ایک تصویر ایک کہانی(12)

گل حسن کلمتی

یہ تصویر، جس میں قبر پر انڈیجینس رائٹس الائنس کراچی کا وفد جس میں سید خدا ڈنو شاھ، راقم، غلام رسول بلوچ، حمزہ پنھور، حیدر شاہ، امانﷲ جوکھیو  کے علاوہ ﷲ بخش گبول اور رشید  گبول  پھول چڑھا رہے ہیں اور اس قبر کو سلامی دے رہے ہیں، یہ قبر اس بہادر انسان کی ہے، جس  شخص نے بحریہ (بھیڑیا) ٹاؤن کے بلڈوزروں کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی زمیں ،قبرستان اور گاؤں بچائے، آج وہ اس قبرستان میں ابدی نیند سو رہا ہے۔ اگر وہ یہ قبرستان اور گوٹھ نہ بچاتا تو نہ جانے کہاں دفن ہوتا، آج یہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ فیض محمد  بابلانی گبول کون ہے.. اپنے مزاحمتی کردار کی وجہ سے آج اس باغی کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی بہادری کی وجہ سے پوری دنیا میں یاد کیا جا رہا ہے۔

فیض محمد گبول المعروف فیضو گبول وہ پہلا شخص تھا، جس نے مشہور قبضہ گروپ بحریہ ٹاؤن کو اپنی آبائی زمین  دینے سے انکار کیا ، جس کی پاداش میں اس ۸۵ سالہ بوڑھے پر راؤ انوار اور اس کی ٹیم نے بے پناھ تشدد کیا، معزز آدمی کو ہتھکڑیاں پہنا کر تھانوں میں گھسیٹا گیا، لیکن اس مجاھد نے مقابلہ کیا..

یہ اس وقت کی بات ہے، جب وقت کے خداؤں کے سامنے کسی میں کھڑے ہونے کی ہمت نہ تھی، اچھے بھلے پیسے والے راج بھاگ والے اپنی زمینیں لالچ یا خوف سے دیتے رہے۔لیکن فیض محمد گبول نے انکار کر دیا، جب ملک ریاض نے فیضو سے پوچھا "اتنے پیسے دے رہا ہوں، آپ اپنی زمین کیون نہیں بیچتے”
تو فیضو  نے جو جواب دیا، وہ جملہ تاریخ بن گیا، فیضو نےکہا "ملک صاحب! تو اتنے پیسوں میں اپنی ماں بیچےگا”
ملک ریاض نے کہا "نہیں، میں اپنی ماں کیسے بیچ سکتا ہوں”
تو فیضو نے کہا، "یہ زمین میری ماں ہے، میں اس کو کیسے بیچوں ،ماں  کا سودا کوئی نہیں کرسکتا”

آج جب آپ اس گاؤں نور محمد گبول جائینگے، تو لنگھیجی ندی کے کنارے بحریہ ٹاون کی دیوار نظر آئے گی ، پہلے ملک ریاض کا منصوبہ یہ تھا کہ ندی کے کنارے کنارے، لنگھیجی ڈیم تک پورے علاقے پر قبضہ کیا جائے، جس میں فیض محمد گبول کی زمینیں، تین گاؤں، اسکول اور قدیمی قبرستان آتے تھے۔سب کو پتہ ہے کہ ملک ریاض کے پیچھے کون ہے، پوری سندھ حکومت، ملیر پولیس، ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی، ریوینو ڈیپارٹمینٹ، ملیر انتظامیہ، دیسی دلال اور پوری ریاست ملک ریاض کے ساتھ ہیں، ان کی مکمل سپورٹ اس قبضہ گیر کو حاصل ہے۔ یہاں سے ووٹ لینے والے تمام نمائندوں کی  بے بسی، لاچارگی اور چاپلوسی قابل دید ہے.. اسی ماحول میں فیض محمد گبول نے سب کو للکارا اور تاریخ میں امر ہو گئے. جب اس کے بھائیوں نے موروثی وراثت سے اپنا حصہ ملک ریاض کے دباؤ میں اور لالچ میں آکر بیچا تو اس موروثی حصے میں فیض محمد گبول کے چالیس ایکڑ آتے تھے، فیض محمد نے اپنا حصہ دینے سے انکار کیا تو ملک ریاض نے راؤ انوار کے ذریعے پھر اس بوڑھے پر کیس داخل کیئے، گرفتار کیا، لیکن اس نے مقابلہ کیا اور کورٹ کا رخ کیا ،۱۴ لاکھ لے کر ایک وکیل بک گیا، دوسرا وکیل کیا کیس جیت گیا، لیکن انتظامہ جو ملک ریاض کے پالتو نوکر کا کردار ادا کر رہی تھی، نے ملک ریاض کا قبضہ چھڑانے میں مدد نہیں کی۔ ملک ریاض نے اس کے بدلے دوسری جگہ زمیں کی آفر کی ، بلینک چیک لکھ کر دیا، لیکن فیضو گبول نے انکار کیا اور کہا مجھے اپنی زمین چاھیے۔ کورٹ کے فیصلے کے باوجود ملیر انتظامیہ نے وہ زمین جس پر بحریہ ٹاؤن نے قبضہ کیا تھا، نہیں دلائی، منتخب نمائندے بھی اپنی کھال بچانے کے لیے خاموش رہے.. موت تک فیضو لڑتا رہا، انڈیجینس رائیٹس الائینس کراچی، ڈان کے فہیم  الزماں خان، نازیہ علی، سچ ٹی وی کے زاھد کھوکھر، عوامی پریس کلب ملیر کے سامی میمن اور تحریک نسواں اس کے ساتھ تھے.. اس سپورٹ نے اسے بہت حوصلہ دیا،۵ فروری کو فرینڈز ڈے کے دن اس مزاحمتی کردار نے دوستوں کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہا.. دھرتی کو آخری بوسہ دیا اور اسی قبرستان میں دفن ہوا، جو اس نے بحریہ ٹاؤن کے قبضے میں جانے سے بچایا تھا..

یہ لافانی کردار اپنی ہمت، بہادری اور مزاحمت کی وجہ ہمیشہ یاد رہے گا۔فیض گبول تو امر ہوگیا، بہت سے لوگوں کو پتہ نہیں، کہ گبول قبیلے کا سردار کون ہے؟ لیکن فیض گبول کو سب جانتے کہ وہ ایک مزاحمتی کردار تھا.. آج پوری دنیا میں سوشل میڈیا کے ذریعے فیض کی بہادری اور مزاحمت کا چرچہ ہے..

فیض محمد گبول تجھے سلام..
وہ سب لوگ، جنہوں نے چند ٹکوں کی خاطر اپنی ماں جیسی زمیں بیچی، جنہوں نے ماں جیسی زمیں کا سودا کیا، آج وہ سب تمہاری مزاحمت کے سامنے ہیچ ہیں، جن منتخب نمائندوں نے تمہاری مدد سے منہ موڑا، وہ سب آپ کے گوٹھ آئیں گے، تعزیت کریں گے، فوٹو بنائیں گے، چند جھوٹ موٹ کے ہمدردی کے بول بولیں گے ، یہ سب ان کا دکھاوا ہوگا، لیکن یہ سب محض الیکشن کی چال سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا

ديس پنهنجي مان ڌاريا ٿي ڌڪجي وڃون ،
پنهنجي مٽي جي خوشبوء لئہ سڪجي وڃون ،
يا فلسطينين جيئن ڦرجي وڃون ،
شل انهيء کان اڳي ڪاش وڙھندي مرون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فيض محمد گبول، جس نے اپنی دھرتی ماں کا حق ادا کردیا، اس ماں نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا اور وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا..

هرڪو ماڻھو، پنهنجي اگھ اگهاڻو ،
جيڪو ماڻھو ڪين وڪاڻو
سوئي ماٹھو، موتيءَ داٹو۔۔۔۔۔

ڪي ڪي ماڻهوَ تاريخ ٿين ٿا
گهايل ڌرتي جي سيني تي
ڪا اهڙي  چيخ ٿين ٿا
جا هر ڪنهن کي جاڳائي ٿي
جا دنيا کي بدلائي ٿي۔۔۔

ایک تصویر، ایک کہانی-11

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close