امریکی غلاموں کا آزادی تک کا سفر

ڈاکٹر مبارک علی

معاشرے میں جب کوئی طبقہ یا اقلیت ریاست یا اکثریت کی آمریت میں رہتا ہے تو اس کی ترقی کے راستے بند کر دیے جاتے ہیں اور اسے افلاس کی زندگی گزارنا پڑتی ہے۔

تاریخ میں جب بھی نسل پرستی، فرقہ واریت اور ذات پات کی بنیاد پر کسی جماعت سے تعصب اور نفرت کا برتاؤ کیا گیا اور اسے معاشرے سے کاٹ کر علیحدہ کر دیا گیا تو اس کی ترقی کے تمام راستے بند ہو گئے۔

ایسے میں اس کے پاس سوائے اس کے دوسرا کوئی وسیلہ نہیں ہوتا کہ اعلیٰ طبقوں کی خدمت کرے، محنت و مشقت کرے اور غلاظت اور گندگی اٹھائے۔

برصغیر ہندوستان میں یہ صورت حال دلت ذات کے لوگوں کی ہے۔ امریکہ میں جب افریقہ سے غلاموں کو لا کر بیچا گیا تو وہ خریدار کی ملکیت ہو گئے۔

ان کی اپنی کوئی ذات اور شناخت نہیں رہی۔ مالک نے ان کا نام بدل کر نیا نام رکھ دیا کیوں کہ نام سے ملکیت کا اظہار ہوتا تھا۔

مزید یہ کہ اس کا مذہب بدل کر اسے مسیحی بنا لیا گیا اور وہ اپنی زبان بھول کر مالک کی زبان میں بات چیت کرنے لگا۔ امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں یہ غلام بڑے کھیتوں میں کاشت کاری کرتے تھے۔

معدنیات کی کانوں میں محنت و مشقت کرتے تھے۔ ان کا اپنا کوئی خاندان نہیں ہوتا تھا۔ ماں یا باپ کو کسی دوسرے مالک کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا تھا۔ آٹھ یا نو سال کی عمر سے بچوں کو کام پر لگا دیا جاتا تھا۔

کھیتوں کے ساتھ ایک چھوٹی کوٹھڑی رہائش کے لیے ہوتی تھی۔ غیر صحت مند غذا، بے حد محنت و مشقت، سزاؤں سے ڈر اور خوف ان کے ذہنوں پر چھایا رہتا تھا۔

ریاست کی جانب سے یہ قانون تھا کہ یہ تعلیم حاصل نہ کرنے پائیں، لہٰذا یہ ایک ہجوم تھا جو ہر شعور سے محروم تھا اور جس کی صلاحیتیں دب کر رہ گئی تھی۔

جب ظلم حد سے بڑھ جاتا تھا تو فرار ہو کر اس سے نجات پانے کی کوشش کی جاتی۔ کبھی کچھ افراد مل کر بغاوت بھی کرتے جسے سختی سے کچل دیا جاتا۔

افریقی غلاموں اور آبائی باشندوں میں فرق یہ تھا کہ آبائی باشندوں کی قبائلی شناخت تھی۔ ان کی اپنی تاریخ اور کلچر تھا۔

ان کی مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے امریکی حکمرانوں نے انھیں مخصوص علاقوں میں محصور کر دیا جنہیں ریزرویشن کہا جاتا تھا۔

اس طرح انہیں عملی طور پر معاشرے سے کاٹ دیا۔ لیکن یہ پالیسی افریقی غلاموں کے ساتھ نہ چل سکی، کیونکہ ان کے پاس نہ تو کوئی زمین تھی، اور نہ کوئی قبائلی شناخت۔

ان کے اتحاد کی علامت ان کا کالا رنگ تھا۔ چونکہ یہ سفید فام لوگوں کے ہمراہ کام کرتے تھے، اس لیے وہ ان کے تعصب سے بھی آگاہ تھے۔

1863 میں جب خانہ جنگی نے غلامی کے ادارے کا خاتمہ کیا تو آزادی کے بعد ان غلاموں کو نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ملازمتیں کیسے حاصل کی جائیں؟ غلامی کی پابندیوں کو کیسے توڑا جائے؟ اور ترقی کے راستوں کو کیسے تلاش کیا جائے۔

اس مرحلے پر افریقی برادری میں ایسے افراد پیدا ہوئے جنہوں نے اس کی راہنمائی کی۔

ان ہی میں سے ایک بکر ٹی واشنگٹن (وفات 1915) تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے حالات Sub Slavery نامی کتاب میں لکھے ہیں۔

اس کی پیدائش 1856 میں ہوئی جو غلامی کا زمانہ تھا۔ بچپن ہی میں اس نے نمک بنانے کی فیکٹری میں کام کیا، کوئلے کی کانوں سے کوئلہ نکالا۔ لیکن اسے پڑھائی کا شوق تھا جس کی وجہ سے یہ رات کو دس گیارہ بجے ان افراد کے پاس جاتا جو پڑھے لکھے ہوتے۔

غلامی سے آزادی کے بعد یہ 500 میل کا سفر طے کر کے اس اسکول میں داخل ہوا جو افریقیوں کے سفید فام ہمدردوں نے قائم کیا تھا۔

تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اس کو یہ شدید احساس تھا کہ افریقی برادری کی ترقی کا انحصار تعلیم پر ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے Tuskegee اسکول کی بنیاد رکھی، جس کی تعمیر کے لیے اس نے افریقی برادری سے چندہ جمع کیا جو بہت معمولی ہوا کرتا تھا۔

اس نے طالب علموں کے ساتھ مل کر سکول کی عمارت تعمیر کی، اور کھیتی باڑی کے لیے سکول سے ملا ہوا ایک ٹکڑا خریدا۔ اسکول میں جو افریقی طالب علم آتے تھے انہیں کھیتی باڑی اور مختلف ہنر سکھائے جاتے تھے۔

بکر کو طالب علموں کی تربیت کا پورا خیال تھا اسکول اور ہاسٹل میں صفائی کا مکمل انتظام تھا۔ کھانا کھانے، بستر کو صاف ستھرا رکھنے، نشت و برخاست میں ادب و آداب کے ضوابط مقرر تھے، لہٰذا اس کے طالب علم نہ صرف تعلیمی لحاظ سے بلکہ ذہنی اور تہذیبی لحاظ سے بھی معیاری تھے۔

بکر ٹی واشنگٹن اپنے تجربات کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ سفید فام لوگوں کے ساتھ سمجھوتہ کر کے اشتراک کے ساتھ رہا جائے۔ اس فلسفے کو اس نے اپنی تقریروں اور مضامین کے ذریعے امریکہ میں پھیلایا۔

اس کی دلیل یہ تھی کہ افریقی برادری کی کئی نسلوں نے محنت و مشقت کر کے امریکی ترقی میں حصہ لیا۔ گھریلو ملازموں کی حیثیت سے ان کے بوڑھے اور بیمار لوگوں کی خدمت کی اور اپنی ایمان داری کی بنیاد پر ظلم کو بھی برداشت کیا۔ اب یہ سفید فام لوگوں کا فرض ہے کہ افریقی برادری کے اس قرض کی ادائیگی کریں۔ ان کو بنیادی حقوق دیں، تاکہ وہ عزت و وقار کی زندگی گزار سکیں۔

لیکن افریقی برادری میں اشتراک و تشدد دونوں قسم کی تحریکیں ابھرتی رہیں۔ اگرچہ 1960 کی دہائی میں سول رائٹس کی تحریک کامیاب ہوئی اور جنوب کی ریاستوں میں رنگ کی بنیاد پر علیحدگی کی روایت ختم ہوئی، مگر اس کے باوجود سفید فام لوگوں میں جو حقارت کے جذبات تھے، وہ باقی رہے۔ ریاستی ادارے بھی ان کے خلاف کاروائیاں کرتے رہے۔ ردعمل کی وجہ سے افریقی برادری میں ایک ’بلیک پینتھر‘ نامی تحریک ابھری۔ اس کے اور پولیس کے درمیان کئی جنگیں بھی ہوئیں، لیکن بالآخر بلیک پینتھر کی تحریک کو ختم کر دیا گیا۔

دوسری جانب مارٹن لوتھر کی تحریک تھی جو عدم تشدد پر یقین رکھتی تھی، لیکن اس کے قتل کے بعد یہ تحریک بھی کمزور ہو گئی۔

تشدد اور عدم تشدد کی تحریکوں کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ افریقی برادری نے میوزک اور کھیلوں میں منفرد مقام حاصل کیا۔ بلیک ہسٹری کا مضمون یونیورسٹیوں میں روشناس کرایا گیا اور سیاہ فام تاریخ دانوں نے اپنے ماضی کو افریقہ میں تلاش کیا۔

ڈو بوا نامی تاریخ دان نے افریقہ کا سفر کر کے گھانا میں قیام کیا اور وہاں Encyclopedia of Africanis لکھنے کا منصوبہ بنایا۔

اگرچہ امریکہ میں آج بھی افریقی برادری نسلی تعصب کا شکار ہے، مگر مسلسل سماجی اور سیاسی تحریکوں نے ان کو ایک نیا اعتماد اور شناخت دی ہے۔ ان کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی بلکہ مسلسل جاری ہے۔

بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close