لوہے کا بکسا اور بندوق (ہندی ادب سے منتخب افسانہ)

متھلیش پریا درشی (اردو قالب: تصنیف حیدر)

تنہائی میں ڈوبتے، ابھرتے مارکُش کا پُلِسیا لائن میں یہ تیسرا سال تھا۔ تین سال، جیسے تین پوری صدیاں، لوہے کے بکسے اور بندوق کے ساتھ۔۔ لوہے کے بکسے میں بند زندگی گھسٹتی جا رہی تھی۔ یہ گھسٹنا اتنی دور تک نہیں ہوتا، اگر مارکُش کے والد جنگل چھوڑ کر مزدوری کے لیے اتنی دور تک نہیں آتے۔

کہتے ہیں، جس گاؤں میں مارکُش کے والد مزدوری کے لیے آئے تھے، وہ دھان گیہوں کی پیداوار کے لیے جنت تھا۔فصلیں ہوا چلنے پر بھارت کے جھنڈے کی طرح لہلہاتی تھیں۔ پہلے اس گاؤں میں ایک باہری ٹولہ ہوا کرتا تھا، جس کے بل پر یہ جادو ممکن ہوا تھا۔ وہ تاریخ کے جانے کن پنوں سے بندھوا مزدور بن کر آئے تھے اور گھسے چلے جارہے تھے۔اس ٹولے میں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو ٹولے سے زیادہ خوشی گاؤں میں منائی جاتی۔ ہر بچے کی پیدائش پر زمینداروں کو لگتا، ان کے کھیتوں میں سونا بونے والا ایک اور بیل پیدا ہوا ہے، لیکن ایک صبح گاؤں نے دیکھا، تمام ٹولہ خالی تھا۔ نئی نسل کو بندھوا کے جال سے نکالنے کا مزدور پالکوں کے پاس محض ایک یہی راستہ بچا تھا، ہجرت۔۔ کمانے کے لحاظ سے دنیا بڑی تھی۔ کہیں بھی کھو جایا جا سکتا تھا۔ جائے پیدائش کا موہ ترک کر کے وہ راتوں رات اس جگہ کو چھوڑ کر غائب ہو گئے تھے۔ گاؤں میں ہاہاکار مچ گیا تھا۔ پکی فصلیں جھڑ کر واپس کھیتوں میں مل رہی تھیں۔

پھر آئے تھے آدی واسی۔ نجات دہندوں کی طرح۔۔ کسی نے انہیں خالی ہوئے مزدور ٹولے میں بسانے کا مشورہ دیا تھا۔

اور اس کے بعد سے آدی واسیوں کو لانے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ بوائی کٹائی کے وقت جنگلوں، پہاڑوں سے آدی واسیوں کو ٹرکوں میں بھر کر لایا جاتا۔ کئی کما کر جنگل لوٹ جاتے، مگر کئیوں نے اسی ٹولے میں اپنی گرہستی آباد کر لی تھی۔

مارکش کے والد اس گاؤں میں مزدوری کے لیے آنے والے پہلے آدی واسی تھے۔ اس وقت وہاں کے حالات بڑے مناسب تھے۔ نہ رہنے کا ٹھور نہ کھانے کا پتہ۔ تِس پر بگڑے منہ والے اکھڑ اور سخت حکمراں۔۔ مارکُش کے والد کھیتوں میں محنت کرتے اور انہیں کوستے، ”بہلا پھسلا کر لاد لیا تھا ٹرک میں۔۔ کیسی باتیں بناتے تھے کہ ایسی جگہ ہے، ویسی جگہ ہے۔ کوئی دقت نہیں ہوگی۔ اور مزدوری کے لیے تو سوچنا ہی نہیں ہے۔۔ اتنی دوں گا، اتنی دوں گا اور یہاں سب غائب ہے۔ صرف دھوکا۔۔ جبکہ محنت دوگنی۔ مت ماری گئی تھی جو اپنے جنگل پہاڑ کو چھوڑ کر چلے آئے۔“

وہ افسوس کرتے، لیکن اب لَوٹیں گے، تب لَوٹیں گے کے چکر میں دو سال اسی طرح اوبڑ کھابڑ حالات سے تال میل بٹھاتے کٹ گئے۔ سخت جان مارکش کے والد اپنی مرضی سے ڈٹے رہے۔ دھیرے دھیرے رینگتی اسی ٹولے کی زندگی میں سپاہی مارکش لکڑا نے اپنی کنمنائی آنکھیں کھولی تھیں۔ اس وقت مارکش محض تین سال کا تھا، جب اس کے والد کو پُوس نگل گئی۔ وہ اپنے پیچھے مارکش کے لیے پھوس سے بنی ایک ڈربے نما جھونپڑی، ایک بکری اور لگ بھگ تباہ ہو چکی سائیکل چھوڑ گئے تھے۔ اداس ماں، پھوس سے بنی جھونپڑی، پرانی سائیکل اور ایک بکری، انہی چاروں کے سہارے اب مارکُش کو اپنی آگے کی عمر گزارنی تھی۔

ماں کھیتوں میں کام کرتی اور وہ ان کی پیٹھ پر ایک انگوچھے میں بندھا لٹکتا رہتا۔ گاؤں کے لوگ اسے تجسس سے دیکھتے۔ اس نے ماں کی پیٹھ پر لٹکتے ہوئے بھی بیجوں کو پھوٹتے دیکھا، فصلوں کو لہلہاتے دیکھا، انہیں کٹتے دیکھا اور جب تھوڑا بڑا ہوا اور ماں کی پیٹھ سے اترا تو مینڈوں پر بیٹھ کر تتلیوں سے کھیلنے لگا۔ تھوڑا اور بڑا ہوا تو گرتا پڑتا چڑیوں کے پیچھے بھاگنے لگا۔ تھوڑا اور بڑا ہوا تو سِیاروں کے پیچھے۔۔ کام کرتی ماں کے لیے اس بھاگتے لڑکے پر نظر رکھنا مشکل تھا، اس لیے انہوں نے اسے اسکول میں بٹھا دیا۔

پہلا اسکول پاس کے گاؤں میں ہی تھا۔ مارکش تب سات سال کا رہا ہوگا، جب کالی سلیٹ کو بورے پر بیٹھ کر بالکل الگ ایک کونے میں اجلے چاک سے رنگنے لگا تھا۔ ٹولے سے وہ اکیلا جاتا، باقی گاؤں کے بڑے لوگوں کے بچے بیل گاڑیوں میں لد کر جاتے۔ مارکُش اچھلتا کودتا ان کے پیچھے ہو لیتا۔ آدھی دور تک ماں اس کے ساتھ ہوتی پھر ماں کھیتوں میں کھو جاتی اور وہ بیل گاڑیوں کی چرمراہٹ میں۔۔

وہ کبھی ڈٹ کر اسکول نہیں گیا، حالانکہ موسم کیسا بھی ہو، وہ صبح ہی اپنی جھونپڑی چھوڑ دیتا۔ اسکول جاتا یا ادھر ادھر گھومتا رہتا۔۔ ماں کے ساتھ عورتوں مردوں کے جھنڈ میں کھیتوں میں جانا اب اسے پسند نہیں تھا، لیکن ماں کے کاموں میں ہاٹھ بھی بٹانا تھا۔ سو، پانچویں کے بعد مارکش قصبے کے ’مجور (مزدور) اسٹینڈ‘ میں کھڑا ہونے لگا تھا۔ وہ کسی بھی راج مستری کے ساتھ ہو لیتا، مسالا اینٹ میں مدد کرنے کے لیے۔۔ دن بھر بڑی آسانی اور اطمینان کے ساتھ کام کرتا۔ شام کو ملے پیسے ماں کے پاس جمع ہو جاتے۔

یہی سلسلہ بنا کسی بدلاؤ کے چار پانچ سال تک چلتا رہا۔ شوہر کی بے وقت موت اور دن رات کی محنت کے سبب وقت سے پہلے ادھیڑ ہو چکی ماں بُڑھانے لگی اور وہ کھِلتا گیا۔ قصبے کے اعلیٰ اسکول نے پہلے اسکول کی جگہ لے لی۔ اس نے ’ا۔ج۔جا‘ (انوسوچِت جن جاتی بمعنی شیڈول ٹرائب) والے کالم کو احتیاط سے نشان زد کرنا شروع کر دیا۔ پہلے بچے صرف اس کے کالے شریر اور پرانے کپڑوں کا مذاق اڑاتے تھے، اب اس میں اس کا ’ا۔ج۔جا‘ ہونا بھی جڑ گیا تھا۔

دیر سے پڑھائی شروع کرنے کی وجہ سے وہ اپنی جماعت میں عمر میں سب سے بڑا دِکھتا تھا۔ گہرا کالا بدن دھیرے دھیرے مضبوط ہو رہا تھا۔ مارکُش اسکول جانا اچانک چھوڑ دیا کرتا۔ روپے پیسے کی بات نہیں تھی، کیونکہ اسکول سرکاری تھا۔ اسکول میں پڑھائی کم ہوتی اور بدمعاشیاں زیادہ۔ کبھی کچھ پڑھایا بھی جاتا تو اتنے سے کے لیے اتنی دور جانا اسے فضول لگتا۔ سفید موٹے دھاگوں سے سلی ہوئی پلاسٹک کی چپل، اُٹنگی پینٹ اور مڑی تڑی میلی قمیص بھی اسے دن بھر اسکول میں بے چین رکھتیں۔ بازوؤں پر اُگ آئی مچھلیاں اب اسے پڑھائی کے بجائے بالغوں کی مجوری میں کھینچے لگی تھیں۔ جھونپڑی میں اس کے خیال ٹک نہیں پاتے تھے۔ وہ جھونپڑی کا ٹاٹ سرکاتا اور لگ بھگ برباد ہو چکی سائیکل پر اپنے خیالوں کو لادے ہوئے نکل پڑتا۔

سائیکل کی پیٹھ پر سوار مارکُش خود اعتمادی کے مارے اکڑ اکڑ جاتا۔ اسے لگتا، وہ اوروں کے برابر ہو رہا ہے۔ لوگوں کی نظریں اسے قبول کر رہی ہیں۔ یہی کارن تھا، وہ ہمیشہ سائیکل سے چپکا رہتا۔ خوب گھسی مینڈ پر بریک اور پیڈل سے کھیلتے ہوئے اپنے ہم عمر یاروں سے کہتا، ”مینڈوں پر سائیکل چلانا کھیل نہیں ہے۔ بڑی کلاکاری ہے اس میں۔۔ سب کے بوتے کا نہیں ہے۔ پھر سائیکل بھی اپنی ہونی چاہیے۔ اپنی ہو تو ہاتھ بیٹھا رہتا ہے۔ کالی سڑکوں پر سائیکل چلایا تو کیا چلایا؟ کوئی مزہ نہیں۔اوپر سے چار پہیوں کی لاٹ شاہی۔۔ غلطی نہ کرو تب بھی چڑھا دیں۔ اصلی ڈرائیوری یہی چلانے میں ہے۔“

مارکش نے پڑھا، چھوڑ چھوڑ کر پڑھا، جیسے تیسے پڑھا۔۔ پھر بھی میٹرک والا ’آئرن گیٹ‘ پھاند گیا۔ پورے قصبے کے لیے یہ حیرت کی بات تھی، مگر ٹولے کے لیے کسی کامیابی سے کم نہ تھی۔ حیرت اس لیے کہ اس سماج میں پڑھائی کا کوئی اتہاس نہیں تھا اور کامیابی اس لیے کہ مجور (مزدور) ٹولے کا اپنا اتہاس بننا شروع ہوگیا تھا۔

1

اب کے تبادلہ دین سرائے میں ہوا تھا۔ نہایت سکڑے سمٹے اسٹیشن کی مانند سکڑا سمٹا قصبہ تھا دین سرائے۔۔ دن رات ملا کر پانچ سواری گاڑیاں یہاں رکتی تھیں۔ باقی ایکسپریس زناٹے سے پیچھے پٹریاں چھوڑتی، غریب دین سرائے باسیوں اور ان کے مہمانوں کو گھبرایا ہوا چھوڑ کر دھائیں دھائیں نکل جاتیں۔ خالص ماؤ وادی علاقہ ہونے کی وجہ سے پورا دین سرائے چھاؤنی میں تبدیل ہوگیا تھا۔ دوسری جگہوں پر کبھی نہ دِکھنے والی بکتر بند گاڑیاں یہاں دھڑلے سے سڑکوں پر دوڑتی دِکھتیں۔ ہر آدھے کلو میٹر پر پولیس چیکنگ پوائنٹ بنے ہوئے تھے، جہاں دو پہیوں، چار پہیوں کو روک کر کبھی بھی تلاشی لی جاتی۔ پورا قصبہ شانت پڑا تھا۔ چہل پہل کے نام پر بدھوار کو لگنے والے ہفتہ وار بازار کی رونق سے قصبے کی عزت بچی ہوئی تھی۔ بقیہ دنوں میں بازار آدمیوں سے بھرا ایک محلہ ہوا کرتا، وہ بھی شام چار پانچ بجے تک۔ اس کے بعد سب کو مردہ بننا پڑتا۔ سُونی رات کو اپنے پہیوں تلے کچلتی، گھرگھراتی بڑی گاڑیاں اور جیپیں ان گلیوں میں سرپٹ بھاگا کرتیں۔ دین سرائے کے پاس پڑوس کے گاؤں میں سورج ڈوبنے سے پہلے ہی رات ہو جایا کرتی۔ مویشی سے لے کر پنچھیوں تک، سب اس اصول کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے ڈیرے میں لوٹ آتے۔ پھر رات اکیلی ہو جاتی، گاؤں کے ساتھ، گاؤں کے بعد شروع ہونے والے جنگلوں کے ساتھ۔۔

مارکُش کو انہی گاؤں میں ساتھی سپاہیوں کے ساتھ دن میں دو بار اور رات میں ایک بار گشت پر جانا ہوتا۔ گاؤں سے گزرتے ہوئے دن کی گشت میں وہ اپنے ٹولے کی زندگی تلاش کیا کرتا۔ جیپ گزرنے پر ڈیزل کی بُو سونگھنے کے لیے لڑتے بھڑتے دین دنیا سے بے خبر پھٹے حال بچے، مرغیوں، بطخوں، بکریوں اور سوئروں کی چِلّ پوں۔۔ ابھی ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے تنہا ریڈیو کے قریب بیٹھے ہلکے ہلکے گنگنگاتے کسی لڑکے کے علاوہ باقی چاروں طرف قبرستان جیسی شانتی لیے گرد آلود ہوائیں بھٹکتی رہتیں۔

گشت سے لوٹنے پر وہی مُردنی مارکش کے چہرے پر چھا جاتی۔ ڈیوٹی کے بعد فارغ وقت میں تین برابر اور ایک حسبِ توقع چھوٹے پائے والی کرسی پر اپنا توازن سنبھالتا مارکش ایسے جھولتا رہتا، گویا آسمان کے بیچوں بیچ ٹنگ جانا چاہتا ہو۔ اسے اپنے ٹولے میں ملنے والی دال موٹھ کی طلب ہوتی اور وہ اٹھ کر اسٹیشن کی طرف چل پڑتا۔ اسٹیشن کی لوہے والی باڑ سے ہوتا ہوا آخری گُمٹی پر پہنچ جاتا۔ دال موٹھ پھانکتا اور چائے پیتا۔ دال موٹھ ختم ہوجانے پر کاغذ کو سیدھا کر کے سرسری طور پر دیکھتا۔ آج سے تین سال پہلے اسی طرح دال موٹھ کے کاغذ پر اس نے پڑھا تھا، ’فلاں ریاستی ہوم گارڈ سینا بھرتی سیوا، نوکریوں کی تعداد۔۔ اتنی، اہلیت۔۔۔ اتنی، قوتِ بدنی۔۔۔ اتنی، سینہ۔۔۔ اتنا، پُھلا کر اتنا۔‘

کاغذ کے گندے اور پھٹے ہونے سے محض اتنا ہی اشتہار وہ دیکھ پایا۔ باقی کے بارے میں پتہ کرنے کے لیے وہ ترنت قصبے کے لیے نکل پڑا۔ قصبہ پہنچ کر اسے دو باتیں پتہ چلیں۔ ایک تو یہ کہ درخواست جاری ہوئے ایک مہینہ ہونے آیا ہے۔ دوسرے، درخواست فارم لینے کے لیے اسے شہر جانا ہوگا اور وہ اسی پل شہر کے لیے نکل گیا تھا۔ آناً فاناً میں وہاں اس نے درخواست فارم بھرا تھا اور تمام اندیشوں کے درمیان اسے پوسٹ کر آیا تھا۔

جب سے مارکُش نے فارم بھرا تھا، اس کے ذہن میں ہر پل یہی گھومتا رہتا تھا۔ وہ روزمرہ کے کاموں کے ساتھ تیاریاں کرتا رہتا۔ کُدال یا لاٹھی چلاتے ہوئے بانہوں اور سینے کے مضبوط ہونے کی بابت سوچتا۔ کہیں دوڑتے کودتے ہوئے جانا اب اس کی تیاریوں کا حصہ تھا۔ پیڑوں کی شاخوں سے لٹک کر چھاتی چوڑی کرنا، گھنٹوں بھینسوں سے بھرے گندے تالاب میں تیرنا، اینٹ یا سیمنٹ، ریتی سے بھری بوریوں کو اٹھانے جیسے کئی کام تھے، جنہیں کرتے ہوئے وہ اپنی قوتِ بدنی جانچنے والی آزمائشوں کے لیے خود کو تیار کر رہا ہوتا تھا۔

اس کے باوجود دوڑ والے دن اسے کپکپی چھوٹ رہی تھی۔ وہ ماں کو ساتھ لے جانا چاہتا تھا، لیکن کام میں حرج نہ ہو، اس لیے ماں کھیتوں میں ہی رہ گئی تھی۔ حالانکہ وہ اکیلا نہیں تھا، بس کی چھت ایسے بیروزگاروں سے پٹی پڑی تھی۔ بے روزگاری کا کلنک ماتھے سے مٹانے کو بے قرار یہ نوجوان کافی پرجوش نظر آتے تھے اور ساتھ میں کچھ خوف زدہ بھی۔۔ بے روزگاری کے عذاب سے انہیں موت تو نہیں آئی تھی، لیکن ان کے جیون کا بیش قیمتی وقت اسی امید میں موت کے منہ میں جاپڑا تھا۔ بھاگتی بس پر ان کی ٹھہری ہوئی شفاف آنکھوں میں مستقبل کا خواب یا خوف دوڑ رہا تھا۔

دوڑ بارہ بجے دن سے شروع ہونی تھی، لیکن لوگ سات بجے سے جمع ہونے لگے تھے۔ کاغذوں کی چھان بین ہوتے ہوتے دس بج گئے۔ پھر شروع ہوئی نپائی، تُلائی۔ سب کو انڈرویئر چھوڑ کر باقی کپڑے اتارنے کے لیے کہا گیا۔ مارکُش شرما گیا۔ بے چین ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ تبھی پیچھے سے کسی نے اسے ہلکا دھکا دیا۔ ’بینچو پھٹاک سے چڈی اتار اور سٹاک سے یہاں لائن میں بیٹھ۔ ادھر ادھر کیا دیکھ رہا ہے؟ مروانے آیا ہے؟‘ یہ وردی پہنے بڑی توند والا کوئی چھوٹا افسر تھا۔

اسے یقین نہیں ہوا کہ یہ اس سے کہا گیا تھا۔ آس پاس کے امیدوار اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ اسے اسکول کے دن یاد آ گئے، جب بچے اسے ایسے ہی گھورتے تھے۔ اس نے آنکھیں نہیں اٹھائیں ۔وہ اونچے لہجے اور گالی کی تیزی سے اندر تک کانپ گیا تھا۔ اسے اپنا ہی بدن بہت بھاری لگ رہا تھا۔ آس پاس کی بھیڑ جیسے غائب ہوگئی تھی۔ اسے لگ رہا تھا، جیسے کپڑے اتارتے ہوئے اس کے ہاتھ اس کے اپنے نہیں ہوں۔ دھرتی گھوڑے والے جھولے کی طرح گول گول گھوم رہی تھی۔ وہ چکرا کر گرنے سے خود کو بچانے کے لیے بیٹھ گیا۔

گھنٹے بھر میں وہاں موجود سپاہیوں کی وجہ سے میدان کی فضا میں اتنی گالیاں بھر گئیں کہ مارکُش کے کان اس کے عادی ہوتے چلے گئے۔ اس کا بجھا من دھیرے دھیرے معمول پر آنے لگا۔ تقریباً ایک بجے دوڑ شروع ہوئی۔ اس منجھولے میدان میں اپنے پیروں تلے بیروزگاری کو روند دینے کو بے قرار سینکڑوں انسانی ڈھانچوں کا ریلا سیٹی کی آواز کی طرف کان لگائے بے چین کھڑا تھا۔ بے روزگاری کے عذاب نے ان کے دماغوں کا ٹھیک طور پر ارتقا نہیں ہونے دیا تھا۔ اسکول کی اخلاقی تعلیم کی کتابوں سے ادھر سماج اور ریاست کی پروا کیے بنا، کوئی بھی قانونی، غیر قانونی موقع تلاشتے ان نوجوانوں کے پاس خود پر لگے ’غیر ضروری‘ کا ٹیگ اتار پھینکنے کا یہ ایک اہم موقع تھا۔

سیٹی بجی نہیں کہ لوگ دوڑ پڑے۔ نوکری کو پہلے چھو لینے کی ہوڑ میں کون گرا، کون مرا، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ تیزی، جوش اور بدحواسی نے مارکُش کو بھی خوب دوڑایا۔ اس کے لیے یہاں محنت کا بس طریقہ بدل گیا تھا، باقی خون کی کھپت پہلے کی طرح ہی ہوئی تھی۔ بہت کچھ بھلا کر اور بہت کچھ یاد کر کے اس نے زبردست دوڑ لگائی۔ چھٹنے کا سوال ہی نہیں تھا۔۔

اس درمیان بھاگ دوڑ بنی رہی۔ پہلے تحریری امتحان، پھر میڈیکل۔ امتحان میں تو نہیں، میڈیکل کے دوران ضرور پریشانی ہوئی۔ پہلے دن کی طرح گالی گلوچ نہیں ہوئی، مگر کچھ ایسا ہوا کہ وہ خود شرم کے مارے زمین میں گڑ گیا۔ دیگر امیدواروں کے ساتھ مارکُش ایسے ننگا کھڑا تھا، گویا تجربہ گاہ میں کسی تجربے کے لیے کھڑا ہو۔ہاتھوں میں دستانے پہنے ڈاکٹر آدمی نہیں، مشین لگ رہے تھے۔ وہ گانڈ تک میں انگلیاں ڈال کر دیکھ رہے تھے۔ مارکُش کو ہفتہ وار ہاٹ کے وہ بیوپاری یاد آگئے جو خصیوں کے فوطوں کو ٹٹول کر ان کی عمر کا اندازہ لگاتے تھے۔

دھیرے دھیرے مجور ٹولے کا موسم بدل رہا تھا۔ سورج نے اپنی تپش کم کر دی تھی۔ سوکھی ہواؤں میں ایک مہک کے ساتھ نمی آگئی تھی۔ پورے ماحول کی فضا کسی جشن کی سی لگ رہی تھی۔ لوگ من ہی من خوش رہتے تھے۔۔ ان کے ہاتھ، پیر، منہ چلتے ہوئے کسی تہوار کا سااحساس دلاتے تھے۔ مارکش کے پولیس بنتے ہی ٹولے کے لوگوں نے فخر کرنا شروع کر دیا تھا۔ انہیں لگ رہا تھا، تھانہ پولیس میں اب ان کا بھی کوئی آدمی ہے۔ خاکی کپڑے پہنتے ہی مارکش کی غریبی اور ’ا۔ج۔جا‘ کا تمغہ ان کپڑوں کے پیچھے چھپ گیا تھا۔ کچھ ہزار روپیوں کی ماہانہ آمدنی نے اس کی بے فکری بڑھا دی تھی۔

مارکُش اب اس نظام کا حصہ تھا۔ کھیتوں میں کھپتی زندگی کا یوں کروٹ بدلنا اسے خاصا خوش کر رہا تھا۔ حالانکہ یہ شروعاتی جوش ٹریننگ کے کٹھن پلوں کے نیچے دب کر جلد ہی کھانسنے لگا تھا۔ کیمپ میں کام کی تعریف کچھ اور تھی۔ اس سے اس کا سمے اور بدن لے لیا گیا تھا۔ اب اس کا کوئی دن اپنا نہیں تھا۔

مارکُش کی نوکری کی شروعات بینک میں پہرے داری سے شروع ہوئی۔ ٹولے کے سماج کے لیے یہ ایک سنگِ میل تھا اور آئندہ نسل کے لیے مارکش ایک زندہ مثال۔۔ ٹولے کے ماں باپ کو اپنے بچوں کو بتانے کے لیے مارکش کے روپ میں ایک ہیرو مل گیا تھا۔ ان کی نظر میں مارکش سب سے کامیاب آدمی تھا۔ وہ بچوں سے کہتے، انہیں بڑے ہو کر مارکش کی طرح بننا ہے۔ یہی وجہ تھی، بچے مارکُش کو پسند نہیں کرتے تھے، کیونکہ ان کے نہیں پڑھنے پر پیٹے جانے کا سیدھا ذمہ دار وہی تھا۔

ماں خوشی کے مارے اب دگنے جوش کے ساتھ کام کرتی۔ سب کہتے، ’اب کیوں گِھس رہی ہو؟‘ وہ مسکرا دیتی۔خوشی نے اس کی کاشتکاری کی صلاحیت بڑھا دی تھی۔ شام میں سر پر سکون کی تھکان لادے ماں ادھر سونے جاتی، ادھر بیٹا کاندھے پر بندوق لٹکائے گیٹ ڈھن ڈھن ہونے پر زور سے چلاتا۔۔۔ ’کون ہے؟‘ بینک کے ٹھیک سامنے والے محلے کے بچے رات برات اچانک ڈر کر جاگ پڑتے۔ ان کے بیچ یہ کہانی مشہور تھی کہ پولیس کے تین بار ’کون ہے‘ کہنے پر بھی اگر سامنے والا جواب دیے بنا اندر گھسا چلا آتا ہے تو پولیس اس کے پیروں پر گولی چلا دیتی ہے۔ ان کے پاس مثال کے طور پر ایک کہانی بھی موجود تھی، جس میں ایک سپاہی تین مرتبہ ’کون ہے‘ کہتا ہے اور جواب نہ ملنے پر گولی چلا دیتا ہے۔ اس کا نشانہ پیروں سے چوک کر کلیجے پر جا لگتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مرنے والا اس کا باپ تھا۔

دو برس تک مارکُش بندوق تھامے بینک میں جمع گاڑھی اور پنیلی کمائی کی حفاظت کرتا رہا۔ وردی کے ساتھ گولیوں کی پٹیوں کو بیلٹ کی طرح لگا کر، وزنی رائفل کو کبھی اس ہاتھ تو کبھی اس ہاتھ لے کر وہ لگاتار چہل قدمی کرتا رہتا۔ آتے جاتے لوگوں کی آنکھوں میں جھانکتا رہتا۔ اکتا دینے والے اس کام نے اس کی آنکھوں کو بے حد مہین بنا دیا تھا۔ وہ دیکھتا، روپے بیگ اور سوٹ کیس میں بھی آتے اور آنچل، انگوچھوں اور لنگیوں کے کونوں میں بھی۔۔ بعد میں بینک میں سارے پیسے مل کر ایک ہو جاتے۔ صاف اور شفاف پیسہ۔۔ بیگ سوٹ کیس والے لوگ ہنسی خوشی آتے اور ہنسی خوشی جاتے۔ ان کے لیے بینک ان کے گھر کا آدمی تھا، جو نہ صرف ان کے پیسے محفوظ رکھتا تھا بلکہ کاروبار میں ان کی ہر طرح سے مدد کرتا تھا۔ دوسری طرف وہ تھے، جو ہمیشہ دکھ میں ڈوبے چہرے کے ساتھ بینک آتے۔ پیسے نکالنا ہوں یا جمع کرنا، دکھ ان کے ساتھ ویسے ہی واپس جاتا۔ ان میں کسی کی بیٹی بیاہنی ہوتی، کسی کو اپنے دو برس سے چھٹے دو کمروں والے مکان کی مرمت کرانی ہوتی، کسی کو بے روزگار بیٹوں، پوتوں والے خاندان کے لیے پینشن نکالنی ہوتی، کچھ قرض کی تلاش میں آتے تو کچھ برسوں سے چلتے آ رہے قرض کی رقم بھرنے۔ مارکُش ان سب چہروں کو اچھی طرح پہچانتا تھا۔ لوگوں کے کپڑوں، جوتے چپلوں اور چہرے کے بھاو سے وہ ان کی پاس بک کے وزن کا پتہ لگا سکتا تھا۔

شروعاتی جوش اور موج کے بعد مارکش کے لیے نوکری کی کشش دھندھلی ہوتی جا رہی تھی۔ یکرنگی سے بھری اس ڈیوٹی کے لیے اس کا جوش مدھم پڑنے لگا تھا۔ ٹولے کی کھلندڑی زندگی اور پیاری ماں سے دور مارکش کو یک رخی معمول زندگی سے وابستہ یہ دن اجاڑ، بے رس اور کٹھور لگتے۔ بس، فالتو کی گولی، بندوق لیے جھبرے کتے کی طرح احاطے میں گھومتے رہو، رات میں بنا مطلب کے ’کون ہے‘ ’کون ہے‘ چلاتے رہو۔کوئی ہوتا ووتا نہیں ہے۔ گلی کے کتے ہوتے ہیں، جو رات برات گیٹ سے اپنی پیٹھ کھجا رہے ہوتے ہیں۔

رات کے گہرے سناٹے میں اکیلے زندگی بسر کرتے مارکش کی آنکھوں میں ناامیدی اور دکھ سے بھرے وہ سارے چہرے ناچتے رہتے، جو دن میں دکھائی دیتے۔ کوئی گھگھیا کر کہتا، ‘بابو، فارم بھردو۔‘ کوئی کسی یوجنا کے پیسوں کے بارے میں پوچھتا تو کسی بزرگ کو پینشن کے کچھ پیسوں کے بارے میں جاننا ہوتا۔ مارکُش کو لگتا، شاید اس کا چہرہ ان کے بیچ کا چہرہ ہے، اس لیے وہ کسی جھنجھلائے کلرک کے بجائے کچھ پوچھنے کے لیے اسے چُنتے ہیں۔ وہ سب کی مدد کرنا چاہتا، لیکن بینک والے اسے ڈانٹ دیتے۔ ’اپنے کام سے کام رکھو۔ تمہاری وجہ سے کاؤنٹر پر زیادہ بھیڑ ہوجاتی ہے۔‘ ساتھی سپاہی ہڑکاتے، ’کوئی انہی میں سے ایک دن تمہاری بندوق چھین کر بینک لوٹ لے گا۔‘ مارکُش سوچتا، اس کے ٹولے میں بھی تو ایسے ہی لوگ ہیں۔۔ کیا یہ لوگ ان سے بھی ایسے ہی خوف زدہ رہتے ہونگے؟

ٹولے کے لوگوں کے پاس پیسے نہیں تھے۔ وہ کبھی بینک نہیں جاتے۔ مارکُش انہیں سپنے میں دیکھتا، سپنے میں اس کے پسینے چھوٹ رہے ہوتے۔ مجور ٹولے کے لوگوں کے ساتھ دکھ سے سَنے دن میں دِکھنے والے چہرے بھی بینک کے لوہے والے گیٹ میں لٹکے رہتے۔ مارکُش ڈھن ڈھن کی آواز سن کر لپکتا اور ’کون ہے‘ کی زوردار آواز لگائے بنا ان کی جانب گولی داغ دیتا۔۔ مگر گولی بندوق میں ہی پُھسس ہوکر رہ جاتی۔ وہ بری طرح ڈر جاتا۔ بھاگ کر کمرے میں چھپ جاتا۔ جب ’مارکش مارکش‘ کی آوازوں سے گیٹ کے ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا تو وہ ان کی طرف چابی اچھال دیتا اور راحت کی سانس لے کر انہیں آرام سے بینک میں گھستے ہوئے دیکھتا رہتا۔ کچھ منٹوں کی ضروری توڑ پھوڑ کے بعد وہ ناچتے کودتے ہاتھوں میں روپے تھامے جشن مناتے باہر نکلتے۔ وہ ہاتھ ہلا کر انہیں ’شُبھ راتری‘ (شب بخیر) کہتا۔ مارکُش کے پسینے سوکھ چکے ہوتے۔ وہ کروٹ بدلتا ہوا لمبی سانسیں لیتا اور نیند میں ہی چٹکی بھر مسکرا دیتا۔ اس کے بعد اسے کسی طرح کا کوئی سپنا نہیں آتا اور پیشاب کا دباؤ آنے تک وہ سوتا رہتا۔

2

اسی درمیان علیحدگی پسند علاقوں کے لیے پولیس کی خاص بھرتی یوجنا نکلی تھی۔ ’ہوم گارڈوں‘ کو ترجیح دی جا رہی تھی۔ جگہیں زیادہ تھیں اور تنخواہیں بھی۔ دوڑ دھوپ اور لکھا پڑھی کے روایتی سلسلوں کے بعد مارکُش کھانٹی پولیسیا لائن میں شامل ہو گیا تھا۔

شہر بدل گیا تھا۔ یہ بینک والے شہر سے تھوڑا بڑا شہر تھا۔ شہر کے مرکزی تھانے میں اس کی تعیناتی ہوئی تھی۔رہنے کے لیے احاطے میں ہی تنبو لگے تھے۔ سپاہیوں کی آپسی رضامندی اور تال میل سے مشترکہ رسوئی چلتی تھی۔ مارکش کو دیکھتے ہی اسے رسوئی میں شامل کر لیا گیا تھا۔ اسے سبزیوں اور گندے برتنوں کو دھونے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ کھانے کی دقت نہیں تھی، قسم قسم کی چیزیں بنتیں اور لگ بھگ مفت۔۔ رسوئی کا خرچ نا کے برابر تھا۔ سپاہی، حوالدار سب مل کر شام کو بازار کی سیر کرنے نکلتے۔ یہ لوگ بڑی ڈھٹائی سے ہر ٹھیلے سے دو چار آلو، ٹماٹر اور ہری سبزیاں تھیلے میں ڈالتے جاتے۔ سب سے تھوڑا تھوڑا لینے کے باوجود بھی تھیلے کا منہ فوراً ہی بھر جاتا۔ مرغے اور مٹن کی دوکانوں کا دن بندھا تھا۔ کوئی کسی روز تو کوئی کسی روز۔۔ شام میں مشترکہ رسوئی میں اتنی چیزیں آ جاتیں کہ طے کرنا مشکل ہو جاتا، آج کٹھل بنے گا یا پرول؟ پورا شہر اپنا تھا۔جھال مُڑی کا ٹھیلہ ہو یا چِنیابادام (مونگ پھلی کے دانے) کا، پاس سے گزرتے ہوئے ہاتھ بڑھایا، کچھ اٹھایا اور چلتے بنے۔۔ نہ پانی، نہ پلیٹ، نہ پیسہ۔۔ اور تو اور، رکشوں پر بھی اسی طرح چڑھے اور اتر گئے۔ کسی سے کوئی بات چیت نہیں۔ رکشے آٹو والے کو دور سے ہی آنکھیں دکھائیں اور آدمی حاضر۔ آٹو ڈھنگ سے رکا نہیں کہ آگے لد گئے۔ یہ الگ بات ہے، اگلے موڑ پر آگے سواری بٹھانے والوں سے خود ہی پیسے وصولتے ہوں۔مارکُش سوچتا، ’کتنے بدمعاش ہیں۔۔۔ غضب لوٹ کھسوٹ مچاتے ہیں۔‘ یہ دن کے اجالے میں دِکھنے والی چھوٹی لُوٹیں تھیں، اندھیرے کمروں میں ہونے والی وصولیوں کا حساب کتاب اور ان کا سنسار الگ تھا۔ مارکش کی ٹریننگ جاری تھی۔

کسی تھانے میں اس کی یہ پہلی پوسٹنگ تھی۔ دنیا کو جاننے سمجھنے کے لیے اب اس کے پاس دو ہی طرح کی نظریں تھیں۔ پہلی، جو پیدائشی اسے اپنے ٹولے سے وراثت میں حاصل ہوئی تھیں، جن میں معصومیت شامل تھی۔ دوسری جو اسے پولیس لائن میں رہتے ہوئے دی گئی تھیں، جن کا وہ استعمال نہیں کرنا چاہتا تھا۔

تھانے کے اندر کا موسم بالکل بنجر تھا، بے رنگ اور بیزار کن۔۔ مارکش کا سابقہ ایسے موسم سے پہلی بار پڑا تھا۔ خوف زدہ سورج احاطے میں گویا زبردستی روشنی کی بھرپائی کے لیے مجبور تھا۔ہوائیں قیدیوں کی طرح چہاردیواری کے اندر گھوما کرتی تھیں۔ خوف سے ہڑبڑا کر جلدی اگ آئے تھانے کے پیڑ بنا پوری طرح ہرے ہوئے پیلے ہو کر سوکھ رہے تھے۔ ان پیڑوں نے کونپلوں کو پیدا کرنا کب کا چھوڑ دیا تھا۔ مارکش نے دیکھا تھا، تھانے کے پھول کھلے ہوئے بھی روتے ہی دکھائی پڑتے۔ پھولوں کی بدحالی دیکھنے کے باوجود کلیاں قدرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مریض کی صورت ہی سہی، کِھلنے پر مجبور تھیں۔ بقیہ سبھی چیزیں بے جان تھیں۔۔ جیپ، میز، کرسی، لاٹھیاں، جھنڈا لہرانے والا لوہے کا پائپ، پانی والا گھڑا، گاندھی، امبیڈکر اور بھگت سنگھ کی تصویریں، بکسا اور بندوق۔۔ اس بے جان ماحول میں کسی کا بھی دم گھٹ جائے، لیکن تھانے میں لوگوں کا آنا جانا دن بھر لگا رہتا۔ کچھ اپنی مرضی سے اپنے دھندے کی برکت کے لیے تھانے آتے تو کچھ ایسے لوگوں کی راہوں میں روڑا ہونے کی سزا کے طور پر تھانے لائے جاتے۔ پہلی قسم کے لوگوں کے جوتوں کی آواز مارکُش کے بڑے صاحبوں کے چمچماتے بوٹوں کی ٹھک ٹھک سے ملتی تھی۔ یہ بڑے پراسرار لوگ ہوتے تھے، اچانک ظاہر ہونے والے اور ترنت غائب ہوجانے والے۔ بیچ بیچ میں لگنے والے زور دار ٹھہاکوں کے علاوہ مارکش ان کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتا تھا۔ اسے حیرت ہوتی، یوں تو کھانے پینے سے لے کر ہاتھ ملانے تک سب اس سے ایک دھندھلی سی دوری بنا کر رکھتے، لیکن اس کے ہاتھوں لائی ہوئی مٹھائیاں، چائے، سنگھاڑے دھڑلے سے کھاتے پیتے۔ اسے غصہ آتا کہ ان کے کپ سے ایک گھونٹ چائے وہ باہر ہی پی لے گا تو کیا آسمان بھربھرا کر زمین پر گر پڑے گا اور وہ سب مرجائیں گے!؟

کسی بھتیلے برگد جیسے لگ رہے تھانے کی سرگرمی ان لوگوں کے دم سے قائم تھی، جو بینک میں پہرے داری کے دوران مارکش کے سپنوں میں آتے تھے۔ گھسٹتے قدموں سے ہونے والی ان کی مجبور آمد و رفت دن بھر لگی رہتی۔ یہ پریشان سے آتے اور اپنے بولنے کی باری کا انتظار کرتے ہوئے کسی کونے میں دبکے چپ چاپ بیٹھے رہتے۔ یہ بینک میں بھی مر ے مرے سے لگتے تھے اور تھانے میں بھی۔ ان کے بے بس چہروں سے لگتا، دنیا اگر باڑھ میں ڈوب رہی ہو اور تھانہ آخری عمارت کے طور پر بچا ہو، یہ تب بھی اس کی چھت پر پناہ نہیں لیں گے۔ تھانے آنے والے ہر ایک مظلوم کی آنکھوں میں گزری ہوئی آندھی کے بعد کی مردہ شانتی ہوتی۔ چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں پھنسی کئی آنکھیں امنڈتی ندی اوڑھے احساسِ جرم، غصے یا بدلے میں نہا رہی ہوتیں۔ بدحواسی اور خوف کے سبب جلدی جلدی ایک ہی کہانی کئی مرتبہ سنانے کی وجہ سے ان کے ہونٹوں کی کوروں میں سفید تھوک جھاگ کی شکل میں چپکا رہتا۔ اسے لگتا، وہ ایک ایک کو پہچان رہا ہے۔ ان کا گھر دوار، بیوی، بوڑھا بوڑھی، بال بچہ سبھی کو۔۔کون کس کارن سے لڑا بھڑا ہے، سب کچھ۔۔ وہ جان رہا ہے، وہ کسی حل، انصاف اور سکون کی تلاش میں بڑی امید سے تھانے آئے ہیں، مگر یہاں سے وہ کسی ساہوکار سے قرض اٹھانے کی مانند اور زیادہ الجھ کر واپس لوٹیں گے۔ جرم، تھانہ اور پولیس کا ایک ایسا جال ہے، جس میں پھنس کر بوجھ سے دبے ان کے کندھوں پر کل کو کُرتے بھی نہیں ٹک سکیں گے۔ شام میں چولہے میں آگے جلے گی تو تسلے اور اس میں کھولتے پانی کے علاوہ تیسری چیز بھاپ ہوگی۔ مارکش یہ سب پتھروں کے سے انداز میں دیکھا کرتا۔ دھوتی، ساڑی، لنگی اور انگوچھوں کی گرہیں کُھلتیں، مڑے تڑے نوٹ سیدھے ہوکر اپنی اہمیت جتاتے، تب جاکر راحت والی ہوائیں چلنی شروع ہوتیں۔کُھلی گرہوں کی سلوٹیں سب کچھ لُوٹ کھسوٹ جانے کے بعد بڑے ہاہاکارانہ طور پر ایک اجنبی کے سے انداز میں ہوا میں ڈولتی رہتیں۔ لوگ اپنی ہی صلیب ڈھونے والے قدموں کو لیے باہر نکلتے۔ چیتھڑوں میں لپٹے بدن کی کپکپاہٹ، گڑگڑاہٹ اور عذاب سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہونے کی چھٹپٹاہٹ دھیرے دھیرے مارکش کے بھیتر دھنسنے لگی۔

دو برس سے اوپر ہونے کو آئے تھے، مگر مارکش اس ماحول میں نہیں ڈھل پایا تھا۔ ڈیوٹی کے بعد بھی اسے ادھر ادھر کے کاموں میں خوب لگنا پڑتا۔ وہ چپ چاپ سب کی سنتا، جیسے گاؤں میں نوجوان حکمرانوں کو سنا کرتا تھا۔ اسے لگتا، شہر میں سب سے نیا وہی ہے، باقی جیسے صدیوں سے وہیں رہ رہے ہیں۔ ٹولے میں جہاں اسے دن بھر مزدوری کے بعد بھی تھکان نہیں محسوس ہوتی تھی، اب وہ ہمیشہ نڈھال نڈھال سا دکھائی دیتا، جیسے کوئی چھو بھی دے گا تو بارش سے گیلی ہوئی کچی دیوار کی طرح بھربھرا کر گر پڑے گا۔ دیگر سپاہی شام ہوتے ہی ٹھیکے سے آئی مفت کی سستی شراب میں ڈوب جاتے۔ اپنی بندوقیں جھاڑ پونچھ کر چمکاتے رہتے۔ گپوں، قصوں کی باڑھ (سیلاب) آ جایا کرتی، لیکن مارکش کو یہ سب اچھا نہیں لگتا تھا۔ اسے نہ جوتے چمکانا پسند تھا، نہ چمکا کر کپڑے پہننا۔۔ جبکہ دوسرے ’آف ڈیوٹی‘ رہنے پر بھی رعب کے لیے وردی پہن کر شہر کی سڑکوں پر گھومتے رہتے۔ پالش کی غذا نہ ملنے پر اس کے کالے جوتے گندے ہو کر بھدے لگتے تھے۔ یہی حال کپڑوں کا تھا۔ وہ وردی میں بھی غریب لگتا۔ مارکش کو چھبیس جنوری اور پندرہ اگست کو بھی جھوٹ موٹ کا دکھاوا کرنا اچھا نہ معلوم ہوتا۔ سال بھر جو صاحب لوگ دنیا بھر کی بدمعاشیاں کرتے، ان دو دنوں میں ان کی ریڑھ جھنڈے کو سلامی دیتے وقت سب سے سیدھی رہا کرتی۔ کل تک اسکول میں جو مارکُش سب سے تیز اور بے سرا ہوکر ’جن گن من‘ گاتا تھا، آج پوری شعوری کوشش کے باوجود بھی باون سکینڈ دل کو یکسو نہ رکھ پاتا۔ پریڈ میں جوتوں کی تھاپ آگے پیچھے ہوتی رہتی۔ ساتھ ہی سپاہی اور سینئر اسے ڈانٹتے اور ہنستے، ’کیا کیجیے گا؟ یہ لوگ تھوڑا دھیرے سمجھتے ہیں، سمے لگے گا۔‘ مارکُش کو لگتا، جیسے وہ کسی گھونگھے کے خول میں ہے۔ ساتھ کے سپاہی اس کے کم بولنے پر تھوڑے خوف زدہ رہتے۔ وہ اس کا مذاق اڑاتے لیکن اپنے ہی ساتھیوں پر گولیاں چلا دینے والے جوانوں کی خبریں پڑھ کر مارکش سے سنبھلے بھی رہتے۔

پولیس عام آدمی نہیں ہوتی، بھیڑ نہیں ہوتی جبکہ مارکش کو بھیڑ ہونا پسند تھا۔ تھانہ اسے اپنی جگہ نہیں لگتی۔ شہر کی بھیڑ کے ریلے اسے اپنی جگہ لگتے۔ ڈیوٹی کے فوراً بعد وہ شہر کی سڑکوں پر بھیڑ بننے کے لیے نکل پڑتا۔ مونگ پھلی پھوڑتا، چائے پیتا، بھیڑ کے چہرے دیکھتا اور بازار میں کھو جاتا۔

3

بکسے میں بند زندگی گھسٹ رہی تھی۔ اسے دین سرائے بھیج دیا گیا تھا۔ شہر کے تھانے سے چھوٹتے ہی لوہے کے بکسے میں بھری بیزاری خود ہی اڑن چھو ہونے لگی تھی۔ دین سرائے کی دیہاتی بُو اسے اپنے ٹولے کی ہواؤں سی معلوم ہوتی، مگر مہینہ دو مہینہ ہوتے ہی پھر سب کچھ پہلے جیسا ہو گیا۔ ایک طرح کی زندگی، ایک طرح کی مشق، ایک طرح کے احکامات، ایک طرح کے لوگ۔۔ پرانی بیزاری تین برابر اور ایک حسبِ توقع چھوٹے پائے والی کرسی پر لوٹ آئی تھی۔ خیالات کو جمع کر کے ٹھوس ہونے سے بچانے کے لیے مارکُش اسی کرسی پر ڈولتا رہتا۔ کسی میت کا ماتم مناتے دین سرائے میں سب کچھ ٹھیک نہیں تھا، مارکش نے یہ کچھ ہی وقت میں سمجھ لیا تھا۔

دین سرائے تب بھی کچھ آباد تھا۔ اس سے سٹے گاؤں تو دن بہ دن اپنا رنگ روپ کھوتے جاٹرہے تھے۔ ان گاؤوں کے مرتے ہوئے موسم میں ساری چیزیں کراہ رہی تھیں۔ اونگھتے پیڑ پودوں کی بوڑھی پتیاں پولیس کی گاڑیوں سے نکلی دھول، دھوئیں اور خوف سے بھوری ہوگئی تھیں۔ پیڑوں نے اپنی بچی کھچی ہریالی اوپر آسمان کی جانب دھکیل دی تھی۔ پھنگیوں کو چھوڑ کر جیون کہیں پُر جوش نظر نہیں آتا تھا۔

ان گاؤوں میں کچھ متحرک تھا تو ’بلاسٹ پروف‘ گاڑیاں اور جیپیں۔ یہاں مٹی کے صرف ڈھیر دکھتے تھے، لوگ نہیں۔ ٹکڑوں میں ادھر ادھر دکھنے والے بچوں اور بزرگوں سے گاؤں کا بھرم قائم تھا۔ ایک خاص عمر کے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ سرے سے غائب تھے۔ مرد ہی نہیں، عورتیں بھی۔۔ لوگوں کا اس طرح غائب ہونا ایک دکھاوے کا راز ہوا کرتا۔ جانتے سب تھے، بولنا کوئی نہیں چاہتا تھا۔ وہ یا تو پکڑ کر مار ڈالے گئے تھے یا انہوں نے جنگلوں کا دامن تھام لیا تھا۔

اخباروں اور ریاستی شعبوں کے احکامات سے یہاں کے تاریخ جغرافیہ کی بدحالی کا اندازہ دھیرے دھیرے مارکش کو ہونے لگا تھا۔ گشت پر جیپ سے جھانکتی اس کی آنکھیں اب ماہر و مشاق ہونے لگی تھیں۔ بھائیں بھائیں کرتے ان گھروں کے دروازوں پر اسے اپنی ماں بیٹھی دکھائی نہیں دیتی۔ کھیتوں کے درمیان مینڈیں دکھتیں، لیکن دونوں طرف کی فصلیں غائب ہوتیں۔ ان پر سائیکل پر توازن درست کرتا کوئی مارکش جیسا لڑکا نہیں دکھتا۔ روزانہ کی گشت سے اس نے گاؤں کے بچوں، بوڑھے بوڑھیوں کو پہچاننا شروع کر دیا تھا۔ روز ایک ہی کپڑوں میں ڈوبے، ایک ہی جگہ، ایک کام میں مگن ان جذبات سے عاری چہروں کو پہچاننا مارکش کے لیے کٹھن نہیں تھا۔ روز بہ روز ایک ہی طرح کے مناظر سے گزرتے ہوئے جلد ہی وہ اس ریتیلی خاموشی سے اکتانے لگا۔

بسنت کو کھسکا کر گرمی اپنی جگہ بنانے لگی تھی۔ دن گرم بھٹیوں میں بدلتا جا رہا تھا۔ لمبی بند گاڑیوں میں مارکش کا جی متلانے لگتا۔ من کرتا پیٹ کا سب کچھ الٹ دے، مگر تھوک سے زیادہ کچھ نکل نہ پاتا۔ یہ شہری قسم کی بیماریاں ایک ایسے آدمی کو ہو رہی تھیں، جو جون کی چلچلاتی دوپہر میں ایک ساتھ تیس اینٹیں ڈھو سکتا تھا۔ گشت سے لوٹتا تو مہینوں کا روگی دِکھتا۔ ہاتھ منہ دھو کر کچھ دیر سستاتا، پھر اسٹیشن کی راہ لے لیتا۔ اسے دن یا شام میں وقت ملنے پر بھی سونا پسند نہیں تھا۔ جاگنے پر اسے لگتا جیسے دنیا کافی آگے نکل گئی اور ان کچھ گھنٹوں میں وہ پہلے سے زیادہ پچھڑ گیا۔

اسٹیشن کی بینچ پر بیٹھا مارکش دال موٹھ چباتا مسافروں کی بدحواسی دیکھتا رہتا۔ اَلا بَلا سوچیں آتی جاتی رہتیں۔ ریلیں دھڑدھڑا کر چلی جاتیں، وہ ان کے پیچھے کی دور ہوتی لال بتی کو تاکتا رہتا۔ وہ دیکھتا، اچانک اس کا سر پٹری کے بیچوں بیچ آگیا ہے۔ ایک بہت بڑی دیونما ریل آئی اور لوہے کے بھاری پہیے سے اس کا سر کچلتی ہوئی گزر گئی۔ چٹنی بنا سر دور تک بکھر جاتا۔ وہ دوڑ کر بکھرے ہوئے لوتھڑوں کو اکٹھا کر رہا ہے تاکہ پوسٹ مارٹم میں پریشانی نہ ہو، لیکن باریک ٹکڑوں کو اٹھانے میں بہت دقت ہو رہی ہے۔ اپنی پوری طاقت سے چیختی ہوئی تب تک ایک اور ریل آ گئی ہے۔پوں۔۔ اوں۔۔۔ اوں۔۔۔۔ دھڑدھڑدھڑ۔۔ کچچ۔۔۔ اس بار اس کا سارا بدن پہیوں کی زد میں آ گیا ہے۔ وہ روتا ہوا پھر سے بکھرے ہوئے حصوں کو اپنے کندھوں پر جمع کر رہا ہے کہ پھر سے پوں۔۔۔ اوں۔۔۔ اوں۔۔ دھڑدھڑدھڑ۔۔۔ کچچ۔۔۔۔۔۔

مارکُش جھٹکے سے سر جھٹک دیتا اور منہ میں بھری دال موٹھ چبانے لگتا۔ ایسے خیالات کے بعد اسے رَیلوں سے بے طرح ڈر لگنے لگتا۔ اس نے دین سرائے آکر ہی پہلی دفعہ ریلیں دیکھی تھیں۔ بھاگتے پہیوں پر اس کی نظریں نہیں ٹکتیں۔ ریل ہی نہیں، ٹریک کی صورت بھی اسے بچپن سے بھتیلی لگتی۔ آٹھ آٹھ چٹان نما پہیوں والے ٹرکوں کو دیکھ کر اسے لگتا گویا انہیں سامنے والے کو کچلنے کے لیے ہی بنایا گیا ہو۔ آنکھ منہ بنا دینے سے ٹرک اور بھی بھیانک لگتے۔ یہی کارن ہے، اسے گشت کی بکتربند گاڑیاں نہیں پسند آتی تھیں اور غیر محفوظ اور خطرناک ہونے کے باوجود اسے کھلی جیپ میں بیٹھنا اچھا لگتا تھا۔

گشت کی گاڑیاں جہاں سے لوٹتیں، وہ گاؤں کے آخری چھور کی آخری جھونپڑی ہوتی، وہاں سے گھنا جنگل شروع ہوتا تھا۔ جھونپڑی ایک طرح سے ’لائن آف کنٹرول‘ کی طرح تھی۔ شام کی گشت میں جھونپڑی کے پاس آتے آتے دھندلی شام گاڑھی ہوکر کالی رات میں بدل جایا کرتی۔ لوٹتے وقت گاڑیوں کی روشنی اور گھررگھرر کی آوازوں سے پورا ماحول پراسرار اور ڈراونا ہو اٹھتا، سب کی سانسیں تھمی رہتیں، سب چپ چاپ آنکھیں پھاڑ کر اندھیرے کے پار دیکھ رہے ہوتے۔

لمبے اور موٹے درختوں سے گھرے جھونپڑے کو دیکھ کر آسانی سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ اس کے اندر بے چارگی کی زندگی جی جا رہی ہوگی۔ جھونپڑی کا مالک پانچ بکریوں کا مالک تھا۔ وہ دو تین دنوں پر اپنی بکریوں کے ساتھ ’پٹرولنگ‘ والی گاڑیوں کی روشنی میں دکھ جایا کرتا۔ اوروں کے لیے اس کا دِکھنا ’روٹین‘ مناظر سے گزرنے کی طرح تھا، لیکن مارکُش کی نظر جب بھی اس پر پڑتی، اسے اپنی بکری کے پیچھے چلتے والد یاد آ جاتے۔

مارکُش نے اس ادھیڑ کو پہلی بار اس دن دیکھا تھا، جب وہ اپنی جگہ بکریاں جیپ کے آگے سے ہٹا رہا تھا۔ ان گستاخ بکریوں کو راستے میں رکاوٹ بننے کی سزا کے طور پر کنارے ہٹا کر ادھیڑ نے انہیں پیٹا بھی تھا۔ ہیڈ لائٹوں کی اجلی پیلی روشنی میں مارکش نے دیکھا تھا، نس نس میں بھوک بھرے اس بدن پر کپڑوں کے نام پر ایک مٹ میلی لنگی بندھی تھی، جو بیچ سے سکڑ کر گول دھاریاں بناتی ہوئی نیچے سے اُٹنگی ہوگئی تھی۔ دھول اور پسینے سے کڑک ہو چکی بنیان کندھے پر لٹکی تھی، آنکھوں اور گالوں کے ارد گرد برسوں کی تھکان پرتوں میں جمی تھی۔ کراہتی زندگی جینے کو مجبور ادھیڑ روز آنے والی ان گاڑیوں کی دھونسا دینے والی آوازوں اور لائٹوں کے تعلق سے بے حد بیزار جان پڑتا تھا۔ بینک میں پہرے داری کے بعد مارکش جس کسی کو بھی دیکھتا، اسے لگتا، وہ بینک میں دیکھا ہوا چہرہ ہے۔ ادھیڑ کو دیکھ کر مارکش کو ایسا نہیں لگا تھا۔ یہ وہ چہرے تھے، جن کی دنیا میں بینک کا کوئی وجود نہیں تھا۔

مارکش کا دین سرائے میں ساتویں مہینے کا تیسرا ہفتہ تھا۔ گاڑی، وردی، بکسے اور بندوق کے ساتھ۔ یہاں بینک کی پہرے داری سے زیادہ تنخواہ تھی۔ گاہے بگاہے ماں اور ٹولے کی خبریں بھی مل جاتیں۔ پندرہ روز قبل ہی مارکُش نے ماں کو پیسے بھیجے تھے۔ آج ماں کی طرف سے خبر آئی تھی کہ پیسے مل گئے ۔دال، چاول، سبزی کھاتے ہوئے اسے ماں کے بنائے ماڑ بھات یاد آ رہے تھے۔ اتنی طرح کی چیزیں، انڈے، چکن وغیرہ کھانے کے باوجود اس کا دھیان پوئی پتے کے چھلکے، چکوڑ-کونار کے ساگ اور مرغے کی کھال اور انتڑیوں سے بنے جھور بھات پراٹکا رہتا۔ کھانے کے بعد اپنی کرسی پر پیروں کے سہارے پینگیں لیتا ہوا مارکُش سوچ رہا تھا، ٹماٹر کا جھور بھات کھائے عرصہ ہو گیا، اب کی بار گھر جائے گا تو ماں کو بنانے کے لیے کہے گا۔ مارکش کا سوچنا اچانک بند ہوگیا تھا اور تین برابر اور ایک حسبِ معمول چھوٹے پائے والی کرسی کا جھولنا بھی۔۔ فوراً تیار ہونے کا حکم تھا۔ خفیہ ذرائع سے کچھ خبریں آئی تھیں۔

راستے بھر مارکش کا من خراب رہا۔ اس طرح یک بیک دوبارہ ڈیوٹی پر جانے کے لیے وہ ذہنی طور پر تیار نہیں تھا۔ گاڑیاں روز کے راستے پر ہی تھیں۔ وہ ایک چار سو سات نما گاڑی میں بیٹھا تھا، جو پیچھے کی جانب سے آدھی کھلی تھی۔ گاڑیاں جھونپڑی والے موڑ سے پہلے رک گئیں۔ دو گاڑیوں کو پیچھے رکنے کے لیے کہا گیا۔ موڑ سے کوئی چار بانس پیچھے مارکش کی گاڑی تھی۔ سب کو پوزیشن لینے کا حکم ملا۔ سب کی دیکھا دیکھی اور ٹریننگ کے سبق کے مطابق مارکش آگے کی جانب چوروں کی طرح سرکنے لگا۔ سورج مغرب میں اب یا تب ڈوبنے کی کگار پر تھا، اس روشنی میں چیزیں دھندلی پڑنے لگتی ہیں۔ پیڑ پودوں کا ہرا پن، سیاہی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ آگے کی گاڑیوں والے سپاہی موڑ والی جھونپڑی کو گھیر رہے تھے۔ شام کے ختم ہوتے ہوتے اور اندھیرکے پھیلتے پھیلتے جھونپڑی اور اس کی آس پاس کی جگہ کو پوری طرح گھیر لیا گیا تھا۔

سارے دَم سادھے ہوئے مگر ہوشیار تھے کہ اچانک کوئی جھنڈ سناٹا ڈھوئے جھونپڑی کی سمت چلا آرہا تھا۔ جھونپڑی کے قریب پہنچتے ہی جھنڈ طاقتور بندوقوں کے گھیرے میں تھا۔ بِھیڑ کو دیکھ کر بکریاں دہشت کے مارے ادھر ادھر دوڑ نے لگیں۔ یہ بکریوں والا ادھیڑ تھا، جو بندوقوں کے بیچ اکیلا کھڑا بری طرح ہانپ رہا تھا۔ آواز ڈر کر اس کا ساتھ چھوڑ گئی تھی۔ کچھ نہیں سمجھ پانے کی حالت اس کے چہرے پر صاف دکھائی دے رہی تھی۔گھبرا کر چھوٹی سانسیں لینے کی وجہ سے وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔ وہ ایسا بے جان کھڑا تھا، جیسے کسی کے چھوتے ہی گر پڑے گا۔

رات پوری طرح سے سیاہ ہو گئی تھی۔ اندھیرا آنکھوں میں گڑنے لگا تھا ۔ادھیڑ کو گاڑی میں لاد دیا گیا۔ اسی درمیان دو اور گاڑیاں پہنچیں۔ ان میں موٹے رسوں سے بندھے دو اور لوگ تھے۔ انہیں بھی ادھیڑ کے ساتھ گاڑی میں ڈال دیا گیا۔ لائے گئے دونوں لوگوں کی عمر اس خاص طبقۂ عمر سے تعلق رکھتی تھی، جو گاؤں سے سرے سے غائب تھے۔

پورا ریلا آگے کی طرف چل پڑا۔ موڑ کے بعد سڑک دھیرے دھیرے پتلی ہوتی ہوئی آگے جنگل میں کھو جاتی تھی۔ بولڈر اور مورم سے بنی کچی سڑک پر پانچوں گاڑیاں ہچکولے کھاتی اندھیرے کو کاٹتی ہوئی بڑھتی جا رہی تھیں۔ چلتے ہوئے لگ بھگ بیس منٹ گزر چکے تھے۔ ’کہاں جارہے ہیں، کیوں جارہے ہیں‘ جیسے سوال رسوں میں بندھے تین لوگوں کے علاوہ مارکش اور اس جیسے ایک دو رنگروٹوں کے ذہن میں ہی تھے۔ باقیوں کے چہرے ایسے سپاٹ تھے، جیسے یہ ان کے لیے روزمرہ کی بات ہو۔ مارکش کے دماغ میں بار بار پولیس افسر کے وہ زوردار گھونسے، جو ادھیڑ کے پچکے اور کمزور پیٹ پر مارے گئے تھے، گھوم رہے تھے۔ ادھیڑ کے دونوں سوکھے ہاتھوں کو باندھنے کے بعد ٹارچ کی چمکیلی روشنی اس کے منہ پر جما کر پولیس افسر نے ہولے سے پوچھا تھا، ’یہ پوسٹر کون لگایا پیڑوں پر؟‘ ایک گہری خاموشی گھنی رات کی طرح قائم تھی۔

کانوں کی جڑ تک پہنچنے والی سائیں سائیں کی آواز کے علاوہ ادھیڑ کچھ نہیں سن پا رہا تھا۔ اس کا تھرتھرانا جاری تھا۔ پولیس افسر نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں اپنا سوال دوہرایا۔ اس بار ادھیڑ کے ہونٹ ہلے۔ ’نَو پتا!‘ بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ بھاری ہتھوڑے نما گھونسہ اس کے پیٹ اور کنپٹی پر لگا۔ ایسا لگا جیسے ادھیڑ کی آنکھیں درد سے باہر نکل پڑیں گی۔ اس کے بعد سوال اور گھونسے ساتھ ساتھ چلے۔ پھر اسے گاڑی میں ڈال دیا گیا تھا۔ مارکُش کا کالا چہرہ یہ سب دیکھ کر اور بھی کالا ہو گیا تھا۔ اس کی موجودگی جیسے اندھیرے میں مل گئی تھی۔ بغلوں کا پسینہ نکل کر اس کے پیروں تک پہنچ رہا تھا۔ وہ جلدی جلدی منہ سے سانسیں لے رہا تھا، ادھیڑ کی طرح، بالکل چھوٹی چھوٹی۔۔

گاڑیوں کو رکنے اور سپاہیوں کو اتر کر پوزیشن لینے کا حکم ملا۔ پکڑے گئے تینوں لوگوں کو بڑی گاڑی سے اتار کر جیپ میں ڈال دیا گیا۔ جیپ انہیں لے کر قریب سو میٹر آگے بڑھ گئی۔ ادھر گولی چلانے کا حکم ملتے ہی سپاہیوں نے سڑک کے برابر کھڑے پیڑوں کی جانب اندھیرے میں گولیاں چلانی شروع کر دیں، جو جیپ کے لوٹ آنے تک چلتی رہیں۔

ریلا اب تھانے واپس لوٹ رہا تھا۔ جوابوں سے عاری کئی سوال مارکش کا سر درد سے پھاڑے دے رہے تھے۔ اس کا من بے قابو ہو رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا، اس کے پھیپھڑوں کو وافر مقدار میں آکسیجن نہیں مل پارہی ہے۔ ’لوڈیڈ‘ بندوق اب اس سے سنبھالی نہیں جا رہی۔ لگ رہا تھا، اس سے گولیاں ’پھٹاک، پھٹاک‘ بے قابو ہوکر نکل پڑیں گی۔ گولی چلانے کے لیے گاڑی کی دیوار میں بنے چھید میں اس نے اپنی ناک گھسا دی۔ تازہ اور شیتل ہواؤں کے ساتھ رات کی سیاہی بھی اس کے پھیپھڑوں میں اتر آئی تھی۔

ڈیڑھ گھنٹے کے اندر گاڑیاں تھانہ پہنچ گئیں۔ مارکُش کی آنکھیں اب بھی بند تھیں۔ اس نے سب کو اترنے دیا۔ آخر میں جب وہ اپنے پیر گاڑی کے پائدان پر رکھ رہا تھا، اسے محسوس ہوا کسی نے اس کے پیروں میں ہاتھی باندھ دیا ہے۔ وہ ٹنوں بھاری قدموں کے ساتھ بندوق ٹیکتے ہوئے چل رہا تھا۔ جیپ کے سامنے گزرتے ہوئے وہ ٹھٹھک گیا۔ سامنے تینوں جسم خون سے شرابور تھے۔ تازہ خون نے ہرے کائی رنگ کے کپڑوں کو جگہ جگہ سے بھگو دیا تھا۔ کپڑوں کو چھید کر کئی گولیاں بدن کا گوشت باہر لٹکائے دے رہی تھیں۔ اتنا خون اس نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔

مارکُش نے ادھیڑ کو پہچان لیا۔ ’بابارے۔۔۔!‘ اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ وہ ایک پل کے لیے یوں ہی کھڑا رہا، پھر پکے کٹھل کی طرح دھب سے زمین پر گر گیا۔ اس کا ماتھا چکر گھنی بن گیا تھا۔ ہاتھ سے چھوٹ کر بندوق نیچے گر گئی تھی۔ تھکان اور حیرانی نے باری باری سے مارکش کے ماتھے کو متھنا شروع کیا۔ وہ کچھ نہ سوچ پانے کی حالت میں بیٹھا رہا، جیسے دماغ تک کوئی خبر پہنچ ہی نہ پا رہی ہو۔ ہر گزرتے پل کے ساتھ وہ مضمحل ہوتا جارہا تھا۔ وہ ادھیڑ کی لاش کے آگے دو پھٹی آنکھیں لیے، کسی پتھر کی طرح بیٹھا تھا۔

’بہت غلط ہوا۔‘ ایک بدبداہٹ کے ساتھ جیسے بھیتر سے کسی نے کہا تھا۔

’بے کار بات۔۔۔ گولیاں چلانے والوں میں تم بھی تھے۔‘ اندر سے ہی کسی نے پلٹ کر اسے پھٹکارا تھا۔

’میں لمبی والی گاڑی میں تھا۔ میں نے تو اندھیرے میں گولیاں چلائی تھیں۔‘

’ہاں لیکن تمہیں سب پتہ تھا۔‘

’مجھے نہیں پتہ تھا، اس طرح دن دہاڑے اٹھا کر انہیں گولی ماردیں گے۔‘

’جھوٹے آدمی! جب تینوں کو جیپ میں ڈال کر اندھیرے میں لے گئے، تمہیں سمجھ نہیں آیا؟ کیا یہ پہلی بار ہو رہا تھا؟ دودھ پیتے بچے ہو؟‘

’آہ۔۔۔ میں ٹھیٹھ گنوار آدمی، اتنی دور تک نہیں سوچ پایا۔‘

’وہ لنگی باندھنے والا آدمی، جس کے بدن پر کپڑے نہیں ٹکتے تھے، تم لوگوں نے اسے نکسلیوں والے کپڑے پہنا دیے۔ دو اور لڑکوں کو اسی طرح دوسرے گاؤں اور جنگل سے اٹھایا، کپڑے پہنائے اور مار دیا اور کہتے ہو، تمہیں کچھ نہیں پتہ؟‘

’چ۔۔چ۔۔چ۔۔ بہت بڑا دھوکا ہوا۔۔۔ ماں!‘ مارکُش کی آنکھیں مواد بھرے زخم کی طرح بھر آئیں۔

’نقلی ٹسوے کیوں بہا رہے ہو؟بھر بھر کر لوٹ کر کھاتے ہو، تنخواہ لیتے ہو اور اب چھاتی پیٹ رہے ہو؟ جیپ میں تم ہوتے تو حکم ملنے پر ان پر گولیاں نہیں چلاتے؟‘

’میں گولیاں چلانے سے منع کردیتا۔ بنا خطا یا قصور کے کوئی کسی کو کیسے مار سکتا ہے؟ چ۔۔چ۔۔۔ بہت برا ہوا ماں۔۔ بہت برا۔‘

’وہاں پوسٹر تو کوئی بھی چپکا سکتا ہے۔ تمہاری جھونپڑی کے آگے اگر کوئی ایسا پوسٹر ملے تو تمہاری ماں کو بھی نکسلیوں والے کپڑے پہنا دینا چاہئیں۔۔؟ پھر جیپ میں بٹھا کر ٹھائیں۔۔ٹھائیں۔۔ یہی نا!؟‘

’چپ۔۔ ایک دم چپ۔۔۔! ریل کے پہیے کے نیچے چٹنی بنادوں گا۔‘ مارکش جیسے کسی پاگل کی طرح بڑبڑانے لگا۔ وہ اچانک سر دھنتا ہوا کھڑا ہو گیا۔ اس نے بندوق کا سہارا لیا اور چل پڑا۔

لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔ تھانہ منظم ہونے میں لگا تھا۔ وہ ہاتھ منہ دھوئے بنا لیٹ گیا۔ کھانا بھی نہیں کھایا۔ لیٹے لیٹے اپنے ٹولے میں گیا۔ قصبے میں بے مقصد گھومتا رہا۔ پل پر بیٹھ کر ندی میں ڈھیلے پھینکے۔ اکیلے میں کلاسوں کی ڈیسکوں پر دوڑا۔ راج مستریوں کو اینٹیں تھمائیں۔ ماں کے ساتھ کھیتوں میں گیا۔ کیکڑے پکڑے۔ نوجوان حکمرانوں کو خوب گالیاں دیں۔ بینک میں ’کون ہے‘ کہہ کر تین بار چلایا، لیکن کسی پر گولی نہیں چلائی، ران کے نیچے بھی نہیں۔ شہر کی سڑکوں پر بھٹک کر مونگ پھلی کھایا۔ تھانے میں پھٹے حالوں کو مار کھاتے اور روتے بلکتے دیکھا۔ ادھیڑ اور اپنے والد کو جھڑی ہوئی سائکل پر ساتھ گھومتے دیکھا۔ اس نے ادھیڑ کی بکریوں کی آنکھوں کے نیچے رونے کے نشان دیکھے۔ ان کے سوکھے آنسوؤں کو سہلایا۔ ادھیڑ اور دونوں لڑکوں کے بدن میں دھنسی گولیوں کو نکالا۔ مینڈوں پر سائکل چلاتے ہوئے چیخ کر خوب رویا اور ہوا میں گالیاں اچھالیں۔ پھر لوٹ کر دین سرائے میں ریل کی پٹریوں پر اپنا سر رکھ دیا۔

پوں۔۔ اوں۔۔ اوں۔۔ دھڑ دھڑ دھڑ۔۔ کچچ۔۔۔ اس کے پرخچے اڑ گئے۔

سب کچھ پہلے کی طرح ہو گیا تھا۔ سورج نکلا تھا، اخبار نکلے تھے، پہلے پنے پر بڑے اور موٹے فونٹ میں ’مڈبھیڑ میں تین علیحدگی پسند ڈھیر‘ والی سرخی سے اخباروں کی شروعات ہوئی تھی۔ ’دین سرائے تحصیل کے بنورا گاؤں کے قریب پل بھنیا جنگل میں علیحدگی پسندوں کے ساتھ ہوئی ایک بھاری پولس مڈبھیڑ میں تین دہشت گرد مار گرائے گئے۔ مڈبھیڑ کی جگہ سے ’فلاں‘ بور رائفل، اتنا کارتوس، پِٹھّو اور کچھ پوسٹر، پرچے اور متنازعہ لٹریچر برآمد کیا گیا ہے۔‘

خبر کے بیچ میں لکھا تھا، ’خفیہ جانکاری پاتے ہی پولیس ٹیم کے ساتھ خصوصی آپریشن دستہ روانہ ہوا۔ وہاں دستے کے پہنچتے ہی گھات لگا کر بیٹھے علیحدگی پسندوں نے ان پر تابڑ توڑ گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ پولیس کی جوابی فائرنگ میں تین دہشت گرد موقع پر مارے گئے۔‘

سبھی اخباروں میں پولیس کی یہ بڑی کامیابی خاص طور سے شائع کی گئی تھی۔ ’باکس‘ میں تینوں کی ٹکٹ سائز تصاویر چھپی تھیں۔ ساتھ ہی بغل میں تمام برآمدیوں کے ساتھ پولیس افسر اور دیگر سپاہی ایک چمکتی تصویر میں چھاتی پر ہاتھ باندھے ریڑھ سیدھی کیے کھڑے تھے۔ سپاہی مارکُش لڑکا اس تصویر میں نہیں تھا۔ وہ کیمپ میں بھی نہیں تھا۔ بندوق کے سہارے وردی ٹنگی تھی اور لوہے کا بکسا کھلا ہوا تھا۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close