ہر انسان اپنے آپ کو عقل مند تصور کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے فیصلے عقلی ہوتے ہیں۔ اُسے یہ لگتا ہے کہ جو بات اُس کے ذہن میں نمودار ہو گئی ہے، وہ انسانی تاریخ میں کبھی بھی کسی دوسرے انسانی ذہن میں پیدا نہیں ہوئی ہے۔ جن نتائج تک وہ پہنچ چکا ہے، وہ حتمی ہیں۔ اُس کے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات پتھر پر لکیر ہیں۔ انفس و آفاق کے تمام سربستہ راز اُسی کے زرخیز ذہین میں بے نقاب ہوئے ہیں۔ جو کچھ اُس کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ کبھی بھی کسی دوسرے انسان کے ساتھ نہیں ہوا۔۔ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
انسانوں کے فیصلے اُن داخلی و خارجی عوامل کے سبب وقوع پذیر ہوتے ہیں، جو اُن کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ ہماری جو کیفیت کسی مخصوص لمحے ہوتی ہے، ہم اس کے زیرِ اثر فیصلہ کر بیٹھتے ہیں۔ ہمارے جذبات بالعموم ہماری عقل کے حکمران ہوتے ہیں اور ہم سے وہ فیصلے بھی کرواتے ہیں، جو ساری زندگی ہمیں ناکوں چنے چبواتے ہیں۔ ’لمحوں نے خطا کی اور صدیوں نے سزا پائی‘ کا فرسودہ ریکارڈ ہماری انفرادی زندگی میں بھی چلتا ہے اور ہماری قومی زندگی کا بھی دھارا متعین کرتا ہے۔
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی کی ایک ادا پسند آ گئی اور دل ہار بیٹھے اور پیغامِ نکاح بھیج دیا۔ یہ فراموش کر دیا کہ شادی تو ساری کی ساری پیکج ڈیل کا نام ہے۔ مسکراتے ہوئے رخساروں پر ڈمپل پڑ جانا یقیناً ایک خوشگوار تاثر پیدا کرتا ہے لیکن وہ ازدواجی زندگی کی کامیابی کی گارنٹی نہیں ہے۔ ازدواجی زندگی کی گاڑی کو پوری آب و تاب سے رواں دواں رکھنے کے لئے دونوں جیون ساتھیوں کا نفسیاتی اعتبار سے صحت مند ہونا اولین شرط ہے۔ وسائل اگر ازدواجی زندگی کے اخراجات سے زیادہ نہ ہوئے تو محبت ہاتھوں کی میل ہی ثابت ہوتی ہے۔
انسانی دماغ کے متعلق جو ریسرچ کی گئی ہے، اُس سے یہ منکشف ہوا ہے کہ ہمیں دو ٹائپ کی فکری صلاحیتیں عطا ہوئی ہیں۔ ان میں صلاحیت نمبر ایک، ہمارے دماغ کی عمومی حالت ہے۔ اس میں ہم اپنے ماحول کو سرسری طور پر پر اسکین کرتے ہیں اور غور و فکر سے اجتناب کرتے ہیں۔ ’جو ہے، جیسا ہے‘ کی بنیاد پر اُسے قبول کر لیتے ہیں۔ ’کوئی جیسا ہے، ویسا کیوں ہے‘ کے متعلق سوال نہیں اُٹھاتے ہیں۔ پہلے تاثر کو ہی آخری تاثر سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ظاہر کو باطن کی تصویر سمجھنے کی غلطی کر جاتے ہیں۔ جھوٹے نگوں کی مینا کاری کو سچے فن کا خالص نمونہ قرار دے دیتے ہیں۔
ذہن کی عمومی حالت جو ہم پر تقریباً ہر وقت طاری رہتی ہے اُس میں ہم نتائج تک پہنچنے میں عجلت سے کام لیتے ہیں۔ دل دریا سمندروں ڈونگے میں غوطہ زنی کا ہمارے پاس عام طور پر وقت نہیں ہوتا۔ ہمیں تو بس لوگوں کو اور مختلف مظاہر کو اچھے اور برے کی تقسیم میں منقسم کرنے کی جلدی ہوتی ہے۔ ہم نے اپنے ذہن میں غور و فکر سے بچنے کے مینٹل شارٹ کٹ بنائے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر گورا ہے تو ذہانت کا پیکر ہوگا، کالا ہے تو دو نمبری کا اُستاد ہوگا، خاتون ہے تو اُس کو سات خون بھی معاف ہیں اور اگر مرد ہے تو پھر اُس کا کڑا احتساب ہوگا۔ انسانی ذہن اپنی عمومی حالت میں اپنے لیے آسانیاں ڈھونڈتا ہے۔ وہ پکی پکائی کھیر کھانے کا مشتاق ہے۔ پکانی پڑ جائے تو اُس کا حال خراب ہو جاتا ہے۔
انسانی ذہن کی یہ عمومی حالت کہانیوں کو خوب پسند کرتی ہے۔ اسی لیے دادیاں نانیاں سوتے وقت ہمیں کہانیاں سنا کر سلایا کرتی تھیں۔ کہیں کسی کہانی میں کوئی مِسنگ لِنک ہو تو ہم خود ہی اپنے تخیل کی پرواز کے زور پر کہانی کے خاکے میں اپنی مرضی کے سارے رنگ بھر لیتے ہیں۔ ہمارا کوئی یار اگر صنفِ نازک سے گفتگو کر رہا ہو تو ہم کہانی کو یہ کہہ کر مکمل کر لیتے ہیں کہ کوئی چکر چل رہا ہے۔ ہم اپنی زندگی کو بھی کہانی کی صورت دیکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی کہانی سناتے ہیں کیونکہ ہر کوئی اپنی کہانی کا ہیرو یا ہیروئن ہوتی ہے اور زمانہ اپنی کہانی کا ولن ہوتا ہے اور ہیرو آخر میں ہر رکاوٹ عبور کر کے اپنی فتح کا علم بلند کر دیتا ہے۔
جو قوم صرف قصہ کہانیوں کے ذریعے اپنا وقت گزارتی ہے اُس میں تحقیق کے الاؤ روشن نہیں سکتے۔ جس سماج میں علم الکلام کو فلسفہ سمجھا جائے وہاں پر قصیدہ گو تو پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن بال کی کھال اُتارنے والے باکمال نقادوں کا وجود ہمیشہ نایاب ہوتا ہے۔
پاکستانی قوم کو اگر اپنے زوال کو عروج سے بدلنا ہے تو پھر ہمیں اپنے دماغ وہ حصہ استعمال کرنا ہوگا، جو عموماً آرام فرما رہا ہوتا ہے اور صرف ایمرجنسی میں جاگتا ہے۔ ایمرجنسی یا کسی طرح کا کوئی بھی کرائسس (بحران) بہت بڑی نعمت ہے، کیونکہ یہ ہمارے دماغ کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے کا سبب بنتا ہے۔
پاکستان کو جو گوناگوں کرائسس لاحق ہیں، وہ درحقیقت ہمیں سنہری مواقع فراہم کر رہے ہیں کہ ہم اپنے دماغ کے اس حصے کو بروئے کار لے کر آئیں، جو پسوڑی میں کام نہیں کرتا بلکہ رک کر سوچتا ہے کہ یہ راستہ جس طرف جا رہا ہے، وہ کہیں ہمیں دلدل میں تو نہیں دھکیل دے گا۔۔ دماغ کا یہ حصہ بغاوت کی طرف نہیں بلکہ انقلاب کی جانب لے کر جاتا ہے۔ بغاوت میں باغی کا دماغ صرف انکار کرتا ہے لیکن اُس کے پاس کسی سوچے سمجھے منصوبے کا کوئی نقشہ نہیں ہوتا، جبکہ انقلاب میں سب سے پہلے فرد کے قلب میں کایا کلپ کی واردات گزرتی ہے۔ جس قلب میں ہوسِ اقتدار اور حبِ جاہ ہو وہ انقلابی نہیں بن سکتا البتہ موقع پرست کا خطاب ضرور حاصل کر سکتا ہے۔
قرآن حکیم مسلمانوں کو تفکر کی دعوت دیتا ہے اور ریسرچ سے حاصل ہونے والے علم کو عمل کی کی بنیاد بنانا چاہتا ہے۔ وہ اعمال حسنہ جو صرف تواتر کی سند رکھتے ہیں وہ قرآن حکیم کی نظر میں کُلی طور پر رسمی کارروائیاں ہیں جس سے تسلی تو ضرور ہو جاتی ہے لیکن انفرادی اور اجتماعی حالت نہیں بدلتی ہے۔
بشکریہ ہم سب۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)