پچاس سال کی خاموشی اور سنّاٹے کے بعد، صحرا کی خشک اور پیاسی ریت پر آسمان کے آنسو بہہ نکلے۔۔ یہ خوشی کے آنسو تھے، جو خوشی بن کر ہی صحرا میں جذب ہو گئے۔۔ تیز ترین بارشوں نے اس صحرا کو جل تھل کر دیا جسے ہم ہمیشہ بے رنگ، بے جان اور بنجر سمجھتے تھے۔ صحارا کی ریت، جس نے آدھی صدی تک صرف ہوا کے ہاتھوں اپنے وجود کو پھیلتے اور سکڑتے دیکھا تھا، اچانک زندگی کی تازگی میں نہا گئی۔
جی ہاں۔۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے تو دنیا کا ایک بڑا حصہ متاثر ہوتا رہتا ہے مگر صحرائے صحارا میں بھی غیرمعمولی اور ڈرامائی طور پر موسم تبدیل ہوا اور اس مشہور ترین بڑے صحرا کے کچھ حصوں میں پچاس سال بعد سیلاب دیکھا گیا۔
یہ بارشیں کوئی عام بارش نہیں تھیں، یہ گویا صحرا کے دل پر برسنے والا پیغام تھا، ایک مدّت سے دبی ہوئی خواہش کا اظہار تھا۔ قطروں کی تال پر، ریت کے ذرے جھومنے لگے، جیسے کسی طویل خاموشی کے بعد رقص کی اجازت مل گئی ہو۔ ریت کے اندر چھپے ہوئے وہ بیج جو کبھی اپنے نصیب میں نمو دیکھنے کی امید چھوڑ چکے تھے، گویا جاگ اٹھے۔
صحرا کی فضاؤں میں پہلی بار نمی کا احساس تھا، ہوا میں وہ خوشبو تھی جو ہمیشہ سرسبز وادیوں میں محسوس کی جاتی ہے۔ آسمان پر پھیلے بادل، جو کبھی صحارا کو نظر انداز کرتے ہوئے گزر جایا کرتے تھے، اب خود اس کے قریب آ کر بوسہ دے رہے تھے۔ جیسے صدیوں کے جدائی کا گلہ ہو رہا ہو۔
صحرا، جو انسانوں کے لیے صرف مایوسی اور مشکل کا استعارہ رہا تھا، اب ان بارشوں کی بدولت زندگی کا نیا استعارہ بن گیا۔ پانی کی جل تھل سے بننے والی عارضی جھیلیں، ایک خواب کا حصہ محسوس ہو رہی تھیں، جیسے کہ صحرا خود بھی اس تبدیلی پر یقین نہیں کر پا رہا ہو۔
بارش کے قطروں کا ہر نغمہ صحرا کے دِل کی دھڑکن بن چکا تھا۔ اور یہ دل، جو ہمیشہ خاموش رہا، اب نئے خوابوں اور نئی امیدوں سے بھر گیا تھا۔ صحرا شاید پھر خشک ہو جائے، ریت پھر پیاسی ہو جائے، لیکن یہ لمحہ، یہ جل تھل، ہمیشہ کے لیے صحارا کے افسانوں کا حصہ بن چکا ہے۔
رپورٹس کے مطابق جنوب مشرقی مراکش میں دو دن کی طوفانی بارشوں کے بعد صحرائے صحارا کے ایک حصے میں شدید سیلاب دیکھنے میں آیا جو خطے کی سالانہ اوسط بارش سے زیادہ ہے۔
مراکش کے محکمہ موسمیاتی کے حکام کے مطابق دارالحکومت رباط سے 450 کلومیٹر جنوب میں واقع گاؤں ٹیگونائٹ میں ستمبر میں صرف 24 گھنٹوں میں 100 ملی میٹر سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی۔
امریکہ کے خلائی ادارے ناسا کے ذریعے حاصل کی گئی سیٹلائٹ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ جھیل اریکوئی جو کہ زگورا اور ٹاٹا کے علاقوں کے درمیان واقع ہے اور 50 برسوں سے خشک پڑی تھی بارش کے بعد سیلابی پانی سے بھر گئی۔
مراکش کی موسمیات کے ادارے کے ایک اہلکار حسین یوآبب نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ 30 سے 50 سال ہو چکے ہیں کہ اس علاقے میں اتنے کم وقت میں اتنی بارش ہوئی ہو۔
ماہرین موسمیات نے اس رجحان کو ایکسٹرا ٹراپیکل طوفان کہا ہے اور اُن کا خیال ہے کہ اس کے خطے کی آب و ہوا پر طویل مدتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
حیسن یوآبب نے کہا ان منفی اثرات میں ایک یہ ہے کہ ہوا زیادہ نمی برقرار رکھتی ہے، یہ بخارات میں اضافے اور مزید طوفانوں کا سبب بن سکتی ہے۔
گارڈین کے مطابق مراکش میں گزشتہ ماہ 18 افراد سیلاب کی نذر ہو گئے تھے اور بارشوں سے سیلاب اُن علاقوں میں آیا تھا جو گزشتہ برس کے زلزلے سے نقصان کے بعد بحالی کے کام سے گزر رہے تھے۔
ملک کے جنوب مشرق میں گزشتہ ماہ کی بارشوں نے ڈیموں کو بھر دیا تھا۔
تو کیا بارشوں کے بدلتے رجحانات اور پیٹرن مستقبل میں صحراؤں کو سرسبز بنا سکتے ہیں۔۔ اگرچہ اس کے امکانات موجود ہیں لیکن یہ عمل اس قدر آسان بھی نہیں۔ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کی وجہ سے صحراؤں میں وقتی طور پر زندگی کے آثار تو نمودار ہو سکتے ہیں، لیکن انہیں سرسبز خطوں میں مستقل طور پر تبدیل کرنا ایک پیچیدہ اور طویل عمل ہے۔ بارش کے پیٹرنز میں تبدیلی، جیسے صحارا میں حالیہ تیز بارشیں، عارضی طور پر صحراؤں میں نمی لا سکتی ہیں اور کچھ پودوں یا جھیلوں کی تشکیل کا باعث بن سکتی ہیں، لیکن اسے سرسبز و شاداب خطے میں بدلنے کے لیے مستقل بارشوں اور ماحول کے دیگر عوامل کی ضرورت ہوتی ہے۔
صحراؤں کی تشکیل میں کئی عوامل شامل ہوتے ہیں، جن میں زمین کی ساخت، آب و ہوا، اور بائیو ڈائیورسٹی کی نوعیت شامل ہے۔ اگرچہ عالمی موسمیاتی تبدیلی بارشوں کے پیٹرن کو تبدیل کر سکتی ہے، لیکن صحراؤں کو مکمل طور پر سرسبز بنانے کے لیے صرف بارش کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے زمین کی ساخت میں تبدیلی، پانی کے ذرائع کا تحفظ، اور مخصوص پودوں کی افزائش کی ضرورت ہوتی ہے۔
تاریخی طور پر دیکھا گیا ہے کہ زمین کے کچھ خطے، جو پہلے صحرائی تھے، موسمیاتی یا انسانی مداخلت سے زرعی زمینوں میں تبدیل ہوئے ہیں، جیسے چین اور اسرائیل کے کچھ علاقے جہاں مصنوعی ذرائع سے زمین کو سیراب کر کے سرسبز بنایا گیا۔ لیکن صحارا جیسے بڑے صحراؤں کو سرسبز خطے میں تبدیل کرنا بہت بڑا چیلنج ہے، اور اس کے لیے نہ صرف بارش بلکہ بہتر ماحولیاتی منصوبہ بندی، پانی کے وسائل کا دانشمندانہ استعمال اور پائیدار زرعی نظام کی ضرورت ہوگی۔
مختصر یہ کہ بارش کے بدلتے رجحانات صحراؤں کو وقتی طور پر زندگی دے سکتے ہیں، لیکن انہیں مستقل سرسبز وادیوں میں تبدیل کرنے کے لیے بہت سے دیگر عوامل کی مسلسل کوشش درکار ہوگی۔
اس بارے میں مزید جانیے سنگت میگ کی اس رپورٹ میں
کیا ماحولیاتی تبدیلی سے بارشوں کا بدلتا پیٹرن بارانی علاقوں کی قسمت بدل سکتا ہے؟