
بلوچ نوجوانوں کو جبری لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے، ریاست فسطائیت کی انتہائی حدوں پر پہنچ کر بلوچستان اور بلوچ نوجوانوں کی پُرامن جہدوجہد کے راستے بند کرتا جا رہی ہے، دنیا میں پُرامن ریلیوں احتجاجی دھرنوں کو انسانی بنیادی حقوق تسلیم کیا جا چکا ہے مگر کیا کیا جائے پاکستان میں نہ جہموریت ہے، نہ ہی جہموری قدروں کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
آج سے دھائیوں پہلے جو تشدد سے، قتل عام سے بات منوانے کا چلن شروع ہوا ہے، وہ تھمنے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر شروع سے اس ریاست میں جہموریت کو رواج دے کر اس ملک کو کثیر القومی ریاست تسلیم کر کے یہاں پر آباد قوموں کے حقِ حاکمیت، ان کے وسائل معدنیات پر ان کا حق تسلیم کر کے ایک مضبوط مرکز کے بجائے مضبوط قومی اکائیوں کی بنیاد پر استوار کیا جاتا تو نہ آج کہیں تشدد کا رواج نہیں ہوتا، نہ ہی علیحدگی کی بات ہوتی، مگر وہی فسطائیت جاری ہے جو بنگلہ دیش میں روا رکھی گئی۔
کیا پُر امن جہدوجہد کا رستہ روک کر ملک مضبوط کیا جا سکتا ہے؟ کیا اس طرح بلوچ بچیوں، خواتین کو اغوا کر کے انہیں غائب کرنا بلوچ انسرجی پہ قابو پایا جا سکتا ہے؟ بلکل نہیں۔ یہ ایک احمقانہ سوچ ہو سکتی ہے مگر حقیقت پسندانہ بلکل بھی نہیں۔
بلوچ سیکیولر قوم ہے مگر اپنے ننگ عزت پہ بات آئے تو وہ ہر وہ رستہ اختیار کرتی ہے، جس سے اس کی عزتِ نفس محفوظ ہو، اگر نہیں تو جان دینے اور لینے پہ آ جاتی ہے۔
کچھ روز قبل صبح حب سے ہماری مظلوم بہن سیما اور بیٹی ماہ زیب کو گرفتار کر کے نامعلوم جگہ منتقل کرنا بلوچ روایتوں کی توہین ہے۔ کیا اب بھی کوئی پوچھے گا کہ بلوچ ناراض کیوں ہیں؟ اس طرح ایک پُرامن خواتین جہد کاروں کو، جو پہلے سے مظلوم ہیں، اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیئے جہدوجہد کر رہی ہیں، ان کا رستہ روکنا انہیں اس طرح گرفتار کرنا کہاں کا انصاف ہے اور کہاں کی جہموریت ہے؟
بلوچ جو اس ریاست سے پہلے ہی بے زار ہے، اس طرح ان کی بچیوں کی تذلیل بلوچ کو ریاست سے دور کر رہی ہے۔ بات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چکی ہے، اس سے زیادہ پھر کیا ہو سکتا ہے۔
ایک نوجوان کہہ رہا تھا کہ ہم اس ریاست کو نہیں توڑ رہے، بلکہ اس ریاست کی پالیسیاں ریاست کو تقسیم کر دیں گی۔۔ اور وہی بات سچ ثابت ہوتی جا رہی ہے۔ حالانکہ لاپتہ افراد کے لواحقین یہ نہیں کہہ رہے کہ ان کے پیاروں کو چھوڑ دیں، رہا کریں، بلکہ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے پیاروں کو فری ٹرائل کے لیئے عدالتوں میں پیش کریں، اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں سزا دیں، اس کے بدلے انہیں پُر امن جہدوجہد سے روکنا ان کی تذلیل کرنا اور کیا ثابت کرتا ہے؟
بات ساحل وسائل معدنیات پہ حق اور قومی حقِ خود ارادیت کی تھی اگر وہ مان لی جاتی تو یہ ملک مضبوط ہوتا، تضادات کم ہوتے، نفرتیں ختم ہوتیں، مگر اب تو بات نسل کُشی تک آ گئی ہے۔ اب کیا رستہ بچا ہے؟ ریاستی جبر، جبری طور پر اٹھانا لاپتہ کرنا، ماورائے عدالت قتل کرنا، مسخ کر کے پھینکنا نہ مسئلے کا حل ہے، نہ ہی مسئلے کو ختم کرے گا۔ اس سے نفرتیں اور بڑھیں گی۔ تشدد ہمیشہ مزید تشدد کو جنم دیتا ہے۔
آج جو عمل حب میں کیا گیا، یہ پیٹرول پر ماچس کی تیلی سلگا کر پھینکنے کے برابر ہے۔ بلوچ، کچھ بھی ہو، یہ تذلیل برداشت نہیں کرے گا۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)