گوادر کیوں ڈوبا اور کیا مستقبل میں بھی ڈوبے گا؟

جی ایم بلوچ

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں حالیہ بارشوں کے بعد ہونے والی تباہی نے 35 سالہ شاہ نواز اور ان کے چار کزنز کی زندگی یکسر بدل دی ہے۔

بارشوں کے دوران سمندر میں اٹھنے والی اونچی لہریں گوادر کے رہائشی علاقے بلوچ وارڈ میں داخل ہو گئی تھیں، جہاں کئی نسلوں سے ماہی گیری کرنے والے شاہ نواز کا خاندان بھی آباد ہے۔ بہت سے ماہی گیروں کی طرح ان کے خاندان کی چار چھوٹی کشتیاں سمندری لہروں کی نذر ہو گئیں۔

گوادر میں 27 فروری 2024 کو 16 گھنٹے تک بارش جاری رہی تھی۔ برسات کے باعث پیدا ہونے والی سیلابی صورتِ حال نے ساحل پر کھڑی ماہی گیروں کی متعدد کشتیاں ڈبو دی تھیں اور شہر میں نظامِ زندگی کئی دن مفلوج رہا تھا۔

شاہ نواز بتاتے ہیں کہ شدید بارشوں کے بعد ساحل کنارے بسا یہ شہر خود ایک جھیل کا منظر پیش کر رہا تھا جس میں راتوں رات ہر طرف بارش کا پانی جمع ہو گیا تھا۔

ان کے بقول جیسے جیسے سیلابی پانی کم ہوتا گیا، گوادر بھر سے ماہی گیروں اور دیگر شہریوں کے نقصانات کی کہانیاں ان تک پہنچیں اور انہیں اندازہ ہوا کہ شہر اور اس کے مضافات میں کتنی تباہی ہوئی ہے۔ کسی کا گھر تباہ ہوا تو کسی کی کشتیاں، انجن، جال، ایندھن اور دیگر ساز و سامان سیلاب اور سمندری لہروں کی نذر ہو گیا۔

گوادر میں حالیہ بارشوں کے بعد آنے والی تباہی نے سب سے زیادہ ماہی گیر کمیونٹی کو ہی متاثر کیا ہے۔

ماہی گیروں کی نمائندہ غیر سرکاری تنظیم پاکستان فشر فوک فورم کے مقامی نمائندوں کے مطابق گوادر کے ماہی گیروں کی 80 سے زائد چھوٹی کشتیاں مکمل طور پر ناکارہ ہوچکی ہیں جب کہ ایک درجن سے زائد لانچوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔

گوادر اور اس کے مضافات میں تقریبا 400 مکانات منہدم ہوئے اور سینکڑوں گھروں کو جزوی نقصان پہنچا۔

بارش کو ایک ماہ سے زائد وقت گزرنے کے باوجود سرکاری سطح پر گوادر میں ہونے والے نقصان کا درست تخمینہ سامنے نہیں آ سکا ہے۔ لیکن اس تباہی نے گوادر میں شہری منصوبہ بندی اور انفرا اسٹرکچر میں نکاسیٴ آب جیسے بنیادی نظام کے بارے میں کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔

بارشوں کا تبدیل ہوتا پیٹرن

گوادر بلوچی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے ’ہوا کا دروازہ‘۔ یہ پاکستان کے صوبے بلوچستان کی جنوبی ساحلی پٹی پر ہتھوڑا نما ایک جزیرہ ہے، جو دو خلیجوں کے درمیان واقع ہے۔ ان میں سے ایک خلیج دیمی زر اور دوسری پدی زر کہلاتی ہے۔

گوادر کی بندرگاہ مشرقی خلیج یعنی دیمی زر میں واقع ہے۔

پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی سے گوادر کا فاصلہ تقریباً 600 کلو میٹر ہے۔ گوادر ایران میں چاہ بہار اور بندر عباس کی بندرگاہوں کے بھی قریب ہے اور عمان کی بندرگاہ راس الحد سے اس کا فاصلہ تقریباً 320 کلومیٹر ہے۔

گوادر ابتدائی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں تھا بلکہ یہ علاقہ سلطنتِ عمان کے کنٹرول میں تھا۔ سال 1954 میں امریکن جیولوجیکل سروے کی ایک رپورٹ میں گوادر بندرگاہ کو ڈیپ سی پورٹ قرار دیا گیا تھا۔

بعد ازآں پاکستان کے وزیر اعظم فیروز خان نون کے دورِ حکومت میں 1958 میں عمان کے سلطان سعید بن تیمور سے ہونے والے ایک معاہدے کے تحت اولڈ سٹی گوادر کا انتظامی کنٹرول پاکستان نے حاصل کر لیا تھا۔

انتھروپولوجی اور آرکیالوجی امور کے ماہر محمد سلیم کے مطابق گوادر جغرافیائی، تاریخی اور اقتصادی طور پر خطۂ مکران کا حصہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گوادر میں انسانی آبادکاری کے آثار تقریباً 400 سال پرانے ہیں۔

گوادر کی بڑی آبادی نسلی اعتبار سے بلوچ ہے جو رند و لاشار شاخوں سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں سے ہوت، جت، گورگیج، کلمتی، دشتی، جدگال، آسکانی، سنگھور اور گچکی شامل ہیں۔

گوادر سے تعلق رکھنے والے ماحولیات کے ماہر اور ہائیڈرولوجسٹ پذیر احمد کا کہنا ہے کہ اس علاقے کی آب و ہوا خشک ہے۔ علاقے میں زیادہ تر بارش موسمِ سرما میں ہوتی ہے اور ایک سیزن میں زیادہ سے زیادہ 100 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ ہوئی ہے۔

پاکستان کے محکمۂ موسمیات (پی ایم ڈی) کے مطابق فروری کے آخر میں گوادر میں دو دنوں کے دوران 183 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوئی تھی جس نے روز مرہ زندگی کو مفلوج کر دیا۔

کیا صرف زیادہ بارش ہی گوادر کے ڈوبنے کی وجہ بنی؟

ماہرِ تعلیم خدا بخش ہاشم تقریباً 75 برس سے گوادر میں مقیم ہیں اور انہوں نے یہاں ہونے والی تبدیلیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ خدا بخش بتاتے ہیں کہ جزیرہ نما گوادر 1950 کی دہائی سے قبل اپنی نوعیت کا نخلستان تھا۔ مغرب میں واقع کوہِ باتیل سے جاری ہونے والی برساتی آبشاریں کھجور کے باغات اور زرعی اراضی کی آبیاری کرتی تھیں۔

ان کے بقول اس زمانے میں برساتی ریلے چھوٹے بڑے کھیت کھلیان کو سیراب کرتے ہوئے مغرب کی طرف سے سمندر میں گر جاتے تھے۔ سن 1950 کے بعد شہری آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ گرین بیلٹ محدود ہونا شروع ہو گیا اور گوادر پورٹ اتھارٹی کی تشکیل کے بعد زرعی اراضی کو بندرگاہ میں ضم کر دیا گیا۔

خدا بخش ہاشم کے بقول گوادر پورٹ میں توسیع، اس کے اطراف شاہراہوں کی تعمیر، پانی کی قدرتی گزرگاہوں کے راستے میں تعمیرات اور ڈیموگرافی میں تبدیلی نے علاقے میں نکاسیٔ آب کے فطری نظام کو غیر فعال کر دیا ہے۔

ہائیڈرولوجسٹ پذیر احمد کے مطابق گوادر کے شمالی پہاڑی علاقے میں عارضی ندیاں ہیں جو زیادہ تر برسات میں ہی فعال ہوتی ہیں۔

ان برساتی ندیوں میں جک، لورا، پسُو، پلیری،آنکڑا، گٹی، شاداد، سُر، برامبا، کارواٹ اور دربیلا نامی ندیاں شامل ہیںجو بحیرۂ عرب میں گرتی ہیں۔ یہی ندیاں گوادر سے نکاسیٔ آب کا قدرتی نظام تشکیل دیتی ہیں۔

ضلع گوادر کی دیہی ساحلی بیلٹ سطحِ سمندر سے نیچے ہے جس کی وجہ سے یہاں پانی تیزی سے جمع ہوتا ہے اور تیز بارشوں کی صورت میں سیلابی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

ڈویلپمنٹ اینڈ پالیسی امور کے ماہر رفیع کاکڑ کے مطابق گوادر کے ڈوبنے کی اہم وجہ موسمیاتی تبدیلی تو ہے لیکن اس میں اربن پلاننگ اور گورننس کی ناکامی کا کردار زیادہ ہے۔

وہ گوادر میں جاری ترقیاتی پراجیکٹس میں جامع منصوبہ بندی کی کمی کو سیلابی صورتِ حال کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں۔

رفیع کاکڑ کا کہنا ہے کہ گوادر کے مشرقی ایکسپریس وے پر جسے ایسٹ بے ایکسپریس وے کا نام دیا گیا ہے، مقامی ماہرین اور سول سوسائٹی کو تحفظات تھے کہ یہ منصوبہ مقامی ماہی گیروں کی سمندر تک رسائی میں رکاوٹ پیدا کرے گا۔ ان کے بقول یہ خدشات اب درست ثابت ہو رہے ہیں۔

رفیع کاکڑ کا کہنا تھا کہ ایسٹ بے ایکسپریس وے نے ماہی گیروں کی سمندر تک رسائی کو روکنے کے ساتھ ساتھ گوادر شہر کے نکاسیٔ آب کے نظام کو کئی مقامات پر تنگ اور کئی جگہوں سے بلاک کر دیا ہے۔

لیکن پذیر احمد کا ماننا ہے کہ جب تک سائنٹیفک بنیادوں پر اس بات کا جائزہ نہ لیا جائے کہ ایسٹرن ہائی وے نے قدرتی آبی گزرگاہوں کو کہاں اور کیسے بلاک کیا ہے، تب تک نہ یہ مسئلہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس کا حل ممکن ہے۔

مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایسٹ بے ایکسپریس وے پر پانی کی قدرتی گزرگاہوں کے راستے چھوڑے گئے ہیں۔ لیکن مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ بہت سے واٹر ویز بلاک بھی ہوئے ہیں۔

گوادر کے امور کے ماہر ناصر رحیم سہرابی رفیع کاکڑ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ شہر بد انتظامی، منصوبہ بندی کے مسائل اور مقامی لوگوں کی رائے کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ڈوبا۔ ان کے بقول یہاں ماضی میں اس سے زیادہ بارشیں ہوتی رہی ہیں مگر برساتی پانی مشرقی اور مغربی ساحل کی طرف بہہ کر نکل جاتا تھا۔

ناصر رحیم کا کہنا تھا کہ گوادر کی مقامی آبادیوں کو منصوبہ بندی میں اہمیت نہیں دی گئی اور شہری سہولتوں کو بہتر بنانا منصوبہ سازوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔

اس بارے میں گوادر میونسپل کمیٹی کے سابق چیئرمین بابو گلاب کہتے ہیں کہ پرانے شہر میں آبادی کے اندر جو آبی گزرگاہیں تھیں انہیں مینیج نہیں کیا گیا۔ نکاسی آب کا قدرتی نظام متاثر ہونے کی وجہ سے برساتی پانی گھروں میں داخل ہوا۔ ان کے بقول اگر بارشوں کے دوران یا فوری بعد بروقت پمپنگ بھی کر دی جاتی تو نقصانات کو کم کیا جا سکتا تھا۔

لیکن گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کے ترجمان حفیظ اللہ اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ بارشوں سے زیادہ تر پرانی آبادی متاثر ہوئی ہے جہاں جی ڈی اے نے ابھی تک کام مکمل نہیں کیا ہے۔ ان کے بقول اس وقت جی ڈی اے کی سیوریج لائن اور ڈرین پرانی آبادی کے صرف 30 فی صد حصے کو کور کرتی ہے۔

حفیظ اللہ کہتے ہیں کہ گوادر کا پرانا شہر پہاڑ کے دامن میں واقع ہے جسے دو اطراف سے سمندر نے گھیرا ہوا ہے۔ پرانی آبادی سطحِ سمندر سے نیچے ایسے علاقے میں واقع ہے جو پیالے کی طرح ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پرانی آبادی کی تنگ گلیوں، خستہ حال عمارتوں اور گنجان آبادی کی وجہ سے پانی کی بروقت نکاسی نہیں ہو سکی تھی۔ یہ تیکنیکی طور پر بھی آسان کام نہیں تھا۔ تاہم جی ڈی اے اس چیلنج سے مقابلے کی کوشش کر رہی ہے۔

ترجمان جی ڈی اے کا کہنا تھا کہ اتھارٹی ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت کام کر رہی ہے تاکہ مستقبل میں شہر کو ڈرینج اور سیوریج جیسے مسائل کا سامنا نہ ہو۔ ان کے بقول جی ڈی اے کی ڈیزائن کردہ نئی آبادی اور دیگر تعمیرات حالیہ طوفانی بارشوں سے محفوظ رہی ہیں۔

بندرگاہ کی تعمیر

گوادر میں پہلی بار بندرگاہ تیار کرنے کی کوشش 1988 میں کی گئی تھی جب بیلجیئم کی ایک کمپنی کو ’فش ہاربر کم منی پورٹ‘ بنانے کا کام سونپا گیا تھا۔ یہ کام سن 1992 میں مکمل ہوا۔

ناصر رحیم سہرابی کے مطابق گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) سال 2000 میں تشکیل پائی۔ جی ڈی اے کے قیام کے ساتھ ہی مقامی ماہی گیروں کے لیے پشوکان اور سربندر میں دو جیٹیاں تعمیر کر کے شہری ترقیاتی منصوبوں کا بھی آغاز کیا گیا۔

پورٹ کے انفراسٹرکچر کی تعمیرات 2002 سے 2005 تک ہوئیں جس کے بعد 2006 میں اسے سنگاپور کے سپرد کر دیا گیا تھا۔

ڈیپ سی پورٹ کو سنگاپور کے حوالے کرنے سے قبل 2006 میں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے شہر کا ماسٹر پلان تشکیل دیا تھا جس میں موجودہ جاوید کمپلیکس سے دامنِ کوہ ملا بند وارڈ کے درمیان واقع پٹی کا علاقہ شامل تھا جسے اولڈ گوادر کہا جاتا ہے۔

اولڈ گوادر کو ساحل سے 30 کلومیٹر دور شمال مغرب کی جانب منتقل کر کے خالی ہونے والی اراضی کو پورٹ سے متصل کمرشل زون قرار دینا پلان کا اہم جزو تھا۔

اس فیصلے پر عوامی ردِ عمل سامنے آیا اور ساتھ ہی گوادر سمیت بلوچستان بھر میں اس کی مخالفت کی گئی۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں تشکیل پانے والی مقامی حکومتوں نے تحصیل و ضلعی سطح کے ایوانوں میں قرارداد پیش کر کے بھاری اکثریت سے اس ماسٹر پلان کو رد کردیا تھا۔

ناصر رحیم سہرابی بتاتے ہیں کہ 2013 میں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اس ماسٹر پلان میں ترمیم کرکے اولڈ گوادر کو منتقل نہ کرنے کی یقین دہائی کرائی گئی تھی۔ سال 2015 میں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے آغاز کے بعد گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اولڈ گوادر سے متعلق کئی ترقیاتی منصوبوں کا بھی اعلان کیا تھا۔

سی پیک سے گوادر میں کیا تبدیلی آئی؟

سی پیک کے آغاز کے بعد 2019 میں گوادر کے ماسٹر پلان میں چین کی تیکنیکی معاونت سے تبدیلیاں کی گئیں۔ سی پیک ماسٹر پلان میں اولڈ گوادر کو برقرار رکھتے ہوئے پرانے شہر اور قدیم آثار کو بھی ترقیاتی منصوبوں میں شامل کیا گیا۔

گوادر میں ترقیاتی منصوبوں کے آغاز کے ساتھ ہی علاقے میں ڈیموگرافک تبدیلیاں بھی شروع ہو گئی تھیں۔ شہر کے ارد گرد کئی نئے صنعتی زونز اور ہاؤسنگ پراجیکٹس شروع ہوئے جن کی وجہ سے کئی نئی شاہراہیں بھی تعمیر ہوئیں۔ ساتھ ہی گوادر میں واقع چینی اداروں نے اپنی حدود میں خود ہی ترقیاتی تعمیرات کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ ان تمام تعمیراتی منصوبوں نے بھی شہر کی پلاننگ اور پرانے انفراسٹرکچر پر اثر ڈالا۔

ناصر رحیم سہرابی کہتے ہیں کہ سی پیک کا سب سے اہم منصوبہ ایکسپریس وے ہے جو ایسٹ بے سے متصل ہے۔ لیکن اس منصوبے سے گوادر کی شہری آبادی کو براہِ راست فائدہ نہیں ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ ایکسپریس وے گوادر ڈیپ سی پورٹ کو ملک کے دیگر حصوں سے جوڑنے کے لیے مکران کوسٹل ہائی وے سے ملاتا ہے۔ تاہم اس سڑک نے مشرقی ساحل تک مقامی ماہی گیر کمیونٹی کی رسائی ختم کر دی ہے۔

ان کے بقول اس ایکسپریس وے کی وجہ سے جہاں ماہی گیر اپنی ایک قدیم شکار گاہ سے محروم ہو گئے ہیں، وہیں گوادر میں برساتی پانی کی نکاسی کی قدرتی گزرگاہوں کا متحرک نظام بھی بلاک ہو گیا ہے۔

مستقبل کا ماسٹر پلان کیا ہے؟

چین کے اقتصادی منصوبوں پر پی ایچ ڈی کرنے والے رستم علی کا کہنا ہے کہ سی پیک سے وابستہ گوادر کے ماسٹر پلان کا دائرۂ کار 1202 کلو میٹر پر مشتمل علاقے کے لیے ہے۔ 800 صفحات پر مشتمل یہ ماسٹر پلان ایک چینی کنسلٹنٹ کمپنی ’فورتھ ہاربر انجینئرنگ‘ نے تیار کیا ہے۔

نیا ماسٹر پلان 40 لاکھ ڈالر کی چینی امداد سے تیار کیا گیا تھا جس کی زمینی حدود کا آغاز کارواٹ سے ہوتا ہے اور یہ پشوکان میں واقع مائبر پر اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔

ماسٹر پلان میں زیادہ تنخواہ والی نوکریاں، ٹیکس فری ماحول، ہائی ٹیک انڈسٹریز، میگا شاپنگ مالز، لگژری ریزورٹس، انسانوں کے بنائے ہوئے جزیرے اور پاکستان کا سب سے بڑا جدید بین الاقوامی ہوائی اڈہ شامل ہے۔

ماسٹر پلان کے مطابق گوادر کی آبادی مستقبل میں 20 لاکھ افراد سے تجاوز کر جائے گی جس میں اندازاً 80 فی صد اعلیٰ تنخواہ دار غیر ملکی پیشہ ور افراد ہوں گے۔

گوادر کے نئے ماسٹر پلان کے مطابق گوادر کو 2025 تک 15,800 نئے گھر، 2030 تک 47,600 اور 2050 تک 254,500 نئے مکانات کی ضرورت ہوگی۔

اس پلان میں اعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعتیں، مصنوعی جزیرے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے پارکس، ایکسپو سینٹرز اور پاکستان کا پہلا ‘ہتھیاروں سے پاک’ شہر جیسے منصوبے بھی شامل ہیں۔

ایک تخمینے کے مطابق اس پلان پر عمل درآمد کے نتیجے میں گوادر کی اقتصادی پیداوار 30 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کے ترجمان حفیظ اللہ کے مطابق گوادر کو موسمی شدت سے محفوظ رکھنے کے لیے ‘آئی یو سی این پاکستان’ نامی غیر سرکاری ادارے کے تعاون سے پشکان اور شاھبی کریکز میں مینگرووز کے پودوں کی کاشت کے منصوبے پر کام جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماسٹر پلان والے علاقوں میں گرین پارکس اور شاہراہوں کے کنارے شجر کاری، تیز سمندری لہروں اور طوفانی خطرات کے پیش نظر کشتیوں کی محفوظ لنگر اندازی کے لیے گودیوں اور حفاظتی دیوار کی تعمیر جی ڈی اے کی ترجیحات میں شامل ہیں۔

سمندر کی بڑھتی سطح کتنا بڑا چیلنج ہے؟

حکومتِ بلوچستان نے کچھ اداروں کے اشتراک سے دسمبر 2023 میں ایک جائزہ رپورٹ مکمل کی تھی جس کے مطابق اگلے 75 برس کے دوران گوادر میں سطحِ سمندر میں 0.44 سے 1.03 میٹر تک اضافے کا امکان ہے۔

اس رپورٹ کی تیاری میں سعودی سوسائٹی برائے جیو سائنسز اینڈ اسپرنگر نیچر سوئٹزر لینڈ، یونی ورسٹی آف کراچی کے شعبۂ ارضیات اور صوبائی محکمۂ آب پاشی اور مانیٹرنگ ڈائریکٹوریٹ شامل تھے۔

رپورٹ کے مطابق گوادر میں مستقبل میں آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے یہاں ہائیڈرولوجیکل سائیکل اور پانی کی دستیابی پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سطحِ سمندر میں اضافے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سمندری پانی کی دخل اندازی نہ صرف گوادر میں ترقی کے عمل کو روکنے کا باعث بنے گی بلکہ موجودہ مقامی آبادی کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔

سطحِ سمندر میں اضافے کے ساتھ ساتھ گوادر کے جغرافیے کی وجہ سے بھی اس کے چیلنجز کافی سنگین ہیں۔ گوادر ایک پیالے کی شکل میں ہے اور پرانی آبادی نشیبی علاقوں میں واقع ہے۔

پذیر احمد کا کہنا ہے کہ ان کے مشاہدے کے مطابق قحط سالی کے دوران سمندری پانی دریائے دشت میں 500 میٹر یا زیادہ سے زیادہ ایک کلومیٹر تک داخل ہو جاتا تھا۔ موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ جب دریائی پانی سمندر میں گرتا ہے تو ردِعمل میں سمندری پانی 22 سے 25 کلومیٹر تک دریائے دشت سے گوادر کے اندر داخل ہو جاتا ہے۔

ان کے بقول اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سمندر کس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

پذیر احمد کے نزدیک بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ موسمی تبدیلی اس کے محرکات ہیں۔ لیکن وہ کسی منصوبہ بندی کے بغیر ہونے والی تعمیرات کو بھی اس کے بنیادی اسباب میں شمار کرتے ہیں۔

طوفان کے بعد۔۔۔

گزشتہ ماہ ہونے والی بارش سے تباہی کے بعد گوادر شہر بحالی کی طرف اپنا مشکل سفر شروع کر چکا ہے۔

شاہ نواز سمیت دیگر شہریوں پر حالیہ سیلاب نے نفسیاتی سماجی اور معاشی اثرات مرتب کیے ہیں۔ لیکن وہ اب دوبارہ اپنی زندگیوں کی تعمیرِ نو کی جانب لوٹ رہے ہیں۔

افراتفری اور تباہی کے ماحول میں ہمدردی اور یک جہتی کی کہانیاں بھی ابھری ہیں۔ اس دوران بلوچستان سمیت پاکستان کے اندر اور باہر سے یہاں مدد بھی پہنچی ہے۔

گوادر کے رہائشی سخی داد کہتے ہیں کہ مکران کی ساحلی پٹی پر آباد ماہی گیروں میں ایک قول عام ہے کہ جو منہ زور طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہیں وہ زیادہ قوت سے راستے ہموار کرتے ہیں۔

بشکریہ: وائس آف امریکہ اردو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close