کیا سورج کے گرد چکر لگانے والا پر اسرار سیارچہ چاند کا ٹکڑا ہے؟

ویب ڈیسک

کراچی : مائیں اکثر اپنے بچوں اور شعراء اپنے محبوب کی تعریف کرنے کے لیے اسے”چاند کا ٹکڑا“ کہتے ہیں، چاند کے اس ٹکڑے سے قطع نظر اب سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نظام شمسی میں زمین کے گرد چکر لگانے والا سیارچہ دراصل ”چاند کا ٹکڑا“ ہو سکتا ہے

اس سیارچے کا نام کامو الیوا (Kamo Oalewa) رکھا گیا ہے۔ 2016ع میں اپنی دریافت کے بعد ماہرین کو اس کے بارے میں صرف اتنا ہی معلوم ہو سکا ہے کہ اس کا مدار زمین سے قریب ہے اور یہ سورج کے گرد چکر لگا رہا ہے. گزشتہ کئی برس سے یہ سیارچہ سائنس دانوں کے لئے ایک معمہ بنا ہوا ہے

یوں تو زمین کے پانچ کاسی سیارچے ہیں، تاہم کامو الیوا مختلف ہے۔ حال ہی میں نئی تحقیق کے نتیجے میں ماہرین فلکیات کو ایسے شواہد ملے ہیں، کے بعد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ سیارچہ چاند کا ٹکڑا ہو سکتا ہے

عام طور پر چاند کے پتھروں کا رنگ سفید ہوتا ہے، مگر ماہرین کے مطابق کامو الیوا غیر متوقع طور پر سرخ ہے

اس حوالے سے ایریزونا یونیورسٹی کے ماہر فلکیات بینجامین شارکی کا کہنا ہے کہ اس سیارچے کو دیکھ کر یہ نہیں لگتا کہ یہ عام سیارچہ ہے۔ یونیورسٹی کے ایک اور سائنسدان وشنوُ ریڈی کہتے ہیں کہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ چاند کا ٹکڑا ہے

بینجامین شارکی کے ساتھی سانچیز بھی اس ریسرچ کا حصہ تھے۔ انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ممکن ہے کہ کسی شہابی پتھر سے ٹکرانے کے نتیجے میں چاند کی سطح سے یہ حصہ ٹوٹ کر نیا سیارچہ بن گیا ہو۔ اس سوال کا حتمی جواب تو صرف اسی صورت میں مل سکتا ہے کہ سیارچے کے نمونوں کا معائنہ کیا جائے۔ اور عین ممکن ہے کہ چند ہی برسوں میں یہ کام مکمل کر لیا جائے، لیکن سائنس دانوں کے پاس ایسی کئی وجوہات ہیں، جن کے باعث وہ سمجھتے ہیں کہ کامو الیوا چاند کا ٹکڑا ہے

واضح رہے کہ چالیس میٹر لمبے کامو الیوا نامی اس سیارچے کو پہلے ’ایچ او تھری 2016‘ کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ اسے امریکی ریاست ہوائی میں موجود پین اسٹارز ون نامی ٹیلی اسکوپ سے دریافت کیا گیا تھا۔ ہوائی کی مقامی زبان میں اس کا نام ’’جھولتا ہوا آسمانی ٹکڑا’’ رکھا گیا۔ زمین کے جیسے مدار میں گردش کے باعث تکنیکی اور سائنسی اعتبار سے اسے چاند کی بجائے ایک ثانوی سیارچے کی حیثیت دی گئی ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ سیارچہ زمین کے گرد نہیں گھومتا، بلکہ زمین کی مانند سورج کے گرد چکر لگاتا ہے۔ یعنی اگر زمین اپنا مدار چھوڑ بھی دے تو یہ سیارچہ اپنے مدار میں سورج کے گرد ہی گھومتا رہے گا

سائنس دانوں نے اب تک ایسے پانچ ثانوی سیارچے دریافت کیے ہیں، لیکن کامو اولیوا وہ پہلا سیارچہ ہے، جس کا جائزہ لینا ممکن نظر آتا ہے

سانچیز کہتے ہیں کہ اپریل میں اس سیارچے کو بڑی ٹیلی اسکوپ کی مدد سے زمین سے آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے، جب کہ دوسرے ایسے ہی سیارچے ٹیلی اسکوپ کی پہنچ اور رسائی سے بھی دور ہیں

اس سیارچے کے تجزیے کے دوران سائنس دانوں نے دیکھا کہ اس کی رنگت غیر معمولی حد تک سرخ ہے، جو غالبا دھاتی معدنیات کی موجودگی کے باعث ہے

اس حوالے سے سانچیز کہتے ہیں کہ آسان زبان میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ہم نے اس سیارچے پر پڑنے والی سورج کی شعاعوں کی روشنی میں یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ یہ کس چیز کا بنا ہوا ہے، تو ہمیں معلوم ہوا کہ اس میں ’’سیلیکیٹ‘’ معدنیات پائے جاتے ہیں

ان کا کہنا ہے کہ جس بات نے ہماری توجہ حاصل کی، وہ یہ تھی کہ اس سیارچے کی شکل چاند کی سطح سے زیادہ ملتی جلتی ہے

سائنس دانوں نے اس بات کا اندازہ یوں بھی لگایا کہ 1970ع کی دہائی میں چاند پر بھیجے جانے والا اپالو مشن بھی اس سے ملتا جلتا ایک پتھر لے کر لوٹا تھا

سانچیز کا کہنا ہے کہ ہماری توجہ اس جانب اس لیے مرکوز ہوئی، کیونکہ ہم نے پہلی مرتبہ ایسی کوشش کی ہے، جس میں ہم نے زمین سے انتہائی قریب سورج کے گرد چکر لگانے والے ایک سیارچے کا بغور جائزہ لیا ہے اور ہمیں یہ شک ہے کہ یہ ہمارے چاند کا ہی ایک ٹکڑا ہو سکتا ہے

لیکن اس پراسرار سیارچے سے متعلق چند اور نظریات بھی موجود ہیں، جن میں سے ایک کے مطابق یہ ایک ٹروجن سیارچہ ہے، جس کا زمین یا سورج سے کوئی تعلق نہیں

یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ٹکڑا نما سیارچہ زمین کے قریب پائی جانے والی کسی اور چیز کا حصہ ہو سکتا ہے

ان تمام نظریات کے باوجود اس سیارچے پر ہونے والی نئی تحقیق سے جڑے ماہر فلکیات سمجھتے ہیں کہ ان کے حاصل کردہ شواہد ان کے نظریے کو حقیقت کے زیادہ قریب کر دیتے ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close