کھیرتھر نیشنل پارک کا تاریخی قبرستان ’مور مرادی‘ بھی بحریہ ٹاؤن کی زد میں۔۔

سنگت ڈیسک

بحریہ ٹاؤن کراچی کی توسیع اب کھیرتھر نیشنل پارک کی حدود تک پھیل گئی ہے، جس کی وجہ سے ضلع ملیر کے علاقے گڈاپ میں تھدو ندی کے کنارے واقع تاریخی قبرستان مور مرادی خطرے کی زد میں ہے

واضح رہے کہ یہ چوکنڈی طرزِ تعمیر کا ایک قدیم تاریخی مقام اور ثقافتی ورثہ ہے، جسے بحریہ ٹاؤن کی ترقی کے نام پر بتدریج تباہ کیا جا رہا ہے

منفرد طرز تعمیر کا حامل یہ صدیوں پرانا قبرستان، جو کھیرتھر نیشنل پارک میں واقع ہے ، زرعی زمینوں سے گھرا ہوا تھا۔ بحریہ ٹاؤن کراچی ریاستی اداروں کی مدد سے مسلسل توسیع پسندانہ عزائم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے کھیرتھر نیشنل پارک کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ بحریہ ٹاؤن کو مبینہ طور پر علاقے کے طاقتور اور بارسوخ افراد کی حمایت حاصل ہے، جن کے دباؤ کی وجہ سے علاقہ مکین آس پاس کی زمین سستے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف مور مرادی قبرستان خطرے کی زد میں آ گیا ہے بلکہ قریب واقع پاچران کی پہاڑیوں کو بھی کاٹا جا چکا ہے، جو انڈس آئی بیکس اور دیگر جنگلی حیات کی محفوظ پناہگاہ ہوا کرتی تھیں

بحریہ ٹاؤن اتھارٹی اس تاریخی مقام کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ مزید زمین پر قبضہ کیا جا سکے۔ یہاں باغات، جنگلات اور قدرتی ہریالی کو اکھاڑ پھینکا گیا ہے

مزید برآں تھدو ندی، جو گڈاپ ملیر میں زیر زمین پانی کے ذخیرے کا ایک بڑا ذریعہ ہے، کو بھی خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ کیونکہ بحریہ ٹاؤن کھیرتھر نیشنل پارک کی حدود میں یہاں ’بحریہ لیک ویو‘ کا منصوبہ شروع کر چکا ہے۔

واضح رہے کہ یہ علاقہ نہ صرف جنگلی حیات کا مسکن ہے، بلکہ اس پورے علاقے کی قدیم اور طویل تاریخ ہے۔ مورمرادی کے تاریخی قبرستان کے حوالے سے نامور محقق گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ یہاں کی قبروں کے پتھروں پر کی گئی کندہ کاری منفرد ہے۔ ملیر میں واقع دیگر قدیم قبرستان جیسا کہ چوکنڈی کے مقابلے میں، مور مرادی قبرستان اس کی پتھر کی گھماؤ کی تکنیک کی وجہ سے پرانا لگتا ہے اور اسے سما خاندان (1351-1524) میں اپنایا گیا تھا۔ اس کے برعکس چوکنڈی بعد کے دور میں یا مغل خاندان کے دور میں تعمیر کی گئی تھی

واضح رہے کہ معروف مورخ گل حسن کلمتی نے زیادہ تر ملیر کے تمام قبرستان دریافت کیے جن کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’کراچی، دی گلوری آف ایسٹ‘ (کراچی: سندھ جی مارئی) میں کیا ہے۔ تاہم روم سے پیدا ہونے والی یہ تکنیک بعد میں ایران تک پھیلی پھر سندھ اور بلوچستان میں داخل ہوئی

موسمیاتی انصاف، اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی، سیاست اور جاگیردارانہ نظام پر تحقیق کرنے والے لکھاری ہیں فاروق احمد سرگانی کا کہنا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کی توسیع کی وجہ سے یہ قدیم ثقافتی ورثہ مسخ ہو جائے گا اور اتھارٹی کیرتھر نیشنل پارک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی۔ یہ پورا خطہ تاریخی اور ماحولیاتی اہمیت کا حامل ہے، لیکن ترقی کے نام پر بحریہ ٹاؤن تاریخی مقامات کو مسمار کر رہا ہے، پہاڑوں اوردرختوں کو کاٹ رہا ہے، جس سے فطرت، جنگلی حیات اور ماحولیات شدید طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔“

کھیرتھر نیشنل پارک کراچی سے تقریباً 80 کلومیٹر شمال میں کھیرتھر پہاڑی سلسلے کے جنوب مغربی سندھ میں واقع ہے۔ یہ پاکستان کا تیسرا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے۔ 1972 میں جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دیے جانے کے بعد اسے 1974 میں نیشنل پارک قرار دیا گیا۔ کھیرتھر اقوام متحدہ کی پارک کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ ’سنگت میگ‘ کی ٹیم کی طرف سے ایک چونکا دینے والا انکشاف اس وقت ہوا، جب اس نے کھیرتھر نیشنل پارک کا دورہ کیا، جس میں ایک خوفناک تباہی سامنے آئی۔

کھیرتھر پارک غیر قانونی تعمیرات، جاگیردارانہ مفادات، پارک کی قدرتی خوبصورتی کو متاثر کرنے کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ بحریہ ٹاؤن اپنی غیر قانونی حدود کے ساتھ مقامی لوگوں کو بے گھر کر رہا ہے اور قدرتی ماحول کو بگاڑ رہا ہے۔ تحقیق کے مطابق کھیرتھر کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ جنگلات کی کٹائی ہے، جو اسے جنگلی حیات کے لیے ناقابل رہائش بنا رہی ہے۔ کھیرتھر نیشنل پارک کے آس پاس مقامی لوگوں سے زبردستی ان کی زمینیں ہتھیانے کے لیے ریاستی اور جاگیرادارنہ دباؤ کو استعمال کیا گیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے

سندھ انڈیجینس رائٹس الائنس کے رہنما حفیظ بلوچ کا کہنا ہے ”میں نے دیکھا کہ مقامی لوگ دھمکیوں اور دباؤ کی وجہ سے اپنی زمینیں کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ اب یہاں صدیوں پرانا قبرستان مور مرادی بھی خطرے میں ہے۔“

کھیرتھر پارک کی بین الاقوامی حیثیت ہے اور اسے ملکی قانون میں تحفظ حاصل ہے۔ کھیرتھر نیشنل پارک کے علاقے میں کسی بھی مقصد کے لیے کھدائی پر پابندی ہے، سندھ وائلڈ لائف آرڈیننس میں اس کا ذکر ہے۔ حکومت کے تحت 1970 کے ایک اور ایکٹ نے تیل یا گیس کی تلاش پر پابندی لگا دی تھی

حفیظ بلوچ کہتے ہیں ”کھیرتھر نیشنل پارک کو عالمی ورثہ سمجھا جاتا ہے لیکن اسے نام نہاد ترقی کے نام پر تباہ کیا جا رہا ہے۔ یہ کسی قانون میں جائز ہے؟ سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کیرتھر نیشنل پارک کی تباہی کا نوٹس لے۔“

یہ خبر بھی پڑھیں:

سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی ملیر اراضی کیس میں نوٹس جاری کر دیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close