یہ کہانی کسی زمانے کے خوبصورت اور زندگی سے بھرپور کراچی کے ساحل سمندر کی نہیں، بلکہ آج کے ان دلدوز لمحوں کی ہے جب ریڑھی گوٹھ کے باسی نواز علی ساحل کی کالی مٹی پر نظریں جمائے ماضی کے سپید خوابوں کو یاد کرتے ہیں۔ وہ تلخ مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں، ”جب میں بچہ تھا، یہاں کی مٹی اتنی صاف تھی کہ ہم بال دھویا کرتے تھے۔۔ اب یہی مٹی پاؤں پر لگ جائے تو کئی روز کالک نہیں جاتی۔“
کراچی کے ساحلی پٹی سے ملحق سمندر ’سیاہی کا سمندر‘ بن چکا ہے۔ اس ساحل کی کہانی صرف کالک کی نہیں، بلکہ سمندر سے زندگی کے ناپید ہونے کی ہے۔ ایک وقت تھا جب ساحل کے پانیوں میں پاپلیٹ، کڈی اور جھینگے کی افراط تھی، مگر آج گندے پانی کے بہاؤ نے ان کے نشانات بھی مٹا دیے ہیں۔ بھینس کالونی سے نکلنے والے ہزاروں ٹن فضلے نے کبھی نیلے پانی کو دلدلی کچرے میں بدل دیا ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے نواز علی بتاتے ہیں ”پہلے تک یہاں کا پانی صاف ہوا کرتا تھا اور ہم ساحل کے نزدیک پانیوں سے مچھلی پکڑ کے بازار میں بیچا کرتے تھے۔ مگر گذشتہ چند برسوں سے پورے کراچی کا سیوریج کا پانی اس سمندر میں بہایا جا رہا ہے، (یہاں کی) پوری مٹی کالی ہو گئی ہے۔“
وہ ماضی کے سنہرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ”ماضی میں کراچی شہر کے طول و عرض میں بہنے والے برساتی نالوں کے ذریعے پانی اور صاف مٹی سمندر میں داخل ہوتی تھی جس سے ساحل کے قریب موجود جزیرے بڑے ہوتے تھے۔ اب حالت یہ ہے کہ وہ جزیرے، جن پر ہم کبھی دس کلومیٹر پیدل چل کر کنارے پر پہنچتے تھے، وہ سمندر برد ہو چکے ہیں۔“
ماضی میں اگر کوئی ڈوب جاتا تو مچھیرے صاف پانی میں اسے تلاش کر لیتے تھے۔ اب یہ سیاہی مائل پانی لاشوں کو بھی نگل لیتا ہے۔۔ ماہی گیر نواز علی کی آواز میں حسرت اور بےبسی کا ملا جلا رنگ ہے: ”پہلے پانی بہت صاف تھا اور اگر حادثاتی طور پر کوئی ڈوب جاتا تو اسے باآسانی تلاش کر لیا جاتا تھا مگر اب سیاہی مائل مٹی کی وجہ سے ڈوبنے والوں کی لاشیں کئی کئی روز تک نہیں ملتیں۔ سیوریج کے پانی نے ساحل کے نزدیکی علاقوں میں دلدل کی صورت اختیار کر لی ہے اور اکثر ڈوبنے والے یہاں پھنس جاتے ہیں۔“
نواز کی باتوں میں مایوسی کی بجائے ایک دبا ہوا غصہ جھلکتا ہے۔ وہ اپنے آباواجداد کے ساحل کو گندے نالے میں بدلتے دیکھ چکے ہیں، جہاں مچھلیوں کے بجائے اب صرف سیوریج کے جھاگ ابلتے ہیں۔ مچھیرے سمندر سے زندگی کشید کرتے تھے، مگر اب یہ سمندر خود زندگی کی بھیک مانگتا ہے۔
ماضی میں کراچی کے ساحلی علاقے قدرتی حسن کے مظہر تھے۔ پانی کا شور زندگی کا نغمہ سناتا تھا اور جزیرے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ مگر شہر کی اندھی ترقی نے یہ سب نگل لیا۔ بھینس کالونی سے بہتا گند، صنعتی فضلہ اور سیوریج کا طوفان اب یہاں کا مقدر ہے۔
ریڑھی گوٹھ کی مریم بی بی بھی شکوہ کناں ہیں۔ کہتی ہیں، ”جو مچھلی ساحل کے نزدیکی پانیوں سے پکڑ کر لاتے ہیں وہ پکانے میں ذائقہ دار نہیں ہوتی، گٹر کے پانی نے مچھلی کا ذائقہ بھی خراب کر دیا ہے۔“ یہ صرف ذائقے کا مسئلہ نہیں؛ یہ سمندری حیات کی بقا کی جنگ ہے کہ مچھلیاں ساحل کے نزدیک ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔
پاکستان فشر فولک فورم کے مجید موٹانی بتاتے ہیں کہ کراچی کی کئی کلومیٹر طویل ساحلی پٹی مبارک ولیج سے شروع ہو کر بن قاسم پورٹ پر ختم ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ شہر بھر سے بغیر ٹریٹ کیے سیوریج سمندر میں شامل کیے جانے کی وجہ سے کراچی کی ساحلی پٹی کسی جگہ پر ڈھائی اور کسی جگہ پر پانچ کلومیٹر تک آلودہ ہو چکی ہے اور اس صورتحال کے باعث ایسی مچھلیاں جو صاف پانی میں رہنا پسند کرتی ہیں وہ یہاں سے ہجرت کر گئی ہیں۔
مجید موٹانی کے مطابق ماحولیات پر اس کے اثر کے علاوہ ان سب کا معاشی دباؤ ماہی گیروں پر پڑ رہا ہے۔
اُن کا دعویٰ ہے کہ جو مچھلی یہاں رہ بھی گئی ہے اس میں اتنی بُو آتی ہے کہ وہ کھانے کے لائق نہیں ہوتی اور نہ ہی مارکیٹ میں اس کا دام اچھا لگتا ہے۔
اسی علاقے میں قاسم بھی رہتے ہیں جو کیکڑے کا شکار کرنے والے چھوٹے مچھیروں کو اُن کی کشتیوں کے لیے ڈیزل اور کیکڑے پھنسانے کے لیے مرغی کے پنجے وغیرہ مہیا کرتے ہیں۔ اس کے عوض مچھیرے اپنا شکار انہی کو فروخت کرتے ہیں۔ قاسم کا کہنا ہے کہ ساحل پر گندگی کی وجہ سے اب کیکڑے کی تعداد میں بھی کمی آتی جا رہی ہے، جس کے باعث اب گزارہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق سمندری آلودگی کے سبب کراچی کا 129 کلومیٹر ساحل ڈیڈزون میں تبدیل ہو رہا ہے۔ آلودگی کے سبب کیماڑی تا منوڑہ سمندر کا پانی سیاہ رنگ میں تبدیل ہو چکا ہے مینگروز کے جنگلات کو شدید نقصان کے ساتھ ساتھ مچھلی، کیکڑا اور جھینگوں کی 27 سے زائد اقسام ناپید ہو چکی ہیں یا پھر نقلی مکانی کر گئی ہیں۔ سمندر میں 10 ناٹیکل میل کے اندر مچھلی ناپید ہونے کے سبب ماہی گیری سے وابستہ 20 لاکھ افراد شدید متاثر ہو گئے ہیں، سمندری آلودگی کے سبب کراچی کا 129 کلومیٹر ساحل ڈیڈزون میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ سمندری علوم کے ماہرین کے مطابق سمندری آلودگی کے سبب وائٹ پمفرے، پمپس ، تارو، پمتو، مکری، سکیمو، درمورس، کمرہنس، گٹارس، کرگن فش انتہائی خطرناک حدتک کم ہو چکی ہے۔ یہ مچھلی یورپ کو برآمد کی جاتی تھی۔ جبکہ دندیا، دوتر، ڈانٹھی، بھنور، بوئی، سومئی مینگرتارلی، بانگڑا جرلی سمیت 27 اقسام کی مچھلیاں ساحل سے 10 ناٹیکل میل کے اندر دستیاب نہیں، یہ مچھلی یا تو ناپید ہو چکی ہے یا نقل مکانی کر کے گہرے پانی میں جا چکی ہیں، جس کی وجہ سے چھوٹی لانچوں کے ماہی گیر انتہائی پریشان ہیں اور ان کی معاشی حالت ابتر ہوتی جا رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق، سیوریج کا پانی آکسیجن کی سطح کو کم کر دیتا ہے، سمندر کو ’ڈیڈ زون‘ میں تبدیل کر دیتا ہے جہاں کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا۔ گائے بھینسوں کا فضلہ بھی قدرتی نہیں رہا، یہ بھی آلودگی کا ایک مہلک حصہ بن چکا ہے۔ ماہی گیروں کے لیے یہ صرف سمندر نہیں، روزی روٹی کا واحد ذریعہ بھی ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے منصوبے سرکاری کاغذات تک محدود ہیں، جبکہ کراچی کا سیوریج روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے سنہ 2015 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں روزانہ تقریباً 470 ایم جی ڈی سیوریج پیدا ہوتا ہے جو کہ شہر میں سپلائی کیے جانے والے پانی کا 70 فیصد ہے۔ تاہم یہ اعداد و شمار ناصرف سرکاری ہیں بلکہ نو سال پرانے بھی۔
ای پی اے کے ذرائع کے مطابق، ملیر اور لیاری ندی سے 450 ایم جی ڈی سیوریج کا پانی روزانہ سمندر میں جارہا ہے جبکہ 600 ایم جی ڈی صنعتی اور 175ایم جی ڈی چمڑے کے کارخانوں کا خطرناک زہریلا پانی بھی سمندر برد کیا جا رہا ہے۔ جبکہ کیماڑی، شیریں جناح کالونی، ماڑی پور، لیاری، مچھرکالونی، کلفٹن، سی ویو، ڈی ایچ اے فیز 8 دو دریا کے کنارے بنے ریسٹورنٹس سمیت ساحل کے قریب تعمیر شدہ ہزاروں فلیٹس کے سیورج کا پانی ٹریمنٹ کے بغیر سمندر برد ہو رہا ہے، مزید برآں دیگر آبادیوں کا سیوریج پانی بھی سمندر میں جا رہا ہے۔
ورلڈ بینک کے اندازوں کے مطابق دنیا میں ہر فرد کو یومیہ اوسطاً 40 گیلن تک پانی درکار ہوتا ہے۔ اور اگر اس اندازے کو سامنے رکھا جائے تو ڈھائی کروڑ کی آبادی کے کراچی شہر کی پانی کی روزانہ ضرورت 1000 ایم جی ڈی ہے اور اگر ان بنیادوں پر تخمینہ لگایا جائے تو کراچی میں پیدا ہونے والے سیوریج کی مقدار 700 ایم جی ڈی کے لگ بھگ بنتی ہے۔
سرکاری کاغذات کی نابینا آنکھوں میں ’ٹریٹمنٹ پلانٹ‘ کے خواب دہائیوں سے لکھے جا رہے ہیں، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ محمود آباد کا ٹی پی 2 پلانٹ مکمل طور پر بند ہے، جبکہ دیگر دو پلانٹ بھی محض رسمی طور پر چل رہے ہیں۔ میئر کراچی کے مطابق 2025 تک کچھ بہتری کی امید ہے، لیکن ریڑھی گوٹھ کے مکینوں کے لیے یہ وعدے خوابوں سے زیادہ کچھ نہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر اور ماحولیاتی ماہر معظم علی خان کا کہنا ہے ”اگر اس صورتحال پر کنٹرول نہیں کیا گیا تو یہ بےقابو ہو سکتی ہے۔ سمندر میں پانی ٹریٹ کیے جانے کے بعد ہی چھوڑنا چاہیے جبکہ صنعتوں سے نکلنے والے سیوریج کو الگ سے ٹریٹ کرنا چاہیے۔“ ان کے مطابق، کراچی کے دو علاقے، کراچی پورٹ اور گزری کریک، اب ’ڈیڈ زون‘ بن چکے ہیں، جہاں کوئی سمندری حیات زندہ نہیں پائی جاتی۔
کراچی اربن لیب کے محمد توحید کے مطابق کراچی کا سیوریج نظام بنیادی طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ ”ایک وقت تھا کہ جب شہر میں گٹر اور برساتی نالے الگ ہوا کرتے تھے، مسئلہ تب شروع ہوا جب برساتی نالوں میں سیوریج کا پانی شامل کر دیا گیا اور یہ سیوریج کے نالے بن گئے۔“
محمد توحید کے مطابق پاکستان میں ’گرے واٹر‘ کو دوسرے سیوریج سے الگ رکھنے کا تصور نہیں، جس کی وجہ سے شہر میں پیدا ہونے والے سیوریج کی مقدار اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
واضح رہے کہ ’گرے واٹر‘ اس استعمال شدہ پانی کو کہتے ہیں، جس میں زیادہ کمیکلز یا دوسرے مواد شامل نہ ہوں جیسے واش بیسن میں منہ دھونے کے بعد سیوریج کا حصہ بننے والا استعمال شدہ پانی۔
یونیورسٹی آف کراچی کی میرین بائیولوجسٹ ڈاکٹر شہناز راشد وضاحت کرتی ہیں، ”سیوریج میں موجود نامیاتی مواد آکسیجن جذب کر کے سمندری ماحول کو مردہ بنا دیتا ہے۔“
وہ بتاتی ہیں کہ کیسے بنا ٹریٹمنٹ کے گٹر کا پانی سمندر میں چھوڑنے کے نتیجے میں کراچی کی ساحلی پٹیوں سے مچھلیاں ناپید ہو رہی ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ سیوریج میں نامیاتی مادہ ہوتا ہے اور جب یہ مادہ پانی سے ملتا ہے تو اس عمل کے دوران آکسیجن استعمال ہوتی ہے جس کے باعث سمندر کے اُس حصے میں جہاں سیوریج موجود ہو وہاں آکسیجن کی سطح کم ہو جاتی ہے۔ اس سارے عمل کے نتیجے وہاں ہائپوکسیا یا ’ڈیڈ زون‘ وجود میں آ جاتا ہے جہاں سمندری حیات زندہ نہیں رہ سکتی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ سیوریج کے پانی میں اکثر زہریلے کیمیکلز اور پیتھوجینز جیسے بیکٹیریا اور وائرس پائے جاتے ہیں جو سمندری حیات کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر شہناز کہتی ہیں کہ یہ صورتحال صرف سمندری حیات کے لیے ہی نہیں بلکہ انسانوں اور دیگر جانوروں کے لیے بھی نقصاندہ ہے۔
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ گائے اور بھینسوں کا فضلہ ایک آرگینک میٹیریل ہے تو اس کے پانی میں شامل ہونے سے سمندری حیاتیاتی نظام کو نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن ڈاکٹر شہناز اس خیال کی نفی کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ”ایسا نہیں ہے۔ گائے، بھینسوں کے گوبر اور فضلے کو سمندر میں پھینکنے سے سمندری ماحول میں خلل پڑتا ہے اور آلودگی کی دیگر اقسام کی طرح اس سے سمندری حیات، پانی کے معیار اور ساحلی ماحولیاتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔“
کیا سمندری مچھلی کھانی چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں معظم علی خان کہتے ہیں کہ مچھلی کھانے والے افراد کو زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے مطابق پاکستان کے ماہی گیری کے گراؤنڈز کراچی کے آلودہ ساحلی علاقے سے بہت دور ہیں۔ تاہم وہ کہتے ہیں ”اگر یہی مچھلی کراچی کی آلودہ ساحلی پٹی کے نزدیکی پانیوں سے پکڑی جاتی ہے تو اس سے کھانے والوں کی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔“
کراچی کے ساحل کی کہانی محض آلودگی کی کہانی نہیں؛ یہ انسانی بےحسی، حکومتی نااہلی اور ماحولیاتی تباہی کا ایسا المیہ ہے، جس کے متاثرہ کردار سمندری حیات، کالک سے بھرے ساحل اور بےبس انسان ہیں۔
ماحولیات کے ماہرین اور سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران بے قابو ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کراچی کے سمندر کو بچانے کا کوئی ارادہ بھی موجود ہے یا یہ شہر ہمیشہ کے لیے سیوریج کے عذاب میں دفن ہو جائے گا؟