امریکا کے ایک ہی اسکول کے سو سے زائد طلبہ کو دماغ کا کینسر

ویب ڈیسک

نیوجرسی – امریکا سے ایک انتہائی افسوس ناک خبر سامنے آئی ہے، جہاں ایک ہی ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک سو سے زیادہ لوگوں میں میں دماغ کے کینسر کی تشخیص ہوئی ہے

خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دماغی کینسر میں مبتلا ہونے والے تمام افراد پہلے جوہری بم کی تیاری میں استعمال ہونے والی یورنیم سے تابکاری کی زد میں آنے والی زمین کی وجہ سے اس جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوئے

برطانوی اخبار دا ڈیلی میل میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گلیوبلاسٹوما نامی کینسر میں مبتلا ہونے والے تمام افراد ریاست نیوجرسی کے علاقے ووڈبرج میں کولونیا ہائی اسکول میں پڑھنے یا کام کرنے جاتے رہے ہیں

واضح رہے کہ لیوبلاسٹوما کینسر کی خاص قسم ہے۔ سرطان اور یورنیم سے ہونے والی تابکاری کے درمیان تعلق کا اسی وقت پتہ چلا جب اسکول کے سابق طالب علم ال لوپیانو، جو اب ماحولیاتی سائنس دان ہیں، نے دیکھا کہ جن لوگوں کو وہ جانتے ہیں وہ بیمار ہو رہے ہیں

ال لوپیانو نے انکشاف کیا کہ بیس سال قبل ان کے سر میں رسولی تھی۔ اس سے پہلے ان کی اہلیہ بھی اس مرض میں مبتلا ہوئیں۔ اسی طرح ان کی بہن بھی دماغی رسولی کا شکار ہو کر فروری میں صرف چوالیس سال کی عمر میں چل بسیں

پچاس سالہ سائنس دان کا دعویٰ ہے کہ اس مرض کا سراغ نمونے لینے والے اس قریبی پلانٹ سے لگایا جا سکتا ہے، جہاں مین ہٹن پراجیکٹ کے تحت پہلے ایٹم بم کے لیے یورنیم استعمال کی گئی تھی

ال لوپیانو نے اپنی بہن سے ان کے بستر مرگ پر عہد کیا تھا کہ وہ بیماری کی وجہ کا پردہ فاش کریں گے

انہوں نے کہا ”جب تک مجھے جواب نہیں مل جاتا میں چین سے نہیں بیٹھوں گا“

ال لوپیانو کے اخذ کردہ نتائج کے بعد اسکول میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور اسکول کے تیرہ سو موجودہ طلبہ میں سے بہت سے پریشان ہو گئے ہیں

ووڈ برج کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ ال پیانو کے دعووں پر غور کر رہے ہیں تاکہ بیماری کی بنیادی وجہ کا تعین کیا جا سکے

ال لوپیانو کو 2002ر میں دماغ کی رسولی کی تشخیص ہوئی تھی اور انہوں نے اس وقت تک بیماری کا تعلق اسکول سے نہیں جوڑا، جب تک کہ ان کی بیوی اور بہن بیمار نہیں ہوئی تھیں۔ ان کی بہن انجیلا ڈی سیلیس مارچ میں جان کی بازی ہار گئیں، جس کے بعد لوپیانو میں اس سلسلے میں تحقیق کی تحریک پیدا ہوئی۔ انہوں نے مریضوں کے ایک چھوٹے سے گروپ سے کام شروع کیا لیکن جیسے جیسے مریضوں کی تعداد بڑھتی گئی، انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ یا تو ووڈبرج کے ہائی اسکول میں کام کرتے تھے یا پڑھتے رہے ہیں

لوپیانو نے اپنی تحقیق کے بارے میں فیسبک پر پوسٹ کی اور جلد ہی ان پر یہ خوفناک حقیقت آشکار ہوئی کہ متاثرہ افراد کی تعداد آسمان کو چھو رہی ہے

انہوں نے سی بی ایس نیوز کو بتایا ”میں نے تحقیق کرنا شروع کیا تو مریضوں کی تعداد تین پانچ، پانچ سات اور سات سے پندرہ ہو گئی“

وہ کہتے ہیں ”گذشتہ سال اگست تک مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ میری بہن کو پتہ چلا کہ خود اسے دماغی رسولی ہے۔ بدقسمتی سے مرض چوتھے اسٹیج کا گلیوبلاسٹوما کینسر نکلا۔ دو گھنٹے بعد ہمیں اطلاع ملی کہ میری بیوی کو بھی بنیادی دماغی رسولی ہے“

رواں سال کے شروع میں لوپیانو کا ان باکس اسکول کے سابق ہم جماعتوں اور اساتذہ کے پیغامات سے بھر گیا کہ وہ بھی دماغ کی انوکھے رسولی کے مسئلے سے نمٹ رہے ہیں۔ ان لوگوں کی اکثریت نے 1975ع اور 2000ع کے درمیان گریجویشن کی، لیکن ایک کیس تازہ یعنی 2014ع کا ہے

لوپیانو نے مزید کہا ”مجھے جو چیز تشویش ناک لگتی ہے، وہ یہ ہے کہ بنیادی دماغی رسولیوں کے ساتھ واقعی صرف ایک ماحولیاتی تعلق ہے اور وہ ہے برقی چارج رکھنے والے ایٹمز کی تابکاری۔ یہ آلودہ پانی نہیں ہے۔ یہ ہوا نہیں ہے۔ یہ مٹی میں موجود کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ بری عادتوں کی وجہ سے ہمارے ساتھ ہونے والا کچھ نہیں ہے“

اسٹیسی راموس ان لوگوں میں سے ایک تھیں، جنہوں نے لوپیانو سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ جب وہ بیمار ہوئی تو ان کی عمر صرف اکتالیس سال تھی

ان کا کہنا تھا ”اکتالیس سال کی عمر میں مجھے پتہ چلا کہ مجھے ایک بہت ہی منفرد نرم بافتوں والا ضرر رساں سرطانی ٹیومر سپنڈل سیل کارسینوما ہے، جس نے میری آنکھ میں آنسوؤں کی نالی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جہاں سے ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ اس کا آغاز ہوا۔ (میں سائی نس کینال کا نصف حصہ کھو چکی ہوں) رسولی ناک کے پچھلے حصے، میرے کان کی نالی میں یا اس کی طرف بڑھنا شروع ہو گئی اور میرے دماغ کے قریب پہنچنے لگی۔ مجھے تین سے زیادہ سال پہلے سے کچھ علامات تھیں، لیکن اس وقت تک پتہ نہ چلا، جب تک مرض بڑھ نہ گیا۔ مجھے اس وقت دائیں کان اور کینسر والی طرف ٹیوب میں مسائل کا سامنا ہے، جس کے بارے میں میں پریشان ہوں“

کینسر کو ہرانے والی کم عمر ترین امریکی خلائی سیاح
لوپیانو سے رابطہ کرنے والے سو سے زیادہ لوگوں میں سے ایک ہیں، جو کئی قسم کی بنیادی دماغی رسولی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ مثال کے طور گلیوبلاسٹوما جیسی سرطانی رسولیاں۔ تاہم ان رسولیوں میں وہ بھی ہیں، جو سرطان نہیں لیکن ان میں صوتی نیوروما، ہیمنگیوبلاسٹوما اور میننجیوما رسولیاں شامل ہیں، جو معذوری کا سبب بن جاتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں گلیوبلاسٹوما دماغی سرطان کی وہ قسم ہے، جو تیزی سے پھیلتی ہے

یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب دماغ میں اعصاب کو سہارا دینے والے خلیے بے قابو ہو کر تقسیم ہونے لگتے ہیں۔ یہ تیزی سے پیدا ہونے والے خلیے دماغ کی قریبی بافتوں پر حملہ کرتے ہیں، جس سے انہیں الگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن عام طور پر یہ جسم کے دوسرے حصوں میں نہیں پھیلتے

بدقسمتی سے سرطان کی اس قسم میں مبتلا ہونے والوں میں بچ جانے کی شرح بہت کم ہے۔ آدھے سے بھی کم مریض تشخیص کے بعد ایک سال سے زیادہ زندہ رہتے ہیں۔ تخمینہ بتاتا ہے کہ تیس ہزار میں سے ایک شخص کو اس قسم کا سرطان ہوتا ہے

لوپیانو نے اس بات کا پتہ لگانے کے لیے تحقیق شروع کی کہ کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے اسکول کی تاریخ کا مطالعہ کیا کہ اب جہاں اسکول ہے، وہاں اس سے پہلے کیا تھا؟

لوپیانو کہتے ہیں کہ ”اس زمین پر کوئی عمارت نہیں تھی۔ یہاں جنگل تھا۔ ہائی اسکول وہاں بننے والی پہلی عمارت تھی۔ اس لیے اس وقت شاید زمین میں کچھ نہیں تھا“

ایک امکان، جس پر وہ تحقیق کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ نمونے لینے والے قریبی پلانٹ کی آلودہ مٹی اس جگہ پر یورینیم کی کچ دھات لے کر آئی ہو گی۔ انہوں نے این جے اسپاٹ لائٹ نیوز کو بتایا ”یہ اسکول مڈل سیکس سیمپلنگ پلانٹ سے بارہ میل دور تھا، جسے ایٹم بموں کے لیے یورینیم کی کچ دھات کو توڑنے خشک کرنے اور ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔“

لوپیانو کا دعویٰ ہے کہ 1967ع میں اس پلانٹ کی بندش کے بعد تابکاری سے آلودہ مٹی کو اس مقام پر اٹھایا گیا۔ اس سال کولونیا ہائی اسکول تعمیر کیا گیا۔ ان کا خیال ہے کہ اس مٹی کا کچھ حصہ کسی نہ کسی طرح اسکول والی جگہ پر پہنچ گیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close