
سولہویں صدی میں جب نوآبادکار انگلستان سے امریکہ آئے اور اپنی بستیاں آباد کیں تو انہیں مختلف شعبوں میں کام کے لیے نوکر اور غلام چاہیے تھے۔ اس کی وجہ سے کالونیوں میں طبقاتی تقسیم پیدا ہوئی۔
امریکہ کی نئی کالونیوں میں کاریگروں، مزدوروں اور کسانوں کی سخت ضرورت تھی جو ان کی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کریں۔
اس مقصد کے لیے پہلے انہوں نے انگلستان کے طرز پر گلڈ سسٹم کا ادارہ قائم کیا، جس میں نوجوان شاگردوں کو تربیت دے کر ہنرمند بنایا جاتا تھا، لیکن یہ بھی ان کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکے۔ لہٰذا بحری جہازوں کی کمپنیوں نے انگلستان سے بیروزگار گداگر اور غریب افراد کو بطور انڈوینچرڈ لیبر جہازوں میں بھر کر امریکہ لے آئے۔
جہاز کے مالک ان سے ایک معاہدے پر دستخط کرواتے تھے، جس کے تحت امریکہ میں کام کرنے کے بعد انہیں سفر کے اخراجات کمپنی کو ادا کرنا ہوتے تھے۔ کالونی علاقوں میں انہیں پانچ سے سات سال کے لیے محنت و مزدوری کرنا ہوتی تھی۔
نوکر حاصل کرنے کا ایک طریقہ وہ جنگی قیدی تھے، جو سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کی جنگوں میں پکڑے جاتے تھے۔ ان کے بوجھ سے چھٹکارا پانے کے لیے انہیں بھی امریکی کالونیوں میں بھیج دیا جاتا تھا، جہاں ضرورت مند ان سے مزدوری کرواتے تھے۔
نو آبادکاروں نے، جن کے پاس دولت اور وسائل تھے انہوں نے امریکہ کے آبائی و مقامی باشندوں کو بھی محنت و مزدوری کے لیے استعمال کیا، لیکن ان دونوں کے تعلقات تلخ ہی رہے جنہوں نے فسادات کی شکل اختیار کر لی۔
ایک مشہور واقعہ ’رابرٹس وار‘ کہلاتا ہے جس میں امریکہ کے اصلی مقامی باشندوں نے نوآبادکاروں کی ایک بستی پر حملہ کر کے قتل و غارت گری کی اس کے جواب میں کالونی کے لوگوں نے ان قبائل پر حملہ کیا، ان کی آبادی کو آگ لگائی اور بطور انتقام ان کا قتل عام کیا۔
آگے چل کر اس کا یہ حل نکالا گیا کہ مقامی باشندوں کو ایک مخصوص علاقے میں محصور کر کے رکھا گیا جو ریزرویشن کہلاتے ہیں، لیکن ان کی ایک تعداد بطور محنت کش قابضین کی زمینوں پر کام کرتی تھی۔
نوکروں کا ایک اور طبقہ سیاہ فام افریقیوں کا تھا (جنہیں حقارت سے نیگرو کہا جاتا تھا)، جنہیں بطور غلام استعمال کیا گیا۔ سفید فام آبادکاروں نے ان سیاہ فام افریقیوں کو مساوی مقام نہیں دیا۔ وہ انہیں کم تر اور نااہل سمجھتے تھے۔
ان کی شکل و صورت اور رنگ کی بنیاد پر انھیں معاشرے سے علیحدہ رکھتے تھے اور وہ معاشرے میں عزت و وقار سے بھی محروم تھے۔
کالونیوں کی مختلف بستیوں میں سفید فام غریبوں کی بڑی تعداد تھی۔ والدین اس قدر غریب تھے کہ اپنے بچوں کو نہ تو تعلیم دلا سکتے تھے، اور نہ ہی کسی قسم کا ہنر سکھلا سکتے تھے۔
ان غریبوں کی مدد کے لیے چرچ نے صدقہ و خیرات کے ادارے قائم کیے لیکن پھر یہ احساس ہوا کہ اس سے نہ غربت کا خاتمہ ہو گا اور نہ ہی غریب لوگوں کے کردار بدلیں گے، لہٰذا کالونی کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ ان سے محنت و مزدوری کروا کے انہیں اس قابل بنایا جائے کہ یہ اپنی مدد آپ کر سکیں۔
کالونیوں میں آبادی کم ہونے کے باوجود امیر و غریب کے فرق کی وجہ سے جرائم ہوتے رہے تھے۔ عام جرم چوری کا تھا جس میں کھانے پینے کی اشیا کو چرا کر افراد اپنی بھوک کو کم کرتے تھے۔ پکڑے جانے کی صورت میں مجرموں کو سخت سزائیں دیں جاتی تھیں۔ ان کی ننگی پشت پر کوڑے مارے جاتے تھے اور انہیں قید میں رکھا جاتا تھا۔
قانون یہ تھا کہ قیدی خود ہی اپنے کھانے پینے کا بندوبست کرے گا لیکن قیدیوں کی اکثریت بےانتہا غریب ہوتی تھی۔ ان کی کوئی جائیداد بھی نہیں ہوتی تھی، اس لیے ان سے محنت و مشقت کرا کے ان کی ضرورت کو پورا کیا جاتا تھا۔
امریکہ کی کالونی میساچوسٹس میں پیورٹینز (Puritans) کی آبادی کی اکثریت تھی، جو سخت مذہبی تھے۔ لہٰذا ایک تو انہوں نے یہ کوشش کی کہ آبائی امریکیوں کو عیسائی بنایا جائے۔ دوسرے ہر فرد کے لیے لازمی تھا کہ چرچ میں عبادت کے لیے آئے لیکن یہاں سیاہ فام افریقیوں اور مقامی باشندوں کی نشستیں سفید فام افراد سے علیحدہ ہوتی تھیں۔
نوکروں اور ملازمین کو ہفتہ میں سات دن کام کرنا ہوتا تھا۔ مالک نہیں چاہتا تھا کہ یہ آپس میں ملیں اور فرصت کے لمحات میں ایک دوسرے سے گَپ شپ کریں۔ کام کی مشقت سے نوکروں کو اس وقت تھوڑا بہت وقت مل جاتا تھا جب مذہبی تہوار منائے جاتے تھے۔ یا رات کی تاریکی میں یہ چھپ کر کھیل کود میں وقت گزار لیتے تھے۔
مالک کی سختیوں اور کام کی زیادتی کی وجہ سے کچھ غلام اور ملازمین راہ فرار بھی اختیار کرتے تھے جس سے مالک کو مالی نقصان ہوتا تھا۔ اس لیے وہ کوشش کرتا تھا کہ فرار ہونے کے عمل کو روکا جائے اور پھر فرار ہونے والے کے پیچھے مالک کے آدمی اس کو تلاش کرتے تھے۔
اگر وہ پکڑا جاتا تھا تو اس کو سخت سزا دی جاتی تھی، کوڑے مارے جاتے اور اس کے جسم کو داغا جاتا تھا۔ اس کے گلے میں لوہے کا کالر پہنا دیا جاتا تھا، جس پر اس کے مالک کا نام لکھا ہوتا تھا۔ اس کے کام کے اوقات بڑھا دیے جاتے تھے۔ اس کے پیروں میں زنجیریں ڈال دی جاتی تھیں تا کہ وہ آزادانہ گھوم پھر نہ سکے۔
فرار ہونے کے علاوہ نوکر اور غلام مالک کے خلاف احتجاج بھی کرتے تھے لیکن ان کا یہ احتجاج چند افراد پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس احتجاج کے نتیجے میں کبھی وہ مالک کی پٹائی کرتے تھے اور ایسے واقعات بھی ہوئے کہ جب مالک اور اس کے خاندان کو زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش ہوئی۔
تشدد کی صورت میں نوکروں کو جو سازش میں ملوث ہوتے سخت سزائیں دیں جاتی تھیں، جن میں پھانسی کی سزا بھی تھی۔
احتجاج کا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ نوکر اپنے مالک کی شکایتیں لے کر عدالت جاتے تھے، لیکن عدالتوں میں زیادہ تر فیصلے مالکوں کے حق میں ہوتے تھے، کیونکہ عدالتیں معاشرے کے نظام کو بدلنا نہیں چاہتی تھیں، اور وہ قانونی طور پر مالک کے حقوق کا تحفظ کرتی تھیں۔
کالونیوں کا یہ نظام ایک وقت تک کامیابی کے ساتھ چلتا رہا مگر جب افریقی غلاموں کی تعداد بڑھی تو اس نے نسلی تعصبات کو پیدا کیا۔ امریکہ کے جمہوری ادارے بھی نہ تو اصلی مقامی باشندوں کو ان کے حقوق دلا سکے، اور نہ ہی افریقہ سے لائے ہوئے غلاموں کو ان کی محنت و مشقت کا معاوضہ دلا سکے۔
یہ ضرور ہوا کہ جو غریب سفید فام مزدور انگلستان سے آئے تھے انہیں زمینیں دے کر ان کی زندگی کو بہتر بنایا۔ آج کی صورت حال میں بھی امریکہ کے معاشرے میں یہ نسلی تعصبات موجود ہیں۔
مزید تفصیل کے لیے Lawrence William Townerکی کتاب ’A Good Master Well Served‘ کا نیا ایڈیشن 2020 دیکھیے۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو