ایران کے کسانوں کی حقوق کے لیے جدوجہد

ڈاکٹر مبارک علی

کسانوں اور خانہ بدوشوں کا تعلق ان طبقوں سے ہے جو پیداواری وسائل میں بھرپور حصہ لیتے ہیں، لیکن سیاسی اور سماجی طور پر جاگیردار اور ریاست کے عہدیدار ان کو اپنی طاقت اور بدعنوانی کی وجہ سے غربت اور مفلسی میں رکھتے ہیں

لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے کہ یہ لوگ خاموشی سے مظالم برداشت کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جب حالات زیادہ خراب ہو جاتے ہیں تو ان میں مزاحمتی تحریکیں ابھرتی ہیں۔ اپنے حقوق کے لیے جہاں یہ مزاحمت کرتے ہیں وہی دوسری جانب ٹیکس جمع کرنے والوں کو رشوتیں دے کر انہیں خاموش کر دیتے ہیں۔

1920 اور 1930 کی دہائیوں میں ان کی تحریکوں کے بارے میں دستاویزات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے دفاع کے لیے تنظیمیں تشکیل دی تھیں اور اپنے حقوق کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں خبریں بھی دیتے تھے

لیکن جب معاشی حالات زیادہ خراب ہوئے، جاگیرداروں اور عہدیداروں نے سختیاں کیں، تو انہوں نے ڈاکو بن کر لوٹ مار کا سلسلہ شروع کر دیا اور دیہی علاقے کا امن و امان برباد کر دیا۔

مورخوں نے کسانوں کی بغاوتوں کے بارے میں جو تحقیق کی ہے، وہ روایتی تاریخ سے مختلف ہے۔ باغی کسان کھیتوں اور گائوں کو چھوڑ کر دور دراز علاقوں میں چلے جاتے تھے، جہاں جاگیرداروں اور عہدیداروں کا ان سے مقابلہ کرنا مشکل تھا۔ کاشت کاری کے بند ہونے سے جاگیردار اپنے پیداواری حصے سے محروم رہتا تھا اور ریاست کو ٹیکسوں کی ادائیگی نہیں ہوتی تھی۔

بغاوت کے علاوہ مزاحمت کے دوسرے طریقے بھی تھے۔ یعنی پیداوار کو چھپا دیا جائے، ٹیکسوں کی ادائیگی میں دیر کی جائے اور خاموشی کے ساتھ اپنے مفاد کا دفاع کیا جائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیا کسان نہ تو اپنے حقوق سے غافل تھے اور نہ جاگیرداروں کے استحصال سے بےخبر۔

پہلوی دور حکومت میں بنیادی تبدیلیاں آئیں، حکومت کی زیادہ توجہ صنعت کو فروغ دینا تھا۔ شہروں میں فیکٹریوں کا قیام عمل میں آیا جن میں کام کرنے والے مزدور ایک طبقے کی صورت میں ابھرے لیکن ایرانی آبادی کی اکثریت کسانوں اور خانہ بدوشوں پر مشتمل تھی۔

کسان کھیتی باڑی کرتے تھے، زمین جاگیردار کی ملکیت ہوتی تھی، اس لیے پیداوار کا ایک حصہ ان کو ملتا تھا، بقیہ زمین دار لے جاتا تھا۔ خانہ بدوش قبائل کی صورت میں رہتے تھے اور مویشی پالتے تھے۔ ان کی رہائش مستقبل نہیں ہوتی تھی بلکہ تبدیل کرتے رہتے تھے۔ اس لیے خانہ بدوشوں میں آزادی کا جذبہ تھا اور وہ ریاستی عہدیداروں کے اثر میں نہیں آتے تھے۔

پہلوی دور میں جو مزید سیاسی تبدیلیاں آئیں، ان میں حکومت نے جاگیرداروں کو مراعات دے کر اپنا حلیف بنایا اور ایران کی پارلیمنٹ میں جاگیرداروں کی تعداد زیادہ تھی۔ اس لیے 1930 کی دہائی میں جو قوانین پاس ہوئے ان میں نجی جائیداد کو تحفظ دیا گیا۔ جاگیرداروں نے ریاستی زمینیں خرید کر خود کو طاقتور بنایا اور شاہ خود بھی ایک بڑا جاگیردار ہو گیا۔ ان حالات میں کسانوں اور خانہ بدوشوں کے حقوق کو نظر انداز کر دیا گیا۔

کسانوں اور خانہ بدوشوں نے زمین کی ملکیت کے قانون کی مخالفت کی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ چونکہ وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں، لہٰذا زمین پر ان کا حق ہے۔ جب ریاست نے نقد فصلوں کو اپنی تحویل میں لیا تو اس پر بھی کسانوں نے احتجاج کیا۔ جب ریاست کی جانب سے ٹیکسوں میں مزید اضافہ ہوا تو کسان اس قابل نہیں رہے کہ اسے ادا کر سکیں۔

پہلوی حکومت ساری توجہ شہری آبادی پر دے رہی تھی۔ جہاں شاہی خاندان کے اراکین، جاگیردار اور سرکاری عہدیدار مراعات سے فائدہ اٹھا رہے تھے جبکہ دیہی علاقوں میں ترقیاتی سکیموں کے نہ ہونے کی وجہ سے غربت بڑھ رہی تھی۔ ان حالات میں کسانوں کی جانب سے بغاوتوں کا سلسلہ جاری ہوا۔ اس میں لوٹ مار بھی شامل تھی۔

بغاوت کے دوران کسان اپنے بہت سے روایتی حقوق سے بھی محروم ہو گئے۔ قحط اور خشک سالی کے دوران ٹیکسوں کی معافی جو ہو جاتی تھی اسے ختم کر دیا گیا۔ کسانوں اور خانہ بدوشوں کی یہ مزاحمت پورے ملک میں منظم نہ تھی بلکہ ہر علاقے میں اپنے حالات کے تحت وہ مزاحمت کا فیصلہ کرتے تھے۔

اگرچہ کسانوں اور خانہ بدوشوں کی مزاحمت کے بارے میں معلومات بکھری ہوئی ہیں، مگر جب ان کو اکٹھا کر کے تحریک کی شکل میں لایا جاتا ہے تو ان میں سے سب سے زیادہ منظم تحریک چہار محل کی تھی۔

اس میں کسانوں نے دعویٰ کیا کہ زمین کو نجی جائیداد بنانا غلط ہے۔ زمین پر اسی کا حق ہونا چاہیے جو کاشت کرتا ہے۔ جاگیرداروں کی مراعات اور نجی جائیداد کے لیے ایک چیلنج تھا، کیونکہ وہ خانہ بدوش قبائل جو بستوں میں آباد ہو گئے تھے، مگر اپنے قبائلی رسم و رواج اور آزادی کو نہیں بھولے تھے، وہ بھی ریاست کے لیے چیلنج تھے۔

چہار محل کی بغاوت نے حکومت کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ کسانوں کے خلاف ایکشن لے۔ گورنر کو ہدایت کی گئی کہ وہ کسانوں کے ساتھ سختی سے نمٹے، لیکن جب اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو حکومت نے ایک کمیشن بنایا کہ وہ حالات کا جائزہ لے کر رپورٹ جمع کروائے

لیکن کسان کمیشن کی رپورٹ سے مطمئن نہیں ہوئے۔ اسی دوران شاہ کو یہ خیال آیا کہ اگرچہ محل کی تحریک دوسرے علاقوں میں پھیل گئی تو حالات مزید خراب ہوں گے۔ اس لیے حکومت نے جاگیرداروں اور کسانوں کے درمیان معاہدہ کرایا کہ پیداوار کو تسیم کر کے کسانوں کو ان کا حصہ دیا جائے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسانوں اور خانہ بدوشوں کو اپنے حقوق کے لیے ایک منظم اور مستحکم سیاسی نظام سے لڑنا پڑتا ہے۔

جاگیردار یا زمیندار جو سیاست دان بھی تھے، حکومت کے وفادار تھے اور مجلس میں قانون سازی بھی کرتے تھے۔ عدالتیں بھی ان کا ساتھ دیتی تھیں۔ ان حالات میں کسان اور خانہ بدوش بہت کمزور تھے، اسی لیے وہ مزاحمت کرنے اور باغی ہونے کے باوجود اپنے پورے حقوق حاصل نہیں کر سکے۔

شہری آبادی نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا۔ لیکن جس حد تک انہوں نے مزاحمت کی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں اپنے حقوق کا احساس تھا اور وہ مسلح بغاوت کی جگہ پرامن طریقوں سے اپنے مطالبات پیش کر رہے تھے۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close