فلسطین ایکشن گروپ کی ایک حامی کارکن نے جمعے کو برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے ذیلی کالج میں بیسویں صدی کے اوائل کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور کی ایک پینٹنگ کو نقصان پہنچاتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے 1917 میں اسرائیل کے قیام کے لیے پیش کی گئی قرارداد ہی کی وجہ سے فلسطینیوں نے اپنا وطن کھو دیا تھا
فلسطین ایکشن گروپ کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں ایک خاتون کو آرتھر بالفور کی تصویر کو چاقو سے کاٹنے سے پہلے پورٹریٹ پر سرخ پینٹ کا اسپرے کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
فلسطین ایکشن گروپ نے شیئر کیے گئے اس ویڈیو کلپ کے ساتھ لکھا: ”آرتھر بالفور کے اعلان نے ان کے وطن کو ختم کرنے کا وعدہ کر کے فلسطینیوں کی نسل کشی کا آغاز کیا اور ایسا کرنا ان کا حق نہیں تھا۔“
واضح رہے کہ فلسطینیوں کا طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ برطانیہ 67 الفاظ پر مشتمل اس بیان پر معافی مانگے۔
فلسطین پر برطانوی حکمرانی 48-1947 میں یہودیوں اور عربوں کے درمیان جنگ، اسرائیلی ریاست کے اعلان اور تقریباً ان ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کی ہجرت کے ساتھ تکلیف دہ طور پر ختم ہو گئی، جنہیں جبری طور پر ان کی سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔
اعلان بالفور کے 67 الفاظ کی نہ ختم ہونے والی خونیں داستاں
معاملات میں الفاظ ہمیشہ ہی سے بہت اہم رہے ہیں۔ خاص طور پر جب یہ الفاظ کسی کاغذ پر نقش کر دیے جائیں۔ کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں، جو قوموں کی تقدیر پلٹ دیتے ہیں، انسانی المیوں کو جنم دیتے ہیں، کشت و خون کے بازار گرم کر دیتے ہیں اور کئی نسلوں کو بحران در بحران کا شکار بنا دیتے ہیں۔
ماضیِ قریب کی تاریخ میں بھی ایسے ہی 67 خونیں الفاظ موجود ہیں، جن کے حرف حرف سے آج بھی مظلوم فلسطینی مسلمانوں کا لہو ٹپکتا ہے۔ جن کے نقوش تلے ہزاروں آشیانے خاکستر ہوئے۔ آج بھی سوا کروڑ فلسطینی اس امید پر جی رہے ہیں کہ وہ کبھی تو اپنے آبا و اجداد کے وطن واپس لوٹیں گے۔ تاریخ کے ان سیاہ ترین الفاظ کو دنیا اعلان بالفور کے نام سے جانتی ہے۔
یہ اعلان ارضِ فلسطین پر قابض برطانوی سامراج کی جانب سے دنیا بھر میں معتوب و در بدر یہود کے لیے بظاہر ایک وطن کی نوید تھا، لیکن حقیقت میں یہ صہیونیوں کے نام ہزاروں فلسطینیوں کے قتل اور لاکھوں کو بے گھر کرنے کا اجازت نامہ تھا۔
برطانوی حکومت کی طرف سے صہیونی تحریک سے 2 نومبر 1917ء کو اس وقت کے برطانوی وزیرخارجہ آرتھر بالفور (1848 ء – 1930) ایک خط کے ذریعے فلسطین میں یہودیوں کے لیے آبائی وطن کے قیام کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ مکتوب ارب پتی یہودی لیونل والٹر روتھسشیلڈ کو بھیجا گیا اور اس مکتوب کے بعد برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کے ایک ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران 2 نومبر 1917ء کو اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے ایک خط میں صہیونی رہنما لارڈ والتھر روتھسشیلڈ کو لکھا تھا، جس کا متن یہ ہے:
”محترم روتھسشیلڈ، مجھے شاہِ برطانیہ کی طرف سے آپ کو بتاتے ہوئے ازحد خوشی ہو رہی ہے کہ درجِ ذیل اعلان صہیونی یہودیوں کی امیدوں کے ساتھ ہماری ہمدردی کا اظہار ہے اور اس کی توثیق ہماری کیبینیٹ بھی کر چکی ہے:
’شاہ برطانیہ کی حکومت فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی حامی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن صلاحیت کو بروئے کار لائے گی مگر اس بات کو مدِ نظر رکھا جائے کہ فلسطین کی موجودہ غیر یہودی آبادی (مسلمان اور مسیحی) کے شہری و مذہبی حقوق یا دوسرے ممالک میں یہودیوں کی سیاسی حیثیت کو نقصان نہ پہنچے۔‘
میں بہت ممنون ہوں گا اگر اس اعلان کو صہیونی فیڈریشن کے علم میں بھی لایا جائے۔“
اس خط میں برطانوی کابینہ کی لفاظی بھی کمال ہے۔ غاصبوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ارضِ فلسطین پر قبضہ تو کریں، لیکن وہاں کے اصل باشندوں کو بے دخل نہ کریں۔ سوال یہ ہے کہ کیا برطانیہ بھی اس وقت اپنے زیرِ قبضہ خطوں میں اس بات کا لحاظ رکھتا تھا، جو اس کے لے پالک صہیونی رکھتے؟ برطانوی سامراج تو خود مختلف مقبوضہ علاقوں سے مقامی باشندوں کو بحری جہازوں میں بھر بھر کے دور دراز جزیروں پر پھینکتا رہا ہے۔ دوسری جانب دنیا میں یہود کی نیک نامی کے تحفظ کی بات کی گئی ہے، جو خود ایک مضحکہ خیز بات ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ جس دور میں یہ خط لکھا گیا، اس وقت یورپ بھر میں سامی مخالف تحریک عروج پر تھی اور اس کا ہدف یہود تھے، جنہوں نے اپنی سازشی سوچ کے باعث ماسکو سے لندن تک پورے مغرب کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ معلوم نہیں تاجِ برطانیہ کو یہود کی کس نیک نامی کی فکر تھی! پھر اس اعلان کے نتیجے میں بدیہی طور پر جو قتل غارت ہونی تھی، وہ قیامت تک کے لیے صہیونیوں کے ساتھ ساتھ برطانویوں کی رو سیاہی کا سبب بننی تھی اور برطانوی حکومت نا صرف یہ جانتی تھی، بلکہ یہود کی آبادکاری کے لیے خود اس نے فلسطین میں مسلمانوں کا قتل کیا۔
اس اعلان نے قاتل اسرائیل کے ناپاک وجود کو جنم دیا، جو آج بھی انسانی تہذیب کے لیے ایک بدنما داغ بنا ہوا ہے، لیکن برطانوی حکومت اس داغ کو دھونے کے بجائے ایک صدی بعد بھی اسے مزین کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔
فلسطین کے برطانوی مینڈیٹ سنہ1922-1948 ء نے صیہونی تحریک کی مکمل طرف داری کی، جس کے نتیجے میں یہ تحریک ریاست کے مملکت فلسطین میں ایک یہودی ریاست کی تشکیل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ سنہ 1939ء تک یہودی ریاست صرف کاغذوں اور خاکوں کی حد تک محدود تھی۔ اس کے بعد یہودی کاروباری اور سیاسی پنڈتوں نے فلسطین میں یہودیوں کا سرمایہ منتقل کرنا شروع کیا۔ یورپ سے فلسطین کو منتقل کی جانے والی رقم فلسطین میں یہودی جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصر کو فراہم کی جانے لگی۔ اس رقم سے انہوں اسلحہ خرید کر فلسطینیوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔
جیسے جیسے وقت گذرتا گیا تو صہیونی تحریک اور برطانوی سامراجی حکومت کے درمیان تعلقات مزید پختہ ہوتے گئے۔
اس برطانوی ’وعدے‘ کا نتیجہ 15 مئی 1948 کو فلسطین کے عوام اور سرزمین کی قیمت پر نام نہاد ’اسٹیٹ آف اسرائیل‘ کی صورت میں سامنے آیا، جہاں اٹھتے ہی صیہونی گروہوں نے فلسطینیوں کے خلاف درجنوں قتل عام، مظالم اور لوٹ مار کے جرائم کا ارتکاب کیا۔ پانچ سو سے زائد دیہات کو مسمار اور اور صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ یہودی ریاستی دہشت گردی کا مقصد فلسطینیوں کو ختم کرنا اور آس پاس کے علاقوں میں خوف و ہراس پھیلانا تھا تاکہ فلسطینی باشندوں کو بعد میں اپنے وطن سے بے دخل کرنے میں آسانی پیدا ہو۔ جزیرہ نما النقب میں بسنے والے ہزاروں فلسطینیوں کو بندوق کی نوک پر وہاں سے بے دخل کردیا گیا۔
یہی وہ اعلامیہ ہے جس نے فلسطینیوں سے ان کا وطن چھین لیا اور انہیں نسل کشی کی ایسے بھیانک سلسلے میں دھکیل دیا جو آج بھی جاری ہے۔ فلسطینیوں کے مطابق اس دستاویز میں ان کا نام تک نہیں لیا گیا اور انہیں فلسطین کی ’غیر یہودی آبادی‘ کے نام سے پکارا گیا۔
بین الاقوامی قانون کے ماہرین نے ’اعلان بالفور‘ کو مسترد کرتے ہوئے متعدد وجوہات کی بناء پر اس کو باطل قرار دیا ہے۔
● اعلان بالفور سنہ 1917ء میں کیا گیا تھا۔ یہ اعلان اس وقت کیا گیا جب برطانیہ فلسطین کے ساتھ کوئی قانونی تعلق نہیں رکھ سکتا تھا۔
● فلسطین پر برطانوی قبضہ اعلان بالفور کے اجراء کے بعد ہوا۔ ایک قابض ریاست کا قانون مقبوضہ ریاست میں کسی دوسرے ملک کو مداخلت کی فوجی کارروائی کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ برطانوی حکومت کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ فلسطین کو خلافت عثمانیہ کے کنٹرول سے ’آزاد‘ کر کے وہاں پرقومی حکومت کا قیام ہے۔
● ’اعلان بالفور‘ فلسطین کو ایک ایسے گروہ کو دے گیا جو فلسطین پر قبضے کا کوئی بھی اور کسی بھی طرح کا حق نہیں رکھتا تھا۔
● ’اعلان بالفور‘ خودمختار ریاستوں یا بین الاقوامی اداروں کے مابین کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ لارڈ بالفور برطانوی عہدیدار تھا لیکن اسے اپنی ریاست کے نام پر معاہدہ کرنے کا حق نہیں تھا۔ لارڈ روتھشیلڈ ایک برطانوی ارب پتی صہیونی تھا، لیکن وہ دنیا میں یہودی برادری کی نمائندگی نہیں کرتا تھا۔
● اعلانِ بالفور سے فلسطینی آبادی کے حاصل کردہ تاریخی اور قومی حقوق کو نقصان پہنچا۔ وہ ہزاروں سالوں سے فلسطین میں ہیں ، اور پہلی جنگ عظیم میں اتحادی اور فاتح ممالک نے خود ارادیت کے حق اور ان کے مطابق سیاسی اور معاشرتی نظام کے انتخاب کے حق کو تسلیم کیا ہے۔
● اعلان بالفور لیگ آف نیشنز یا مینڈیٹ انسٹرومنٹ کے میثاق کے کچھ مضامین سے متصادم ہے۔ مثال کے طور پر یہ چارٹر کے آرٹیکل 20 سے متصادم ہے اور برطانیہ کو اس متن کی پاسداری کرنی چاہئے تھی۔ اسے بالفور اعلامیہ سے وابستگی کا خاتمہ کرنا چاہئے تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔
● استعماری ریاست کو اپنے مقبوضہ علاقے یا زیرتسلط علاقوں کو کسی تیسرے فریق کو دینے کا کوئی حق یا اختیار نہیں۔ عالمی قانون کی رو سے کوئی ملک غیرقانونی طور پرقبضے میں لیے گئے علاقے کو فروخت کرسکتا ہے، نہ لیز پردے سکتا ہے اور نہ ہی اسے کسی تیسرے فریق کو ملکیت میں دینے کا مجاز ہے۔
● قانون دانوں کا کہنا ہے کہ لیگ آف نیشن نے مینڈیٹ میں بالفور اعلامیہ کو شامل کرنے کی اجازت دے کر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کی۔ لیگ آف نیشن کو کسی بھی صورت میں فلسطینی اراضی پر یہودیوں کو تصرف دینے کا کوئی حق نہیں تھا۔
اعلان بالفور کے دو گھناؤنے کردار
● جیمز بالفور:
اس اعلامیے کا نام اس کے مصنف برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھر جیمز بالفور کے نام پر پڑا جو کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کنزرویٹیو پارٹی کے نمائندہ کی حیثیت سے رکن پارلیمان بنے۔ ان کا تعلق برطانیہ کے متمول گھرانے سے تھا۔
اسکاٹش خاندان سے تعلق رکھنے والے آرتھر جیمز 1902 سے 1905 تک برطانیہ کے وزیر اعظم بھی رہے اور انہوں نے ملک کی خارجہ پالیسی میں اہم کردار ادا کیا
آرتھر جیمز بالفور کا خیال تھا کہ برطانوی حکومت کو ’صیہونی ایجنڈا‘ کی مکمل حمایت کرنی چاہیے۔ جو فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کے مذموم مقصد پر مبنی تھا
آرتھر جیمز بالفور کو اس بات کا سہرا دیا جاتا ہے کہ انہوں نے ہی برطانوی کابینہ کو اعلامیے کی حمایت پر راضی کیا۔ برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے بااثر رہنما لیونیل والٹر روتھسشیلڈ اور چائم ویزمین نے ان کی بھرپور مدد کی۔
بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ آرتھر جیمز بالفور نے یہودیوں کی حمایت سیاسی فوائد کے لیے کی تھی۔
● لیونیل والٹر روتھسشیلڈ
لیونیل روتھسشیلڈ ایک طاقتور بنکاری خاندان کے سربراہ تھے۔ یہ امیر اور طاقتور خاندان فلسطین میں یہودیوں کی ریاست کے قیام کے لیے سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔
اسی خاندان کے ایک اور رکن، ایڈمنڈ روتھسشیلڈ نے فلسطین میں بڑی تعداد میں زمین خریدی اور 19ویں صدی کے اختتام تک یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے میں مدد فراہم کی۔ اس زمانے میں یہ خاندان دنیا کے امیر خاندانوں میں سے ایک شمار ہوتا تھا۔
ایڈمنڈ کی جانب سے یہودیوں کے لیے امداد اتنی زیادہ تھی کہ ان کو ’بینیفیکٹر‘ (مددگار) کا لقب دیا گیا۔
بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ اعلامیہ لیونیل روتھسشیلڈ کے نام کیوں لکھا گیا جبکہ اس زمانے میں برطانوی یہودی کمیونٹی کے بورڈ آف ڈپٹیز کے صدر اسٹوارٹ سیموئل تھے، جو ملک میں سرکاری طور پر یہودی کمیونٹی کی نمائندہ تنظیم تھی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودیوں میں بھی دھڑے بندی تھی اور ایک گروہ اس ایجنڈے کی مخالفت کر رہا تھا۔
روتھسشیلڈ کے پاس کوئی سرکاری عہدہ تو نہیں تھا لیکن وہ مذموم صیہونی ایجنڈا کی حمایت کرنے والوں میں سب سے آگے تھے۔ آرتھر جیمز بالفور سے ان کے تعلقات کی وجہ سے یہ خط ان کے نام ہی لکھا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دستاویز کی تحریر میں بھی روتھسشیلڈ نے حصہ لیا۔