لڑائی جھگڑے میں اکثر کیا ہوتا ہے کہ بات ختم ہو جاتی ہے لیکن کوئی ایک بندہ صلح کے بعد اسے دوبارہ کریدنا شروع کر دیتا ہے۔
کریدنا مطلب جیسے آگ لگی، اب راکھ ہو گئی، شعلے وغیرہ بجھ گئے، ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا ہے اور آپ بیٹھ گئے دوبارہ ایک تنکا لے کے راکھ ادھر ادھر کرنے کہ آگ لگی کیوں تھی؟ اس میں ہوگا یہ کہ شعلے دوبارہ بھڑکنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
وہ جو بزرگ کہتے ہیں کہ مٹی پاؤ، مٹی پاؤ، وہ بھی دراصل یہی چکر ہوتا ہے کہ بابا جیسے تیسے بات ختم ہو گئی، اب جانے دو، اب مت چھیڑو۔
ہمارا دماغ اصل میں ہمیں سگنل دے رہا ہوتا ہے کہ یار بات ابھی ختم نہیں ہوئی، سامنے والی (یا والا) ناراض ہے اور بس ہمارا دل رکھنے کو، یا جان چھڑانے کو ایسے ظاہر کر رہا ہے کہ سب کچھ درست ہو گیا۔ آپس کی بات ہے، یہ سگنل ہوتا ٹھیک ہے لیکن اس کے پیچھے لگ کر مزید وضاحتیں دینا سوا ستیاناس کے چانس بہت بڑھا دیتا ہے۔
وقت کو موقع دیں کہ وہ چیزیں بہتر کرے، سامنے والے شخص کو خاموشی دیں، کہ وہ خود اگر کچھ پوچھنا چاہے تو پوچھ سکے یا اطمینان سے آگے بڑھے لیکن اپنے حصے کے الفاظ مزید استعمال مت کریں۔
کچھ وضاحتیں ہیں تو انہیں سنبھال لیں بچا لیں، انہوں نے اسی موضوع پہ کام آ جانا ہے لیکن بہت بعد میں کبھی۔۔۔ اِس وقت سامنے والا بندہ چڑ سکتا ہے اور آپ کی وضاحتوں کے اندر سے نئے سوال نکل سکتے ہیں، ایسے سوال کہ جن کا ایک غلط جواب پھر سے آپ کی کھٹیا کھڑی کر دے گا۔
ایک کیس یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ چپ رہنے والی پارٹی ہوں اور سوال دوبارہ سامنے سے شروع ہو جائیں۔ اس صورت میں بھی مختصر ترین جواب دیں، بہت زیادہ تفصیل میں ہرگز نہ جائیں۔ تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں، انسان اپنی قبر ہمیشہ زبان سے کھودتا ہے، باقی کسریں مقدر پوری کرتا ہے۔
معاملہ سمجھیے۔ ایک برا واقعہ ہو گیا۔ آپ لڑے، آپ نے صلح کر لی، بات بظاہر ختم ہو گئی۔ کیا آپ دوبارہ اس لمحے میں جانا چاہیں گے جب یہ پھڈا شروع ہوا تھا؟ کون جانا چاہے گا؟ تو لڑائی مُک جانے کے فوری بعد پھر سے کوئی بھی وضاحت یا سوال جواب آپ کو اسی جگہ پہ لا کے کھڑا کر سکتا ہے جہاں سے کہانی شروع ہوئی تھی، بولے تو سکوئر ون!
ایک مجبوری اور ہوتی ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ فرار پسند ہوتے ہیں، وہ کسی بھی طرح پریشانی نمٹا کے اس میں سے باہر نکلنا چاہتے ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ بھائی کسی طرح ایک بار سب کچھ نارمل ہو جائے اور زندگی عین وہیں سے شروع ہو جہاں پہلے کھڑی تھی۔
ان لوگوں کے آگے جب پھر سے کوئی سوال آتا ہے تو ان بیچاروں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ لو بھئی استاد، اب پھر تیل ہو گیا ایک ہفتہ۔ چاہے نہ ہو، لیکن وہ جو خوف ہوتا ہے نا، وہ ایسا ہوتا ہے جیسے آدمی کی کھال کوئی کھینچ رہا ہو، وہ نری اذیت ہوتی ہے ان کے لیے۔ ان کے لیے ویسے بھی دوبارہ تلخ کلامی کی تفصیلات میں جانا اسی طرح ہوتا ہے کہ جیسے خود شروع سے جھگڑا ری سٹارٹ کرنے کا بٹن دبانا۔
تو معافی اگر مل گئی ہے تو بعد میں پھر انسانوں کو ان کی طبیعت کے مطابق مارجن بھی ملنا چاہیے۔
ایک چیز یاد رکھیں۔ حق بات ہر بندے کی اپنی ہوتی ہے۔ آپ اگر سمجھتے ہیں کہ آپ دوسرے کی جگہ پہ کھڑے ہو کے سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور صورتحال آپ کو سمجھ آ رہی ہے تب بھی، آپ کا اینگل وہ نہیں ہو گا جو اس کا ہے، یعنی سچائی طے شدہ نہیں ہے۔ آپ کی سچائی کا دائرہ الگ ہے، اس کی سچائی علیحدہ دائرے میں ہے اور جس نکتے پہ آپ دونوں کی سچائیوں کے دائرے آپس میں چھو جائیں، قریب آ جائیں، عین وہ نکتہ صلح کہلاتا ہے۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام۔۔۔ اب اپنے اپنے دائروں میں جا کے دوبارہ وہاں سے کوئی بھی مال اٹھا لینا خطرناک ہو سکتا ہے، بات صرف یہی تھی کہ اس ملا دینے والے نکتے پہ ثابت قدمی سے کھڑے رہیں اور دنیا جہان کی دوسری کوئی بھی بات کر لیں یا نری خاموشی انجوائے کریں۔ اس وقت سب کچھ نعمت ہے!
آخری بات یہ کہ انسان معافی اسی سے مانگتا ہے، بلکہ دیتا بھی اسی کو ہے کہ جسے پاس رکھنا چاہتا ہے، جس کا دور جانا اسے کَھلتا ہے، اور وہ معافی بار بار مانگی یا دی جا سکتی ہے۔ دل بڑا رکھیں، مذاکرات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ایک معافی ان سب پہ بھاری ہوتی ہے۔
قبرستان جائیں، ہزاروں کتبے ہوں گے، ان پہ لکھے نام پڑھیں، یقین کریں کوئی ایک بندہ بھی ایسا نہیں ہو گا جس کے دل پہ مرتے وقت یہ بوجھ نہ ہو کہ فلاں وقت اگر میں معافی مانگ لیتا، یا فلاں وقت اگر میں معاف کر دیتا۔
زندگی محبت سے، معافی سے، پیار سے آگے بڑھتی ہے، اسے سوالوں کی کسوٹی پہ مت رکھیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)