اونچی لہریں، پگھلتے گلیشیئر: پاکستان کی ماحولیاتی جدوجہد

حنا آئرہ

ماحولیاتی تبدیلی 21ویں صدی کے سب سے اہم عالمی چیلنجوں میں سے ایک ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک کے لیے شدید ہیں، جو ماحولیاتی تغیر کے حوالے سے زیادہ حساس ہیں۔

پاکستان کی معیشت بڑی حد تک زراعت پر منحصر ہے، زیادہ تر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، اور یہ جغرافیائی لحاظ سے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے دوچار ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔

پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا اثر پانی کی بڑھتی ہوئی قلت ہے، جس کی بڑی وجہ بارشوں کے انداز میں تبدیلی اور ہمالیہ کے گلیشیئروں کا تیزی سے پگھلنا ہے۔ پاکستان کا انحصار زیادہ تر دریائے سندھ کے نظام پر ہے، جو گلیشیئروں کی برف پگھلنے اور موسمیاتی بارشوں پر منحصر ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے سبب یہ گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس سے فوری طور پر دریاؤں میں پانی کا بہاؤ تو بڑھ رہا ہے مگر طویل مدت میں پانی کی دستیابی میں کمی ہو رہی ہے۔

اس کے علاوہ مون سون کے موسم کے پیٹرن بےقاعدہ ہو چکے ہیں، جس کے نتیجے میں غیر متوقع بارشیں ہوتی ہیں جو شدید خشک سالی اور تباہ کن سیلاب دونوں کا سبب بن سکتی ہیں۔ یہ دوہرا مسئلہ زراعت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ ہمارے ہاں زراعت ایک بڑی آبادی کے روزگار کا ذریعہ ہے، جب کہ اس سے پانی کی قلت کے موجودہ مسائل کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں سیلاب اور ہیٹ ویوز جیسے شدید موسمی واقعات کی شدت اور تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں ملک نے تباہ کن سیلابوں کا سامنا کیا ہے، خاص طور پر 2010 اور پھر 2022 میں۔ ان واقعات نے انفراسٹرکچر اور زراعت کو زبردست نقصان پہنچایا ہے اور بہت سے لوگوں کو بےگھر کر دیا ہے۔

یہ بدلتے ہوئے موسمی پیٹرن نہ صرف پانی کے وسائل پر دباؤ ڈالتے ہیں بلکہ خوراک کی فراہمی کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں، جس سے ملک بھر کی آبادیوں کے لیے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے ان منسلک چیلنجوں سے نمٹنے کا موثر انتظام اور خود کو ان کے مطابق ڈھالنے کی حکمت عملی اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے۔

پانی کی قلت نہ صرف زرعی پیداوار کے لیے بلکہ پاکستان کی مجموعی آبادی کی فلاح و بہبود کے لیے بھی بڑے خطرات کا باعث ہے۔ جیسے جیسے پانی کی طلب بڑھ رہی ہے اور دستیاب وسائل کم ہو رہے ہیں، پانی کے وسائل پر دباؤ بڑھنے کا امکان ہے۔ یہ صورت حال مختلف علاقوں اور شعبوں کے درمیان ممکنہ تنازعات کو جنم دے سکتی ہے، جو روزمرہ استعمال، زراعت اور صنعتی سرگرمیوں کے لیے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔

اسلام آباد، لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہری مراکز میں تعمیرات اور توسیعی سرگرمیاں ان علاقوں کو کنکریٹ کے جنگلوں میں تبدیل کر رہی ہیں۔ عالمی سطح پر تعمیراتی صنعت اپنے مختلف اجزا اور عمل کے ذریعے کاربن کے اخراج میں 25 فیصد سے 40 فیصد تک حصہ ڈالتی ہے۔ پاکستان میں ان بڑے شہروں میں تعمیراتی سرگرمیوں کے اضافے سے سبز علاقے سمٹ رہے ہیں اور قدرتی ماحولیاتی نظام درہم برہم ہو رہے ہیں، جو بارانی پانی کے نکاس اور زیر زمین پانی کے ذخیرے کو دوبارہ بھرنے کے لیے بہت اہم ہیں۔

پاکستان میں زرعی یا رہائشی مقاصد کے لیے فعال سیلابی علاقوں پر تجاوزات ایک عام مسئلہ ہے۔ یہ حالات ملک کے آفات کے انتظامی نظام کے لیے نمایاں چیلنج پیدا کرتے ہیں۔ شہری توسیع اکثر اہم اداروں جیسے کہ فیڈرل فلڈ کمیشن، پاکستان محکمہ موسمیات، اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کی اجازت کے بغیر ہوتی ہے۔ ان مشاہدات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی چیلنج وسائل کے مربوط انتظام کی ناکافی صلاحیت سے بڑھ جاتے ہیں اور زیادہ تر مسائل انسان کے پیدا کردہ ہیں۔

پاکستان کے ماحول اور معیشت کو ماحولیاتی تبدیلی سے لاحق شدید خطرات کے پیش نظر ایک کثیر جہتی حکمت عملی کو اپنانا ضروری ہے جو ان اثرات کو کم کرے اور لچک پیدا کرے۔

پاکستان میں جس اہم ترین شعبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ پانی کا انتظام ہے۔ پانی کے موثر استعمال اور تحفظ کے طریقوں میں سرمایہ کاری ضروری ہے۔ اس میں آب پاشی کے نظام کو جدید بنانا شامل ہے تاکہ خاص طور پر زرعی شعبے میں پانی کے ضیاع کو کم کیا جا سکے۔

ڈرپ اری گیشن کے طریقے اور پانی کی بچت کرنے والے کاشت کاری کے طریقے پانی کے استعمال کو نمایاں طور پر کم کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، پانی کو ذخیرہ کرنے اور سیلاب پر قابو پانے کے مقاصد کے لیے پانی کے ذخائر کی تعمیر اور دیکھ بھال ضروری ہے تاکہ خشک سالی اور سیلاب کے ادوار کے دوران پانی کی فراہمی کو موثر انداز میں کنٹرول کیا جا سکے۔

علاوہ ازیں، مقامی اور قومی سطح پر پانی پر کنٹرول کو مضبوط بنانے کی کوششیں کرنی چاہییں تاکہ پانی کے وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے۔ پڑوسی ممالک، خاص طور پر انڈیا کے ساتھ بین الاقوامی تعاون بھی مشترکہ پانی کے وسائل کے موثر انتظام اور پانی کی کمی سے پیدا ہونے والے تنازعات سے بچنے کے لیے اہم ہے۔

خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کے مطابق زراعتی طریقے اپنانے کو ترجیح دے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایسی فصلوں کی اقسام کی نشوونما اور اپنانا ضروری ہے جو خشک سالی اور گرمی کو برداشت کر سکیں، تاکہ وہ شدید موسمی حالات کا سامنا کر سکیں۔

مزید برآں، آب و ہوا کے مطابق زراعتی تکنیکوں کا استعمال، مثال کے طور پر فصلوں کو بدل بدل کر کاشت کرنا، جنگلاتی زراعت، اور آرگینک کاشت کاری، مٹی کی زرخیزی کو بڑھا سکتے ہیں، پانی پر انحصار کو کم کر سکتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں زرعی پیداوار کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

آخر میں، پاکستان کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور ماحولیاتی تبدیلی کا موثر مقابلہ کرنے کے لیے قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی کو یقینی بنانا چاہیے۔ ملک کے پاس شمسی، ہوائی، اور پن بجلی سے فائدہ اٹھانے کے خاطر خواہ مواقع موجود ہیں، جو کہ اس کی توانائی کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں اور فوسل فیول پر انحصار کو کم کر سکتے ہیں۔

مزید برآں، ماحول دوست ٹیکنالوجیز کے فروغ اور توانائی کی کارکردگی میں بہتری سے پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے اور مقامی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close