لیب سے جیب تک۔۔ موبائل فون کے سفر کی دلچسپ کہانی

ویب ڈیسک

سندھی کے کلاسیکل شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے ایک شعر کے مصرع کا مطلب ہے ”کچھ دور پرے بستے بھی قریب ہیں ہمارے اور کچھ نزدیک کے کتنے دور دور ہیں۔۔“ یقیناً شاہ لطیف نے یہ الفاظ موبائل فون کے لیے نہیں کہے، لیکن موبائل فون سے جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، یہ الفاظ اس پر صادق آتے ہیں۔ کیونکہ فون نے فاصلے مٹائے اور دور بیٹھے لوگوں کو قریب کر دیا لیکن موبائل نے ساتھ بیٹھے افراد کو بھی ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے

1973 میں موبائل فون کی ایجاد سے ایک ایسے تکنیکی انقلاب کا آغاز کیا، جس نے دنیا کو ناقابل تصور طریقوں سے بدل دیا۔ پچھلی پانچ دہائیوں کے دوران، یہ ہینڈ ہیلڈ ڈیوائس محض مواصلاتی آلے سے ایک ناگزیر ساتھی میں تبدیل ہو گئی ہے، جس سے ہمارے بات چیت، کام کرنے اور زندگی گزارنے کے طریقے بدل گئے ہیں

یہ سفر 3 اپریل 1973 کو شروع ہوا، جب Motorola کے ایک انجینئر مارٹن کوپر نے پہلی بار موبائل فون کال کی۔ 2.2 پاؤنڈ وزنی، DynaTAC 8000X ایک بڑا آلہ تھا جو 10 گھنٹے کے چارج کے بعد 30 منٹ کا ٹاک ٹائم پیش کرتا تھا۔ اس کے سائز کے باوجود، اس نے موبائل مواصلات کی بنیاد رکھی جیسا کہ ہم اسے آج جانتے ہیں۔

لیکن چلیں، موبائل فون کی ایجاد سے بھی ایک صدی پہلے ٹیلی فون سے اس جادوئی سفر کی کہانی کا آغاز کرتے ہیں، جس کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ الیگزینڈر گراہم بیل نے اس کو 1876 میں ایجاد کیا اور اسی سال 10 مارچ کو اس پر پہلی کال کی گئی، جس کے الفاظ تھے ’مسٹر واٹسن، میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں، یہاں آ جائیں۔‘ تاہم گراہم بیل کو اپنی آواز کے اسی طرح دوسری طرف پہنچ جانے کا زیادہ یقین نہیں تھا، مگر جب ان کے اسسٹنٹ تھامس واٹسن، جنہیں کال کی گئی تھی، نے آ کر انہیں یہی الفاظ بتائے تو وہ تو خیر خوشی سے اچھلے ہی تھے، لیکن دنیا کے ہاتھ بھی ایک ایسی چیز لگ گئی، جس نے آگے چل کر غالب کے الفاظ میں ’جامِ جم‘ بننا تھا

اس آواز کے ساتھ ہی دنیا پر کُھلا کہ تار چھیڑنے پر صرف سُر ہی پیدا نہیں ہوتے بلکہ یہ آپ کی آواز، چاہے سُریلی نہ بھی ہو، کہیں سے کہیں پہنچا سکتے ہیں۔

ہیلو سے ہائے تک کی بھی اپنی ہی ایک دلچسپ داستان ہے۔۔ ٹیلی فون پر ہیلو کے لفظ کے حوالے سے کئی کہانیاں مشہور ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہیلو گراہم بیل کی گرل فرینڈ کا نام تھا، اسی لیے اس کا استعمال کیا، تاہم یہ قرینِ قیاس اس لیے نہیں لگتا کہ ان کی گرل فرینڈ کا نام ماہیل گارڈینر ہوبرڈ تھا اور وہ قوتِ سماعت سے محروم تھیں، اس لیے ان سے فون پر بات ہو ہی نہیں سکتی تھی۔۔ تو یہ بات تو محض زیب داستاں محسوس ہوتی ہے، جسے یار لوگوں نے کہانی کو ذرا رومانوی ٹچ دینے کے لیے گھڑ لیا ہے

بہرحال۔۔ آواز کو ریڈیو کی شکل میں تاروں سے ہوا کے دوش پر سوار ہو کر سفر کرنے میں اگلے چند ہی برس لگے تاہم فون کے تناظر میں ایسا ننانوے برس بعد اس وقت ممکن ہوا، جب تین اپریل کو ایک امریکی انجینیئر نے حریف کمپنی کے سائنسدان کو اس سے کال کی اور بقول ان کے ’دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔‘

گراہم بیل کی ایجاد کے تار دنیا بھر میں بچھتے جا رہے تھے، لوگ اس کو ایک ایسی چیز سمجھ رہے تھے، جو ٹیکنالوجی کی انتہائی شکل تھی، ٹیلی فون امریکہ سے نکل کر کئی ملکوں تک پھیل چکا تھا مگر انہی دنوں امریکہ کے شہر شکاگو میں رہنے والا ایک بچہ، جو اپنے خاندان کے ساتھ یوکرین سے وہاں منتقل ہوا تھا، سوچ رہا تھا کہ ’یہ ٹیکنالوجی کی انتہا نہیں۔‘ اس کے ذہن میں کچھ مختلف خیال موجود تھا۔ وہی بچہ بعد میں مارٹن کوپر کے نام سے جانا گیا۔

مارٹن کوپر ایک امریکی انجینیئر ہیں جو آج بھی حیات ہیں اور ان کی عمر پچانوے برس کے قریب ہے۔ انہوں نے 1950 میں ایلینائز انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے گریجویشن اور بعدازاں الیکٹریکل انجینیئرنگ میں ماسٹرز کیا

مارٹن کوپر نے 1954 میں جب موٹورولا کمپنی میں ملازمت شروع کی تو ان کے ذہن میں وہی آئیڈیا موجود تھا، جو انہوں نے کمپنی حکام کے ساتھ شیئر کیا، جس کو ’بہت دور کی کوڑی‘ سمجھا گیا، تاہم انہیں اس پر کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
موبائل سے قبل انہوں نے شکاگو پولیس اسٹیشن کے لیے وائرلیس ریڈیو سسٹم بھی بنایا، جو بعدازاں واکی ٹاکی میں ڈھلا

اس کے ساتھ دیگر کمپنیوں نے بھی تار کے بغیر آلہ جات کی تیاری پر کام شروع کر دیا، جس سے مارٹن کوپر کو خدشہ محسوس ہوا کہ ان کا موبائل یا سیل فون بنانے کا خیال کہیں کوئی اور نہ اُچک لے، اس لیے انہوں نے کام اور تجربات کی رفتار بڑھا دی

موٹورولا کی حریف کمپنی بیل کے انجینیئرز نے دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد ایک ایسا موبائل فون بنانے کا آئیڈیا پیش کیا، جو گاڑی کے اندر استمعال کیا جا سکے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس کے لیے جو آلات استعمال ہوں گے، ان کو انفرادی طور پر اٹھا کر لے جانا ممکن نہیں تھا۔ یوں کچھ عرصہ بعد وہ ایسا ہی ایک موبائل بنانے میں کامیاب بھی ہوئے، جس کی بیٹری اور دوسرا ضروری سامان ساتھ والی سیٹ پر پڑا رہتا اور تبھی اس پر بات ہو سکتی۔

مارٹن کوپر کو جب اس کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے کہا ’یہ تو کوئی موبیلیٹی نہیں‘ کیونکہ ان کا موبیلیٹی کا تصور اس سے بہت دور تھا، جس کی جانب وہ دھیرے دھیرے بڑھ رہے تھے۔

مارٹن کو موٹورولا کمپنی کی جانب سے جتنے بھی وسائل دستیاب تھے، وہ انہوں نے اپنی تحقیق میں لگا دیے اور پچاس سال قبل ایک ڈائنا ٹیک فون بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بارے میں کوپر کہتے ہیں ”اس کا وزن ایک کلو سے زائد تھا اور اس کی بیٹری پچیس منٹ تک ہی کام کرتی تھی“

ان کے مطابق ’اصل مسئلہ بیٹری ٹائمنگ کا نہیں تھا بلکہ وزنی ہونے کا تھا اور اس کو پچیس منٹ تک مسلسل اٹھائے رکھنا مشکل تھا۔‘

موبائل فون سے پہلی کال 50 سال قبل کی گئی تھی جو کہ موبائل فون ٹیکنالوجی بنانے والی دو کمپنیوں کے درمیان تھی۔ اُس کے بعد اس آلے کا اب ایسا ایسا استعمال ہو رہا ہے کہ جس کی کسی کو کبھی توقع بھی نہیں تھی۔

یہ سال 1973 تھا۔ ایک امریکی انجینیئر جوئل اینجل، جس نے ناسا کے اپولو پروگرام پر کام کیا تھا، دنیا کا پہلا موبائل فون بنانے کی کوشش کرنے والی ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔

’بیل لیبز‘ نامی کمپنی، جہاں اینجل نے کام کیا تھا، کئی دہائیاں قبل ایسے فونز کی تحقیق اور تیاری میں اہم کردار ادا کر چکی تھی، جس سے چلتے پھرتے ہوئے بات کی جا سکتی تھی۔

اُن کی ٹیم اب ٹیکنالوجی کو ایک قدم آگے لے جانے کی کوشش کر رہی تھی یعنی ایک ایسا آلہ جسے آپ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ہر جگہ گھوم پھر سکتے ہیں (موبائیل کی موجودہ شکل)۔

3 اپریل کو اینجل کی لیبارٹری میں موجود لینڈ لائن فون کی گھنٹی بجی۔ انھوں نے فون اٹھایا تو دوسری جانب سے آواز آئی ’ ہیلو، جوئل‘۔

یہ آواز مارٹن کوپر کی تھی۔ جو ’موٹورولا‘ نامی ریڈیو اور الیکٹرانکس کمپنی میں ایسے ہی فونز کی تحقیق کا کام کرنے والے حریف ریسرچ گروپ کے لیڈر تھے۔

کوپر نے فون پر کہا کہ ’میں آپ کو موبائل فون سے کال کر رہا ہوں۔۔۔ ایک حقیقی موبائل فون۔ ہاتھ میں تھامے کہیں لے جانے کے قابل موبائل فون۔‘

حریف کمپنی نے سب سے پہلے موبائل فون بنانے کی دوڑ جیت لی تھی اور وہ بھی کچھ ایسے انداز میں۔

نامہ نگاروں اور فوٹوگرافروں کے سامنے کھڑے ہو کر کوپر نے نیویارک کی سکستھ ایونیو پر ہلٹن مڈ ٹاؤن ہوٹل کے سامنے سے کال کی تھی، یہ جگہ اُس کی حریف کمپنی بیل لیبز سے تقریباً 30 میل دور نیو جرسی میں تھی۔

اب جلد ہی یہ ممکن ہونے جا رہا تھا کہ کسی بھی وقت کسی بھی جگہ سے کسی دوسرے شخص، اور یہاں تک کہ ایک سے زیادہ لوگوں کے ساتھ موبائل فون پر بات چیت کی جا سکے۔

اس کے بعد مختصر ٹیکسٹ میسجز، اور بعد میں تصاویر اور آخر میں ایموجیز بھیجنے کی صلاحیت بھی مہیا ہو گئی۔

کوپر کی اس پہلی موبائل فون کال کے 50 سال بعد موبائل فون کے اب غیر معمولی طور پر کثیرالجہتی استعمال ہو رہا ہے۔ یہ کتنا زیادہ ’ملٹی فنکشنل‘ ہو چکا ہے اور اس نے ہماری زندگیوں کو انتہائی غیر متوقع طریقے بہت زیادہ بدل دیا ہے۔

کوپر کا پروٹوٹائپ فون اینٹ کی شکل کا اور خاکستری رنگ کا تھا، جس میں ایک بڑا انٹینا ہوتا تھا مگر اس میں کوئی اسکرین نہیں تھی۔

یہ دکھنے میں کوئی خوبصورت آلہ نہیں تھا، لیکن اس نے ایک تاریخ رقم کی تھی۔

اگرچہ اس وقت کی امریکی حکومت اس منصوبے کی حامی تھی، لیکن اس نئی صنعت کو بہت سے تکنیکی اور ریگولیٹری چیلنجز کا سامنا تھا۔

اس ڈیوائس یعنی موبائل فون کو عام صارفین کے لیے دستیاب ہونے میں مزید 10 سال لگے۔

لیکن موبائل فون کا دور شروع ہو چکا تھا، ایک ایسا دور ہے جس کے دوران موبائل فونز نے ہماری زندگیوں کو بہت زیادہ بدل دیا ہے۔

مارٹن کوپر اپنی پہلی کال کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ”میں نے اس سے بیل کمپنی کے انجینیئر ڈاکٹر جوئل اینگل کو کال ملائی اور بتایا کہ میں مارٹن کوپر بول رہا ہوں اور ایک ایسے موبائل فون سے بات کر رہا ہوں، جس کو میں نے ایک ہاتھ سے اٹھایا ہوا ہے۔‘

ان کے مطابق ’دوسری جانب خاموشی چھا گئی۔ میرا خیال ہے کہ وہ دانت پیس رہا تھا۔‘

ابتدائی موبائل فونز کی قیمت پانچ ہزار ڈالر تک تھی۔ کوپر کا کہنا ہے کہ اس موبائل فون کو خریدنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے، جنہوں نے اس کے لیے جائیدادیں بیچ ڈالی تھیں۔ وہ بتاتے ہیں ”اگرچہ آج موبائل سب کی زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے، تاہم اس کا فائدہ اٹھانے میں ہم ابھی بھی ابتدائی مراحل میں ہیں۔ مسقتبل میں اس کو اس تعلیم اور صحت کے میدانوں میں اتقلابی تبدیلیوں کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔“

برسہابرس کی عرق ریزی کے بعد موبائل بنانے والے اپنی ایجاد پر خوش تو ہیں مگر اس کو استعمال کرنے والوں سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں

30 مارچ 2023 کو فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو انٹرویو میں مارٹن کوپر نے صارفین کو مشورہ دیا ”آپ ہر وقت اسکرین کو ہی دیکھتے رہتے ہیں کبھی نظریں ہٹا بھی لیا کریں۔“

’بابائے موبائل فون‘ کہلائے جانے والے مارٹن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’آج ہماری جیب میں جو صاف ستھرا آلہ موجود ہے، یہ بہت صلاحیت کا حامل ہے لیکن فی الحال اس نے ہم کو کسی حد تک ’جنونی‘ بنا رکھا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں ’مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے جب کوئی راستے پر چلنے والا موبائل پر نظریں گاڑے چلا جا رہا ہو۔ وہ ذہنی طور پر کہیں اور ہوتے ہیں۔‘

انہوں نے مذاقاً کہا ’لگتا ہے جب کچھ لوگ (اسی حالت میں) کسی نالے گریں گے تو شاید انہیں احساس ہوگا۔‘

مارٹن کوپر خود بھی ایپل کی گھڑی پہنتے ہیں اور آئی فون کا استعمال کرتے ہیں

ان کا کہنا ہے کہ ’میں سمجھ سکتا ہوں کہ میں موبائل کو آج اس طرح سے استعمال نہیں کر سکتا جس طرح میرے نواسے، نواسیاں اور پوتیاں پوتے کرتے ہیں۔‘

اب تو موبائل فون ایک جادوئی آلے کا روپ دھار چکا ہے۔ موبائل فونز کے انٹرنیٹ کی رفتار میں یکسر بہتری آئی ہے، (جزوی طور پر 5G انٹرنیٹ کی بدولت۔ اور مینوفیکچررز پہلے ہی آنے والے سالوں میں 6G نیٹ ورکس کے متعارف ہونے کے امکان پر بات کر رہے ہیں)۔

فونز میں موجود کمپیوٹیشنل صلاحیت میں بھی اضافہ ہوا ہے، اور جدید سافٹ ویئر ایپلی کیشنز نے ان آلات کو استعمال کرنے کے جدید طریقے مہیا کر دیے ہیں۔

مثال کے طور پر آپ میڈیسن کی بات کریں۔ دماغ کی سرجری میں، آئی فونز نے پہلے ہی ان مہنگے آلات کی جگہ لینا شروع کر دی ہے جو اینڈو سکوپ کے ذریعے لی گئی ویڈیوز کو دکھاتے ہیں۔

کورونا (CoVID-19) کے وبائی مرض کے دوران بلوٹوتھ نے سافٹ ویئر انجینئرز کو رابطے کا پتہ لگانے کا نظام بنانے کے قابل بنایا جو یہ بتا سکے کہ ہم کب متاثرہ افراد کے قریب تھے، اور اس وقت ہمیں یہ موبائل فون ایک خوفناک ’پنگ‘ کی آواز سے انتباہ کرتا ہے۔

ویڈیو کالنگ ڈاکٹروں کو دور دراز علاقوں میں مریضوں کے ساتھ بات چیت کرنے اور ان کی تشخیص کرنے کے قابل بناتی ہے۔

سمارٹ فونز کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کی غیر معمولی صلاحیتوں کے ساتھ مصنوعی ذہانت کا امتزاج، مزید مواقع پیدا کر رہا ہے۔

برطانیہ کی ایک نئی کمپنی (سٹارٹ اپ) ’نووئیک‘ (Novoic)، موبائل فون پر ریکارڈ کی گئی گفتگو کی آواز کا تجزیہ کر کے الزائمر کی بیماری کی ابتدائی علامات کا پتہ لگانے کے لیے مشین لرننگ کا استعمال کرتی ہے۔

اسی طرح فون میں موجود جی پی ایس (GPS) آلات ہمیں انھیں ’سیٹ نیوز‘ (sat-navs) کے طور پر استعمال کرنے کے قابل بھی بنا دیتے ہیں۔

لیکن بنڈل ٹیکنالوجی نے نیویگیشنل خصوصیات بھی تخلیق کرنے کے قابل بنایا ہے جو گوگل میپس کے نسبت کم معروف ہیں، لیکن ان کے صارفین کے لیے یہ خصوصیات انتہائی اہم ہیں، جیسے کہ نابینا افراد کے لیے ہیپِٹک نیو‘ (HapticNav)، یا ’ٹچ بیسڈ نیویگیشن‘ کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔

ریسرچرز نے زیادہ تر جدید سمارٹ فونز کے اندر وائبریشن کی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے گوگل میپس کے جیسے ایسے ڈیجیٹل نقشہ تیار کیے ہیں جن پر ایسے ٹیکسچر بن جاتے ہیں جنھیں بصارت سے محروم لوگ اپنی انگلیوں سے محسوس کر سکتے اور اپنے ماحول کے مطابق راستوں کو سمجھ سکتے ہیں۔

وائبریشنز کی شدت اور فریکوئنسی کو بدل کر وہ سکرین پر مختلف ’ٹیکسچر‘ کا احساس بھی پیدا کر سکتے ہیں کیونکہ صارف کسی سفر میں اپنا راستہ محسوس کر سکتا ہے، جس سے ایسی خصوصیات کا اشارہ ملتا ہے جن سے وہ آگاہ ہونا چاہتا ہے۔

ایک فون ایپ ’ہیپٹِک نیو‘ (HapticNav) کو کلائی کے بند میں جوڑ کر اسے ایک قدم مزید جدید بنا دیا گیا ہے جو وائبریشن کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ان کی منزلوں تک لے جاتا ہے۔

 

انسانی کوششوں کے چند میدان ایسے ہیں جنہیں سمارٹ فون نے تاحال چھوا بھی نہیں ہے۔ فون قدرتی دنیا کے ساتھ ہماری مصروفیت میں بھی ثالثی کا ایک کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

ہم میں سے بہت سے لوگ ’پکچر دِس‘ (PictureThis) یا ’گوگل لینز‘ (Google Lens) جیسی ایپس پودوں کی شناخت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کسان اپنے کھیتوں میں جڑی بوٹیوں، بیماریوں، کیڑوں اور تناؤ کی علامات کی شناخت کرنے کے لیے فون پر مبنی ایپس کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔

مقامی موسمی سٹیشنوں سے ڈیٹا حاصل کرکے کسان ان فونز میں دیے گئے ٹولز کا بھی زیادہ استعمال کر رہے ہیں جو انھیں آبپاشی کے نظام الاوقات کو منظم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اور سائنس دان ’لی ڈار‘ (LiDAR) سکینرز کے ذریعے جمع کیے گئے ڈیٹا سے جنگل کی کاربن کی منجمد اور عمومی صحت کی نگرانی کر سکتے ہیں جو کہ اب حالیہ آئی فونز سمیت کئی معروف فونز میں دستیاب ہے۔

’لی ڈار‘ (LiDAR) کا مطلب ہے ’لائٹ ڈٹیکشن اینڈ رینجنگ‘ اور کسی چیز یا کمرے کے ڈی-3 (3D) ڈیجیٹل ماڈل کو تیزی سے بنانے کے لیے فاصلے کی پیمائش کرنے کے لیے لیزر ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے۔

یہ وہی چیز ہے جو ’آئیکیا پلیس ایپ‘ (IKEA Place app) استعمال کرتا ہے، مثال کے طور پر آپ کو یہ دکھانے کے لیے کہ آپ کے گھر میں ایک فرنیچر کیسا لگے گا یہ ایپ اس کی تھری ڈی 3D شکل بنا دے گا۔

کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے ان فون سینسرز کو جنگل میں درختوں کے قطر کی پیمائش کرنے کے لیے استعمال کرنے کا ایک طریقہ تلاش کیا ہے، جس سے وہ جنگل کی صحت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

کس نے سوچا ہو گا کہ اینجل کا خاکستری باکس یوں دنیا کو بدل کر رکھ دے گا۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close