اسلم کولسری عجب شاعر تھا، سلگنا مسکرانا اور مسکرا کر سلگتے ہوئے دوبارہ شعر کہنا اس کا خاصا تھا، سانولی مالن کا پالن ہو، بچے کی ایک پیسے کی کہانی ہو، ماں کا بچے کی تعلیم کے لیے زیور بیچنا ہو یا ناانصافیوں پر جاگتے ضمیر کے مرنے کی دعا کرنا۔
کولسری معاشرے کے رِستے زخموں سے شاعری کشید کرتا تھا۔ رات گئے کولسری کا کلام ہم سفر تھا، ایک ایک شعر آپ بیتی اور اس کے فن کا اعتراف کر رہا تھا:
لاش کے پہلو سے چوری ہو گئے
ایک ٹوٹی سائیکل، خالی ٹِفن۔۔
ابھی اسی نوحے کی تاب لانے کی کوشش تھی کہ یاد آیا کہ اس نے اپنے ہاتھوں سے ایک شعر پر دائرے لگائے تھے اور کہا تھا اسے بھی محسوس کرنا، جب کبھی تنہائی اور تم اکٹھے کسی المیے کی زد میں ماتم کناں ہو، پوچھا کیوں؟ کہا تمہارا المیہ اور تمہاری تنہائی اس شعر کی نذر ہو جائے گی۔ شعر تھا:
دیوانی سی دیوانی ہے اندھی بڑھیا،
زخمی ہاتھ سے کار کا شیشہ صاف کیا ہے۔۔
آنکھوں میں نمی تیرنا شروع ہوئی تو کولسری کا کلام سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے لیمپ آف کیا۔ اسی اثنا میں چند برقی پیغامات سے موبائل فون کی روشنی اٹھتی دکھائی دی۔ پیغامات میں ایچی سن کالج کے پرنسپل اور مسز احد چیمہ کے بیچ ہوئی رام کہانی کی تفصیل موجود تھی۔
گورنر پنجاب کے احکامات تھے۔ پرنسپل کا استعفٰی تھا۔ آسٹریلوی نژاد پرنسپل مائیکل اے تھامسن کا استعفٰی ہمارے نظام کی قلعی کھول رہا تھا۔
اقربا پروری اور زور زبردستی کا نوحہ تھا۔ وہ گورنر پنجاب کی دھونس اور کالج کی ریت روایت کا بیڑہ غرق ہونے پر احتجاجاً مستعفی ہو رہا تھا۔
دوسری جانب جب گورنر کا تفصیلی پروانہ پڑھا تو معلوم ہوا کہ وزیراعظم کے چہیتے احد چیمہ، مسز احد چیمہ اور ان کے دو فرزندان ارجمند کی فیس معافی اور چھٹیوں کا معاملہ تھا جس پر گورنر کو حرکت میں آتے ہوئے اپنے اختیارات استعمال کرنا پڑے۔
مزید کھوج لگانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ بچوں کی فیس معافی کی درخواست احد چیمہ کی اہلیہ نے دی تھی۔ درخواست پر بورڈ آف گورنر کے کئی اجلاس ہوئے جس میں فیس معافی کی درخواست پر غور کیا گیا لیکن کوئی حتمی فیصلہ نہ ہو سکا۔
پھر گورنر پنجاب نے خود ایکشن لیا اور یہ درخواست منظور کرتے ہوئے ان کے دو بیٹوں کی فیس معاف کر دی۔ اطلاع ہے کہ اس فیصلے پر بورڈ آف گورنرز سے مشاورت کی گئی نہ ہی پرنسپل کو اعتماد میں لیا گیا بلکہ پرنسپل کو انتہائی جارحانہ لہجے میں معاملے کیے گئے پر فیصلے کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔
ایک صاحب جو ایک اہم ادارے سے ریٹائرڈ ہو چکے، وہ عین اسی وقت اسی پرنسپل کے دفتر میں موجود تھے۔ وہ اس ایک ٹیلی فون کی جارحیت کے عینی شاہد ہیں۔ یہ صاحب خود بھی اسی کالج میں پرنسپل کی سیٹ پر فرائض سر انجام دینے کے خواہاں تھے۔ یہ سب دیکھتے ہی انہوں نے اس خواہش سے توبہ کر لی۔ (خاکسار یہ تصدیق ان صاحب سے ہوئی گفتگو اور واقعے کا احوال سننے کے بعد کر رہا ہے۔)
محترمہ صائمہ احد البتہ اس مدعے پر کچھ اور رائے رکھتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ میں جون 2022 میں وفاقی حکومت میں ٹرانسفر ہوئی، اسی کارن انہوں نے دو بچوں کے لیے کالج سے چھٹی کی درخواست کی، پرنسپل نے اس مدعے کو مکمل فیس کی ادائیگی سے مشروط کیا۔ پھر گورنر کے سامنے مدعا رکھا۔ گورنرنے بورڈ آف گورنر سے معاملے کو دیکھنے کا کہا۔ یہاں سے ان کے بقول انہیں گرین سگنل ملا لیکن پرنسپل نے اس پر عمل درآمد کرنے سے انکار کیا۔
ان کے بقول ’پرنسپل نے ان کے اسی ایک مدعے پر علیحدہ سے معاملہ فہمی کرنے کا کہا تاکہ یہ رعایت مستقل پالیسی نہ بنے۔‘
مزید یہ کہ ’پرنسپل نے ایک بچے کا نام خارج کر دیا۔ گورنر دوبارہ حرکت میں آئے لیکن پرنسپل نے دوسرے بچے کا نام بھی خارج کر دیا۔ پرنسپل کو گورنر کی جانب سے بارہا کہا گیا لیکن انہوں نے اس پر پالیسی بنانے سے انکار کیا اور اب مستعفی ہو رہے ہیں حالانکہ ان کی میعاد بھی جلد ختم ہونے کو ہے۔‘
پرنسپل تھامسن اپنے استعفے میں البتہ جو بپتا بیان کرتے ہیں، وہ محترمہ صائمہ احد کے دعوؤں کی نفی کرتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک برس کے دوران گورنر کی جانب سے بارہا مداخلت کی وجہ سے ادارے کا نظم اور گورننس بری طرح مجروح ہوئے، اس سب کو دیکھتے ہوئے بالآخر انہیں اسٹینڈ لینا پڑا تاکہ ایک سنہری تاریخ کے حامل ادارے کے ہاں بے جا مداخلت اور بھونڈی ہدایات ناقابل عمل ہیں۔ ایک غیرملکی استاد یہاں صرف خلوص نیت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کا پہرہ دے رہا ہے اور ایسے میں وہ بھلا کیسے چل سکتا ہے، لہٰذا وہ یکم اپریل سے یہ عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
ایچی سن کالج کے پرنسپل کے حق میں طلبہ والدین اور ادارے کے خیرخواہ گورنر ہاوس کے سامنے احتجاج بھی کر چکے مگر ہیچ آرزو مندی۔
گورنر ہوں یا احد چیمہ یا سرکار، مسلسل اس بھونڈے ایکشن کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ملک کے ایک تعلیمی ادارے کی پالیسی میں تبدیلی لانے تک کی جانے والی کوششیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ہمارے بابو اپنے بچوں کی تعلیم اور سنہری مستقل کے لیے جس حد تک جا سکتے ہیں، اگر ایسی ہی کوشش اس ملک کے سب بچوں کے لیے کی جائے تو ہر شہر میں سرکاری تعلیمی ادارے ایچیسن کالج کے معیار تک پہنچ سکتے ہیں۔
اسلم کولسری کے ذکرِ خیر کے بعد اشرافیہ کی لڑائی کا اس قدر تفصیلاً ذکر کرتے ہوئے راقم خود بھی تھوڑی دیر کے لیے پریشان ہوا لیکن یہ سطریں تحریر کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ نہیں صاحب! اشرافیہ کی آواز میں دم ہے۔ جبھی تو ایک گورا پرنسپل مستعفی ہونے پر مجبور ہوا، جبھی تو 13 لاکھ سالانہ کی فیس تک معاف کروانے کی کوشش کامیاب ہوئی، جبھی تو پورا میڈیا تواتر کے ساتھ اس مدعے پر چرچا جاری رکھے ہوئے ہے۔ جبھی تو سوشل میڈیا ایچی سن ایچی سن پکارے جا رہا ہے۔
یہ کوئی گورنمنٹ ہائی اسکول راجن پور میں بجلی پانی اور کرسیوں کی عدم فراہمی یا گورنمنٹ پرائمری سکول کھاڑک لاہور میں اساتذہ کی عدم فراہمی کا مسئلہ ہے؟ یہ پرنسپل گورنمنٹ ہائی اسکول روات کے تبادلے کا مدعاہے یا موہلنوال لاہور کے ایک رکشہ ڈرائیور کے دو بچوں کی فیس معافی کا مدعا؟
نہیں صاحب! یہ اٹھارہ سو چھیاسی میں لیفٹینٹ گورنر پنجاب سر چارلس ایچی سن کے قائم کردہ ادارے کا مسئلہ ہے۔
اس ادارے کا مسئلہ ہے، جہاں سے ہماری اشرافیہ کے بچے تعلیم پاتے ہیں۔ جہاں وہاڑی کے دکاندار کا بچہ شاید داخل ہونے کے خواب ہی دیکھ لے تو غنیمت ہو۔
گورے نے تو بہرحال ایک بہترین ادارہ قائم کیا، اسی گورے نے جامعہ پنجاب کی بنیادیں رکھنے میں بھی کرادار ادا کیا۔ اسی گورے نے ہمیں ریلوے کا نظام دیا، بنیادی بیورکریسی فراہم کی، کئی اسپتال دیے، اور پھر؟ پھر ہم نے ان اداروں کی بھی چولیں ہلا کر رکھ دیں، کیوں؟ کیونکہ اب جج ہوں یا بیوروکریٹ، سیاستدان ہوں یا اہم ریاستی اداروں کے اعلٰی افسران، سبھی کے بچے کچھ دیر اعلٰی پرائیوٹ اداروں میں تعلیم اور صحت کی سہولیات پا لینے کے بعد امریکہ یا برطانیہ کا رخ کرتے ہیں۔ جب تک وطن عزیر میں جج اور لاٹ صاحب کے بچے گورنمنٹ اسکولوں میں تعلیم یافتہ تھے، اسکولوں میں تعلیم کا معیار بہتر تھا، ٹاٹ اسکولوں کے پڑھے بچے اسی لیے سی ایس ایس میں ٹاپ کرتے تھے، اسی لیے اعلٰی ترین عہدوں تک پہچنتے تھے لیکن پھر پرائیوٹ اداروں کا راج ہوا، اشرافیہ نے وہاں رخ کیا اور سرکاری اداروں سے رخ موڑ لیا۔ یہ ادارے اب تباہی کی داستانیں بیان کرتے ہیں۔
کولسری پھر یاد آیا؛
اہلِ دانش نے جہاں خار بچھائے دن بھر،
شام کے بعد وہیں رقص ہے دیوانے کا۔۔
بشکریہ اردو نیوز۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)