کچھ لوگ دائیں اور بائیں میں فرق کیوں نہیں کر پاتے؟

ویب ڈیسک

جب برطانوی برین سرجن ہینری مارش سرجری کے بعد اپنے مریض کے بستر کے پاس بیٹھے، تو جو بری خبر وہ اسے سنانے والے تھے، وہ ان کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اس شخص کے بازو میں ایک اعصابی نس تھی، جس کے دب جانے کی وجہ سے آپریشن کی ضرورت پیش آئی تھی

لیکن ان کی گردن کے درمیانی حصہ پر چیرا لگانے کے بعد ہینری مارش نے ان کی ریڑھ کی ہڈی کے کالم کی غلط جانب سے اعصاب کی نس کو باہر نکال دیا تھا

ایسی غلطیاں، جنہیں روکا جا سکتا ہے، ان میں غلط حصے کے آپریشن کا شمار ان واقعات میں ہوتا ہے، جو اکثر پیش آتے ہیں۔ مثال کے طور پر غلط آنکھ میں انجیکشن لگانا یا غلط گردے کا آپریشن۔۔ ایسی غلطیاں جو نہیں ہونی چاہییں، مریضوں کی حفاظت کے تناظر میں کافی سنگین ثابت ہو سکتی ہیں اور بڑی حد تک ایسے حادثات کو پیش آنے سے روکا بھی جا سکتا ہے

یہ غلطیاں اس دور کی طرف اشارہ کرتی ہیں جب ہم میں سے اکثر بچپن میں یہ سیکھتے ہیں کہ بائیں سے دائیں میں فرق کیسے کرنا ہے۔ ہر کوئی اس کی صحیح نشاندہی نہیں کر پاتا

گوکہ کچھ لوگوں کے لیے دائیں سے بائیں میں فرق کرنا اتنا ہی آسان ہے، جتنا نیچے سے اوپر میں فرق بتانا۔۔ لیکن ہم میں سے ایک خاطر خواہ اقلیت ایسے افراد کی بھی ہے جو ایسا نہیں کر پاتے

ایک حالیہ جائزے کے مطابق چھ میں سے ایک کے لیے دائیں سے بائیں میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ایسے لوگ، جو سمجھتے ہیں کہ انہیں فرق کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی، انہیں بھی توجہ بٹ جانے، ماحول میں شور، یا غیر متعلقہ سوالات کا جواب دینے کی وجہ سے صحیح انتخاب کرنے میں مشکل پیش آتی ہے

بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کے دماغ میں آنے والی تبدیلی

تقریباً دس میں سے ایک شخص بائیں ہاتھ سے کام کرتا ہے، اور جڑواں بچوں پر کیے گئے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں جینیات کا اہم کردار ہے۔ حال ہی میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق میں انسانی ڈی این اے کے چار ایسے حصوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جو اس بات کا تعین کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں کہ آیا کوئی شخص بائیں ہاتھ سے کام کرنے والا ہے یا دائیں ہاتھ سے؟

ایسے لوگ جو بائیں ہاتھ سے کام کرتے تھے، ان میں چار جینز میں ’میوٹیشن‘ پائی گئی، جو جسم کے سائٹوسکلٹن کے لیے کوڈ ترتیب دیتی ہیں یہ پیچیدہ نظام خلیوں کے درمیان پایا جاتا ہے جو ان کو منظم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ جن افراد میں یہ میوٹیشن پائی گئی ان کے اسکین سے معلوم ہوا کہ ان کے دماغ میں سفید مادے کی ساخت مختلف تھی۔ بائیں ہاتھ والے لوگوں کے دماغ کے بائیں اور دائیں حصے بھی دائیں ہاتھ والے لوگوں کی نسبت بہتر جڑے ہوئے تھے

شمالی آئرلینڈ میں کوئنز یونیورسٹی بیلفاسٹ کے ایک جی پی اور کلینیکل پروفیسر جیرارڈ گورملی کہتے ہیں ”کچھ افراد پیدائشی طور پر دائیں اور بائیں میں فرق بغیر سوچے سمجھے کر سکتے ہیں، لیکن دوسروں کو ایک عمل سے گزرنا پڑتا ہے“

طبی معاملات میں غلطیاں کیوں ہوتی ہیں؟ یہ سمجھنے کے لیے پروفیسر جیراڈ گورملی اور ان کے ساتھیوں نے طب کے طالب علموں کے بائیں اور دائیں کی شناخت کرنے کی صلاحیت پر تحقیق کی اور اس عمل کا جائزہ لیا

پروفیسر گروملی کا کہنا تھا ”سب سے پہلے آپ کو خود دائیں اور بائیں میں فرق کی نشاندہی کرنی ہوگی۔۔ جب جواب فوری طور پر نہیں آتا تو شرکاء نے اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے L شکل بنانے سے لے کر یہ سوچنے تک کہ وہ لکھنے کے لیے کون سا ہاتھ استعمال کرتے ہیں، یا گٹار کس ہاتھ سے بجاتے ہیں جیسے مختلف طریقے بیان کیے“

پروفیسر گورملی کا کہنا ہے ”کچھ لوگوں کے لیے یہ فیصلہ ان کے جسم پر ٹیٹو وغیرہ جیسی نشانیوں سے ہوتا ہے“

پھر جب یہ معلوم کرنا ہو کہ سامنے کھڑے شخص کا کون سا حصہ دایاں اور کون سا بایاں ہے، تو اُس صورت میں اگلا مرحلہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو گھمانا ہوتا ہے تاکہ آپ اپنے سامنے کھڑے دوسرے شخص کی جگہ ہوں

پروفیسر گروملی کے مطابق ”اگر میں آپ کے سامنے ہوں تو میرا بایاں ہاتھ آپ کے دائیں ہاتھ کے سامنے ہو گا‘ وہ کہتے ہیں ’کسی چیز کو ذہنی طور پر گھمانے کا یہ خیال پیچیدگی میں اضافہ کرتا ہے“

اس سلسلے میں کی گئی دوسری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ اپنے ہاتھ یا جسم کو اپنے ذہن میں گھماتے ہیں اوراس طرح فیصلہ کرنا آسان سمجھتے ہیں کہ ذہن میں بننے والی تصویر میں بائیاں یا دائیاں ہاتھ کونسا ہے

سنہ 2020 میں وان ڈیر ہام اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے شائع کی جانے والی تحقیق سے پتا چلا کہ جب بائیں اور دائیں کی شناخت کی بات آتی ہے تو تقریباً 15 فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ یہ فیصلہ کرنے کی قابلیت نہیں رکھتے

اس تحقیق میں شریک چار سو افراد میں سے تقریباً نصف نے کہا کہ انھوں نے ہاتھ سے متعلق حکمت عملی کا استعمال کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ دایاں ہے یا بایاں

محققین نے برگین رائیٹ لیفٹ نامی ٹیسٹ کا استعمال کیا جو امتیاز کرتا ہے کہ مختلف طرح کی حکمت عملی کیسے کام کرتی ہیں۔ شرکاء نے ایسی تصاویر دیکھیں جن میں سٹک سے بنے لوگ یا تو ان کی طرف یا ان سے دوسری طرف دیکھ رہے تھے اور اپنے بازو مختلف پوزیشنز پر رکھے ہوئے تھے، اور انھیں نمایاں کیے گئے ہاتھ کو اپنے بائیں یا دائیں کے طور پر شناخت کرنا تھا

وان ڈیر ہام کا کہنا ہے ”یہ آسان لگتا ہے، لیکن اگر آپ کو ان میں سے سو کو تیزی سے شناخت کرنا پڑے تو یہ پریشان کن ہے“ پہلے تجربے میں شرکاء اپنے سامنے ایک میز پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے۔ وان ڈیر ہام کا کہنا ہے ”سٹک سے بنے لوگ کس طرح بیٹھے تھے اس کا بہت واضح اثر تھا۔“ اگر آپ سر کے پچھلے حصے کو دیکھ رہے تھے تو یہ اُس رخ ہی تھا جیسے آپ بیٹھے تھے، اس لیے لوگ بہت تیز اور زیادہ درست جواب دے رہے تھے۔ وان ڈیر ہام کہتے ہیں اسی طرح، جب سٹک سے بنے لوگ آپ کے سامنے تھے اور ان کے ہاتھ ایک دوسرے کے اوپر تھے تو یوں اس کا بایاں ہاتھ حصہ لینے والے کے دائیں ہاتھ کے سامنے تھا اس صورت میں لوگوں کے ٹھیک جوابوں کا تناسب بہتر تھا۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ جسم واقعی اس میں بھرپور انداز سے شامل ہے

اگلا سوال یہ تھا کہ آیا ٹیسٹ کے وقت شرکاء بائیں اور دائیں کی شناخت کے لیے اپنے جسم کے اشاروں کا استعمال کر رہے تھے یا اپنے ذہن میں جو خاکہ ہے اس کا استعمال کر رہے تھے۔ اس کا جواب دینے کے لیے، محققین نے اپنے تجربے کو دہرایا، لیکن اس بار چار مختلف طرح تجربہ کیا: شرکاء اپنے ہاتھوں کو یا تو کراس کیا یا اپنے سامنے والی میز پر کراس کیے بیٹھے تھے، اور ٹیسٹ کے دوران ان کے ہاتھ یا تو نظر آتے تھے، یا سیاہ رنگ سے ڈھکے ہوئے تھے۔ لیکن محققین کے سامنے یہ بات آئی کہ ان میں سے کسی بھی تبدیلی نے ٹیسٹ کی کارکردگی کو متاثر نہیں کیا۔ دوسرے لفظوں میں، شرکاء کو دائیں بائیں فرق کرنے کے لیے اپنے جسم کو استعمال کرنے کے لیے درحقیقت اپنے ہاتھ دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی

وان ڈیر ہام کا کہنا ہے ”ہم نے اس مسئلے کو مکمل طور پر حل نہیں کیا ہے۔ لیکن ہم اپنے جسم کو دائیں سے بائیں شناخت کرنے میں ایک اہم عنصر کے طور پر شناخت کرنے کے قابل تھے، اور ہم اپنے جسم سے مشورہ کرتے ہیں

وان ڈیر ہام کے تجربات میں جب لوگوں کی پوزیشن سٹک سے بنے لوگوں سے مطابقت رکھتی تھی تو اُن لوگوں کی کارکردگی میں اضافہ زیادہ واضح تھا جنھوں نے کہا کہ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں دائیں سے بائیں بتانے کے لیے اپنے ہاتھ کا استعمال کرتے ہیں، یہ عام طور پر خواتین میں بھی پایا گیا

محققین کو یہ بھی معلوم ہوا کہ مرد جواب دینے میں خواتین کے مقابلے میں زیادہ تیز ہوتے ہیں، لیکن اعداد و شمار نے سابقہ تحقیق کو تقویت نہیں دی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مرد بائیں اور دائیں کے امتیازی ٹیسٹس میں مجموعی طور پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں

یہ بات بالکل واضح نہیں ہے کہ لوگوں میں بائیں اور دائیں میں تفریق کرنے کی صلاحیت میں فرق کیوں ہوتا ہے البتہ تحقیق بتاتی ہے کہ کسی کا جسم جتنا زیادہ غیر متناسب ہوتا ہے (خاص طور پر کس ہاتھ کو لکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اس کے تناظر میں)، انھیں بائیں اور دائیں میں تفریق کرنا اتنا ہی آسان لگتا ہے۔ گورملی کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ کے دماغ کا ایک حصہ دوسرے سے تھوڑا بڑا ہے، تو آپ کے لیے دائیں بائیں میں تفریق کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔‘

وان ڈیر ہام کا کہنا ہے کہ لیکن یہ ایسی چیز بھی ہو سکتی ہے جو ہم بچپن میں سیکھتے ہیں، جیسے کہ گرد ونواح کے بارے میں شعور۔ وہ کہتے ہیں ’اگر بچوں کو راستہ تلاش کرنے کی ذمہ داری دی جائے اور آپ انھیں اپنے آگے صرف چند میٹر چلنے کا کہیں اور فیصلے کرنے دیں، تو ایسےبچے بہتر نیویگیٹرز بنتے ہیں۔

فرانس کے لیون نیورو سائنس ریسرچ سنٹر میں ایلس گومز اور ساتھیوں کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بائیں اور دائیں کی تفریق ایک ایسی چیز ہے جسے بچے جلدی سیکھ سکتے ہیں۔ گومز نے دو ہفتے کا پروگرام ڈیزائن کیا جو اساتذہ کے ذریعے کروایا گیا۔ یہ پانچ سے سات سال کے بچوں کی جسمانی حصوں کی شناخت اور موٹر سکلز کو بڑھانے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔

جب ان کا اپنے یا کسی ساتھی کے جسم کے صحیح حصے کو تلاش کرنے کی ان کی صلاحیت پر تجربہ کیا گیا، مثال کے طور پر ان کا دائیں گھٹنے کی شناخت تو پروگرام کے بعد، بائیں اور دائیں میں تفریق میں غلطیوں کی تعداد تقریباً آدھی رہ گئی۔

گومز کہتے ہیں ’ہمارے لیے بچوں کی جسم کے حصوں کا نام لے کر شناخت کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھانا بہت آسان تھا۔‘

اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بچوں کو ایک حکمت عملی سکھائی گئی تھی کہ اگر وہ دائیں یا بائیں کا فرق بھول جائیں توجس ہاتھ سے لکھتے ہیں اس ہاتھ کے بارے میں سوچیں۔ پروگرام میں بچوں کے اپنے جسم پر توجہ مرکوز کرنا ممکنہ طور پر ظاہر کرتا ہے جیسا کہ تحقیق بھی بتاتی ہے کہ جب ہم بائیں اور دائیں کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایک اپنی ذات کو ریفرنس بنانا کلیدی حیثیت رکھتا ہے

اگرچہ روزمرہ کے معمول کی بہت ساری باتوں میں جہاں دائیں سے بائیں میں تفریق ضروری ہے ان میں کچھ ایسے موقع بھی ہوتے ہیں جہاں یہ تفریق انتہائی اہم ہوتی ہے۔

برین سرجن مارش غلط حصے کی اعصابی سرجری کو درست کرنے میں کامیاب رہے، لیکن ایک سرجن غلط گردے کو نکال دے یا غلط اعضا کو کاٹ دے تو اس کے تباہ کن نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

طب ہی وہ واحد شعبہ نہیں ہے جہاں دائیں بائیں کی غلطیاں زندگی اور موت کے درمیان فرق پیدا کر سکتی ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ جہاز کو بائیں کی بجائے دائیں طرف موڑنے والا مشہور زمانہ سمندری جہاز ٹائٹینک کے ڈوبنے کی ایک اہم وجہ بنا ہو۔

گورملی کا کہنا ہے کہ گوکہ کچھ لوگوں کو بائیں اور دائیں کا فیصلہ کرنے کے لیے زیادہ کوشش کرنی پڑتی ہے، ہر ایک میں بائیں اور دائیں فیصلے کو غلط کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ امید کرتے ہیں کہ اس طرح کی غلطی کرنا کتنا آسان ہے اس کے بارے میں مزید آگاہی ہو تاکہ ان لوگوں کے لیے کم شرمندگی کا باعث بنے جنھیں اپنے فیصلے کی دوبارہ تصدیق کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں ”صحت کے شعبے سے جڑے پیشہ ور افراد کے طور پر ہمیں گرد ونواح ، دور قریب زاویوں وغیرہ اور اس طرح کے فیصلے کرنے پر بہت زیادہ وقت صرف کرنا ہوتا ہے لیکن دائیں یا بائیں میں تفریق پر توجہ نہیں دیتے۔ لیکن اصل میں، تفریق کی تمام صلاحیتوں میں سے یہ سب سے مشکل ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close