کیا سندھ تہذیب کا رسم الخط ڈیکوڈ ہو گیا؟

سجاد اظہر

سندھ کی تہذیب کو دریافت ہوئے سو سال مکمل ہو چکے ہیں، مگر ماہرین اس کے رسم الخط کو ابھی تک پڑھنے کے قابل نہیں ہو سکے۔

حال ہی میں ایک انڈین ماہر لسانیات یجنا دیوام نے میڈیا پر دعویٰ کیا کہ وہ سندھ تہذیب کے رسم الخط کو سمجھنے کے قابل ہو چکے ہیں۔

یجنا دیوام نے اس منصوبے پر کام کرونا کے دنوں میں شروع کیا تھا اور پانچ سال کی عرق ریزی کے بعد ان کا کہنا ہے کہ یہ تصویری رسم الخط ہے جو بہت سارے خفیہ کوڈ لیے ہوئے ہے اور یہ ہر جگہ الگ الگ معنی کو ظاہر کرتے ہیں۔

اپنے اس دعوے کے حق میں انہوں نے ایک تفصیلی مقالہ بھی لکھا، جس میں وہ کہتے ہیں کہ سندھ تہذیب کے رسم الخط میں ہی وہ چابی چھپی ہوئی ہے، جس کے ذریعے ہم تاریخِ انسانی کی اس عظیم تہذیب پر پڑا تالا کھول سکتے ہیں۔

یجنا دیوام کے دعوے میں کیا ہے؟

یجنا دیوام لکھتے ہیں کہ سندھ تہذیب کا یہ رسم الخط ویدک دور کے بعد کا ہے جس میں 74 حروف تہجی استعمال ہوتے ہیں اور جو ایک دوسرے سے مل کر الفاظ بناتے ہیں۔

اب تک پاکستان اور انڈیا کے علاقوں سے ملنے والی سندھ تہذیب کی اشیا، جن پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوا تھا، کی تعداد 4300 سے زیادہ ہے، جن میں سے زیادہ تر مہروں کی شکل میں ہیں۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک پڑھی لکھی تہذیب تھی۔ سب سے قدیم تحریر جو اس تہذیب کے بارے میں دریافت ہوئی ہے، وہ چار ہزار سال قبل مسیح کی ہے جو پاکستان کے علاقے بالا کوٹ سے ایک ٹھیکری پر لکھی ہوئی ملی۔

یہ رسم الخط دائیں سے بائیں لکھا جاتا تھا۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق ماہرین نے اس کے 20 سے لے کر 1000 سے زیادہ اشکال پر مشتمل الفاظ بیان کیے ہیں۔

یجنا دیوام یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان سے پہلے سندھ تہذیب کے رسم الخط کو پڑھنے کی جو 100 سے زیادہ کوششیں کی گئیں، وہ سنجیدہ نوعیت کی نہیں تھیں اور صرف اشکال کے جائزے تک محدود تھیں۔

انہی میں سے ایک ماہر نے تو یہ دعویٰ بھی کر دیا تھا کہ موئن جو دڑو کا پرانا نام، جو ان کتبوں کے پڑھنے سے پتہ چلا، ’ککو ترما‘ تھا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے امریکہ میں یجنا دیوام سے رابطہ کیا تو انہوں نے سوالات کے جوابات میں کہا کہ لکھی ہوئی تختی (Rosetta Stone) کی موجودگی کسی زبان کو سمجھنے کے لیے ضروری نہیں۔

مائی سینین نامی قدیم یونانی تہذیب، جو 1750 ق م سے 1050 ق م تک پھلی پھولی، کے رسم الخط کو بغیر کسی لکھی ہوئی تختی کے پڑھ لیا گیا ہے۔

سندھ تہذیب سے ملنے والی مہروں پر لکھی ہوئی تحریریں گپتا عہد سے ملتی جلتی ہیں، جن میں رگ وید جو قدیم سنسکرت میں لکھی گئی تھی اس کے حوالے موجود ہیں۔

ان میں کچھ شاعروں اور دیوتاؤں جیسا کہ ومرا اور تنوا کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ وٹنی اور تلک جیسے ماہرین نے بھی کہا ہے کہ تاریخی طور پر یہ تحریریں ویدک ادب کے دور کی ہیں۔

ان تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ سندھ تہذیب کے لوگ سنسکرت بولتے تھے اور یہ وہی سنسکرت ہے جو پانینی کی گرائمر میں بیان کی گئی ہے۔

کیا واقعی یہ گتھی سلجھ سکتی ہے؟

پاکستانی ماہرین یجنا دیوام کے اس دعوے سے متفق نہیں۔ اسلام آباد عجائب گھر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبد الغفور لون نے بتایا کہ سندھ تہذیب کے آثار تقریباً 10 لاکھ کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہیں، مگر کہیں سے کوئی ایسی تختی نہیں ملی، جس پر کوئی تفصیلی تحریر لکھی ہو۔

جب تک سندھ تہذیب سے ایسی تختی نہیں ملتی، تب تک اس رسم الخط کو پڑھنا ممکن نہیں کیونکہ جتنی تحریریں ملی ہیں، وہ اشکال کی صورت میں ایک دو یا چند لفظوں پر مشتمل ہیں۔

یہی اس رسم الخط کو پڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

پاکستانی ماہرِ لسانیات اور انگریزی ادب کے استاد ریاض لغاری گذشتہ کئی سالوں سے سندھ تہذیب کی رسم الخط پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ رسم الخط ابھی مکمل طور پر اس لیے ڈی کوڈ نہیں ہوا کیونکہ اس کا ڈیٹا نہیں۔

مہروں کی شکل میں جو لکھائی دستیاب ہے، وہ بہت محدود ہے، مگر اس کے باوجود سو سے زیادہ ماہرین نے اسے پڑھنے کی کوشش کی ہے، جن میں زیادہ تر کا تعلق انڈیا اور مغربی ممالک سے ہے۔

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ محقیقین نے 400 سے زیادہ الفاظ بنا رکھے ہیں لیکن جب یہ تحقیق کے اصولوں پر آتے ہیں تو ان میں سے 20 اشکال ہی استعمال کر پاتے ہیں۔

جب تک اس زبان کا مکمل ڈیٹا ہمارے پاس نہیں آتا اور آپ یہ جان نہیں لیتے کہ ان الفاظ کی ساخت، لکھنے اور بولنے کے انداز کا آپس میں کیا تعلق ہے تو ہم دوسری زبانوں کے ساتھ اس کا تقابل نہیں کر سکتے۔

اور تصدیق بھی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کام گذشتہ ایک سو سال سے مشکل ہدف بنا ہوا ہے۔

کئی ماہرین نے دعوے بھی کیے لیکن ان کے دعوؤں کے حق میں دلائل کم تھے۔ آپ کو اس کے لیے ریاضی یا سائنسی وجوہ بیان کرنے ہوتی ہیں کہ جو ڈیٹا آپ نے لیا ہے وہ کہاں سے لیا اور یہ کیوں درست ہے۔

انڈین ماہر یجنا دیوام بھی ان سوالوں کا جواب نہیں دے پائے جو سامنے آتے ہیں کہ الفاظ کی اصل تعداد کیا تھی اور وہ کون سی زبان تھی۔

یہی وجہ ہے کہ مغرب میں جو لوگ سندھ تہذیب کے رسم الخط پر کام کر رہے ہیں انہوں نے اس دعوے کو سنجیدہ نہیں لیا۔

پھر یجنا دیوام کا کام اس سے متضاد ہے جو اس سلسلے میں پہلے کیا گیا۔ ان کی نظر زبان کے تاریخی تناظر پر بھی نہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ ان کا انحصار کرپٹو گرافکس پر ہے جسے انہوں نے ڈی کوڈ کیا ہے۔

یہ سب کچھ انہوں نے سنسکرت کے ساتھ ملا کر کیا۔ انہوں نے یہ کام سندھی یا سرائیکی کے ساتھ ملا کر کیوں نہیں کیا اس سلسلے میں انہیں دلائل دینے ہوں گے۔

ریاض لغاری کا کہنا ہے کہ انڈین محقیقین کا کام لائق تحسین ہے لیکن ان کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے سندھ تہذیب کے رسم الخط کو ڈی کوڈ کر لیا ہے درست نہیں۔

انڈین ماہرین کا یہ پہلا دعویٰ نہیں۔ ایسا درجنوں بار ہو چکا ہے اور ہر بار یہ دعوی غلط ثابت ہو جاتا ہے۔

یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ پہلی ہی کوشش میں کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ میسو پوٹامیہ کے سکرپٹ کو پڑھنے میں پتھر کی تختی ملنے کے بعد 17 سال لگ گئے تھے۔

زیادہ تر انڈین ماہرین سندھ تہذیب کو اپنے ثقافتی اور مذہبی بیانیے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ محقیقین کو وسعت نظر رکھنی چاہیے۔

مثال کے طور پر ایسا ممکن ہے کہ انڈس ویلی کی زبان دراصل آج کی سرائیکی سے ہی نکلی ہو، لیکن پاکستانی ماہرین کو بھی اس نہج پر سوچنا نہیں چاہیے اگر خود بخود جڑ جائے تو الگ بات ہے لیکن اس ذہنیت کے ساتھ تحقیق نہیں کرنی چاہیے۔

تامل اور براہوی 10 ہزار سال پرانی زبانیں ہیں۔ سندھ تہذیب کے تجارتی روابط عراق، مصر، اردن اور فلسطین کے ساتھ تھے وہاں کی قدیم زبانوں کو بھی دیکھنا ہو گا۔

یہاں سے ملنے والے نوادرات جیسا کہ اجرک چار ہزار سال پرانی ہے اس کے اوپر خاص پیٹرن بنے ہوئے ہیں۔ پریسٹ کنگ نے بھی اجرک ہی پہن رکھی ہے۔

یہ پریسٹ کنگ بھٹو صاحب کو اندرا گاندھی نے تحفے میں دیا تھا۔ اندرا گاندھی نے بھٹو صاحب کو کہا تھا کہ وہ ڈانسنگ گرل لینا چاہتے ہیں یا پریسٹ کنگ؟ بھٹو صاحب نے پریسٹ کنگ لیا تھا۔

اس طرح کی مزید چیزیں ہمیں نوادرات میں تلاش کرنی ہوں گی۔

کیا وادی سندھ کی قدیم زبان ایک ہی تھی؟

اگر ہم آج کی وادی سندھ کی تہذیب کا جائزہ لیں تو یہاں ایک درجن سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔

تاہم مہر گڑھ، موئنجو دڑو اور ہڑپا سے ملنے والی اشکال سے کیا یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ہی زبان ہے یا مختلف زبانیں بھی ہو سکتی ہیں؟

اس سوال کے جواب میں ریاض لغاری کا کہنا تھا کہ ابتدائی شواہد یہ بتاتے ہیں کہ یہ علاقے ایک ہی ثقافتی پس منظر کے حامل ہو سکتے ہیں، مگر ان کی زبانوں میں فرق ہو سکتا ہے یا لہجے مختلف ہو سکتے ہیں جیسا کہ پوٹھوہاری، سرائیکی یا پنجابی کے ہیں۔

اس لیے اس مقام پر یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ایک ہی زبان تھی۔ ہاں ان میں مشترکات ہو سکتے ہیں جیسے کہ پنجاب میں بولنے والی زبانوں میں ہیں۔

گندھارا کی زبان اس لیے آسانی کے ساتھ ڈی کوڈ ہو گئی تھی کہ اس کی دیگر زبانوں کے ساتھ وابستگی تھی، پھر گندھارا کی گذشتہ تین ہزار سال کی تاریخ ریکارڈ ہے اس کے کردار تو ابھی تک لوک داستانوں کا حصہ ہیں۔

کنفیوشش گندھارا سے پڑھ کر گیا، چانکیہ، پانینی اور اس کا بھائی یہاں پڑھاتا تھا۔ گندھارا کا تقابل وادی سندھ کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔

سندھ کا تقابل میسو پوٹامیہ کے ساتھ کیا جا سکتا ہے وہاں جب لکھی ہوئی تختی دریافت ہو گئی تو پھر کام آسان ہو گیا تھا۔

پاکستان اور انڈیا کو اس سلسلے میں مشترکہ کوششیں کرنی ہوں گی۔ جدید کمپوٹر ٹیکنالوجی کے اندر زبانوں کے مزید نمونے ہیں۔

اسی طرح اے آئی سے بھی مدد مل سکتی ہے جو زبان کے رجحانات کو آسانی کے ساتھ تلاش کر لیتی ہے۔

مزید علاقوں میں کھدائیاں کی جائیں تاکہ لکھی ہوئی کوئی تختی مل سکے پھر یہاں کے قدیم قبائل کو دیکھنا پڑے گا۔

یہاں کا ایک قبیلہ رومانی تھا جو آٹھویں صدی میں اٹلی چلا گیا تھا ان کی زبان سے بھی کچھ نہ کچھ مل سکتا ہے۔

بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو۔

آپ لکھاری سے درج ذیل ایڈریس پر رابطہ کر سکتے ہیں:
@Sajjadazhar99
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close