مالٹا کی صبح گرم تھی، یورو کپ کا سیمی فائنل دیکھنے کے بعد شہر ابھی سو رہا تھا مگر مجھے آج ہی کے دن ’اسیرانِ مالٹا‘ کی اسیر گاہ اور ’شہیدِ مالٹا‘ کی قبر تلاش کرنا تھی۔
اکیلے سفر کرنے میں صرف ایک قباحت ہوتی ہے کہ آپ کو اپنی حفاظت کا دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ کہیں بھی نکلنے سے پہلے اچھی طرح معلوم کر لینا چاہیے کہ یہ جگہ سیاحوں کے لیے مناسب ہے بھی یا نہیں۔
عام طور پہ میں ان باتوں کا خیال رکھتی ہوں لیکن اس سفر میں کچھ خاص معلوم نہیں تھا کہ ’اسیرانِ مالٹا‘ کو کہاں رکھا گیا تھا، کیونکہ آزادی کے بعد یہ خاندان پاکستان آ گیا تھا اور ہمارے سفارت خانے کے لوگ زیادہ تر صرف نوکری ہی کرتے ہیں، اس لیے ان جگہوں کے بارے میں کچھ خاص معلومات موجود نہیں۔
اس کے باوجود انٹرنیٹ پہ کچھ آرٹیکل مل گئے، جن سے یہ معلوم ہوا کہ ’سید نصرت حسین‘ شہید مالٹا کو ترکی کے قبرستان میں دفن کیا گیا تھا اور یہ قبرستان آج بھی ترک فوج ہی کی ملکیت ہے۔
باقی یادداشت میں مولانا مدنی کا سفر نامہ ’اسیرانِ مالٹا‘ تھا۔ ایک دو اور تحریروں سے کچھ تھوڑا بہت اندازہ تھا، کچھ اپنی چھٹی حس پہ بھروسہ تھا۔
تلاش کا آغاز مارسا سے کیا۔ مالٹا میں بولٹ چلتی ہے، ڈرائیور زیادہ تر پاکستانی، بنگلہ دیشی یا ہندوستانی ہیں۔ مجھے بھی بٹالے کا ایک لڑکا ملا، عثمانی قبرستان کا پتا لکھا اور نکل پڑی۔
داستان یہ ہے کہ مفتی محمود الحسن اور ان کے رفقا بیسویں صدی کے پہلے دوسرے عشرے میں ہندوستان نامی ’دارالحرب‘ کو (انگریز سامراج سے) آزاد کرانے کے لیے، ترکی، جرمنی اور افغانستان کی مدد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ’ریشمی رومال‘ نامی خفیہ تحریک شروع کی، جس کے پیغامات ریشمی رومالوں پہ لکھے ہوتے تھے۔
پنجاب سے مخبری ہوئی اور حج کے دوران مبینہ طور پہ شریف آف مکہ نے انہیں انگریز کے ہاتھوں گرفتار کروا دیا۔ حجاز سے انہیں قاہرہ اور پھر براستہ سوئز مالٹا پہنچا دیا گیا، جہاں یہ لوگ 1917 سے 1920 تک رہے۔ اسی دوران سید نصرت حسین کا انتقال ہوا، جنہیں ترکی قبرستان میں دفن کیا گیا۔
اس دور میں وہاں مشہور ترک، اشرف بے بھی موجود تھے، جنہیں ترکی کا ’لارنس آف عریبیہ‘ سمجھا جاتا تھا۔ اس تدفین کا تمام انتظام اشرف بے ہی نے کیا تھا۔
مفتی صاحب اور ان کے رفقا کہاں قید رہے، اس کے بارے میں ابہام تھا۔ دو جگہوں کے بارے میں شک تھا اور تیسری جگہ خودبخود مشاہدے میں آ گئی۔
سینٹ جولینز سے گزر کے مارسا کی جادوئی عمارات گزارتے ایک ویرانے میں جا کے کار رکی۔ ایک طرف سرکنڈوں کا جنگل، ویرانی، حشرات کی سن سن، دب دب اور دوسری طرف عثمانی طرز تعمیر کی ایک چار دیواری جس کے صدر دروازے پہ اتا موٹا تالا پڑا ہوا تھا، جس پہ لکھا تھا کہ یہ علاقہ ترک فوج کی ملکیت ہے۔ شہدا کا قبرستان تھا۔ آس پاس کوئی نظر نہ آیا کہ پوچھتی اندر کیسے جانا ہے۔
سلاخوں سے جھانک کر دیکھا عثمانی وضع کی پتھر کی جالی کے ادھر ایک قبر کا کتبہ جانے کیوں شناسا سا لگا۔ دل نے کہا یہ ہی ’شہیدِ مالٹا‘ کی قبر ہے۔ گلے میں پڑا ریشمی اسکارف، جس پہ آزادی کا پیغام تو نہیں ہاں پروین شاکر کی غزل لکھی تھی، سر پہ لیا جوتے اتارے، تپتے ہوئے فٹ پاتھ پہ کھڑے ہو کے فاتحہ پڑھی۔
مڑ کے دیکھا تو بٹالے والا سکھ ڈرائیور کار لیے وہیں کھڑا تھا۔ کہنے لگا، دوسری بولٹ دور سے آتی ہے، آپ دوبارہ بک کریں، میں ہی لے چلوں گا۔ گھبراہٹ میں ورڈالا اسکول کی بجائے ورڈالا پیلس لکھ دیا (اصل ورڈالا بیریکس یہاں سے فقط پانچ منٹ کے فاصلے پہ ہیں۔)
اب جو کار چلنا شروع ہوئی تو ائیرپورٹ کے پیچھے ایک ویرانہ، کھیت، سرکنڈے، چھوٹے چھوٹے گھر، ایک کمرے کے چرچ اور بس گاڑی چلتی جا رہی ہے۔ راستہ بتا رہا ہے کہ یہ ڈنگلی کی پہاڑیوں کی طرف جا رہی ہے۔ 15 منٹ بعد گاڑی ایک اور ویرانے میں ایک اور گیٹ کے سامنے کھڑی تھی، جس پہ ممنوعہ علاقہ لکھا تھا۔
بٹالے کا سکھ وہیں کھڑا رہا اور مسکرا کے بولا، میڈم ادھر تو بولٹ آئے گی بھی نہیں، پکچر لے لو اور اگلی رائیڈ بک کر لو۔ سنسان ویران جگہ، بے آباد ڈھنڈار بھوتیا عمارت دور دور تک نہ آدم نہ آدم زاد، ساری تحقیق اور تجسس اڑن چھو، خوف کے مارے ہتھیلیوں میں پسینہ آ گیا اور اس وقت کو کوسا، جب کولمبس بننے کی ٹھانی تھی۔
وہ کمبخت تو بھٹک کے امریکہ جا نکلا تھا، میں تو پتا نہیں کس ویرانے میں آ نکلی تھی۔ تصویر تو لے لی مگر ذہن نہیں مانا کہ ریشمی رومال والے یہاں قید ہوں گے۔ خیر اگلی منزل وولیٹا کی لکھی اور پھر چل پڑی۔
ڈرائیور کو اندازہ تھا کہ میڈم کھو چکی ہیں اور شاید ڈر بھی رہی ہیں، پوچھنے لگا کہ کہاں جانا ہے؟ میں نے کہا کہ بھیا تم کو کیا بتاؤں لمبی کہانی ہے، کچھ جنگِ آزادی کی بات ہے۔
دل میں سوچا، تم تو ٹیکسی ہانکتے ہو، اوت ہو، تمہیں کیا بتائیں کہ ہماری تو آزادی کی جدوجہد بھی ریشمی رومالوں پہ پیغام لکھنے سے عبارت ہے، مگر منہ سے کچھ نہیں بولی۔
وولیٹا پہ اترنے لگی تو ڈرائیور نے کہا، میڈم آپ کی ہماری جنگِ آزادی الگ الگ تھوڑی تھی۔ مجھے پتا تو نہیں کہ آپ کیا ڈھونڈ رہی ہیں مگر جو بھی ڈھونڈ رہی ہیں، اسے میرا بھی سلام کہنا۔
وولیٹا میں ایک میوزیم کی گائیڈ کو بتایا تو اس نے نشانیاں سن کے کہا کہ یہ تو آپ کو فیری پہ بیٹھ کے ورڈالا پرائمری اسکول جانا پڑے گا، وہاں ہے شاید یہ جگہ۔
وولیٹا فیری پہ گڑبڑ میں، گوزو جزیرے کا ٹکٹ لے لیا۔ پونے گھنٹے میں گوزو پہنچی، وہاں ایک ریسٹورنٹ میں کھڑے لڑکے کو کہانی سنائی تو اس نے اپنی ننھی سی ناک سکیڑی، جس میں نازک سی بالی پہنی ہوئی تھی اور رازداری سے بتایا کہ اوپر ایک کاسٹاڈیلا ہے، جہاں ایک پرانی جیل ہے، تمہارے یہ لوگ وہیں قید کیے گئے ہوں گے۔
بولٹ بلا کے قلعے میں پہنچی، سیڑھیوں کے دائیں طرف ایک بند دروازے پہ ’پرانی جیل‘ لکھا تھا۔ اچانک کانوں میں تلاوت کی آواز آنے لگی۔ بائیں جانب کلیسا تھا۔ تلاوت کی آواز کے پیچھے گئی تو ایک ویران گلی میں مرمت ہو رہی تھی۔ مسلمان مزدور کام کرتے ہوئے تلاوت سن رہے تھے۔
دل نے کہا کہ یہ ہی وہ جگہ ہے، مگر مدنی صاحب کے بیان کے مطابق وہ جگہ ساحل سے کافی قریب تھی۔ دن ڈھل رہا تھا، فیری واپس جا رہی تھی، فون کی بیٹری ختم ہو رہی تھی۔ بھاگتے ہوئے جیٹی پہ پہنچی، فیری پکڑی۔ جب ورڈالا پہنچی تو فون کی بیٹری ختم ہو چکی تھی۔ سامنے ہی بیرکس تھیں۔
شاید ان لوگوں کو یہاں رکھا گیا تھا۔ غور سے دیکھا وہی زرد پتھر کی عمارات، گول محرابیں اور لمبے لمبے برآمدے۔ ریشمی رومال سے سر ڈھانک کے ذرا دیر احتراماً کھڑی رہی، پھر واپسی کی راہ لی۔
اب کی بار ڈرائیور ایک بنگلہ دیشی تھا۔ چلا چلا کے بتاتا رہا کہ سب جگہ مسلمان کا تھا، سب چرچ پہلے ’موسچت‘ تھے اور ایک دن پھر سب مسلمانوں کے ہو جائیں گے۔
دُکھتے ہوئے سر کے ساتھ ہوٹل پہنچی، دربان نے مسکرا کے پوچھا یقیناً آپ کا دن اچھا رہا ہوگا اور آپ نے بہت لطف لیا ہوگا۔ اثبات میں سر تو ہلا دیا لیکن رات دیر تک بالکونی میں بیٹھ کے میڈیٹرینیئین کے پرسکون پانی کو دیکھتے ہوئے سوچتی رہی کہ کیا میرا دن واقعی اچھا گزرا؟ دور ایک بادبانی کشتی جا رہی تھی اور بادلوں کے پرے آزادی کی دیوی مسکرا رہی تھی۔ مالٹا کے ساحل پہ ایک دن اور ڈوب گیا۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)