23 مارچ کو یوم پاکستان مناتے ہوئے ہر سال زور و شور سے اُس قرارداد کا ذکر کیا جاتا ہے جو تین بنیادی نکات پر مشتمل تھی۔ اس ریاست کے قیام کو 76 سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا مگر ملکی صورتحال ایک بھی نکتے پر پورا نہیں اترتی۔
23 مارچ 1940ء کا سورج طلوع ہونے سے پہلے 22 مارچ کی رات قائد اعظم محمد علی جناح نے جو تقریر کی تھی اُس کا نچوڑ تھا: ‘”مسلم امت گرچہ ایک قوم ہے مگر برصغیر میں اسے ایک اقلیت سمجھا جاتا ہے۔‘‘ جناح کی اس تقریر سے چند گھنٹوں قبل معروف شاعر میاں بشیر احمد کی نظم ’ملت کا پاسبان ہے محمد علی جناح‘ ترنم کے ساتھ پڑھی گئی اور اس کے بعد سے ہر سال اس کی گونج سنائی دیتی ہے۔ پاکستانی عوام کا مزاج شروع سے ہی ایسا بنا دیا گیا کہ اسے نغموں، شاعری، جذباتی نعروں اور ملک میں منائے جانے والے قومی تہواروں کے سحر سے نکلنے اور حقیقتی دنیا میں جینے کی عادت ہی نہ پڑے۔
آج کے پاکستان کی حالتِ زار سب کے لیے ہی لمحہ فکریہ بنی ہوئی ہے۔ قریب 76 سال کی ملکی تاریخ میں پہلی بار یہ دیکھنے میں آیا کہ سیاسی کارکن اور نوجوان اب ملک و قوم کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ پر سوال اُٹھانے کی جرأت کرنے لگے۔ اس پر انہیں کچلنے، زدو کوب کرنے، ہراساں کرنے اور پابندِ سلاسل کرنے جیسے حربے استعمال کیے گئے اور کم از کم وقتی طور پر اُس تحریک کو دبا دیا گیا جو خاص طور سے پاکستانی نوجوانوں کے لیے اُمید کی کرن کی مانند تھی۔
سات دہائیوں سے زائد عرصے میں پاکستان کی نوجوان نسل ملکی آبادی کے ایک بڑے حصے کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی۔ ان نوجوانوں کی آنکھوں میں بھی بہت سے خوبصورت خواب سجنے لگے۔ یہ پاکستانی نوجوان طبقہ بھی عالمی برادری کے سامنے ایک باوقار، خود مختار، آزاد اور ترقی یافتہ برادری کے طور پر خود کو منوانے کی خواہش کرنے لگا۔ آج کے پاکستانی نوجوانوں کو بھی سر اُٹھا کر دنیا کے مقابلے میں خود کو منوا کر اپنے ملک اور قوم کا نام روشن کرنے کا پورا حق حاصل ہونا چاہیے تھا۔
آج 2024ع میں یومِ پاکستان کو منانے کے لیے نہ تو نوجوانوں میں وہ جذبہ نظر آ رہا ہے نہ ہی نئی نسل میں وہ ولولہ ہے۔ ان کے اذہان میں ملک اور اپنی قوم کے مستقبل کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات، روزمرہ زندگی میں درپیش مشکلات اور ان کی اُمنگوں کو کچل دینے والے سیاسی اور معاشرتی حالات، اس پاکستان سے تو کسی طور بھی میل نہیں کھاتے جس کا مطالبہ 23 مارچ 1940ء کو منظور ہونے والی قرارداد میں کیا گیا تھا۔
قرار دادِ پاکستان کے تین بنیادی نکات میں سے سب سے پہلے نکتے پر ہی غور کر لیں اور دل کی سچائی سے اس کا جائزے لیں تو ایک ہی امر واضح ہوتا ہے اور وہ یہ، کہ جو قرار داد اُس وقت منظور ہوئی تھی اُسے 76 سالوں میں ایک مذاق بنا کر رکھ دیا گیا۔ اُس منظوری میں ایک نامنظوری پناہ تھی، جس پر سے اب ایک ایک کر کے پردہ ہٹتا جا رہا ہے۔
قراردادِ پاکستان کے تین بنیادی نکات میں سے پہلا نکتہ تھا، ”ایک آزاد مسلم مملکت کا قیام۔‘‘ باقی دونوں نکات پر تنقیدی نگاہ ڈالنے اور آج کے پاکستان کی حالتِ زار کے پسِ منظر میں اس کی حقیقت کو تسلیم کرنا میں قارئین کی ثواب دید پر چھوڑتی ہوں مگر سب سے پہلے نکتے میں شامل تین اہم ترین الفاظ ”آزاد‘‘ ، ”مسلم‘‘ اور ”مملکت‘‘ ان تینوں کسوٹیوں پر آج کے پاکستان کو پرکھنے سے کیا حقیقت سامنے آتی ہے؟
آزاد: پاکستان آج ایک ایسی ریاست ہے جس کے اندرونی سیاسی معاملات سے لے کر خارجہ سیاست، سفارت کاری یہاں تک کہ ملکی سلامتی اور یکجہتی نیز عدلیہ جیسے اہم ترین شعبوں تک کی حیثیت کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں۔ دھاگے کہیں اور سے ہلائے جاتے ہیں اور اس قوم کی تقدیر کا دھارا بدل دیا جاتا ہے۔
مسلم: کیا اکثریتی باشندوں کے مسلمان ہونے اور ملک میں لاتعداد مساجد اور مدرسوں کی موجودگی اور انتہا پسندی کے فروغ کے لیے بڑی بڑی طاقتوں کے تعاون اور ان کے فراہم کردہ فنڈز پر چلنے والی کسی ریاست کو مسلم ریاست کہنا زیب دیتا ہے؟ مسلم ریاست کا بنیادی تصور تو ایک ایسی فلاحی ریاست ہوتا ہے، جہاں اکثریتی مسلم باشندوں کے ساتھ ساتھ تمام ادیان کے ماننے والے باشندوں کو تمام بنیادی حقوق بلاتفریق و امتیاز فراہم ہوں۔ جس ریاست میں کوئی بھوکا نہ سوئے، جہاں قانون کے سامنے سب برابر ہوں۔ خیر برابری کا معاملہ تو تب آتا، جب کسی ملک کا عدالتی نظام ہر چیز سے بالا تر ہو۔ یہاں تو عدالتی نظام کا یہ حال ہے کہ ملک اور قوم کے لیے اہم ترین فیصلے تک کرنے میں عدالت کے ہاتھ کانپ جاتے ہیں۔
پاکستان کی عدلیہ گزشتہ چند سالوں میں جتنا بڑا مذاق بن کر رہ گئی، اُس کے بعد اس کی آزادی اور فعالیت تو دور کی بات، اس کے بنیادی ڈھانچے پر ہی بڑے سوالیہ نشان لگے ہیں۔
ریاست: اس لفظ کی تعریف عموماً یہی ہے کہ ریاست سے مراد سیاسی طور پر ایک منظم ملک جو کم و بیش آزاد ہو اور اس کے قبضے اور تصرف میں ایک مستقل اور معین علاقہ ہوتا ہے۔ ریاست کا اولین فریضہ اپنی جغرافیائی حدود کا تحفظ اور عوام کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا اور ملکی اور قومی ترقی کے لیے پہلے سے موجود ذرائع کا مؤثر اور منصفانہ استعمال کر تے ہوئے ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامذن کرنا ہوتا ہے۔
پاکستان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس نہج پر چل پڑا اور موجودہ دور میں جن بڑے بڑے چیلنجز سے گزر رہا ہے، اُس کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 23 مارچ 1940ع ہو یا 14 اگست 1947ء کے بعد قائم ہونے والا جنوبی ایشیا کا یہ ملک اپنے وجود کو باوقار طریقے سے برقرار رکھنے اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر چلنے کے قابل نہیں رہا۔ اس سب کا ذمہ دار کون؟
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)