سومناتھ سے ایودھیا تک

وسعت اللہ خان

سومناتھ کا مندر ریاست گجرات کے ضلع ویراول کے ساحلی علاقے پربھاس پتن میں بحیرہ عرب کے کنارے قائم ہے۔

روایت ہے کہ کرشن جی نے اپنا آخری سفر سومناتھ تک کیا تھا۔ صدیوں کے سفر میں ہندو رجواڑوں کی آپسی لڑائیوں میں یہ مندر کئی بار حملوں اور لوٹ مار کا نشانہ بنا، مگر دس سو چھبیس عیسوی میں محمود غزنوی نے اینٹ سے اینٹ بجا دی اور سونا و جواہرات کے علاوہ چوکھٹیں تک اکھاڑ کے غزنی پہنچا دی گئیں۔

معروف مورخ رومیلا تھاپڑ کی تحقیق کے مطابق دورِ اکبری میں سومناتھ کے کھنڈرات کی تھوڑی بہت مرمت کر کے یہاں پوجا کی اجازت دے دی گئی اور دیکھ بھال کے لیے ایک ناظم بھی مقرر کیا گیا۔ اکبر کے معتمدِ خاص ابوالفضل فیضی نے محمود کا نام لیے بغیر لکھا کہ ’’اس پر حملہ اور قتل و غارت دراصل ایک تہذیب کا اجاڑا تھا۔‘‘

البتہ سترہ سو چھ میں اورنگ زیب نے اپنے آخری ایام میں اس جگہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم دیا، مگر جنوبی ہندوستان کی جنگوں میں اورنگ زیب کی مصروفیت اور سلطنت کے کئی علاقوں میں شورش اور طوائف الملوکی کے سبب حکمِ شاہی بھی نظرانداز ہو گیا۔

سترہ سو بیاسی میں اس جگہ مراٹھا حکمران ہولکر کی اہلیہ اہلا بائی نے ایک چھوٹا سا مندر بنوایا۔

انیسویں صدی میں کسی ہندو راجہ یا پنڈت نے نہیں بلکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل لارڈ ایلن برا نے پہلی بار سومناتھ کو کفر و اسلام کی لڑائی سے نتھی کر دیا۔ ہوا یوں کہ اٹھارہ سو بیالیس میں انگریزوں نے افغانستان پر پہلی فوج کشی کی اور اس میں حملہ آور فوج پوری طرح تباہ ہو گئی۔

اس کا بدلہ لینے اور اپنے دبدبے کی بحالی کے لیے جو اضافی فوج بھیجی گئی، وہ اپنے ساتھ غزنی سے دیگر اشیا کے ہمراہ ایک دروازہ بھی اٹھا کے لے آئی۔ اسے سومناتھ کا دروازہ بتایا گیا جو محمود اپنے ساتھ لے گیا تھا۔

سولہ نومبر اٹھارہ سو بیالیس کو گورنر جنرل کی جانب سے ہندوستان کے تمام رجواڑوں اور رعایا کو مخاطب کرتے ہوئے یہ پیغام جاری ہوا کہ ’’ہماری بہادر افواج نے افغانوں پر فتح کے بعد سومناتھ کا دروازہ بازیاب کروا کے ہندوستان کی آٹھ سو سالہ توہین کا بدلہ لے لیا ہے۔‘‘

بعد ازاں معلوم ہوا کہ یہ دروازہ سومناتھ کا تھا ہی نہیں۔۔ مگر گورنر جنرل نے ہندوستانیوں کے درمیان نفاق کا بیج بو دیا۔ اس کے بعد بہت سے مورخوں اور سیاست کاروں نے سومناتھ کی بحالی کو ہندو وقار کے احیا کے ساتھ آسانی سے جوڑ دیا۔

آزادی کے بعد کانگریس کے رہنما کے ایم منشی نے سومناتھ کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کو اپنا نصب العین بنا لیا۔ اس کام میں انہیں وزیرِ داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔

نواب آف جوناگڑھ کے پاکستان فرار کے بعد سردار پٹیل بارہ نومبر انیس سو سینتالیس کو وہاں پہنچے اور مجمع کے سامنے سومناتھ کی بحالی کے منصوبے کا اعلان کیا۔ مرکزی کابینہ نے بھی اس منصوبے کی منظوری دے دی۔

البتہ گاندھی جی نے اس کام میں سرکاری پیسے کے ممکنہ استعمال کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر مندر استوار کرنا ہی ہے تو اسے چندے سے بنایا جائے۔ چنانچہ اس کی ذمے داری سومناتھ ٹرسٹ کو سونپی گئی۔

جب مندر کی تعمیر مکمل ہوئی، تب تک سردار پٹیل کا انتقال ہو چکا تھا۔ کے ایم منشی نے تجویز کیا کہ صدرِ جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد افتتاح کریں۔

البتہ وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ انہوں نے مارچ انیس سو اکیاون میں صدر جمہوریہ کو خط لکھا کہ کسی کو بھی انفرادی طور پر مندر میں جانے کا پورا حق ہے مگر ریاستی نمایندے کے طور پر آپ کا وہاں جانا پیچیدگیاں پیدا کرے گا۔

تاہم راجندر پرشاد اٹل رہے کہ وہ اس تقریب میں جانے میں کوئی نظریاتی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ نہرو نے انہیں ایک اور خط لکھا کہ ایک سیکولر جمہوریہ کے عہدیدار ہوتے ہوئے ہم کسی ایک مذہب کی عبادت گاہ سے ریاست کو کیسے جوڑ سکتے ہیں، اس سے سیاسی طور پر غلط پیغام جائے گا۔

گجرات کے گورنر نے مندر کی بحالی کے فنڈ میں پانچ لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔ نہرو نے اس اقدام کی مخالفت میں بھی صدر کو خط لکھا کہ ایک ایسے وقت، جب ملک خوراک کے بحران سے جوج رہا ہے اور ہم تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے بھی بمشکل رقم نکال پا رہے ہیں، گورنر کی جانب سے یہ اعلان ایک بے ضرر عطیے کے بجائے ایک سیاسی شاخسانہ بنے گا۔مگر صدرِ جمہوریہ نے وزیرِ اعظم کی جانب سے انتباہ کے باوجود سومناتھ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔

راشٹر پتی بھون کی جانب سے یہ سرکولر بھی وزارتِ خارجہ کو بھیجا گیا کہ سومناتھ کی افتتاحی رسومات کے لیے دنیا بھر میں پھیلے بھارتی سفرا کو ہدایت کی جائے کہ وہ جس جس ملک میں بھی متعین ہیں، وہاں کے دریاؤں کا پانی اور پہاڑی مٹی بھارت بھیجیں تاکہ اسے بحالی کے کام میں استعمال کیا جا سکے، مگر نہرو جی نے اس حکم پر عمل درآمد رکوا دیا۔

اس واقعے کے تہتر برس بعد بائیس جنوری دو ہزار چوبیس کو بھارت ایک سیکولر جمہوریہ سے نکل کے مکمل طور پر راشٹریہ سیوک سنگھ کے رام راج کے خواب میں داخل ہو گیا۔

اگرچہ کانگریس سمیت حزبِ اختلاف کے اتحاد نے ایودھیا میں رام مندر کی افتتاحی تقریب کو ایک سیاسی اسٹنٹ قرار دیا۔ ہندو دھرم کے چار مذہبی مٹوں کے پیشواؤں ( شنکر اچاریہ ) نے مذہبی روایات کے برخلاف ایک نامکمل مندر کے افتتاح کی تقریب میں شرکت سے بھی انکار کر دیا۔

عجیب بات ہے کہ اس تقریب میں نہ تو رام مندر تحریک کے سب سے سرکردہ رہنما ایل کے اڈوانی کو مدعو کیا گیا، نہ ہی صدر جمہوریہ دروپدھی مرمو کو نچلی ذات کا ہونے کے سبب زحمت دی گئی۔۔ کسی مسلمان عالم ، سکھ گرنتھی یا مسیحی بشپ کو بھی نہیں بلایا گیا۔ بالی وڈ کے کسی مسلمان اداکار (بشمول شاہ رخ، سلمان، عامر) کو کیمرے میں نہیں دیکھا گیا۔

بس یہ دیکھا گیا کہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت، وزیرِ اعظم نریندر مودی اور یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ نے رام جی کی قدِ آدم مورتی کو بابری مسجد کے کھنڈرات کے اوپر تعمیر کردہ عالیشان مندر میں استاپھت کر دیا۔

اس موقع پر نئے بھارت کے غیر اعلانیہ شہنشاہ شریمان نریندر مودی نے کم و بیش وہی تقریر کی، جو انیس سو تینتیس میں آریائی نسلی برتری کے پیغامبر اڈولف ہٹلر نے برلن میں رائشاتاخ (پارلیمنٹ) کی عظیم الشان بلند و بالا گیلری سے نیچے کھڑے جمِ غفیر کے سامنے کی تھی۔

’’بائیس جنوری دو ہزار چوبیس محض کیلنڈر کی کوئی تاریخ نہیں بلکہ ایک نئے زمانے کی ابتدا ہے۔ آج ہمارے رام واپس آ گئے ہیں۔غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئی ہیں۔ یہ پل ہزار برس بعد بھی یاد رہے گا۔ میں رام سے بھی شرمندہ ہوں کہ ہمارے جذبے اور عمل میں کچھ تو کمی رہ گئی ہوگی کہ ہم صدیوں تک یہ کام نہیں کر پائے۔ آج وہ کمی پوری ہو گئی۔ رام جی کی آزمائش تو چودہ برس میں ختم ہو گئی تھی، اس دیش اور ایودھیا والوں نے سیکڑوں برس کی آزمائش سہی ہے۔ میں شکرگذار ہوں بھارت کی عدلیہ کا، جس نے انصاف کی لاج رکھ لی۔ ان سب کار سیوکوں، رام بھگتوں اور سنت سادھوؤں کا بھی احسان مند ہوں کہ جن کی جدوجہد اور قربانیوں سے آج کا دن طلوع ہوا۔ رام ہمارے نہیں سب کے ہیں۔ وہ آگ نہیں توانائی ہیں۔ رام مندر تو بن گیا اب آگے کیا کرنا ہے؟ ہمیں آج کے مقدس لمحے میں اگلے ایک ہزار سال کے بھارت کی بنیاد رکھنی ہے۔ ہم بھارت کو ایک بلند کامیاب اور عظیم ملک بنانے کی قسم کھاتے ہیں۔ دیوتاؤں سے دیش تک رام راج پھیلانے کی قسم کھاتے ہیں۔‘‘

وہ رام جس کا قصیدہ نظیر اکبر آبادی نے لکھا اور اقبال نے امام الہند قرار دیا، اس رام کی راکھ پر ایک نیا رام ظہور میں آیا ہے، جس کی مٹی آر ایس ایس کے نسل پرستانہ نظریے کے پانی سے گوندھی گئی ہے۔۔ یا تو اب اس نئے رام کو پرنام کیجیے ورنہ دھرم کے دشمن اور دیش دروہی کہلائیے۔۔ جس کی بھارت ماتا میں اب کوئی گنجائش یا جگہ نہیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close