وہ سیاست کا سنہرا گُر نہیں جانتا

امر جلیل

کئی مرتبہ پہلے بھی میں عرض کر چکا ہوں کہ ایک فاسٹ بالر کو سمجھنا آسان کام نہیں۔ ایک فاسٹ بالر کی مکمل شخصیت کو سمجھنے اور پرکھنے کی جستجو میں آپ بند گلیوں میں بھٹک جاتے ہیں۔ فاسٹ بالر کے بارے میں کھوج لگاتے ہوئے جب آپ تھک جاتے ہیں، تب آپ کو بند گلی سے باہر نکلنے کا راستہ سجھائی نہیں دیتا، آپ بند گلی میں بھٹکتے ہوئے رہ جاتے ہیں۔ کرکٹ کھیل کے داؤ پیچ سے نابلد شخص فاسٹ بالر کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتا ہے، وہ بھول بھلیوں میں بھٹک جاتا ہے۔ ٹیم کے کھلاڑیوں میں صرف وکٹ کیپر ایک فاسٹ بالر کو سمجھ سکتا ہے۔ صرف ایک وکٹ کیپر اندازہ لگا سکتا ہے کہ فاسٹ بالر اوور کی اگلی گیند کتنی رفتار سے اور کہاں ڈالے گا۔ سمجھ سے بالاتر ہونے والی شخصیت کی پہچان آخری دم تک اس کے ساتھ رہ جاتی ہے۔

کہنے کو کہتے ہیں کہ فلاں فاسٹ بالر نے پچاس ٹیسٹ میچ کھیلنے کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ یہ بات سو فیصد درست نہیں ہوتی۔ ایک Geniune یعنی حقیقی اور مستند فاسٹ بالر اپنے رویوں، اطوار اور عادتوں میں اپنی آخری سانسوں تک فاسٹ بالر رہتا ہے۔ وہ مرتا بھی اپنے رنگ ڈھنگ سے ہے۔

انیس سو پچاس کی دہائی میں ایک فاسٹ بالر اکرام الٰہی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ سندھ مدرستہ الاسلام کراچی میں میٹرک کے طالب علم تھے۔ اکرام الٰہی کئی کھلاڑیوں کو اپنے بائونسرز سے ہمیشہ کے لئے اَن فٹ کر چکے تھے۔ میرے پڑوسی تھے۔ حنیف محمد سے ان کی نہیں بنتی تھی۔ حالانکہ حنیف محمد بھی سندھ مدرستہ الاسلام میں پڑھتے تھے اور اکرام الٰہی کے ٹیم میٹ اور کولیگ تھے۔ نیٹ پریکٹس کے دوران وہ بڑے ہی جارحانہ انداز میں حنیف محمد کے خلاف بالنگ کرتے تھے۔

ایک قومی سطح کے میچ میں حنیف محمد غالباً بہاولپور کی طرف سے بیٹنگ کر رہے تھے۔ اکرام الٰہی کراچی کے لئے کھیل رہے تھے۔ حنیف محمد نے ایک سو پچاس رنز بنا لئے تھے۔ اکرام الٰہی بے انتہا غصے میں حنیف محمد کے خلاف بالنگ کر رہے تھے۔ جس قدر وہ Hostile بالنگ کرتے، حنیف ٹھنڈے مزاج سے اسے کھیلتے اور چوکے لگاتے۔ غصہ میں آ کر اکرام الٰہی دوڑتے ہوئے آئے، اور آدھی پچ تک چلے گئے اور Beamer گیند حنیف کے سر اور سینے کی طرف ڈالی۔ حنیف محمد بال بال بچے۔ بیمر ممنوع ہے، اس میں بالر جان بوجھ کر بیٹسمین کے سر اور سینے کو نشانہ بناتا ہے۔ امپائر نے اکرام الٰہی کو تنبیہ کی۔ اکرام الٰہی نے غصہ سے جواب دیتے ہوئے امپائر سے کہا، آپ مجھے نوبال No Ball کر سکتے ہیں۔ مجھے دھمکا نہیں سکتے۔

اکرام الٰہی کاردار کی ٹیم کے ممبر تھے۔ ویسٹ انڈیز گئے تھے، مگر اپنے رویوں کی وجہ سے صرف ایک ٹیسٹ میچ کھیلے۔ دنیا میں جتنے بھی فاسٹ بولرز بد اندیش اور جارحانہ بالنگ کرتے تھے، لمبے عرصہ تک کرکٹ کھیل نہ سکے۔ ہمارے عمران خان کبھی غصہ میں نہیں آتے تھے، طیش میں نہیں آتے تھے۔ ایک اوور میں تین چھکے لگنے کے بعد بھی عمران خان اوور کی چوتھی گیند بھی اسی جگہ ڈالتے تھے، جس جگہ سے بیٹسمین اُن کو تین چھکے مار چکے ہوتے تھے۔ عمران خان پیدائشی اسپورٹس مین ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ The Cricket is a game of glorious uncertainties چوتھی گیند پر ہوک شاٹ کھیلتے ہوئے بیٹسمین اسکوائر لیگ پر پکڑا جاتا تھا۔

دنیا بھر کے بالروں کے برعکس بڑے سے بڑے بیٹسمین کو آئوٹ کرنے کے بعد عمران خان میدان میں قلابازیاں مار کر اپنے کارنامے کا جشن نہیں مناتے تھے۔ بعض اوقات دور سے دیکھنے والوں کو عمران خان اکثر اکھڑ اور بدلحاظ لگتے تھے۔ نہ کسی کھلاڑی کی سفارش کرتے تھے اور نہ کسی کھلاڑی کے لئے سفارش قبول کرتے تھے۔ میرٹ پر پورا اترنے والا کھلاڑی عمران خان کی ٹیم کی طرف سے کھیل سکتا تھا۔ عمران کبھی بھی سلیکٹرز کی من مانی ٹیم میں چلنے نہیں دیتے تھے۔ کھری سنتے تھے، کھری سناتے تھے۔

انگلینڈ کے دورے سے واپس آتے ہوئے اوپننگ بیٹسمین قاسم عمر سے نہ جانے کیا غلطی سرزد ہو گئی۔ قاسم عمر کمال کا بیٹسمین تھا۔ اگر یادداشت مجھے دھوکہ نہیں دے رہی، میں سمجھتا ہوں اس ٹور پر قاسم عمر نے لارڈز گراؤنڈ پر ڈبل سنچری بنائی تھی۔ نہ جانے کیا غلطی اس شخص سے ہوگئی کہ عمران خان نے اس کو ٹیم سے اس طرح نکال دیا کہ پھر وہ برسوں تک پاکستان میں کرکٹ کھیلتے ہوئے کسی کو نظر نہیں آیا۔

انگریزی لفظ Charisma کا اردو نعم البدل لفظ مجھے نہیں ملتا۔ آپ اس کو قدرت کی دَین کہہ سکتے ہیں۔ شہرت اس لفظ کے سامنے معمولی وصف لگتی ہے۔ ہم اس گُن کو کرشمہ کہہ سکتے ہیں، مگر کرشمہ، Charisma کا معنی اور مفہوم نہیں ہے۔ کسی کسی کے حصہ میں کیرزما آتا ہے۔ یہ قدرت کی دَین ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا فٹ بال کا کھلاڑی برازیل کے پیلے Pele کو کہا جاتا ہے اور مانا جاتا ہے، مگر Charisma کیرزما ارجنٹائن کے میراڈونا کو نصیب ہوا۔ حال ہی میں ان کا انتقال ہوا ہے۔ فٹ بال کھیلنے والے اسی نوے ممالک میں میراڈونا کے گُن گائے جاتے ہیں۔ اٹلی جیسے یورپی ممالک میں میراڈونا کو پوجا جاتا ہے۔ روڈ راستوں، گلی کوچوں میں اس کی بڑی بڑی تصویریں اور پینٹنگز دکھائی دیتی ہیں، مگر ارجنٹائن کے کسی نیک بندے کو میراڈونا کو ارجنٹائن کا وزیراعظم بنانے کا خیال نہیں آیا۔

مجھے نہیں معلوم کہ عمران خان کو سیاست کی دلدل میں دھکیلنے والوں نے کیا دیکھ کر عمران کو سیاست میں آنے کے لئے راضی کیا۔ عمران خان اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں سیاست نہیں کرتے تھے، وہ صرف کھیلتے تھے۔ پروفیشنل کھلاڑی بن جانے کے بعد بھی اس نے خود کو کھیلوں کی سیاست سے دور رکھا۔ آخر کیا سوچ کر آپ نے بے مثال کھلاڑی کو سیاست کی آگ میں دھکیل دیا؟ کاش آپ نے عمران خان کو سیاست کے بدنام گُر سے آگاہ کیا ہوتا۔ ’’بڑا سیاست دان ضرورت کے تحت گدھے کو باپ بنانے سے گریز نہیں کرتا۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close