’’اگر شجرِ زیتون اپنے کاشت کار ہاتھوں کی کڑی محنت جان سکتا تو وہ روغنِ زیتون کے بجائے آنسو ٹپکاتا۔‘‘
(محمود درویش)
’’آج میرے ایک ہاتھ میں شاخِ زیتون اور دوسرے میں آزادی کی لڑائی کے لیے بندوق ہے۔میری انگلیوں سے شاخِ زیتون نہ گرنے دو۔“ (یاسر عرفات۔ چھ نومبر۔ اقوامِ متحدہ میں خطاب)
شجرِ زیتون اور ثمرِ زیتون سے فلسطینی دھرتی کا رشتہ آٹھ ہزار برس پرانا ہے۔جب کوئی کسان دوسرے سے ملتا ہے تو وہ بیوی بچوں اور زیتون کی خیریت ایک ساتھ دریافت کرتا ہے۔ کسی کو دعا دینا مقصود ہو تو کہا جاتا ہے تیرا خاندان اور زیتون پھلیں پھولیں۔
اکتوبر نومبر فلسطین میں زیتون کی فصل اتارنے کا موسم ہے۔ ہر جانب قومی میلے کا سماں ہوتا ہے۔ درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر روایتی گیت گائے جاتے ہیں۔ روغنِ زیتون میں طرح طرح کے پکوان بنائے جاتے ہیں اور گھر کے استعمال کا پھل الگ کرنے کے بعد باقی فصل روغنِ زیتون نکالنے والی فیکٹریوں کو فروخت کر دی جاتی ہے۔
لگ بھگ ایک لاکھ فلسطینی کنبوں کا گزارہ زیتون پر ہے۔پندرہ فیصد خواتین کارکنوں کا روزگار زیتونی زراعت سے وابستہ ہے۔ فلسطین ٹریڈ سینٹر کے مطابق زیتون کی معیشت کا زرعی و صنعتی حجم دو ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں نصف زیرِ کاشت زمین پر زیتون اگتا ہے۔ درختوں کی مجموعی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے، ان سے سبز اور سیاہ پھل حاصل ہوتا ہے۔
اسی فیصد درخت سو برس یا اس سے بھی پرانے ہیں۔حضرت عیسٰی علیہ السلام کی جائے پیدائش بیت الحم کے قریب ال ولجی گاؤں میں ایک درخت ایسا بھی ہے، جس کی عمر کا اندازہ ماہرین نے چار سے پانچ ہزار برس لگایا ہے۔ اس درخت کا نام البداوی رکھا گیا ہے۔
یہ ناممکن ہے کہ کسی فلسطینی گھرانے میں زیتون سے بنا اچار، روغن، صابن یا خشک پتے تک نہ ہوں۔ نابلس کے زیتونی صابن کی پوری دنیا میں مانگ ہے۔ سب سے زیادہ فصل مغربی کنارے کے علاقے جنین، توباس، شمالی وادی، تلکرم اور غزہ کی زمین سے حاصل ہوتی ہے۔ دو ہزار انیس میں ایک لاکھ اسی ہزار ٹن ثمرِ زیتون سے چالیس ہزار ٹن روغنِ زیتون حاصل ہوا۔
دو ہزار بارہ میں اپلائیڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ یروشلم کی تحقیق کے مطابق جون انیس سو سڑسٹھ سے دو ہزار گیارہ تک اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کا معاشی گلا گھونٹنے کے لیے مقبوضہ علاقوں میں زیتون کے آٹھ لاکھ سے زائد درخت تلف کیے۔
بین الاقوامی ریڈ کراس کے مطابق دو ہزار بیس میں مغربی کنارے پر زیتون کے دس ہزار درخت اکھاڑ پھینکے گئے۔ فلسطینیوں کو اپنی زمین کاشت کرنے اور فصل اٹھانے کے لیے چند روزہ میعاد کا خصوصی اجازت نامہ جاری کیا جاتا ہے، مگر تمام کسانوں کو نہیں۔ مثلاً دو ہزار بیس میں محض چوبیس فیصد کسانوں کو یہ اجازت نامے جاری ہوئے۔
اکتوبر نومبر فصل کاٹنے کا موسم ہے، مگر سات اکتوبر کے بعد سے مغربی کنارے اور غزہ میں زیتون کی کھڑی فصل اپنے مالکوں کا منہ تکتی رہ گئی۔ مسلح آباد کاروں اور فوج نے ہزاروں درخت اکھاڑ ڈالے یا جلا دیے۔ جن کسانوں نے فصل اٹھانے کے لیے مزاحمت کی، ان کو زخمی کیا گیا۔ یہودی آبادکاروں کی غنڈہ گردی کوئی نئی بات نہیں۔ جب جنگ کا ماحول نہ بھی ہو، تب بھی وہ زیتون کی کاشت اور پھل جمع کرنے کے موسم میں کسانوں کو بندوق کے زور پر دھمکاتے ہیں۔
مثلاً دو ہزار انیس میں مغربی کنارے کے یہودی آبادکاروں نے دو سو انسٹھ حملے کیے اور چھہتر کسان زخمی ہوئے۔ دو ہزار بیس میں کیے گئے دو سو چوہتر حملوں میں چوراسی کسان زخمی ہوئے اور سترہ سو درخت اکھاڑ ڈالے گئے۔ دو ہزار اکیس میں ہونے والے دو سو چونسٹھ حملوں میں ایک سو ایک کسان زخمی ہوئے جب کہ سات اکتوبر کے واقعہ سے چار دن پہلے تک دو ہزار تئیس کے پہلے نو ماہ میں یہودی آبادکاروں نے فلسطینی کسانوں پر تین سو پینسٹھ مسلح حملے کیے۔
سات اکتوبر کے بعد اسرائیل کے وزیرِ سلامتی اور مغربی کنارے کی ایک یہودی بستی کے مکین بن گویر کے حکم پر دس ہزار نیم خودکار رائفلیں خرید کر غزہ کے آس پاس کی اسرائیلی بستیوں اور غربِ اردن کی آبادکار بستیوں میں سویلین سیکیورٹی ٹیموں کو مسلح کرنے کے لیے تقسیم کی گئیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ پچھلے چھ ماہ کے دوران مغربی کنارے کے آبادکاروں کے ساڑھے سات سو سے زائد حملوں میں چار سو ساٹھ فلسطینی شہید ہوئے، جب کہ ایک ہزار کے لگ بھگ کسانوں سمیت تقریباً چودہ ہزار فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں۔
ہیومین رائٹس واچ کی تازہ رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر کے بعد سے الخلیل (ہیبرون) اور رام اللہ کے سات نواحی فلسطینی گاؤں آبادکاروں نے اسرائیلی فوج کی مدد سے مکمل طور پر اجاڑ کے ان کی پوری آبادی کو دربدر ہونے پر مجبور کر دیا۔ ان علاقوں میں دس ہزار سے زائد زیتون کے درخت اکھاڑے گئے یا جلائے گئے یا فصل چھین لی گئی۔
تقریباً ساڑھے سات ہزار مزید فلسطینی مغربی کنارے پر سات اکتوبر کے بعد سے گرفتار کیے گئے۔ ان میں سے اکثر محض سوشل میڈیا پر غزہ کے لوگوں سے اظہارِ یکجہتی یا فلسطینی جھنڈا لہرانے کے جرم میں حراست میں لیے گئے۔ بہت سے کسان یہودی آباد کار حملہ آوروں کی مزاحمت کے جرم میں گرفتار ہوئے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی جانب سے مدد کی امید نہیں رکھتے کیونکہ فلسطینی اتھارٹی محض ایک طفیلی انتظامیہ ہے اور اس کا کام شہروں کی حد تک نظم و ضبط قائم رکھنا ہے۔ شہروں سے باہر اسرائیلی سیکیورٹی اداروں کی مکمل عمل داری ہے اور وہ یہودی آبادکاروں کی مکمل پشت پناہ ہے۔
جب کہ غزہ میں اسرائیلی ٹینکوں اور بلڈوزروں نے کھڑی فصل اجاڑ دی اور درختوں کو کچل دیا۔ فضا سے زہریلی ادویات چھڑک کے بھی فصلیں تلف کی گئیں۔
جنوبی غزہ میں خان یونس کا علاقہ زیتون کا گڑھ ہے۔ یہاں تقریباً گیارہ ہزار ایکڑ پر زیتون کے درخت ہیں، ان میں سے کچھ تو ستر برس سے پھل دے رہے ہیں۔ زیتون کا درخت ایک برس بہت زیادہ بارآور ہوتا ہے اور دوسرے برس اس میں سے آدھی پیداوار حاصل ہوتی ہے اور اس سے اگلے برس پھر بھرپور پیداوار ہوتی ہے۔
گزشتہ برس غزہ سے چھتیس ہزار ٹن پیداوار حاصل ہوئی۔وہاں زیتون کا تیل نکالنے کے چالیس پلانٹ تھے۔ اب نہ درخت ہیں اور نہ ہی پلانٹ سلامت ہیں۔ اکثر کسان یا مار دیے گئے یا دربدر ہو گئے۔
چونکہ غزہ میں پچھلے چھ ماہ سے انسانی استعمال کی کوئی بھی شے نہیں پہنچ پائی۔ لہٰذا بے گھر پناہ گزین اپنے بچوں کو سردی سے بچانے کے لیے زیتون کی لکڑی جلانے پر مجبور ہو گئے۔ کسی فلسطینی کے لیے زیتون کا درخت جلانا اپنے بچے کو قتل کرنے جیسا ہے، مگر یہ وہ دکھ ہے، جسے کوئی غیر فلسطینی پوری طرح سمجھ ہی نہیں سکتا۔
انسانی اور معاشی نسل کشی ایک ساتھ جاری ہے، مگر فلسطینی عجیب قوم ہے، اس کے بچوں کے دل سے بھی موت کا خوف نکل کے مدِمقابل میں اتر چکا ہے۔ ثبوت یہ ہے کہ چھ ماہ سے زائد عرصے سے جاری انسان کش مہم کے باوجود کیل کانٹے اور مغربی پشت پناہی سے لیس اسرائیل بظاہر سب سے کمزور دشمن (فلسطینی) کو مار تو پایا مگر اپنی کسی شرط کے آگے جھکا نہیں پایا۔ فلسطینی اور اس کے زیتون کے درخت میں زیادہ سخت جان کون ہے؟ یہ فیصلہ بہت مشکل ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔