سمندری درجہِ حرارت میں اضافہ: پاکستان میں استولا اور چرنا جزائر کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟

ویب ڈیسک

حالیہ تحقیق سے اس بات کے شواہد سامنے آئے ہیں کہ ’گریٹ بیریئر ریف‘ شدید متاثر ہو رہا ہے، اس کی اہم وجوہات میں سمندر کا بڑھتا ہوا درجہِ حرارت، موسمیاتی تبدیلی اور انسانی سرگرمیاں شامل ہیں۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے ریف پر موجود کورل کی چمک ختم ہو رہی ہے، جسے ’کورل بلیچنگ‘ کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں کورل اپنے اندر موجود الجی کو خارج کر دیتا ہے، جو کہ ان کی خوراک اور رنگت کا اہم ذریعہ ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں کورل سفید ہو جاتا ہے اور اگر درجہ حرارت میں بہتری نہ آئے تو یہ مر بھی سکتا ہے۔

صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے ہمیں کورل بلیچنگ (Coral Bleaching) اور کورل ریفس (Coral Reefs) کی اصطلاحات کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔

کورل بلیچنگ ایک ایسا عمل ہے، جس میں کورل (مرجان) اپنے اندر موجود الجی (zooxanthellae) کو خارج کر دیتا ہے۔ یہ الجی کورل کی خوراک اور رنگت کا اہم ذریعہ ہوتی ہے۔ جب کورل زیادہ دباؤ میں آتا ہے، جو کہ عام طور پر پانی کے درجہ حرارت میں اضافے یا پانی کی تیزابیت بڑھنے کی وجہ سے ہوتا ہے، تو یہ الجی کو اپنے جسم سے نکال دیتا ہے۔

الجی کے بغیر، کورل اپنا قدرتی رنگ کھو دیتا ہے اور سفید یا ’بلیچڈ‘ ہو جاتا ہے۔ یہ سفید رنگت دراصل کورل کے کیلشیم کاربونیٹ کے ڈھانچے کی ہوتی ہے، جو الجی کے بغیر نظر آنے لگتی ہے۔ بلیچنگ کا عمل کورل کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے کیونکہ الجی کے بغیر اسے خوراک حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے، اور اگر درجہ حرارت میں بہتری نہ آئے تو کورل مر سکتا ہے۔

کورل بلیچنگ کا زیادہ خطرہ اس وقت ہوتا ہے جب سمندری پانی کا درجہ حرارت معمول سے زیادہ ہو جائے، خاص طور پر اگر یہ اضافہ کئی ہفتوں یا مہینوں تک جاری رہے۔ بلیچنگ کے نتیجے میں کورل کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے، اور اگر وسیع پیمانے پر بلیچنگ ہوتی ہے تو یہ پوری کورل ریف کے ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

کورل ریفس سمندری حیاتیات کا ایک پیچیدہ اور خوبصورت نظام ہیں، جو کورل نامی جانداروں کے کالونیوں سے بنتے ہیں۔ کورل ریفس عموماً سمندر کے گرم، صاف، اور کم گہرے پانیوں میں پائے جاتے ہیں، خاص طور پر ٹراپیکل اور سب ٹراپیکل علاقوں میں۔

کورل، جو کہ سمندر میں پائے جانے والے چھوٹے چھوٹے جاندار ہیں، اپنے جسم کے ارد گرد کیلشیم کاربونیٹ سے بنا ایک سخت ڈھانچہ بناتے ہیں۔ یہ سخت ڈھانچے ہزاروں سالوں میں جمع ہو کر ریفس کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ کورل ریفس دنیا کے سمندری ماحولیاتی نظام کے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ یہ سمندری حیات کی ایک بڑی تعداد کو پناہ فراہم کرتے ہیں۔

کورل ریفس کے فوائد میں شامل ہیں:

● بائیو ڈائیورسٹی:
کورل ریفس دنیا کے سب سے زیادہ حیاتیاتی تنوع والے علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہاں ہزاروں اقسام کی مچھلیاں، الجی، اور دیگر سمندری جاندار پائے جاتے ہیں۔

● سمندری وسائل:
کورل ریفس ماہی گیری کی صنعت کے لیے بہت اہم ہیں، کیونکہ یہ مچھلیوں کے افزائش کے لیے ایک بہترین ماحول فراہم کرتے ہیں۔

● ساحلی تحفظ:
کورل ریفس ساحلوں کو سمندری لہروں اور طوفانوں سے محفوظ رکھتے ہیں، کیونکہ یہ پانی کی طاقت کو کمزور کرنے کا کام کرتے ہیں۔

● سیاحت:

دنیا کے کئی ممالک میں کورل ریفس سیاحتی مقامات کے طور پر بھی مشہور ہیں، جو معیشت کو فروغ دیتے ہیں۔

تاہم، کورل ریفس موسمیاتی تبدیلی، سمندری درجہ حرارت میں اضافے، آلودگی، اور دیگر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے شدید خطرے میں ہیں۔ کورل بلیچنگ، جو سمندر کے درجہِ حرارت میں اضافے کے باعث ہوتی ہے، کورل ریفس کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اگر کورل ریفس کو بچانے کے لیے فوری اور موثر اقدامات نہ کیے گئے تو یہ قیمتی ماحولیاتی نظام مستقبل میں ناقابل تلافی نقصان کا شکار ہو سکتا ہے۔

تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ گریٹ بیریئر ریف میں بار بار کورل بلیچنگ کے واقعات پیش آ رہے ہیں، خاص طور پر پچھلے چند سالوں میں۔ 2020 کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ریف کے 60 فیصد حصے پر کورل بلیچنگ کے اثرات دیکھے گئے ہیں۔ اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو ’گریٹ بیریئر ریف‘ کے بڑے حصے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ان تحقیقات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگرچہ کچھ کورل کی اقسام زیادہ درجہِ حرارت کا مقابلہ کر سکتی ہیں، مگر زیادہ تر کورل کی اقسام کے لیے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ مہلک ثابت ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ، سمندری درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے سمندر کی تیزابیت بھی بڑھ رہی ہے، جو کورل کی نشوونما کو مزید مشکل بنا رہی ہے۔

مجموعی طور پر، گریٹ بیریئر ریف کا مستقبل موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ منسلک ہے، اور اس کی بقاء کے لیے عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔

اب ایک حالیہ تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ رواں برس جنوری تا مارچ سمندری درجہ حرارت گزشتہ چار سو سال کی بلند ترین سطح پر رہا، جس کے باعث آسٹریلیا کے ’گریٹ بیریئیر ریف‘ یا زیرِ آب مونگے کی چٹانوں کو شدید نقصان پہنچا۔

یہ تحقیق آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف وولونگونگ اور یونیورسٹی آف میلبورن سے منسلک محققین کی جانب سے مشترکہ طور پر کی گئی ہے، جو رواں ماہ سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہوئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحقیق کی اشاعت سے کچھ دن قبل ہی اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی متعلقہ کمیٹی نے گریٹ بیریئر ریف کو خطرے سے دوچار مقامات کی لسٹ میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس تحقیق کے لیے سمندری درجہِ حرارت کے گزشتہ چار سو سال کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ اس کے نتائج کے مطابق سمندر کا بلند درجہِ حرارت نہ صرف رواں برس گریٹ بیریئیر ریف کی بڑے پیمانے پر کورل بلیچنگ کا سبب بنا بلکہ ایسا سن 2022, 2020, 2017, 2016 اور 2004 میں بھی ہوا، جس سے گریٹ بیریئیر ریف پر ماحولیات اور حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے منفی اثر پڑا۔

نیچر میں شائع ہونے والی ریسرچ کے محققین اس نتیجے پر بھی پہنچے کہ سمندری درجہِ حرارت میں اضافے کی وجہ انسانی سرگرمیاں کے باعث پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔

اس ریسرچ پر کام کرنے والی تحقیقاتی ٹیم کی قیادت کرنے والے دو سائنسدانوں میں سے ایک ڈاکٹر بینجمن ہینلی کا کہنا ہے کہ 2024ع کے سمندری درجہ حرارت کا تجزیہ کرتے وقت انہوں نے تین بار اپنی کیلکولیشنز چیک کیں، کیونکہ وہ انتہائی بلند تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ درجہ حرارت 2017ء کے ریکارڈ درجہ حرارت سے بھی کہیں زیادہ تھا۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر فوری اور مربوط اقدامات نہیں کیے گئے تو ہم گریٹ بیریئر ریف کی شکل میں قدرت کا ایک حسین تحفہ کھو دیں گے۔

دوسری جانب پاکستان میں بھی کورل بلیچنگ کا مسئلہ اس لیے بھی زیادہ سنگین ہے کہ یہاں میں کورل بلیچنگ کی صورتحال عالمی سطح پر کورل ریفس کے مسائل کے مقابلے میں کم توجہ حاصل کرتی ہے، کیونکہ پاکستان کے ساحلی علاقے میں کورل ریفس محدود ہیں اور اتنے وسیع پیمانے پر نہیں پائے جاتے، جتنے کہ آسٹریلیا، مالدیپ، یا دیگر ٹراپیکل ممالک میں۔ تاہم، جہاں بھی پاکستان کے ساحلی علاقوں میں کورل ریفس موجود ہیں، وہاں بلیچنگ کے خطرات موجود ہیں، خاص طور پر بڑھتی ہوئی سمندری درجہ حرارت اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے۔

پاکستان کے بلوچستان کے ساحلی علاقے میں، جیسے کہ استولا جزیرہ (Astola Island)، کچھ کورل ریفس پائے جاتے ہیں۔ یہ علاقہ کورل بلیچنگ سے محفوظ نہیں ہے، خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی، صنعتی آلودگی، اور ماہی گیری کے طریقوں کی وجہ سے۔

مجموعی طور پر، پاکستان میں کورل بلیچنگ کی صورتحال پر تحقیق اور نگرانی کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ سمندری حیات کے ان اہم حصوں کو بچایا جا سکے اور بہتر طور پر ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی کی بڑھتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر، پاکستان کے کورل ریفس بھی خطرے میں ہیں، اگرچہ یہ مسئلہ ابھی عالمی سطح پر موجود کورل ریفس کی صورتحال کے مقابلے میں نسبتاََ کم ہے۔

اس حوالے سے پاکستان میں طویل عرصے تک کراچی یونیورسٹی کے شعبہ میرین سائنسز سے وابستہ رہنے والی ڈاکٹر فہمیدہ فردوس کا کہنا ہے کہ کورل ریفس کا شمار ان متنوع ماحولیاتی نظاموں میں ہوتا ہے، جنہیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دیگر قدرتی نظاموں کی طرح کورل ریفس بھی خود کو پہنچنے والے نقصان کا تدارک ازخود کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن اس کے لئے لمبے عرصے تک موافق ماحول کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے سمندر کا درجہ حرارت 23 سے 26 ڈگری سینٹی گریڈ ہونا چاہیے اور آکسیجن کی وافر مقدار ہونی چاہیے۔اس کے علاوہ اس دوران پانی کی صفائی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔

پاکستان کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ یہاں چرنا اور استولا کے جزیروں پر کورل ریفس پائے جاتے ہیں، جن کو اب سمندر کی سطح میں مسلسل اضافے کے باعث نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایسا ہونے سے گہرے پانی میں کورل ریفس تک سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی، جب کہ یہ ان کی نشو نما کے لئے ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ چرنا اور استولا کے جزیروں کے اطراف سیاحتی سرگرمیوں اور تھرمل پاور پلانٹس کی وجہ سے سمندری پانی میں آلودگی اور تیزابیت بڑھ رہی ہے، جس سے کورل بلیچنگ میں بھی تیزی کے ساتھ سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق، ”کورل ریفس کو نقصان پہنچنے سے پورا میرین ایکو سسٹم متاثر ہوتا ہے اور لامحالہ اس کے اثرات انسانی زندگی پر پڑ رہے ہیں۔‘‘

اس کی ایک مثال سندھ کی ساحلی پٹی پر واقع مبارک گوٹھ کے رہائشی ہیں۔

وہاں رہنے والے آصف بلوچ کا کہنا ہے کہ بیس سال پہلے تک مبارک گوٹھ ماہی گیری کا مرکز تھا اور یہاں کی نوے فیصد آبادی اس پیشے سے وابستہ تھی، مگر اب ماحولیاتی تبدیلیوں، بڑھتی آبی آلودگی اور کورل بلیچنگ کے باعث مچھلیوں کی تعداد گَھٹ کر محض دس فیصد رہ گئی ہے۔

واضح رہے کہ مچھلیوں کی متعدد اقسام کا خوراک اور دیگر حوالے سے انحصار کورل ریفس پر ہوتا ہے، اس لیے کورل بلیچنگ ان کے لیے نقصان کا سبب بنتی ہے۔

آصف بلوچ کہتے ہیں ”مبارک گوٹھ میں بہت سے خاندان عشروں سے ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ تھے، مگر مچھلیوں کی تعداد کم ہونے سے اب ان کا گزارا مشکل سے ہو پاتا ہے۔ ہزاروں افراد یہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد دوسرے پیشے اختیار کر رہی ہے۔‘‘

2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کے قرب میں واقع چرنا جزیرے میں واقع مونگے اور مرجان (کورل ریفس) کی چٹانیں موسمیاتی تغیر، سمندری حدت، انسانی کثافت اور دیگرمتفرق اثرات کی وجہ ڈے بے رنگ اور سفید ہو کر مر رہی ہیں۔ بدقسمتی سے ماہی گیر بھی مونگے کی چٹانوں کو اکھاڑنے اور کراچی کے ایکوریم کا کاروبار کرنے والے تاجروں کو فروخت کرنے میں ملوث ہیں۔

2000 کی دہائی میں ڈارون انیشی ایٹوو پروجیکٹ کے تحت پاکستان کے ساحل پر مونگے کی چٹانوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق پاکستان میں پہلی بار جزیرہ چرنا کے قریب مونگے کی چٹانوں کی سفید ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔ اکتوبر 2020 کے آخری ہفتے میں چرنا جزیرے کے شمال مشرقی حصے کے آس پاس ایک غوطہ خور مہم پر جزیرے پر مونگے کی چٹانوں کا خطرناک حد تک سفید ہونے کا پتہ چلا، کچھ علاقوں میں سفیدی کے بڑے بڑے ٹکڑے نظر آئے، جبکہ کچھ دیگر حصوں میں بھی یہ اثرات محدود شکل میں دیکھے گئے تھا، یہ سفیدی پاکستان میں ساحلی حیات تنوع کے لیےسنگین خطرہ ہے۔

واضح رہے کہ مونگے بھی زندہ اجسام کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ سمندری جانور ہیں جو صاف پانی کے نچلی سطح پر رہتے ہیں اور ان کا تعلق جیلی فش اور بغیر خون آبی حیات سے بتایا جاتا ہے، جو دنیا کے کچھ علاقوں میں چٹانیں تشکیل دیتے ہیں جبکہ انتہائی متنوع ماحولیاتی نظام میں ان چٹانوں کو ’سمندر کا بارانی جنگل‘ Rain Forest کہا جاتا ہے. سال 2000 کی دہائی میں ، ڈارون انیشی ایٹوو پروجیکٹ کے تحت پاکستان کے ساحل پر مونگے کی چٹانوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس میں ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان، میرین بیالوجی سینٹر آف ایکسی لینس ، اور میرین ریفرنس اینڈ ریسورس سینٹر، جامعہ کراچی شامل تھے۔

بعدازاں، ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے پاکستان وٹیلینڈز پروگرام کے تحت مونگے پر مزید مطالعات کیے گئے۔ مجموعی طور پرپاکستان کے ساحلی پانیوں سے 55 زندہ مونگوں کی آبادیوں کو ریکارڈ کیا گیا جو محدود علاقوں تک تھی، منفی ماحولیاتی حالات جیسے غیر معمولی طور پر گرم یا ٹھنڈا درجہ حرارت، پانی کی آلودگی، تیز روشنی اور یہاں تک کہ کچھ جراثیمی امراض بھی مونگے کی چٹانوں کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بن سکتے ہیں اور یہ مرجان کی موت کا باعث بنتا ہے۔

پچھلے کچھ برسوں کے دوران چرنا جزیرہ تفریحی سرگرمیوں کا محور بنا ہے اور اسکوبا ڈائیونگ کے لیے ایک اہم علاقہ سمجھا جاتا ہے، اگرچہ ماحولیاتی طور پر باشعور غوطہ خور مونگے کی چٹانوں کو نقصان نہیں پہنچاتے، تاہم بیشتر شوقیہ غوطہ خوروں نے انہیں روندنے اور متاثر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

اس کے علاوہ متعدد ماہی گیر بھی مونگے کی چٹانوں کو اکھاڑنے اورکراچی کے ایکوریم کا کاروبار کرنے والے تاجروں کو فروخت کرنے میں ملوث ہیں، اس علاقے میں آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے جو تیرتے کچرے سے ظاہر ہوتا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کا خیال ہے کہ چرنا جزیرے کے آس پاس پانیوں میں ماہی گیروں کی لانچوں سے دانستہ اور نادانستہ طور پر پھینکے جانے والے جال بھی ایک سنگین ماحولیاتی چیلنج ہے، کئی برس سے سمندر کی تہہ میں موجود یہ جال مونگے کی چٹانی سلسلے پر شدید اور منفی اثرات ڈالتے ہیں۔

نوٹ: اس فیچر کے لیے ڈی ڈبلیو اور اردو کرونیکل کی رپورٹس سے مدد لی گئی ہے۔ اضافی رپورٹنگ: امر گل۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close