ہرنوں کی ’زومبی‘ بیماری انسانوں کو منتقل ہو سکتی ہے: ماہرین کا انتباہ

ویب ڈیسک

گذشتہ سال امریکہ میں سینکڑوں جانور ’زومبی ڈیئر کی بیماری‘ سے متاثر ہوئے تھے،ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ بیماری انسانوں میں منتقل ہو سکتی ہے

ساتھ ہی امریکی بائیوٹیکنالوجی کمپنی جنک گو بائیو ورکس نے خبردار کیا ہے کہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی بیماریاں 2020 کے مقابلے میں 2050 میں 12 گنا زیادہ لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہیں

امریکی ریاست وائیومنگ میں ہرن، ایلک اور موس (ہرنوں کی اقسام) کے آٹھ سو نمونوں میں کرونک ویسٹ ڈیزیز (سی ڈبلیو ڈی) پائی گئی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا جانور کی رال بہتی ہے۔ سست روی کا شکار ہو جاتے ہیں، لڑکھڑاتے ہیں اور خالی نظروں کے ساتھ گھورتے ہیں

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ بیماری ’آہستہ آہستہ پھیلنے والی تباہی‘ ہے۔ انہوں نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس بیماری کے انسانوں میں منتقلی کے امکان کے لیے تیار رہیں

سی ڈبلیو ڈی کے محقق ڈاکٹر کوری اینڈرسن نے اخبار دا گارڈین کو بتایا، ”برطانیہ میں ’میڈ کاؤ‘ کا مرض پھوٹ پڑنا اس بات کی مثال ہے کہ جب مرض جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے حالات راتوں رات بگڑ سکتے ہیں“

ان کا کہنا تھا ”ہم کچھ ایسا ہی ہونے کے امکان کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ایسا یقینی طور پر ہونے جا رہا ہے، لیکن لوگوں کا تیار رہنا ضروری ہے۔“

یاد رہے کہ برطانیہ میں 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں ’میڈ کاؤ‘ کی بیماری پھیلنے کے بعد چوالیس لاکھ مویشیوں کو ذبح کر دیا گیا تھا۔ مرض کی وجہ یہ تھی کہ گائے کو وہ خوراک دی جا رہی تھی، جس میں وائرس سے متاثرہ گوشت اور ہڈیاں شامل تھیں

میڈ کاؤ کی بیماری، جو عام طور پر مویشیوں کے لیے جان لیوا ہوتی ہے، ان کے مرکزی اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہے اور جانوروں میں جارحانہ رویے کی علامات پیدا ہو جاتی ہیں اور وہ اپنی حرکات وسکنات کو قابو میں نہیں رکھ سکتے۔ 1995 سے اب تک وائرس کے انسانی ویریئنٹ کا شکار ہو کر 178 لوگ موت کے منہ میں جا چکے ہیں

الائنس فار پبلک وائلڈ لائف کے مطابق 2017 میں لوگ ہر سال سی ڈبلیو ڈی سے متاثر سات سے پندرہ ہزار جانور کھا رہے تھے

ان اعداد و شمار میں سالانہ 20 فی صد اضافے کی توقع کی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر اینڈرسن کے مطابق وسکونسن میں ہزاروں افراد ممکنہ طور پر متاثرہ ہرن کا گوشت کھا چکے ہیں

ماحول کے متاثر ہونے کے بعد کرونک ویسٹ ڈیزیز (سی ڈبلیو ڈی) کو ختم کرنا انتہائی مشکل ہے۔ اس بیماری کا وائرس مٹی میں یا مختلف سطحوں پر کئی سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بیماری کا وائرس جراثیم کش ادویات کے خلاف مزاحمت رکھتا ہے اور فورمل الڈیہائیڈ نامی گیس تابکاری، چھ سو درجے سیلسیئس (11 سو فارن ہائٹ) درجہ حرارت پر جلائے جانے کے عمل کا مقابلہ کر سکتا ہے

امریکی بائیوٹیکنالوجی کمپنی جنک گو بائیو ورکس نے خبردار کیا ہے کہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی بیماریاں 2020 کے مقابلے میں 2050 میں 12 گنا زیادہ لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہیں

کمپنی کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اور جنگلات کی کٹائی سے مستقبل میں جانوروں کی بیماریوں کے انسانوں کو منتقل ہونے کے نتیجے میں وبائی امراض کے واقعات بڑھ جائیں گے

کمپنی کی تحقیق کے مطابق 1963 اور 2019 کے درمیان وبائی امراض میں ہر سال تقریباً پانچ فیصد اور اموات میں نو فیصد اضافہ ہوا

کمپنی نے خبردار کیا ہے کہ ’اگر یہ سالانہ اضافہ جاری رہا تو ہم توقع کریں گے کہ جن جراثیم کا تجزیہ کیا گیا ہے، ان کی 2020 کے مقابلے میں 2050 میں انسانوں میں منتقلی کے واقعات میں چار گنا اور اموات میں 12 گنا اضافہ ہو جائے گا۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close