لالچ ہمارا پہناوا ہے

مستظہر اقبال

روزانہ کی بنیاد پر دھوکہ دہی کی ایک سے بڑھ کر ایک واردات سننے میں آتی ہے، دھوکے بازوں کے نئے سے نئے طریقوں کے بارے میں جاننے کو ملتا ہے، سب مل کر دھوکے بازوں کو برا بھلا کہتے ہیں، ان کی نئی سے نئی تخلیقی کارروائی کو کوستے ہیں اور پھر ان کے گلے میں بے ایمانی کا تمغہ پہنا کر، انہیں برا بھلا کہہ کر اپنا کتھارسس کر لیتے ہیں۔

دور دراز کے علاقوں سے سوچ سے زیادہ سستی گاڑی اور موٹر سائیکل خریدنا ہو، کسی خاتون کے ساتھ سوشل میڈیائی خیالی وعدوں کو سچ سمجھ کر وفا نبھانے کی طرف بڑھنا ہو، کسی بہت بڑی رقم کے اچانک سے اکاؤنٹ میں آ جانے کی ممکنہ خوشی ہو، کسی گیم شو میں گھر بیٹھے انعام حاصل کرنے کا لالچ ہو، بے نظیر انکم سپورٹ میں رقم منظور ہو جانے کا پیغام ہو، راہ چلتے کسی سے چوری شدہ سامان خریدنے کی جلدی ہو، کسی ارب پتی کی کینسر زدہ بیوی اور بیٹی کی تمام جائیداد کا ٹرسٹی بننے کی فکر مارے جا رہی ہو یا کسی سڑک چھاپ بہروپیے سے چند لمحوں میں بہت بڑا فائدہ یا تقدیر بدل جانے کا ارمان ہو، تمام کی تمام صورتوں میں ایسا کیا ہوتا ہے کہ ذہن اس درجہ ماؤف ہو جاتا ہے کہ بڑی آسانی سے جیب سے پیسے نکال کر اپنے ہاتھوں سے تگ و دو کر کے نہ صرف کسی دھوکے باز کے حوالے کیے جاتے ہیں، بلکہ یہ بھی سمجھ لیا جاتا ہے کہ بھجوائے گئے پیسے تو صرف فائدے کا ٹوکن ہے، کی گئی تمام ادائیگی سود سمیت وصول ہو جانے والی ہے۔

کیسی عقل بندی تھی کہ ڈبل شاہ کو اپنی کمائی اس یقین کے ساتھ حوالے کی جاتی رہی کہ واقعی ڈبل کر سکتا ہے، کسی گاڑیوں کے خود ساختہ درآمد کنندہ کو سَستی گاڑی اسکیم میں ایڈوانس رقم جمع کروائی جاتی رہی، کسی نوٹ بنانے والے اور ڈالر بنانے والے کو اپنی جمع پونجی حوالے کی جاتی رہی، کسی دوائیوں کے ڈاکٹر کو بڑے منافع کے لالچ میں لاکھوں بلکہ کروڑوں دئیے جاتے رہے، غیر رسمی مضاربہ کمپنیوں میں بڑی بڑی سرمایہ کاریاں کی جاتی رہیں، ملٹی لیول مارکیٹنگ کی گھٹیا دوائیوں کی فروخت دھڑا دھڑ کی جاتی رہی، کسی بیرون ملک ڈنکی لگوانے والوں کو کروڑوں روپے اور پاسپورٹس بغیر کسی رسید کے دیے جاتے رہے، جعلی ڈگری بنانے والوں کو لاکھوں میں سینکڑوں لوگ ادائیگی کرتے رہے اور آئی ڈی اے ایپ پر ڈالر بڑھانے کے لالچ میں مزید سے مزید رقم جمع کرواتے رہے، یہ اور اس طرح کے سبھی دھوکہ دہی کے طریقوں کےسوتے لالچ کے چشمے سے پھوٹتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کسی کی جیب سے پیسے نکالنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے، لیکن کم از کم پاکستان میں تو بالکل بھی مشکل نہیں، مشکل ہے تو صرف ایک زبردست قسم کی لالچی اسکیم بنانا مشکل ہے۔ جتنا زبردست قسم کا لالچ ہوگا، اتنی آسانی سے لوگ اپنی جمع پونجی آپ کے حوالے کریں گے۔۔ اور اگر نوسرباز لالچ کے ساتھ ضعیف الاعتقادی کا بھی فائدہ اٹھالیں تو سونے پہ سہاگہ ہو جاتا ہے۔

کیسا کمال ہے کہ انسان کو دین، مذہب، اخلاقیات، حق ناحق، حلال حرام، اچھا برا، طیّب خبیث، سب کچھ بھول جانے کے لیے صرف ایک خیالی فائدے کی جھوٹی امید کافی ہے۔ جو جیب میں درست طریقے سے آیا ہے، اگر اس پر شکر نہیں تو کم ازکم صبر سے ہی کام چلا لیا جائے، مزید سے مزید تر کی لالچ نے ہمیں اندھا کر دیا ہے اور یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صرف لالچ ہی اصل ہے اور باقی سب کچھ نقل ہے، ہمارے خون میں اور ہمارے اردگرد سب لالچ کے دائرے ہیں اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں، ہماری دھوکے باز اور نوسر باز فطرت؛ معاشرت، معیشت اور سماج کے لیے آکسیجن ہے۔

کسی کو لاکھ سمجھاتے رہیں کہ اچھی نیت اور اصولوں سے کیے گئے کاروبار میں برکت اور فائدہ ہے، کسی بیمار کی مدد کرنا، کسی ننگے کا بدن ڈھانکنا، کسی بھوکے کو کھانا کھلانا، کسی کا قرض معاف کرنا یا ادا کر دینا، کسی کی تعلیم کی ضرورت کو پورا کر دینا اللہ کی رضا کا سبب ہے، کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا۔۔ لیکن جہاں کسی کو سبز باغ دکھائی دے، جہاں شارٹ کٹ دکھائی دے، چھپی ہوئی دولت کے خزانے وہاں وہاں سے بھی برآمد ہونے لگتے ہیں، جہاں سے امید ہی نہیں کی جا سکتی۔

سچ ہے کہ جب تک لوبھی اور لالچی زندہ ہے، تب تک ڈھونگی اور دھوکے باز بھوکا نہیں مر سکتا، بڑے بڑے عقل مند اور صاحبان فہم و فراست بھی لالچ میں آ کر کسی نہ کسی جعل سازی کا شکا ر ہو جاتے ہیں۔ حضرتِ انسان ذرا دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش تو کرے کہ جانوروں کا شکار کیسے کیا جاتا ہے، سب لالچ ہی تو ہوتا ہے، جس کے باعث صید دامِ صیاد میں آ جاتا ہے، چڑیاں، طوطے، کبوتر، بٹیریں، تیتر، مرغابیاں، کونجیں، ہرن، بندر اور حتیٰ کہ شیر، جس بھی جانور کا نام لیں بے چارا پیٹ کے لالچ میں جان یا آزادی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اسی طرح زیادہ تر معاملات میں ہمارے اردگرد یا ہم خود بھی اپنے لالچ کی وجہ سے نقصان اٹھاتے ہیں۔ یہ سب اس ملک میں ہوتا ہےجس کی آبادی میں شناختی طور پر چھیانوے فیصد سے زائد مسلمان ہیں کہ جن کے ہاں بغیر ضمانت، بغیر محنت اور قرعہ اندازی سے حاصل کی گئی قانونی آمدن بھی واضح طور پر حرام ہے۔ اللہ ہم سب کو عقل کے ناخن نصیب کرے، آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close