1906 میں نیویارک میں لانگ آئی لینڈ کے اویسٹر بے میں امیر کبیر خاندان کے گیارہ افراد گرمیوں کی چھٹیاں منانے گئے اور ان میں سے چھ لوگ بیمار پڑ گئے۔ ان میں ٹائیفائیڈ کی تشخیص ہوئی
واضح رہے کہ اویسٹر بے وہ جگہ رہی ہے، جو کبھی گرمیوں میں امریکی صدر روزوویلٹ کے لیے وائٹ ہاؤس کا کردار ادا کیا کرتی تھی۔ ایسی پر فضا، صاف شفاف اور پرتعیش جگہ پر چھ لوگوں کو یکایک ٹائیفائیڈ ہو جانا حیرت کی بات تھی، کیونکہ اس زمانے میں اور آج بھی ٹائیفائیڈ کو بھیڑ بھاڑ والے غریب و پسماندہ علاقے کی بیماری کہا جاتا ہے، جہاں بنیادی سہولیات اور صاف صفائی کی کمی ہوتی ہے
بہرحال اس جگہ کے مالک کو وبا پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر یہ بات ستانے لگی کہ اس کی وجہ سے ان کا سمر ہاؤس کوئی کرائے یا لیز پر نہیں لے گا اور پھر اس کے تدارک کے لیے انہوں نے صحت کے شعبے میں کام کرنے والے ایک فری لانس سینیٹری انجینئر جارج سوپر کی خدمات حاصل کی کیں
جارج سوپر نے بہت باریک بینی کے ساتھ ٹائیفائڈ بخار کے پھیلنے کے ذرائع اور وجوہات پر تحقیقات کیں۔ انہوں نے گھر کے پلمبنگ سے لے کر مقامی شیل فش کی سپلائی تک ہر چیز کا معائنہ اور جانچ کی لیکن سب کے نتائج منفی آئے۔ مگر پھر جارج سوپر نے اس کی وجہ ڈھونڈ ہی لی
اس کی وجہ وہ باورچن نکلیں، جو گھر میں ٹائیفائیڈ کی وباء سے کچھ ہفتے پہلے وارنز کے لیے کام کر رہی تھیں۔ سوپر نے پھر باورچن کی ملازمتوں پر تحقیق کی کہ اس سے قبل انہوں نے کہاں کہاں اور کب کب کام کیا
تحقیق کے دوران انہیں پتا چلا کہ جن سات خاندانوں کے لیے انہوں نے 1900 کے بعد سے 1907 تک کھانا پکایا تھا، ان کے ہاں ٹائیفائیڈ بخار کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے اور بائیس افراد میں انفیکشن ہوا تھا، جس میں سے ایک لڑکی کی موت ہو گئی تھی
اس باورچن کا نام میری میلن تھا اور وہ آئرلینڈ سے ہجرت کر کے امریکہ پہنچی تھیں، جہاں وہ گھروں میں کھانا پکانے کا کام کرتی رہیں، یہاں تک کہ انھیں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا
میری میلن سے ٹائیفائڈ میری بننے کی کہانی
انسائیکلوپیڈیا بریٹینکا کے مطابق میری میلن 23 ستمبر سنہ 1869 کو آئرلینڈ کے قصبے ٹائرون کے گاؤں ککزٹاؤن میں پیدا ہوئیں۔
میری میلن 1883 میں امریکہ ہجرت کر گئیں اور اس کے بعد انہوں نے گھریلو ملازمہ کے طور پر اور اکثر باورچن کے طور پر اپنی زندگی گزاری
یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کب ٹائیفائیڈ پھیلانے والے بیکٹیریا (سالمونیلا ٹائفی) کی کریئر یعنی اس کا وسیلہ بنیں۔ لیکن 1900 سے 1907 تک نیویارک شہر اور لانگ آئی لینڈ کے گھرانوں میں جہاں جہاں میلن نے گھریلو خدمات انجام دیں، وہاں تقریباً دو درجن لوگ ٹائیفائیڈ بخار سے بیمار ہوئے
بریٹینیکا کے مطابق بیماریاں اکثر ان کے ہر گھر میں کام کرنا شروع کرنے کے فوراً بعد ہوتی تھیں لیکن جب تک کہ گھر میں اس بیماری کا سراغ لگایا جاتا، اس سے قبل میلن وہاں سے جا چکی ہوتی تھیں۔
جارج سوپر کے انکشاف کے بعد ڈاکٹروں نے پایا کہ وہ کبھی خود ٹائیفائڈ کا شکار نہیں ہوئی تھیں لیکن وہ اس بیماری کے بیکٹریے کا کیریئر کس طرح تھیں، یہ واضح نہیں ہو سکا
ڈاکٹروں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ میلن ممکنہ طور پر کھانے پکانے یا اسے پیش کرنے کے دوران اچھی طرح سے ہاتھ نہیں دھوتی تھیں، اس لیے ٹائیفائیڈ کے جراثیم ان کے ہاتھ سے گزر کر کھانے میں چلے جاتے تھے
لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ چونکہ کھانا پکانے کے لیے ضروری درجہ حرارت بیکٹیریا کو ہلاک کر دیتا ہے تو پھر وہ کس طرح جراثیم کو منتقل کر سکتی تھیں
اس کا جواب انہیں میلن کے خاص میٹھے پکوان میں سے ایک میں ملا۔۔۔ اور یہ پکوان ایک قسم کی آئس کریم تھی، جس میں وہ کچے آڑو کو کاٹ کر ڈالتی تھیں اور پھر اسے فرج میں جما دیتی تھیں
سوپر نے لکھا ’مجھے لگتا ہے کہ باورچی کے لیے اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا تھا وہ اپنے ہاتھوں سے جرثوموں کو منتقل کرے اور اس سے کوئی خاندان متاثر ہو۔‘
جارج سوپر کی تفتیش کی بنیاد پر نیویارک سٹی محکمہ صحت نے 1907 میں میلن کو اپنی تحویل میں لے لیا اور انہیں برونکس کے ساحل سے دور نارتھ بردرز جزیرے پر سولہ ایکڑ پر پھیلے ایک بنگلے کے اندر جبری قید میں رکھا گیا جہاں ان کے ساتھ صرف ایک شکاری کتّا تھا
میلن نے اس وقت ایک اخبار کو بتایا تھا ’مجھے زندگی میں کبھی ٹائیفائیڈ نہیں ہوا اور میں ہمیشہ صحتمند رہی ہوں۔۔ کیوں مجھے کسی کوڑھی کی طرح جلاوطن کیا گیا ہے اور صرف ایک کتّے کے ساتھ قید تنہائی میں رہنے پر مجبور کیا گیا ہے؟‘
ایک پرائیویٹ لیبارٹری کے منفی ٹیسٹ کے نتائج کے ساتھ میلن نے 1909 میں محکمہ صحت پر اپنی آزادی کے لیے مقدمہ دائر کیا لیکن نیویارک کی سپریم کورٹ نے ان کی درخواست مسترد کر دی
اس وقت لوگوں میں یہ تجسس پایا گیا کہ آخر میلن کے پاس وکیل کی خدمات حاصل کرنے اور قانونی بل ادا کرنے کے لیے پیسے کہاں سے آئے؟ تو یہ بات سامنے آئی کہ اخبار کے ایک بڑے تاجر ولیم رینڈولف ہرسٹ نے ایسا اس لیے کیا، کیونکہ ان کے اخبار کے پڑھنے والوں کی اس قسم کی خبروں میں کافی دلچسپی تھی
بہر حال 1910ع میں نئے ہیلتھ کمشنر ارنسٹ لیڈرل نے میلن کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن اس کے ساتھ یہ شرط رکھی کہ وہ دوبارہ کبھی باورچی کے طور پر کام نہیں کریں گی
لیکن انھوں نے اپنا عہد توڑ دیا اور اس کا پتہ اس وقت چلا جب 1915 میں مین ہٹن کے میٹرنیٹی ہسپتال میں پچیس ملازمین بیمار ہو گئے اور ان میں سے دو کی موت ہو گئی
اس وبا کے پھیلنے کی جگہ ہسپتال کا باورچی خانہ تھا اور وہاں کام کرنے والی خاتون میری براؤن تھیں۔ یعنی میری میلن نے اپنا نام بدل لیا تھا۔ اس کے بعد ہسپتال کے عملے نے انہیں ’ٹائیفائڈ میری‘ کا نام دے دیا تھا
محکمہ صحت نے رہائی کے بعد میلن کا سراغ کھو دیا تھا لیکن اس دوران وہ ہوٹلوں، ریستورانوں اور اداروں میں کھانا پکاتی رہیں۔ مین ہٹن کے ہسپتال میں وبا پھیلنے کے بعد میری میلن کو دوبارہ گرفتار کر لیا گيا اور انھیں اسی جزیرے پر قید تنہائی میں بھیج دیا گیا جہاں اس سے پہلے انھیں رکھا گیا تھا
کرسٹوفر کیلن اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ دوسری بار پکڑے جانے کے بعد میلن نے اپنی زندگی کے آخری تیئیس سال اس جزیرے پر جبری تنہائی میں گزارے۔ اور اگر ان میں نارتھ برادر آئی لینڈ پر گزارے پہلے کے تین سال جوڑ دیے جائیں تو انھوں نے چھبیس سال جبری تنہائی میں گزارے
ان کا کہنا ہے کہ اگر چہ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ایسے لوگ ہیں جو شناخت کیے گئے بغیر علامات والے کیریئرز میں ہیں اور نیویارک کے فٹ پاتھوں پر آزادانہ طور پر گھومتے اور کام کرتے گزرے ہیں لیکن ٹائیفائیڈ میری واحد شخص ہیں جنھیں جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی کیونکہ رائے عامہ باورچی خانے سے باہر نہ رہنے کی وجہ سے ان کے سخت خلاف ہو گئی تھی
وہ 11 نومبر 1938 یعنی اپنی موت تک صرف اپنے لیے کھانا پکاتی رہیں حالانکہ وہ نیویارک کی تاریخ کی ٹائیفائیڈ کی سب سے مہلک کریئر نہیں تھیں کیونکہ ان کی وجہ سے صرف اکیاون لوگ بیمار پڑے تھے، جن میں سے تین کی موت ہو گئی تھی جبکہ فوڈ ورکر ٹونی لابیلا ٹائیفائڈ کی دو وبا کے پھیلنے کی وجہ بنے تھے اور ان کی وجہ سے ایک سو سے زیادہ لوگ بیمار پڑے تھے، جن میں سے پانچ کی موت ہو گئی تھی
جوڈتھ والزر لیوتھ نے ان پر ایک کتاب تصنیف کی ہے۔ وہ اپنی کتاب ’ٹائیفائڈ میری: کیپٹیو ٹو دی پبلکز ہیلتھ‘ میں لکھتی ہیں ’انہوں نے کبھی بھی اس بیماری کا شکار ہونے سے انکار کیا تھا، اور یہ امکان ہے کہ انہیں یہ معلوم ہی نہ ہو کہ انہیں ایسی کوئي بیماری بھی تھی، صرف انہیں ہلکے فلو جیسی بیماری ہوئی تھی‘
ایک اخبار نے لکھا ’میڈیکل ریکارڈز میں یہ اپنے آپ میں نادر ہے اور ایسی دوسری مثال نہیں ملتی کہ کسی خاتون کو کبھی ٹائیفائیڈ بخار نہیں ہوا ہو اور وہ جراثیم کی ایک فیکٹری ثابت ہو۔‘