آس پاس دیکھیں، نظر دوڑائیں، کتنے دوست ایسے ہیں، جنہیں آپ کوئی بھی بات کہتے ہوئے خوفزدہ نہیں ہوتے؟
ان دوستوں کا ایک عدد چہرہ بھی ہونا چاہیے، یعنی ان سے آپ کی ملاقات ہوتی ہو، ان تک آپ پہنچ سکتے ہوں، ضرورت کے وقت چہرہ بہ چہرہ، رو بہ رو، سلام کلام ہو سکتے ہوں۔
اب کوئی ایک چہرہ بھی اگر ذہن میں آ رہا ہے تو یقین کریں آپ خوش نصیب ہیں۔
پانچ چیزیں جس دوست میں آپ کو مل رہی ہیں، باقی ہر طرف سے آنکھیں بند کریں اور اسے سنبھال کے رکھ لیں۔
1: انہیں آپ کی ہر بات کا یقین ہوتا ہے، وہ فضول سوال جواب میں نہیں پڑتے۔
2: آپ جو مرضی آئیڈیا سامنے رکھیں، وہ اسے غلط نہیں کہتے، انہیں کچھ الٹا سیدھا لگ بھی رہا ہو تو سکون سے آپ کو سمجھاتے ہیں، منع بالکل نہیں کرتے۔
3: ان سے بات کر کے آپ کو احساس ہوتا ہے کہ ہاں یار میری بات کی کوئی اہمیت ہے اور میری سوچ ٹھیک سمت میں ہے۔ آپ کو ذہنی سکون ملتا ہے اور آپ مضبوطی باقاعدہ محسوس کرتے ہیں۔
4: وہ شکر گزاری والا رویہ رکھتے ہیں ہمیشہ، انہیں آپ سے بھی شکایت عموماً بہت کم ہوتی ہے۔
5: ان سے ناراضی زیادہ دیر نہیں رہ سکتی، وہ خود ہی بات شروع کر کے معافی مانگ لیں گے یا پھر ایسا موقع نہیں آنے دیں گے کہ آپ کو تکلیف پہنچے۔
ہوتا کیا ہے کہ ہمیں یہ چیزیں معلوم ہوتی ہیں لیکن ہم انہیں ترجیح نہیں دے رہے ہوتے۔ یہ خوبیاں جن میں ہوتی ہیں، وہ بے چارے خلوص والے تو ہوتے ہیں لیکن گلیمر ان میں نہیں ہوتا، چمک نہیں ہوتی، وہ غیر محسوس ہوتے ہیں، ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہوتا ہے، کیوں ۔۔۔ کیوں کہ وہ آپ کو چیلنج نہیں کر رہے ہوتے۔
انسان پیچیدہ کیس ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ جو آپ پر تنقید کرتا ہے، جو اپنی طرف سے آپ کی اصلاح کرنا چاہتا ہے، جو آپ کی جیت میں بھی کیڑے نکالتا ہے، وہ شخص آپ کو اہمیت دے۔ آپ ہر خوشی پہ خود کو اچھا منوانے کے لیے دوڑے دوڑے ادھر جائیں گے شیئر کرنے اور وہ کوئی نہ کوئی آف قسم کی بات کر کے پھر چالو کر دے گا آپ کو، اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
مسئلہ کہاں ہے؟ صرف یہ کہ گلیمر والا، چمک والا، کسی اچھی پوزیشن والا، یا کسی بھی نمایاں خوبی والا انسان عام طور پہ خود اپنی چمک میں گرفتار ہوتا ہے، اسے آس پاس کم نظر آتا ہے، اور چمک شمک بھی چھوڑ دیں، ہر شرط فارغ کرائیں، بعض لوگوں میں اللہ میاں نے خوش ہونے کی صلاحیت ہی نہیں رکھی ہوتی، انہیں آپ کی خوشی میں بھی اپنا دور پار کا غم کوئی یاد آ جاتا ہے اور آپ ایسے بیٹھے ہوتے ہیں، جیسے گلاب جامن کھاتے کھاتے منہ میں ریت آ گئی ہو۔
یہاں اگر میں پالنے کا لفظ استعمال کروں تو وہ بہترین ہوگا۔ ایسی دوستیاں صرف آپ پال پوس رہے ہوتے ہیں، سامنے والوں کی جانے بلا، آپ ہیں بھی کہ اس دنیا سے کوچ کر چکے ہیں۔ ان کے لیے آپ کا وجود تعریفیں سمیٹنے تک ہوتا ہے بلکہ آپ کی باری پہ اکثر پیچھے مڑ کے دیکھنے پر وہ غائب بھی نظر آتے ہیں۔
یہ چیز! اب، مجھے یقین ہے کہ آپ کے دماغ میں کچھ شکلیں سامنے آ چکی ہوں گی اور ترازو کے پلڑے دائیں بائیں ہو رہے ہوں گے۔
مقصد بس یہی تھا کہ پہچان جائیں آپ، لیکن کرنا کیا ہے ان دوستوں کا، وہ طے کرنا باقی ہے، پہلے ایک ضروری بات؛ آج کل اس رویے نے بہت زور پکڑ لیا ہے کہ اپنے آس پاس پازیٹو بندے رکھیں اور نیگیٹیو لوگوں کی چھٹی کرا دیں، یہ ہم لوگوں نے بالکل نہیں کرنا۔ اس طرح تو دنیا خالی ہو جائے گی دوستوں سے، چاہنے والوں سے، قریبی لوگوں سے، ایک ایک کر کے آپ نے سب کو ’نیگیٹیو‘ ہونے کے کنوئیں میں پھینک دینا ہے اور باقی سب نے بھی آپ کے ساتھ یہی کرنا ہے کیونکہ پازیٹو اور نیگیٹیو کی ڈیفینیشن ہر آدمی اپنی لے کے آ جائے گا۔
ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ کس بندے کو ہم کتنا وقت دے رہے ہیں۔ اوپر موجود پانچ رویوں کی روشنی میں کون کتنا بہتر فٹ ہو رہا ہے اور کیا ہم اس کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکتے ہیں؟ بس اتنی سی بات ہے۔
دوستیاں شفٹ ڈیلیٹ نہیں ہوا کرتیں، ہو جائیں تو ہارڈ ڈسک پہ بیڈ سیکٹر آ جاتا ہے، اس سے ہم نے بچنا ہے، یہ خطرناک معاملہ ہوتا ہے، کمپیوٹر میں تو نئی ڈسک لگ بھی جائے گی، ہم کیا کریں گے؟ آپ نے، میں نے، پھر ایویں بعد میں یہ مصرعہ بھی نہیں پڑھ سکنا کہ ’ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت۔‘
اور ہاں، ذرا گھوم کے دیکھیں کہ ان پانچ میں سے کتنی خوبیاں ایسی ہیں جو آپ میں بھی ہوں؟
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)