زوال اور ہجرت

ڈاکٹر مبارک علی

قومیں عروج و زوال سے گزرتی رہتی ہیں۔ عروج کے زمانے میں حکمران طبقہ دولت مند اور صاحبِ جائیداد ہو جاتا تھا جبکہ نچلے طبقے کے لوگ غربت اور افلاس میں رہتے تھے۔

زوال کی صورت میں اشرافیہ اپنے ملک سے ہجرت کر جاتی تھی اور عام لوگ افلاس کے باوجود اپنے ملک میں رہتے تھے۔

بڑی سلطنتوں میں معاشرہ طبقاتی رہا ہے۔ جب تک اشرافیہ کو اپنی دولت اور جائیداد کا تحفظ رہا، انہوں نے حکمرانی کے فرائض انجام دیے لیکن جب سلطنتوں کا زوال ہوا تو بیرونی حملہ آوروں نے لوٹ مار کی، مال اور جائیداد کا تحفظ نہیں رہا۔

حکمراں طبقے کی سیاسی طاقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تو ان حالات میں ہم معاشرے میں مختلف رجحانات کو دیکھتے ہیں۔

ایک رجحان تو یہ ہوتا ہے کہ امرا اور اشرافیہ کا طبقہ اپنی دولت کی حفاظت کے لیے بڑے شہروں سے ہجرت کر کے دیہاتوں اور قصبوں میں چلے جاتے ہیں۔

ہم رومی سلطنت کے زوال میں دیکھتے ہیں کہ جب جرمن قبائل نے روم پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کیا تو رومی امرا اپنے مال و دولت کے ساتھ دیہاتوں کے فارم ہاؤس میں چلے گئے جہاں وہ جرمن حملہ آوروں سے محفوظ ہو گئے۔ لیکن عام لوگ شہر ہی میں رہے۔ انہیں حملہ آوروں سے کوئی خطرہ نہیں تھا، کیونکہ ان کے پاس کوئی دولت نہیں تھی جسے لوٹا جا سکے۔

جب 1492 میں اسپین کی مسیحی سلطنت میں یہودیوں اور مسلمانوں کو دو انتخابات کا موقع دیا کہ یا تو وہ مسیحی ہو جائیں یا اندلس چھوڑ کر چلے جائیں۔ اندلس میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک حکومت کی تھی، اپنے علم و ادب اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے اندلس کو ترقی یافتہ ملک بنا دیا تھا۔

لیکن جب مسلمان ریاستوں کی باہمی جنگوں نے انہیں کمزور کیا تو مسیحی طاقت کے آگے یہ نہیں ٹھہر سکے، اور شکستوں کے بعد اس قابل نہیں رہے کہ مسیحی طاقت سے مقابلہ کر سکیں۔

جب مسلمان کمیونٹی کو یہ موقع دیا گیا کہ یا اپنا مذہب تبدیل کر لیں یا ملک چھوڑ دیں۔

اس صورت حال میں مالدار طبقے نے ہجرت کا فیصلہ کر لیا اور یہ اپنی دولت کے ساتھ شمالی افریقہ کے ملکوں میں مثلاً مراکش، الجزائر اور تیونس جیسے ملکوں میں جا کر آباد ہو گئے۔

لیکن اندلس میں جو غریب مسلمان تھے اور جو ہجرت کی سختیوں کو برداشت نہیں کر سکتے تھے، ان کے پاس وہ ذرائع موجود نہ تھے جس کی مدد سے وہ نئے ملکوں میں جا کر آباد ہو سکیں، کیونکہ پناہ گزینوں کے لیے نئے ملک میں جا کر نئی زندگی شروع کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

جبکہ وہ غریب مسلمان جن کے خاندان صدیوں سے اندلس میں آباد تھے، جن میں کسان اور کاریگر شامل تھے، ان کے لیے اپنا گھر بار چھوڑنا مشکل تھا، لہٰذا انہوں نے مسیحی مذہب کو قبول کر لیا اور وہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔

اگرچہ یہ مسیحی تو ہو گئے تھے مگر مسیحی حکومت ان پر شبہ کرتی تھی کہ یہ خفیہ طور پر اپنے مذہب کے پیروکار ہیں، لہٰذا چرچ کا ادارہ انکویزیشن (inquisition) یا ان کی نگرانی کرتا تھا۔

ذرا سے شک پر ان پر مقدمہ قائم کر دیا جاتا تھا اور سزائیں دی جاتیں تھیں۔ چرچ نے اس عرصے میں اندلس میں مسلم حکومت کے تمام نشانات کو مِٹا دیا۔

دو تین نسلوں کے بعد مذہب تبدیل کرنے والے مکمل مسیحی ہو گئے اور اسپین کے معاشرے کا حصہ بن گئے۔ یہی صورت حال یہودیوں کے ساتھ بھی ہوئی۔ جن کا مالدار طبقہ ہجرت کر کے پہلے پرتگال میں آباد ہوا۔ یہاں سے یورپ کے مختلف ملکوں میں گئے۔ ان میں سے کچھ عثمانی سلطنت میں جا کر آباد ہوئے۔ مسلمانوں کی طرح غریب یہودیوں نے بھی مسیحیت اختیار کر کے اسپین میں رہنا قبول کیا۔

ایک یہودی عورت نے چرچ کے عہدیداروں کو خط لکھا کہ وہ مسیحی تو ہو گئی ہے مگر سور کا گوشت نہیں کھا سکتی کیونکہ وہ اس کی عادی نہیں ہے۔ اس سے دو باتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک تو ہجرت وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کے پاس وسائل ہوتے ہیں۔ غریب لوگ اپنے مذہب کو قربان کر دیتے ہیں کیونکہ وہ ہجرت نہیں کر پاتے ہیں۔

سیاسی انتشار، اخلاقی اقدار کا زوال، مال و دولت اور جان کو خطرہ ہو تو اس صورت میں اشرافیہ کے افراد اپنی عزت اور وقار کی خاطر ہجرت کر کے ان علاقوں میں جاتے ہیں جہاں وہ محفوظ رہیں۔

مغلیہ حکومت کے دوران بڑی تعداد میں ایرانی پناہ گزین مغل دربار میں پناہ لینے کے لیے اور اعلیٰ عہدے اختیار کرنے کے لیے ہجرت کرتے آتے تھے۔ 1707 میں اورنگزیب کی وفات کے بعد جب خانہ جنگیاں ہوئیں بیرونی حملہ آور آئے تو اس ماحول میں بھی اشرافیہ نے دہلی چھوڑ کر اوَدھ، مرشد آباد اور دَکن میں پناہ لی۔

جبکہ عام لوگوں نے بےبسی، بے روزگاری اور بےکاری کی حالت میں بھی مغلیہ سلطنت میں رہنا قبول کیا کیونکہ وہ اس قابل نہیں تھے کہ ہجرت کی مشکلات کو برداشت کر سکیں۔ ویسے بھی ہجرت منتخب افراد ہی کر سکتے ہیں، اور بڑی آبادی کا ہجرت کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔

اس تناظر میں جب ہم ہندوستان کی تقسیم کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو اس میں دو قسم کے پناہ گزین پاکستان آئے۔ ایک وہ جن کے پاس وسائل تھے اور سرکاری عہدے تھے اور دوسرے وہ جنہیں فسادات کی وجہ سے ہجرت کرنی پڑی۔ لیکن ہجرت کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہجرت کرنے والے وہ صاحبِ ثروت لوگ ہیں جنہوں نے یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں جائیدادیں خرید کر اپنے لیے ہجرت کو آرام دہ بنا لیا ہے۔

دوسرے وہ غریب اور لاچار لوگ ہیں جن کے لیے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ لوگ غیرقانونی طور پر ہجرت کر کے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارا سیاسی نظام ہے جو عام لوگوں کو معاشی اور سماجی تحفظ فراہم نہیں کر پاتا۔

بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close