پچاس بااثر یہودیوں کی دنیا (1)

وسعت اللہ خان

موقر اسرائیلی اخبار ’یروشلم پوسٹ‘ پچاس بااثر یہودی شخصیات کی سالانہ فہرست جاری کرتا ہے۔ دو ہزار تئیس کی فہرست میں اگرچہ بیشتر نام اسرائیلیوں کے ہیں، جب کہ کچھ غیر اسرائیلی نام ایسے ہیں جو موجودہ دنیا اور ہماری زندگیوں پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔

اس فہرست میں جو غیر اسرائیلی نام نمایاں ہیں، ان میں ’نیویارک اسٹاک ایکسچینج‘ (نیسڈیک) کی سی ای او آڈینا فرائڈمین، امریکی ارب پتی سخی جارج سواریز کا خاندان، تیل کی صنعت میں نمایاں امریکی سرمایہ کار شوسترمین فیملی، ’وٹس ایپ‘ کے ایجاد کار جان کوم، ڈیجیٹل میڈیا کمپنی ’میٹا‘ کے بانی مارک زکربرگ، فلم میوزک ٹی وی انٹرٹینمنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا میں سرمایہ کاری کرنے والی سب سے بڑی عالمی کمپنی ’ماٹیل‘ کے اسرائیلی امریکن مالک یانون کریز، ’باربی ڈول‘ کی بانی مالکن روتھ ہینڈلر، ارب پتی روسی کاروباری رومن ابراہمووچ، ’یونیسکو‘ کی ڈائریکٹر جنرل آڈرے ازولے، آڈرے کے والد اور مراکش کے شاہ حسن دوم کے مشیر برائے افریقہ و مشرقِ وسطٰی اینڈری ازولے، برطانیہ کے چیف رباعی سر افراہیم مرووس، ’جیوش نیشنل فنڈ امریکا‘ کے سربراہ رسل روبنسن، ’سی این این‘ کے اینکر جیک ٹیپر، ’سی این این‘ کے مقبول ’بین شپیرو شو‘ کے میزبان بین شپیرو، امریکی میڈیا کمپنی ’دی فری پریس‘ کے ایڈیٹر باری ویز، اخبار ’وال اسٹریٹ جنرل‘ کے صحافی ایوان گرشکووچ، ’اسکرین ایکٹرز گلڈ امریکا‘ کی صدر فران ڈریشر، ’امریکن فیڈریشن آف ٹی وی اینڈ ریڈیو آرٹسٹس‘ کی صدر علیزہ بین شلوم، امریکی سرمایہ کار کمپنی ’نیشہلوس‘ کے مالک ایتان نیشہلوس، اسرائیلی ڈیٹا اینڈ سائبر سیکیورٹی کمپنی ’سینٹرا‘ کے مالک اساف کوچان، اسرائیلی زرعی ٹیکنالوجی کو فروغ دینے والے فلاحی ادارے ’انوویشن افریقہ‘ کی بانی سیوان یاری، سولر انرجی میں ورلڈ لیڈر اسرائیلی کمپنی ’نوفر انرجی‘ کے مالک اوفر یانے نمایاں ہیں۔

(فہرست میں کرائے کے فوجی فراہم کرنے والی روسی کمپنی ’واگنر‘ کے سربراہ یوگنی پریگزون کا نام بھی شامل ہے، مگر فہرست میں شامل ہونے کے کچھ عرصہ بعد پریگزون نے اپنے دیرینہ دوست پوتن کے خلاف بغاوت کی۔ پوتن نے بظاہر معاف کر دیا اور پھر پریگزون ایک پراسرار فضائی حادثے میں مارے گئے۔ البتہ واگنر کمپنی اب بھی متعدد افریقی ممالک میں آمریتوں کو برقرار رکھنے کے لیے نقد خدمات انجام دے رہی ہے۔)

پچاس بااثر یہودیوں کی عالمی فہرست میں اسرائیل میں امریکا کے سابق سفیر ڈیوڈ فرائڈمین کا نمبر ستائیس ہے۔ امریکی وزیرِ خزانہ جینٹ یالن گیارہویں نمبر پر ہیں۔ فہرست میں اہمیت و اثرات کے اعتبار سے اول نمبر پر مصنوعی ذہانت کی ورلڈ لیڈر امریکی ریسرچ کمپنی ’اوپن اے آئی‘ (چیٹ جی پی ٹی) کے سربراہ سام آلٹمین، دوسرے نمبر پر اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور تیسرے نمبر پر امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن کا نام آتا ہے۔ (عجیب بات ہے کہ فہرست میں نوم چومسکی جیسے اسکالرز اور آزاد خیال امریکی سیاستدان اور سابق صدارتی امیدوار برنی سینڈرز کا نام شامل نہیں)۔

اس سے پہلے کہ ہم امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کے اس فہرست میں چوٹی کا نام ہونے کی وجوہات پر گفتگو کریں، یہ کھوجنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ بائیڈن انتظامیہ کے بنیادی پالیسی ستون کون کون ہیں؟

سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیوڈ کوہن، اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ، ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جینس ایورل ہائنز، وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف رونالڈ کلین، چیف سائنٹسٹ ایرک لینڈر، نائب وزیرِ صحت ریچل لیون، ہوم لینڈ سیکیورٹی کے وزیر الجاندرو میارکاس، نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سائبر سیکیورٹی ڈویژن کی سربراہ این نیوبرگر، نائب وزیرِ خارجہ وینڈی شرمین (یہ پاکستان میں امریکی سفیر بھی رہ چکی ہیں) اور وزیرِ خزانہ جینیٹ یالین امریکی نژاد یہودی ہیں۔

وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کا نام پچاس بااثر یہودیوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر کیوں ہے؟ اس بارے میں پچاس کی رینکنگ کرنے والے اسرائیلی اخبار اخبار یروشلم پوسٹ نے یہ وضاحت کی ہے کہ بلنکن پہلے امریکی وزیرِ خارجہ ہیں جو اپنے یہودی ہونے پر نازاں ہیں۔ وہ خاندانی طور پر صیہونی نظریے پر کاربند ہیں۔ ان کے دادا مورس بلنکن نے ہنگری سے امریکا ہجرت کی۔ مورس نے دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں امریکن فلسطین انسٹی ٹیوٹ (تھنک ٹینک) قائم کیا اور صدر ٹرومین کی انتظامیہ کے سامنے فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کی پرزور وکالت کی۔

مورس بلنکن کے پوتے انٹنی بلنکن نے بطور وزیرِ خارجہ گزشتہ برس جون میں امریکی کانگریس سے بھی زیادہ طاقتور تنظیم ’امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی‘ (ایپک) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، ’’ہم دو ہزار سولہ کے اوباما بائیڈن میمورنڈم کے تحت اسرائیل کو تین اعشاریہ تین بلین ڈالر سالانہ فوجی مدد دے رہے ہیں۔ جب کہ پانچ سو ملین ڈالر سالانہ میزائل حملوں سے دفاع کی مد میں، نیز ڈرون حملوں سے دفاع اور زمینی سرنگوں کا پتہ چلانے کی ٹیکنالوجی کی مد میں کئی ملین ڈالر الگ سے دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ میزائلوں سے دفاع کے اسرائیلی نظام آئرن ڈوم کے راکٹوں کی رسد کی مد میں ایک ارب ڈالر کی اضافی امداد بھی دی جاتی ہے تاکہ اسرائیل ہر طرح سے محفوظ رہ سکے۔ ہم ابراہام معاہدے کو توسیع دینا چاہتے ہیں تاکہ اسرائیل مشرقِ وسطٰی میں عرب ہمسائیوں کے ساتھ بطور ساجھے دار رہ سکے۔ ہماری کوشش ہے کہ ایران ایک فعال جوہری طاقت نہ بن سکے۔‘‘ (اس وقت ابراہام معاہدے میں اسرائیل، بحرین، متحدہ عرب امارات اور سوڈان شامل ہیں جب کہ سعودی عرب کو راغب کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔)

’امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی‘ (ایپک) کو واشنگٹن کا بادشاہ گر کہا جاتا ہے۔ اس کا سالانہ بجٹ سو ملین ڈالر سے اوپر ہے۔ یہ امریکی صنعت و حرفت، ملٹی نینشل کمپنیوں اور سیاسی گروؤں کا ایک ارب پتی کلب ہے۔ ایپک کمیٹی اور اس کی معاون تنظیمیں ہر مقامی، ریاستی اور قومی انتخاب میں اپنے ہمدرد امیدواروں کی مالی مدد کرتی ہیں۔ دو ہزار بائیس میں ایپک کمیٹی نے اپنے پسندیدہ امیدواروں کو چھبیس ملین ڈالر کی اعلانیہ امداد دی۔ مدد حاصل کرنے والوں میں ریپبلیکن اور ڈیمو کریٹ کی قید نہیں، بس اسرائیل نواز ہونا چاہیے۔

مصر کے صدر انور سادات اور اسرائیلی وزیرِ اعظم مینہم بیگن کے درمیان انیس سو اناسی میں ’کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ‘ کرانے والے سابق امریکی صدر جمی کارٹر کا کہنا ہے کہ ’’کوئی شخص ’امریکن اسرائیل پبلک افئیرز کمیٹی‘ کی مدد کے بغیر اور اس کے موقف سے متضاد رائے رکھتے ہوئے ایک بار تو کسی ریاست کا گورنر، رکنِ کانگریس یا سینیٹر بن سکتا ہے مگر دوسری بار کی ضمانت نہیں ہے۔‘‘

’ایپک‘ جسے عرفِ عام میں امریکا کی یہودی لابی کہا جاتا ہے، اس کا اثر و نفوذ راتوں رات پیدا نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے چھ سو برس کی ریاضت، ذہانت اور قربانیاں کارفرما ہیں۔( اگلے مضمون میں اس مثالی اثر و نفوذ کی جڑیں ٹٹولنے کی کوشش کریں گے۔)

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close