان دیکھنے اور بزرگوں کی سننے کے بجائے ’ساڈا حق ایتھے رکھ‘ ٹائپ گیتوں پر ناچتا ہے۔
آگے کا راستہ بہت آسان بھی ہے اور بہت مشکل بھی۔۔ ان نوجوانوں کے غصے کی اصل وجوہات جاننے کی سنجیدگی سے کوشش کی جائے۔ ان کو محض بچہ سمجھ کے چپس، لیپ ٹاپ اور مفت دواؤں کے لالی پاپ دکھاتے رہیں گے تو یہ اور بھڑکیں گے۔
انہیں عزت کے ساتھ بٹھا کے ان کی بات تحمل سے سنی جائے۔ ان کا جتنا حصہ بنتا ہے دے دیا جائے اور ان پر اعتماد کیا جائے کہ یہ ڈگمگا بھی گئے تو خود کو گر پڑ کے سنبھال ہی لیں گے۔ جب اور جتنا مشورہ مانگیں، بس اسی پر اکتفا کیا جائے۔
ویسے بھی جو خاکی و نوری افلاطون اس نسل کے تاحیات مامے بننے پر مُصر ہیں، وہ زیادہ سے زیادہ پانچ دس برس جئییں گے یا اپنے عہدوں پر رہیں گے۔ بعد میں بھی تو انہی لڑکے لڑکیوں نے ملک چلانا ہے۔
بہتر ہے کہ انہیں ابھی سے برابر کا حصہ دار بنا لیا جائے تاکہ آگے کی زندگی گذارنے کے لیے کچھ مشق ہو جائے اور وہ تلخیوں اور بدزنی کے ماحول سے نکل کے مستقبل کے چیلنج جھیل سکیں۔
اگر آپ خدا سے لَو لگانے کی عمر میں بھی ڈھیلی لنگوٹ پہن کے اس نسل کے سامنے کبڈی کبڈی کرتے رہیں گے، تو پھر تھپڑ، قینچی اور دھوبی پٹکے کے لیے بھی اپنے لخلخاتے انجر پنجر کو تیار رکھیں۔
بشکریہ بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)