ایک شام ہمارے عزیز دوستوں ہما دلاور، زبیر خواجہ اور ایڈن نے ہمیں اپنے گھر ڈنر کی دعوت دی۔ اس دعوت میں انہوں نے فیمیلی آف دی ہارٹ کے جن دیگر ممبران کو بھی مدعو کیا، ان میں امیر حسین جعفری، سیمیں جاوید، عظمیٰ بنت عزیز، زہرا نقوی اور عسکری نقوی بھی شامل تھے۔
لذیذ کھانوں کے بعد ادبی گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو نثری شاعری پر آ کر رک گیا۔
ہما دلاور نے ہمیں بتایا کہ جب انہوں نے کئی سال پیشتر نثری نظمیں لکھنی شروع کیں تو بہت سے دوستوں، رشتہ داروں اور شاعروں نے ان کی اتنی حوصلہ شکنی کہ وہ شاعری چھوڑنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگیں لیکن پھر انہیں چند ایسے غیر روایتی شاعر ملے، جنہوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔
امیر جعفری نے ہما دلاور کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا کہ غزل کی شاعری صرف اردو اور فارسی روایت میں مقبول ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ اسے آسانی سے گایا جا سکتا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ دنیا کی ان گنت زبانوں کی اعلیٰ شاعری نثری شاعری ہے۔ اس کی ایک مثال خلیل جبران ہیں۔ ان کی نثری نظمیں بہت مقبول ہوئیں۔
میری نگاہ میں ایک اچھی نثری نظم لکھنا ایک اچھی غزل لکھنے سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ غزل میں شاعر کو ردیف، قافیہ اور بحر کی بیساکھیاں مل جاتی ہیں، نثری شاعری شاعر سے نئے خیالات کی متقاضی ہوتی ہے۔ نثری شاعری میں غزل کے کلیشے کام نہیں آتے۔
میں نے دوستوں کو بتایا کہ اردو کی نثری شاعری سے میرا تعارف زاہد ڈار کے مجموعہ کلام ”تنہائی“ نے کروایا۔ میری زاہد ڈار سے جو لاہور کے پاک ٹی ہاؤس میں ملاقاتیں ہوئیں، ان کی خوشگوار یادیں آج تک میرے دل کے خصوصی گوشے میں محفوظ ہیں۔ مجھے زاہد ڈار کی ایک نثری نظم یاد آ رہی ہے وہ قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ فرماتے ہیں
میں ستاروں اور درختوں کی خاموشی کو سمجھ سکتا ہوں
میں انسانوں کی باتیں سمجھنے سے قاصر ہوں۔
میں انسانوں سے نفرت نہیں کرتا
میں ایک عورت سے محبت کرتا ہوں۔
میں دنیا کے راستوں پہ چلنے سے معذور ہوں
میں اکیلا ہوں
میں لوگوں میں شامل ہونا نہیں چاہتا
میں آزاد رہنا چاہتا ہوں
میں خوش رہنا چاہتا ہوں۔۔
میں محبت کے بغیر خوش نہیں رہ سکتا
میں ایک عورت کی محبت کا بھوکا ہوں
میں ایک عورت کی محبت نہیں پا سکا
میں تنہائی سے نکلنے کا راستہ نہیں پا سکا
میں دکھ میں مبتلا ہوں
میں ایک عورت کو سمجھنے سے قاصر ہوں
میں خاموشی کی آوازوں کو سمجھ سکتا ہوں۔
زاہد ڈار کی نثری نظمیں پڑھنے کے بعد جب میں یورپ کا سفر کر رہا تھا تو میری ملاقات نصر ملک سے ہوئی۔ انہوں نے مجھے اپنی نثری نظموں کا مجموعہ ”قطبین“ تحفے کے طور پر دیا۔ میں ان کی نثری نظموں سے بھی بہت محظوظ و مسحور ہوا۔ آپ بھی ان کی ایک نثری نظم سن لیں
وصیت
میں جانتا ہوں
میں وہ شجر ہوں جس کو اک دن
کاٹ کے نیچے گرایا جائے گا۔ اور پھر
میرے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلایا جائے گا
بے شک مجھے کوئی کاٹ دے میں ڈرتا نہیں
البتہ میری آخری خواہش پوری کی جانی چاہیے۔۔
مجھے جلانے کی بجائے، میرے جسم سے
مشرق و مغرب کے بیچ بہنے والے
عداوت و کینہ کے گہرے دریا پہ
ایسا پل بنایا جائے، جہاں سے گزر کر
انسانیت، انسانیت کو گلے لگائے۔
(قطبین:نصر ملک)
میں نے خود بھی کبھی کبھار مختصر نظری نظمیں لکھی ہیں۔ ان میں سے ایک حاضرِ خدمت ہے:
امریکہ کی خارجہ پالیسی
وہ جس سے رات کو ہمبستری کرتی ہے
صبح ہوتے ہی
اسے قتل کروا دیتی ہے۔۔
اس کے باوجود
اس کی خواب گاہ کے باہر
عاشقوں کی طویل قطار موجود رہتی ہے۔
محفل کے آخر میں میں نے ہما دلاور سے درخواست کی کہ وہ ہمیں اپنی نثری نظمیں سنائیں۔ ان کی چند نظمیں حاضر خدمت ہیں تا کہ آپ بھی ان کی نظموں سے لطف اندوز ہو سکیں۔
ٹھرک
بابے نے پوچھا: کیسی ہو؟
میں نے کہا: بابا نہ پوچھ بڑی مشکل میں ہوں۔
بابا بولا: بتا کیا غم ہے؟
میں نے کہا: بابا عشق ہو گیا ہے!
بابے نے پوچھا: تجھے کیسے معلوم ہوا؟
میں نے کہا: بس بابا کیا بتاؤں بُرا حال ہے!
کانوں میں کبیر کے دوہے
سنائی دیتے ہیں۔
آنکھوں کے آگے رومی کی مثنوی
کے الفاظ رقص کرتے ہیں۔
دل میں بلھے کے نقطے نے
شور مچا رکھا ہے۔
دماغ ہے کہ ہمہ وقت نصر کے
Transcendental World
میں ہی رہتا ہے، جہاں
عطار کا طوطی بولتا ہے۔
اب تو بس فنا کی خواہش ہے
کہ بقائے دائمی حاصل ہو!
بابا ہنسا اور بولا: اپنی intellectual ٹھرک کو
عشق کا نام نہ دے!
ہما دلاور
2 اگست 2018
********
مغالطے
بابے نے کہا: سدا مسکراتی رہو۔
میں نے پوچھا: بابا صرف مسکراتی رہوں یا
خوش بھی رہوں؟
بابے نے کہا: خوش بھی رہو۔
میں نے کہا : شکریہ بابا! ویسے میں خوش ہی رہتی ہوں۔
بس irony یہ ہے کہ خوشی جس بات کی
ہے غم بھی اُسی بات کا ہے۔
بابا نے پوچھا: وہ کیا ہے؟
میں نے کہا : خوشی یہ کہ میرے پاس دماغ ہے اور
غم یہ کہ سالا کام بھی کرتا ہے۔
بابا ہنسا اور بولا: دونوں مغالطے ہیں!
حسن ناصر سید کی نذر
ہما دلاور 21 جولائی 2018
********
چِتا
بستر کے ایک نکڑ پر تم
ایک نکڑ پر میں
بیچ میں چادر کی سلوٹوں میں
انگڑائیاں لیتی خاموشی
صدیوں کی رفاقتوں کا لحاف اوڑھے
موت سے سرد جسم جن سے
یادوں کا تعفن اٹھنے لگا ہے
آؤ کہ ہم
’تم‘ اور ’میں‘ کی
چتا جلا دیں!
ہمادلاور
19 فروری 2019
********
سوچ
مائی نے پوچھا: یہ پردے میں کسے چھپا رکھا ہے؟
میں نے کہا: کیا بتاؤں! یہ عقل بڑی حرافہ ہے
لگام نہ دوں تو
سرپٹ گھوڑے کی طرح دوڑے ہے
اسی لیے کمبخت پہ پردہ ڈال رکھا ہے
مائی بولی: دو ہاتھ مارو نگوڑی کو
میں نے کہا: یہ منہ زور میرے بس میں کہاں!
لاکھ پہرے بٹھائے
پھر بھی نہ جانے کس آوارہ خیال کے ساتھ
نین مٹکّا کر آئی ہے!
مائی نے پوچھا: منہ کالا تو نہیں کر آئی کلموہی؟
پتھر پڑیں ایسی عقل پہ!
میں نے کہا: ہاں! وہ آوارہ خیال عقل کی کوکھ میں
سوچ کا بیج ڈال گیا!
مائی بولی: ابھی گلا گھونٹ دے اس ناجائز سوچ کا
جب بھی عقل کی کوکھ سے
ایسی سوچ جنم لے ہے،
اس کی سزا جسم کو
موت کی صورت بھگتنی پڑے ہے!
ہما دلاور
18 مارچ 2019
********
نا اہلی
بابے نے پوچھا: کیا ہوا آج بہت غصے میں ہو؟
میں نے کہا: بابا یہ بھی کوئی زندگی ہے!
مجھ میں اور کولھو کے بیل میں
کوئی فرق ہے بھلا؟
بابا بولا: ایسا کیا ہو گیا؟
میں نے کہا: کاش میری زندگی میں یہ جھنجھٹ
گھر بار اور غم روزگار نہ ہوتا
وقت ہوتا، فراغت ہوتی،
ذہنی سکون ہوتا
تو میں بھی غالب کی طرح غیب
کے مضامیں بیاں کرتی
پِکاسو کی طرح زندگی کو cubism
کی dimension سے رنگ دیتی
فرائیڈ کی طرح ego، id اور
superego کے ہمراہ ذہن کی
ان دیکھی دنیاؤں کے سفر کو جاتی
سارتر کی طرح existence سے
essence کشید کر کے reality کے سوکھے حلق کو تر کرتی
آئن اسٹائن کی طرح مادے اور توانائی کو
روشنی کی رشتے سے جوڑ دیتی۔۔
بابا ہنسا اور بولا: شکر کر اپنی نا اہلی چھپانے کو تیرے
پاس کوئی بہانہ ہے!
ہما دلاور
8 اگست 2018
بشکریہ: ہم سب