موبائل کی لت مبتلا تیرہ سالہ بیٹی، جو اپنے والدین کو مارنے کی کوشش کرتی ہے۔۔

ویب ڈیسک

یہ سات جون 2023 کی بات ہے۔ بھارت کے شہر احمد آباد کے رہائشی چھپن سالہ شخص نے گجرات حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی 181 ہیلپ لائن ’ابھیام‘ پر مدد کے لیے فون کیا اور مدد کی درخواست کی

انہوں نے فون پر جو معاملہ بیان کیا، وہ کسی کے بھی ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا

مذکورہ شخص نے بتایا کہ ان کی تیرہ سالہ بیٹی یوٹیوب پر ہر وقت قتل کی وڈیوز دیکھ کر انہیں قتل کرنے کے درپے ہے

ان کا کہنا تھا ”بیٹی نے ہمیں (والدین کو) قتل کرنے کی سازش کرنا شروع کر دی تھی۔ وہ چائے بنانے کے لیے کچن میں رکھے چینی کے ڈبے میں دوائی ملانے لگی، روزانہ صبح جب ہمیں باتھ روم جانا ہوتا تو اس سے قبل وہ باتھ روم میں پھسلنے والی چیزیں پھینکنے لگی، وہ یوٹیوب پر ہر وقت قتل کی وڈیوز دیکھا کرتی“

انھوں نے مدد کی درخواست کرتے ہوئے کہا ”میرے گھر کی حالت ٹھیک نہیں ہے، میری بیٹی کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے، آپ آ کر اس کی کونسلنگ کریں“

یہ کال ملتے ہی 181 ہیلپ لائن ’ابھیام‘ کے اہلکار والد کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ گئے۔ سب سے پہلے انہوں نے والدین سے ان کے بارے میں معلومات حاصل کیں، جس میں معلوم ہوا کہ اُن کی شادی کو چھبیس سال ہو چکے ہیں

شوہر کی عمر چھپن سال تھی جبکہ ان کی اہلیہ چھیالیس سال کی ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں۔ بیٹی کی عمر تیرہ سال ہے، جبکہ بیٹے کی عمر سات سال ہے۔ ان کی شادی شدہ زندگی کے طویل عرصے کے بعد ان کے گھر پہلے بیٹی کی پیدائش ہوئی اور بیٹی کی پیدائش کے پانچ سال بعد بیٹا پیدا ہوا

181 ہیلپ لائن کی کونسلر فالگونی پٹیل کے مطابق: کونسلنگ کے دوران والد نے بتایا کہ ’جب ہمارا پہلا بچہ ہمارے گھر آیا تو ہم بہت خوش تھے۔ لیکن اب ہمیں لگتا ہے کہ ہم بے اولاد ہی ٹھیک تھے۔ ہماری ایک تیرہ سالہ بیٹی ہے، جو ہر روز ہماری تذلیل کرتی ہے۔ ہمارا کہا نہیں مانتی۔ رات بھر جاگتی ہے، دوپہر بارہ بجے بیدار ہوتی ہے، سارا دن ٹی وی دیکھتی ہے، بغیر بتائے باہر چلی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر ہمیں قتل کرنے کی دھمکی دیتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اسے گھر میں کوئی نہیں چاہیے۔ وہ اکیلی رہنا چاہتی ہے۔ وہ گذشتہ چار ماہ سے اسکول نہیں جا رہی ہے۔ وہ اس وقت ساتویں جماعت میں ہے۔ اتنی چھوٹی عمر میں بری صحبت میں پھنس گئی۔‘

والد نے بتایا ’جب لاک ڈاؤن ہوا تو آن لائن تعلیم ہونے لگی اور آن لائن تعلیم کی وجہ سے میں نے اپنی بیٹی کو سمارٹ فون دے دیا‘

اپنی بیٹی کی حالت کے بارے میں انہوں نے فالگونی پٹیل کو مزید بتایا ’سوشل میڈیا کے دور میں، میری بیٹی بری صحبت میں پھنس گئی ہے۔ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف لڑکوں سے بات کرتی ہے۔ چھپ چھپ کر لڑکوں سے ملنے بھی جاتی ہے۔ ہم سے بہت کچھ چھپاتی ہے۔ بہت سی چیزیں جو اس نے سیکھی ہیں، وہ سیکھنے کے لیے نہیں۔ جب ہمیں اس بات کا علم ہوا تو میری بیوی نے اپنی بیٹی سے سمارٹ فون لے لیا۔ آج دو ماہ سے اس کے پاس فون نہیں ہے۔ فون چھینے جانے کے بعد، اس نے گھر میں کھلے عام ہمیں دھمکیاں دینا شروع کر دیں اور ہمیں مارنے کی سازشیں کرنا شروع کر دیں‘

والد نے 7 جون سنہ 2023 کے دن کا ذکر کرتے ہوئے کونسلر کو بتایا: ’اس نے کچن میں رکھے چینی کے ڈبے میں چینی کے ساتھ (زہریلی) دوا ملا دی، ہر صبح جب مجھے باتھ روم جانا ہوتا ہے تو وہ باتھ روم میں مائع پھینک دیتی ہے۔ ہماری بیٹی، یو ٹیوب پر قتل کی وڈیوز دیکھتی ہے، پتہ نہیں کہاں سے سو اور پانچ سو کے کرنسی نوٹوں کے بنڈل لاتی ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ اسے کون پیسے دیتا ہے‘

انھوں نے مزید کہا: ’اگر ہم اسے گھر سے باہر نکلنے سے روکتے ہیں تو وہ گھر کی چیزیں توڑنے پھوڑنے لگتی ہے۔ میرے سات سالہ بیٹے کو مارتی ہے۔ ہم آس پاس کے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے خوف سے اس بارے میں کچھ نہیں کہتے۔ ہم نے بیٹی کو باہر جانے دیا۔ ہماری بیٹی کہتی ہے کہ وہ اپنی سہیلی کے گھر جا رہی ہے۔ پانچ چھ گھنٹے بعد گھر لوٹتی۔ ہماری بیٹی کہتی ہے تم یہ گھر میرے نام کر دو۔ تم سب خودکشی کرو اور مر جاؤ۔ میں یہ گھر بیچ کر بیرون ملک شفٹ ہونا چاہتی ہوں‘

فالگونی پٹیل کہتی ہیں کہ یہ سب بتاتے ہوئے لڑکی کے والد 181 ٹیم کے سامنے رونے لگے

لڑکی کی والدہ نے ’ابھیام’ ٹیم سے درخواست کرتے ہوئے کہا ’آپ کچھ بھی کریں، میری بیٹی کی کونسلنگ کریں اور ہمیں بتائیں کہ وہ کیا سوچتی ہے اور وہ کیا کرنا چاہتی ہے‘

ابھیام کی ٹیم کو تیرہ سالہ نوعمر لڑکی کی کاؤنسلنگ کرتے ہوئے پتہ چلا کہ وہ پچھلے دو سال سے ایک لڑکے سے ’محبت‘ کر رہی ہے، اس کی ملاقات سوشل میڈیا سائٹ انسٹاگرام ایپ کے ذریعے ہوئی۔ ایپ پر اس کے تیرہ سے چودہ مختلف اکاؤنٹس ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے لڑکے کے ساتھ رابطے میں ہے۔ اسے جنسی تعلقات سے متعلق تمام چیزوں کی ’سمجھ‘ ہے

’اس نے کونسلنگ کے دوران کہا کہ میں اس لڑکے کو اپنی مرضی سے بلا لیتی تھی۔ میں اپنی سہیلی کے گھر جانے کے بہانے اس سے ملنے جاتی۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ مجھے یہ سب نہیں کرنا چاہیے‘

’جب سے مجھے موبائل ملا، مجھے سب کچھ معلوم ہونا شروع ہو گیا۔ میرے اسکول اور میری سوسائٹی میں میرے محلے میں رہنے والی لڑکیوں نے مجھے اس بارے میں مشورے دیے اور سمجھایا۔ اس کی بنیاد پر میں نے لڑکے کے ساتھ ‘محبت’ کا معاملہ آگے بڑھایا‘

ہیلپ لائن ٹیم نے بتایا ”کونسلنگ کے دوران تیرہ سالہ لڑکی نے اپنی سہیلی کے بارے میں بتایا۔ تو ہیلپ لائن ٹیم نے پڑوس سے اس کی دوست کو بلایا۔ اس کی دوست نے کہا کہ وہ لڑکی ایک لڑکے کے ساتھ تعلق میں ہے۔ دو تین سال پہلے وہ اس کے ساتھ رومانی تعلق میں تھا پھر ان کا بریک اپ ہو گیا اور پھر وہ لڑکا اس تیرہ سالہ لڑکی کے ساتھ تعلق میں آ گیا“

181 ٹیم کے ذریعہ دونوں نابالغوں کی کونسلنگ کے دوران پتہ چلا کہ دونوں لڑکیاں ایک انیس سالہ لڑکے سے رابطے میں ہیں، جو انہی کے پڑوس میں رہتا ہے۔ 181 کی ٹیم نے لڑکے کی شناخت حاصل کی اور اسے کونسلنگ کے لیے بلایا۔ اس لڑکے کی کونسلنگ کے دوران پتہ چلا کہ اس کے دونوں لڑکیوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ دونوں لڑکیوں کو غلط طور پر اکسایا جا رہا تھا

ان تمام تفصیلات کے سامنے آنے کے بعد ان تینوں کی 181 ٹیم نے ایک ساتھ کونسلنگ کی۔ تینوں کی کونسلنگ کے بعد انہوں نے اپنی غلطی مان لی اور والدین سے معافی مانگی

اس نے اپنے والدین کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ آج کے بعد ایسی غلطی کبھی نہیں کریں گے۔ کہا گیا کہ وہ موبائل فون بھی ہم سے واپس لے سکتے ہیں۔ بیٹی کی سہیلی نے بھی تیرہ سالہ بیٹی کے والدین سے معافی مانگی۔ تیرہ سالہ بیٹی نے معافی مانگتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ اپنی پڑھائی پر پوری توجہ دے گی اور کبھی ضد نہیں کرے گی۔ اس نے والدین کو یقین دلایا کہ وہ انھیں جسمانی نقصان نہیں پہنچائے گی

ایسا ہی ایک اور واقعہ حال ہی میں پیش آیا۔ 9 جون سنہ 2023 کو احمد آباد کے منی نگر علاقے کی ایک 20 سالہ لڑکی کے سرپرست نے 181 مہیلا ابھیام ہیلپ لائن پر کال کی۔ ہیلپ لائن کو بیٹی کے محفوظ مستقبل کے لیے اور انھیں اپنی پڑھائی کے لیے سنجیدہ ہونے پر راضی کرنے کے لیے فون کیا گیا تھا

181 کی ٹیم نے اس واقعے کے بارے میں یہ بھی بتایا کہ ’مایا (فرضی نام) کی عمر بیس سال ہے، بی اے کے تیسرے سال میں پڑھتی ہے۔ لڑکی کو موبائل کا جنون ہے، سارا دن موبائل یا لیپ ٹاپ نہیں چھوڑتی۔ کالج نہیں جاتی۔ پڑھائی اور کالج کا نام لے کر گھر سے نکلتی ہے اور دوستوں کے ساتھ دن بھر کہیں گھومتی ہے۔‘

’وہ سوشل میڈیا پر مختلف آئی ڈی بنا کر لوگوں سے بات کرتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشتعل ہو جاتی ہے۔ کسی کی نہیں سنتی۔ اس کا گذشتہ چھ ماہ سے افیئر چل رہا تھا۔ اس نے موبائل میں اپنی فحش وڈیوز بنا کر اپنے بوائے فرینڈ کو بھیجی تھی۔ بوائے فرینڈ کے ساتھ باہر جاتی ہے۔ پڑھائی پر کوئی توجہ نہیں دیتی۔ فحش وڈیوز بنانا اور دیکھنا اس کا کام ہے‘

جب اس کی ماں کو پتا چلا کہ وہ اس کا غلط استعمال کر رہی ہے، تو انہوں نے مایا سے فون چھین لیا۔ مایا چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جاتی ہے۔ جب والد کو اس کے بارے میں معلوم ہوا تو انھوں نے ابھیام کی مدد طلب کی اور مایا کو اس کے روشن مستقبل، اچھی زندگی اور خاندان کی اہمیت کے بارے میں مشورہ دینے کے لیے کہا

ہیلپ لائن ٹیم کے مطابق ’ٹیم نے مایا کو تعلیم کے فوائد بتائے، اس پر توجہ دینے کے علاوہ اچھی زندگی گزارنے اور سوشل میڈیا کو اچھی طرح سے استعمال کرنے، غلط صحبت کو چھوڑنے، والدین کا احترام کرنے پر آمادہ کیا۔ ساتھ ہی والدین کو بھی تعاون کرنے اور اپنی بیٹی کو وقت دینے کے لیے راضی کیا گیا اور دباؤ نہ ڈالنے کے لیے کہا گیا‘

موبائل کی لت اور اس کا علاج

احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے زیر انتظام ایس وی پی ہسپتال کے نفسیاتی شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر نیمیش پاریکھ کہتے ہیں ”ہمارے محکمے میں بچوں میں موبائل کی لت کا اوسطاً ایک کیس روزانہ آتا ہے۔ موبائل کی لت کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ بعض اوقات کام کی وجہ سے دونوں ہی والدین بچوں کو وقت نہیں دے پاتے ہیں۔ تو بعض صورتوں میں بچے ضدی ہوتے ہیں۔ بعض اوقات بچے اپنے اردگرد دوستوں کے حلقے کی وجہ سے موبائل کے عادی ہو جاتے ہیں“

ڈاکٹر پاریکھ مزید کا کہنا ہے ”والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے پاس موبائل لانے کے بعد موبائل کے استعمال پر وقت کی حد مقرر کریں اور یہ دیکھیں کہ بچے کیا تلاش کر رہے ہیں؟ اس کے علاوہ والدین بچوں کو انڈور گیمز اور آؤٹ ڈور گیمز کھیلنے کے لیے لے جائیں۔ بچوں کی پڑھائی کے لیے موبائل کے مثبت استعمال بھی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر موبائل کے استعمال پر حدیں مقرر کی جا سکتی ہیں“

ڈاکٹر پاریکھ نے کہا ”موبائل کی لت کی صورت میں زیادہ تر بچے گیمز کے جنون میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ موبائل کی لت کے 60 سے 70 فیصد کیسز میں بچے گیمز کے جنون میں مبتلا ہیں، جب کہ 30 فیصد کیسز انٹرنیٹ پر سرفنگ کے ہیں۔ 10 فیصد کیسز میں نوعمر پورن سائٹس پر سرفنگ کر رہے ہیں۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ بچے غصے میں آجاتے ہیں۔ بعض اوقات وہ زیادہ غصے میں آ جاتے ہیں اور توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ 80 سے 85 فیصد کیسز میں بچوں کو کونسلنگ کے ذریعے عادت سے باہر لایا جا سکتا ہے۔ جبکہ 10 سے 15 فیصد کیسز میں طبی علاج کرنے کی ضرورت محسوس ہو سکتی ہے۔ ڈپریشن مخالف گولیاں دینی پڑ سکتی ہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close