عام طور پر رحم دلی کو نیکی کی ایک صفت سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کا تاریخی کردار کیا ہے اور اس اخلاقی قدر کو کس طرح سیاسی اور سماجی طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
رحم دلی کی اخلاقی قدر ایک ایسی سوسائٹی میں پیدا ہوتی ہے، جس میں طاقتور اور کمزور طبقات ہوں۔ طاقتور طبقہ رحم دلی کے نام پر کمزور احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر اپنی عزت اور وقار ختم کر دیتا ہے۔ جب سوسائٹی میں کسی غریب بھوکے اور بے بس شخص کو دیکھا جائے تو اس پر رحم ضرور آتا ہے، مگر یہ کوشش نہیں ہوتی کہ غربت کا خاتمہ کیا جائے اور سوسائٹی میں سب کو مساوی درجہ دیا جائے۔
جب حکمراں اور مذہبی فرقے اپنے مخالفین کو اذیت دیتے ہیں تو وہ رحم دلی کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اس کی مثال کیتھولک فرقے میں شمولیت (inclusion) کی رہی ہے۔ یہ ان افراد کو اذیتیں دیتے تھے اور زندہ جلا دیتے تھے جو مذہب سے منحرف ہوتے تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ وہ ان منحرفین کو سزا دے دیتے ہیں تا کہ آخرت میں وہ پاک صاف ہو کر جائیں اور اپنی نجات کا باعث بنیں۔ حکمراں طبقے اپنے سیاسی حریفوں کو اس لیے اذیتیں دیتے تھے تا کہ ان کی مزاحمت ختم ہو جائے اور وہ حکمرانوں کے وفادار بن جائیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی حریفوں کو اذیتیں دینے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ خاص طور سے آمرانہ حکومتوں میں سیاسی حریفوں کو ملک دشمن اور قوم کا غدار سمجھا جاتا ہے، تاکہ ریاستی ادارے انہیں اذیت دیتے وقت ان پر کوئی رحم نہ کریں۔
لیکن اس کے ساتھ ہی رحم دلی کا سیاسی استعمال بھی ہوتا ہے۔ حکمراں کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ قید کی مدت میں کمی کر دے اور موت کی سزا پانے والوں کو رحم دلی کی بنیاد پر معاف کر دے۔ روس کے مشہور ناول نگار دوستویفسکی (وفات: 1881) لکھتا ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں وہ ان طلبہ میں سے تھا جو زار کے خلاف تھے۔
روسی پولیس نے ان کو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا اور عدالت نے ان کو سزائے موت دی۔ انہیں ایک لائن میں کھڑا کر دیا گیا۔ ان کے سامنے فائرنگ اسکواڈ تھا جو حکم کا منتظر تھا۔ عین اس وقت زار کا قاصد آیا اور اس نے زار کی جانب سے قیدیوں کی سزائے موت کو منسوخ کر دیا۔ اس کے بعد ان سب کو سائبیریا منتقل کر دیا گیا۔
امریکہ کی ریاستوں میں گورنر کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ سزائے موت سے معافی دے دے اور قیدیوں کی قید کی مدت میں کمی کر دے۔ اس رحم دلی کے جذبے کو استعمال کر کے وہ اپنی ریاست میں مقبول ہو جاتا ہے۔
رحم دلی کے ایک اور نظریے کو ہم ایک مشہور ڈرامہ نگار فریڈرخ شلر (وفات: 1905) کے ڈرامے ’ڈاکو‘ میں دیکھتے ہیں جو ایک ڈاکو کی کہانی ہے۔ یہ لوٹ مار اور کئی لوگوں کے قتل میں ملوث تھا، لیکن بالآخر گرفتار ہوا اور اسے سخت اذیتیں دی گئیں، جنہوں نے اس کو جسمانی اور روحانی طور پر ناتواں کر دیا۔ ایک دن وہ جیل کے فرش پر بے بسی سے بیٹھا ہوا تھا کہ چرچ کا ایک عہدیدار اس کے پاس آیا۔ اسے دیکھ کر ڈاکو نے کہا، ’فادر مجھ پر رحم کرو۔‘
فادر نے اس کے جواب میں کہا، ’تم رحم کے قابل نہیں ہو۔ تم اس دنیا میں بھی اذیتیں اٹھاؤ گے، اور آخرت میں جہنم میں جلائے جاؤ گے۔‘
رحم دلی کے بارے میں مفکرین کے کئی نظریات ہیں۔ مثلاً ایک نظریہ یہ ہے کہ رحم دلی کا جذبہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے، مجرموں کو ان کے جرم کی سزا ملنا چاہیے، ان پر رحم نہیں کرنا چاہیے۔
اس نظریے کا حامی جرمن فلسفی امانوئل کانٹ (وفات: 1804) ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سزاؤں کے ذریعے سماج کو انتشار سے بچایا جاتا ہے، اس لیے اگر رحم دلی کو اختیار کیا گیا تو سوسائٹی میں سزا کا ڈر ختم ہو جائے گا۔
ایک دوسرے نظریے کے مطابق جنگوں میں فوجیں جب ایک دوسرے کو قتل کرتی ہیں تو ان میں رحم کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا ہے، لہٰذا تاریخ میں جب فاتحین نے شکست خوردہ حریفوں کو قتل کیا، ان کا مال و اسباب لوٹا تو رحم دلانہ جذبات سے دور رہے۔
1930 کی دہائی میں جب جاپان نے چین پر حملہ کیا تو اس نے درندگی اور خونریزی کے وہ مظاہرے کیے جو تاریخ میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ خاص طور سے اس نے نان جنگ شہر کے عام لوگوں، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا۔ اسی بے رحمی کی پالیسی کو اس نے فلپائن اور کوریا میں بھی استعمال کیا۔
موجودہ دور میں سربیا والوں نے بوسنیا کے مسلمانوں کا قتل عام کیا تو اسرائیل 1947 سے فلسطینیوں کی نسل کو ختم کیے جا رہا ہے اور رحم دلی کے جذبات کو نظرانداز کیے ہوئے ہے۔
اگرچہ رحم دلی کو نیکی سمجھا جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ انسانی فطرت میں وہ کون سے عوامل ہیں جو رحم دلی کو چھوڑ کر خونریزی کو اپناتے ہیں، اور اس پر اپنی پشیمانی کا اظہار بھی نہیں کرتے؟ اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسانی سماج کبھی تعصب اور نفرت اور خونریزی سے نجات پائے گا یا یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گا؟
بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)