میری والدہ کا خاندان پشتو اور فارسی بولتا ہوا ہندوستان آیا اور پھر وہاں کی ست رنگی ثقافت میں یوں رنگا گیا کہ عورتیں بھوج پوری بولتیں اور مرد فارسی اور انگریزی میں زندگی کرتے، پشتو کہیں راستے میں رہ گئی تھی، صرف بندوقیں اور تلواریں تھیں جو افغانستان کی یاد گار تھیں۔
یہ قدیم تلواریں اور بندوقیں دیواروں پر سجانے کے لیے تھیں، شکار کے لیے نئی سے نئی بندوق کلکتہ سے خریدی جاتی اور رگوں میں دوڑتے اور بھنور ڈالتے ہوئے خون کی آنچ کو پہاڑوں اور جنگلوں میں شکار سے ٹھنڈا کیا جاتا۔
پشتو سے میرا ایک اور بھی گہرا ناتا تھا۔ نو برس کی عمر میں زندگی کی پہلی سہیلی مرغلرہ بنی، پشتو کے جیّد دانشور اور ادیب عبدالحئی حبیبی کی بیٹی۔ حبیبی صاحب افغانستان کے سابق وزیرِ تعلیم تھے اور ہمارے پڑوسی۔ انہوں نے ایک روز میرے سامنے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے خوشحال کی شدید سرزنش کی تھی۔
سرزنش کا سبب یہ بات ہوئی تھی کہ اس نے گھر میں اپنے بھائی میر واعظ سے انگریزی بولنے کی کوشش کی تھی۔ اس روز مجھے معلوم ہوا تھا کہ پشتون اگر اپنے گھر میں پشتو نہ بولیں تو باپ ان پر شیر کی طرح دھاڑتے اور بیٹے میمنے کی طرح ممیاتے ہیں۔ خوشحال حبیبی اب سالہا سال سے امریکا میں رہتا ہے، انگریزی میں شاعری کرتا ہے، شاید اپنے بچوں سے گھر میں وہ پشتو نہ بولتا ہو۔ آپ اپنی زمین چھوڑ دیں تو زبان کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔
افغانستان کے کہسار، سبزہ زار، درے اور دشت پاکستان کے جغرافیے سے یوں جڑے ہوئے ہیں کہ سرحدوں کا تعین کرنا اکثر دشوار ہو جاتا ہے۔ زبان و بیان، رسم و رواج سب ہی ایک ہیں۔ آپس میں رشتہ داریاں ہیں، قبائلی ہم آہنگیاں ہیں، دوستیاں اور دشمنیاں ہیں۔
یہی سبب ہے کہ 1979کے بعد جب افغان مہاجرین کی ایک بڑی لہر پاکستان پہنچی تو وہ صوبہ سرحد کے شہروں اور قصبوں میں یوں جذب ہوئی، جیسے ہمیشہ سے وہیں رہتی چلی آئی ہو۔۔ لیکن ہمارے لیے افغانستان کا المیہ ایک اور تناظر بھی رکھتا ہے۔ افغان مہاجرین کے ساتھ ہی وہ لوگ بھی آ پہنچے جو منشیات اور اسلحے کی تجارت کرتے تھے۔
اسلحے کی اس فراوانی کے بعد اس دور کا آغاز ہوا، جسے لوگ ڈرگ اور کلاشنکوف کلچر کے نام سے یاد کرتے ہیں اور جس دور کے زخم ہزاروں سینوں میں آج بھی ہرے ہیں۔ افغانستان پر گزرنے والے عذاب کے حوالے سے پشتو میں بہت کچھ لکھا گیا۔ کچھ تحریریں اردو میں بھی سامنے آئیں، میری اپنی دو کہانیاں ’’رقصِ مقابر‘‘ اور ’’کُم کُم بہت آرام سے ہے‘‘ ان ہی عذابوں کا حوالہ رکھتی ہیں۔
ان میں سے بعض کہانیاں پشتو کے نامور ادیب طاہر آفریدی نے لکھیں۔ وہ اردو کے ادبی حلقوں میں ایک جانا پہچانا نام ہیں اور ان کے ایک افسانوی مجموعے کو انعام بھی مل چکا ہے۔ ان کا ناول ’’تیری آنکھیں خوبصورت ہیں‘‘ پڑھا تو احساس ہوا کہ اردو میں خالص پشتون ذائقہ شامل ہو گیا ہے۔ آپ کو شاید اس افغان لڑکی، کی تصویر یاد ہو جو ’’نیشنل جیوگرافک میگزین‘‘ میں شایع ہوئی تھی اور اس کی زمردیں آنکھوں کو دنیا کی حسین ترین آنکھوں کا خطاب ملا تھا۔
بے دری و بے گھری کا آشوب وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں، جو اس الم ناک تجربے سے گزرے ہوں، جنہوں نے یہ جانا ہو کہ اپنے قریب ترین رشتوں کو گولیوں سے چھلنی ہوتے، معذور ہوتے اور بھوک سے بلکتے ہوئے دیکھنا دنیا کا شاید سب سے بڑا عذاب ہے۔
یہ ناول اس ذکر سے آغاز ہوتا ہے کہ گاؤں کا قبرستان جو رقبے میں ہمیشہ گاؤں سے کم رہا، اب کچھ عرصے سے اس نے ہاتھ پیر پھیلائے تھے اور رقبے میں گاؤں سے بڑھ گیا تھا۔ یہ قبرستان کسی طاقتور اور حریص حاکم کی طرح روز بہ روز پیر پھیلا رہا تھا۔ اپنے اردگرد کی زمین پر قبضہ کر رہا تھا اور گاؤں سے ہر روز چھوٹے چھوٹے قافلوں کی صورت لوگ اونٹوں، خچروں اور گدھوں پر سامان و اسباب لادے ہوئے ٹیڑھے میڑھے راستے پر آخری موڑ مڑ کر نظروں سے اوجھل ہو رہے تھے۔ خدا جانے اس موڑ سے مڑ کر جانے والے مسافر کبھی واپس بھی آ سکیں گے؟
اس ناول کا مرکزی کردار سیندک، جس کی عمر بارہ تیرہ برس ہے، اسی موڑ سے مڑنے والے اس قافلے کو دیکھتا ہے، جس میں خوبصورت آنکھوں والی عظمت ہے۔ سیندک جس کی ماں، باپ اور بہن بمباری میں مارے جاچکے ہیں، خالی نگاہوں سے اس قافلے کو جاتے ہوئے دیکھتا ہے اور اس کے سینے میں تنہائی کی دھول اڑنے لگتی ہے۔ اپنی عمر سے کہیں مشکل محنت مزدوری کرتا ہوا سیندک زندگی کی علامت ہے۔ زندگی، جو بدترین حالات میں بھی زندہ رہتی ہے۔۔ بمباری، گولہ باری اور گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی انسان عشق کرنا، رباب بجانا، شکار کرنا نہیں بھولتا۔
افغان مہاجر کیمپوں کا الم ناک نقشہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ ’’یہ کیمپ کیا تھا۔۔ لٹے پٹے، شل، معذور، لولے لنگڑے اور بے سروسامان مہاجروں کا ایسا ٹھکانہ تھا جو جانوروں کے تھان سے کچھ بہتر نہ تھا۔ جس میں رہنے بسنے والوں کے ادھورے جسموں کی طرح کوئی چیز مکمل نہ تھی۔
جس گھر کی مٹی کی دیواریں اونچی ہوتیں اس کا دروازہ نہ ہوتا، جس کا دروازہ ہوتا اس کے پٹ نہ ہوتے، جس کے دروازے اور پٹ ہوتے، اس کی دیواریں اتنی چھوٹی، اتنی نیچی ہوتیں کہ راہ چلتا ہوا کوئی بھی سر اٹھا کر اندر پورا گھر دیکھ سکتا تھا۔ تنگ اور گندگی بھری مٹی اور کیچڑ میں لت پت ننگے جسم، ننگے پیر، سوکھے ہونٹ، سوکھے رخسار، حالات کے تھپیڑے کھاتے ہوئے بچے بے دلی سے کھیل رہے تھے۔ لولے لنگڑے کچھ مرد ہمت اور حوصلے کی بیساکھیوں کی مدد سے زندگی کی بقا کے لیے اب بھی کمر باندھے حرکت کررہے تھے۔
عورتیں لمبی لمبی قمیصوں اور گھیردار شلواروں میں ملبوس، نہر سے ٹین کے ڈبوں میں اور مٹی کے گھڑوں میں پانی بھر کر لا رہی تھیں۔ ‘‘
پشتون مردان خانے اور زنان خانے کے کتنے ہی مناظر اپنی تمام جزئیات کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اس ناول میں ضمیر بیچنے اور ضمیر خریدنے والے ہیں، دشمنیاں پالنے والے اور صلح صفائیاں کرانے والے ہیں۔ انڈے اور مرغ لڑانے والے ہیں، نشانہ بازی کے مقابلے ہیں، ناچتے ہوئے لختئی اور کنچنیاں ہیں۔ کتوں، گھوڑوں اور بندروں کی بازی گری ہے۔
اس میں جہاں سیندک اور عظمت کے کردار تراشے گئے ہیں، وہیں ستارہ جیسی پڑھی لکھی اور باشعور عورت ہے۔ وہ سیاسی شعور رکھتی ہے، شعر کہتی ہے اور کیمپ میں لڑکیوں کو پڑھانا اور ان کی تربیت اپنا فرض سمجھتی ہے۔
سیندک کو عظمت ملتی ہے اور تقدیر ایک بار پھر دونوں کے ساتھ مذاق کرتی ہے اور سیندک کو دہشت گرد ہونے کے شبہے میں ایجنسی والے اٹھا لے جاتے ہیں۔ وہ ان کے عقوبت خانے میں ان گنت دن اور ان گنت راتیں گزارتا ہے، بدترین تشدد سہتا ہے اور بہت دنوں بعد وہ جس طرح کسی وجہ کے بغیر اسے اٹھا لے گئے تھے، اسی طرح ایک روز آزاد کر دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ زندگی اس ناول میں سر کے بل کھڑی نظر آتی ہے اور بے گناہ افراد کے لیے پناہ کہیں نہیں ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)