ایک شخص کی المناک کہانی، جو مروجہ طریقے کے مطابق دنیا کا ذہین ترین شخص تھا!

ویب ڈیسک

تاریخ میں بہت سے افراد کو ان کی غیر معمولی ذہانت کے لیے جانا جاتا رہا ہے۔ ان میں سے کچھ افراد نے معاشرے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ کچھ صرف غیر معمولی طور پر ذہین تھے۔۔۔ لیکن سب سے زیادہ ذہین شخص کون تھا؟

اس سوال کا جواب دینے کے لیے سب سے پہلے ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ اس ذہانت کو کیسے ناپا جائے۔

ذہانت کی تعریف اور اس کی پیمائش کے طریقہ کار کو تاریخی سیاق و سباق سے دیکھا جائے تو قدیم یونان میں، ذہانت کو انسان کی منطقی سوچنے اور استدلال کرنے کی صلاحیت سے منسلک کیا جاتا تھا۔ نشاۃ ثانیہ کے دور میں، ذہانت کو علم اور تعلیم کے ساتھ جوڑا گیا۔ جبکہ بیسویں صدی میں الفرڈ بینے نے ذہنی آزمائشیں تیار کیں اور ذہانت کو مقیاس ذہانت (IQ) ٹیسٹ کے ذریعے ناپا جانے لگا جو حافظہ، مسئلہ حل کرنے اور آؤٹ آف باکس چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت جیسے پہلوؤں کی پیمائش کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ مقیاسِ ذہانت (IQ) کسی بھی شخص کی ذہانت کا اندازہ لگانے کے لیے ایک متنازعہ لیکن وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والا ذریعہ ہے۔ استدلال اور مسئلہ حل کرنے کی مہارتوں کی پیمائش کے لیے بنائے گئے متعدد ٹیسٹوں میں سے کسی ایک کا استعمال کرتے ہوئے اس کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔ 100 کو اوسط اسکور کے طور پر برقرار رکھنے کے لیے عام طور پر ہر چند سال بعد ٹیسٹوں پر نظر ثانی کی جاتی ہے۔

اچھا، اب جب کہ ہم نے ذہانت کو ناپنے کا طریقہ متعین کر لیا ہے، تو اب وقت آ گیا ہے کہ ہم آخر کار اس سوال کا جواب دیں کہ اس مروج طریقے کے مطابق وہ سب سے ذہین شخص کون تھا۔۔

ٹیک جینئس ایلون مسک کا آئی کیو کچھ لوگوں کے نزدیک 150 کے قریب ہے، جو کہ البرٹ آئن اسٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ جیسے سائنسدانوں کے آئی کیو کے قریب ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ ان کا آئی کیو تقریباً 160 ہے۔

تاہم ایک شخص اور بھی ہے۔۔ آئن اسٹائن، ایلون مسک، اور اسٹیفن ہاکنگ جس کے کہیں قریب بھی نہیں پھٹکتے، ایک کم معروف فرد جس کے بارے میں کچھ اندازہ ہے کہ اس کا آئی کیو 210 سے 250 کے درمیان ہو سکتا ہے۔۔ اس کا نام تھا، ولیم جیمز سڈیس!

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر سڈیس اتنا ذہین تھا تو وہ آئن اسٹائن یا ہاکنگ جیسا معروف نام کیوں نہیں؟ کیوں زیادہ تر لوگوں نے اس کے بارے میں کبھی نہیں سنا؟ اس سوال کا جواب اس کی غیر معمولی زندگی میں پنہاں ہے۔

ولیم جیمز سڈیس یکم اپریل 1898 کو نیو یارک میں روسی تارکینِ وطن کے ہاں پیدا ہوا۔ اس کے والدین بھی کوئی عام آدمی نہیں تھے، والدہ سارہ منڈیلبام سڈیس ایک طبی ڈاکٹر تھیں، جنہوں نے اپنی تعلیم BUSM (بوسٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن) سے حاصل کی اور اس کے والد بورس سڈیس ایک معروف ماہر نفسیات تھے جنہوں نے خود سائیکو پیتھولوجی کے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ ولیم ان کا پہلا بچہ تھا اور انہوں نے اسے ایک ایسے ماحول میں پالا جو اس کی ذہنی ترقی کے لیے موزوں تھا۔

سڈیس کی سوانح عمری، The Prodigy میں ، مصنف ایمی والیس نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے والدین انتہائی سخت مزاج تھے، کیونکہ وہ شدت سے چاہتے تھے کہ وہ علم حاصل کرے اور کچھ نہیں۔ اس کی والدہ نے اس کے سیکھنے کے رویے کی حوصلہ افزائی کے لیے کتابوں، نقشوں اور دیگر مواد پر بھاری رقم خرچ کی۔ جب کہ بورس سیڈس اپنے بیٹے کو اپنی استدلال اور سوچنے کی صلاحیتوں کو تشکیل دینے کے لیے بہترین ٹولز دینا چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ ابتدائی عمر سے ہی ولیم سڈیس کے ساتھ نفسیات اور دیگر جدید موضوعات پر بحثیں بھی کرتے تھے۔ تاہم، سڈیس اپنے والدین کی طرف سے ایسا خاص سلوک کیے جانے پر خوش نہیں تھا۔

ولیم ایک نابغہ بچہ تھا اور چھوٹی عمر سے ہی غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اٹھارہ ماہ کی عمر میں پڑھنا سیکھ گیا تھا حتیٰ کہ وہ نیویارک ٹائمز جیسا اخبار تک پڑھ لیتا تھا۔

جب سڈیس آٹھ سال کا ہوا، وہ آٹھ زبانیں بول سکتا تھا، جن میں یونانی، انگریزی اور روسی شامل تھین۔ بعد میں اس نے اپنی ایک زبان بھی بنائی جسے اس نے ’وینڈر گڈ‘ کہا۔ جب سڈیس صرف نو سال کا تھا تو اسے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ دیا گیا لیکن اس شرط کے تحت کہ اسے کالج میں سرکاری طور پر داخلہ لینے کے لیے 11 سال کی عمر تک انتظار کرنا پڑے گا۔ اس لیے، اگلے دو سالوں تک، سڈیس نے ٹفٹس یونیورسٹی میں ریاضی کی تعلیم حاصل کی، جہاں مبینہ طور پر اس نے اپنا وقت نصابی کتابوں کی غلطیوں کو درست کرنے اور البرٹ آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کو جوڑنے میں صرف کیا۔

1909 میں، 11 سالہ ولیم سڈیس ہارورڈ میں شرکت کرنے والا سب سے کم عمر شخص بن گیا۔ اسے 1909 میں ہارورڈ میں پروڈیوجیز کے ایک گروپ میں سب سے زیادہ ذہین سمجھا جاتا تھا جس میں سائبر نیٹکس باوا سمجھے جانے والے نوربرٹ وینر اور موسیقار راجر سیشنز شامل تھے۔ اسی سال، سڈیس نے ہارورڈ میتھمیٹکس کلب کو چار جہتی باڈیز پر ایک پریزنٹیشن دی۔ پیچیدہ موضوع کے بارے میں اس کی سمجھ نے مختلف ماہرین کی توجہ حاصل کی۔

سڈیس کی باتیں سن کر، امریکی ماہر طبیعیات ڈینیئل ایف کامسٹاک، جو اس وقت ایم آئی ٹی میں پروفیسر تھے، نے کہا ”میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ نوجوان سڈیس ایک عظیم فلکیاتی ریاضی دان، مستقبل میں اس سائنس میں رہنما ہوں گے۔“

بدقسمتی سے، کامسٹاک کی پیشین گوئیاں درست ثابت نہیں ہوئیں۔ ہارورڈ میں سڈیس کے گزرے سالوں پر روشنی ڈالتے ہوئے، اس کی سوانح عمری سے پتہ چلتا ہے کہ سڈیس نے ایک عام زندگی گزارنے کے لیے جدوجہد کی۔ ہارورڈ کے دوسرے طلباء اسے اکثر چھیڑتے اور اس کا مذاق اڑاتے تھے اور وہ میڈیا کی ناپسندیدہ کوریج سے پریشان بھی تھا۔

ایمی والیس کے مطابق ”اسے ہارورڈ میں ہنسی مذاق بنا دیا گیا تھا، وہ صرف اکیڈمی سے دور رہنا اور ایک باقاعدہ کام کرنے والا آدمی بننا چاہتا تھا۔“

سولہ سال کی عمر میں ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد، سڈیس نے اپنا پیچھا کرنے والے ایک رپورٹر سے کہا ”میں بہترین زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ کامل زندگی گزارنے کا واحد طریقہ اسے تنہائی میں گزارنا ہے۔ میں نے ہمیشہ ہجوم سے نفرت کی ہے۔“

سولہ سال کی عمر میں ہارورڈ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد، سڈیس رائس یونیورسٹی میں اسسٹنٹ ریاضی کے پروفیسر کے طور پر کام کرنے گئے۔ اس نے ایک سال تک انڈرگریجویٹ طلباء کو پڑھایا اور یوکلیڈین جیومیٹری پر ایک کتاب بھی لکھی۔

تاہم، جلد ہی سڈیس یونیورسٹی میں اپنے شعبہ اور اس کے ساتھ کچھ طلباء کے بے عزتی سے تنگ آ گیا، اس لیے اس نے رائس یونیورسٹی چھوڑ دی اور قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے واپس ہارورڈ چلا گیا۔ سڈیس نے تقریباً تین سال تک قانون کی تعلیم حاصل کی لیکن پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر 1919 میں کالج چھوڑ دیا۔

وہ سوشلسٹ سرگرمیوں سے جڑ گیا اور اسی سال کمیونسٹ کی زیرِقیادت جنگ مخالف ریلی میں شرکت کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ چونکہ میڈیا میں اس کی سیلیبرٹی جیسی حیثیت تھی، اس لیے اس کی گرفتاری اس وقت کئی اخبارات میں سرخیاں بنی تھی۔ ولیم سڈیس نے مقدمے کی سماعت میں اپنا دفاع کیا لیکن اسے اٹھارہ ماہ قید کی سزا سنائی گئی – فسادات کے لیے چھ ماہ اور ایک افسر پر حملہ کرنے کے لیے ایک سال۔ تاہم، بعد میں اس کے والدین اسے اپنے والد کے سینیٹوریم میں رکھنے اور جیل کی بجائے MIT میں کام کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

1921 میں، اسے اپنے والد کے ادارے سے رہا کر دیا گیا اور اپنی بقیہ زندگی عوام کی نظروں سے دور ایک آزاد وجود کی رہنمائی میں گزاری۔ اس نے ریاضی کے بارے میں اپنے علم سے انکار کر دیا اور بک کیپر کے طور پر کام لیا، اکثر ایک عرفیت کا استعمال کرتے ہوئے، اور جب بھی کوئی اسے پہچانتا تھا، وہ نوکری اور شہر بدل دیتا تھا۔

ولیم جیمز سڈیس ایک مصنف اور ہمہ جہت شخصیت تھا، جس نے کئی شعبوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس نے کئی کتابیں لکھیں۔ کچھ اپنے نام سے اور کچھ فرضی نام سے۔ 1925 میں، ولیم سڈیس نے The Animate and the Inanimate ، ایک کتاب لکھی جس میں کائنات کے بارے میں ان کے خیالات اور تھرموڈینامکس کے دوسرے قانون کے ممکنہ الٹ جانے پر اور زندگی کے آغاز پر بحث کی گئی ہے۔ اس نے کاسمولوجی پر ایک قابل ذکر کتاب لکھی ہے، جس میں بلیک ہولز کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ اس نے بارہ سو صفحات پر مشتمل آمریکیامریکی تاریخ پر مبنی کتاب ’دی ٹرائبز اینڈ دی اسٹیٹس‘ تحریر کی۔

دس سال بعد 1935 میں، اس نے قبائل اور ریاستوں کے نام سے ایک اور کتاب شائع کی (جھوٹے نام جان ڈبلیو شٹک کے تحت) جس میں مقامی امریکی تاریخ کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اس نے ایک قسم کا مستقل کیلنڈر بھی ایجاد کیا جو خاص طور پر لیپ سالوں کو دیکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ یوں اس نے اعداد کو مربع کرنے کا ایک نیا طریقہ بھی تیار کیا اور ایک ایسی مشین پر کام کیا جو پیچیدہ حسابات کر سکتی تھی۔

وہ اپنی ملازمتیں اور نام بدلتا رہا کیونکہ وہ اب ’چائلڈ پروڈیجی ولیم سڈیس‘ کے طور پر پہچانا جانا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے اپنا وقت کتابیں لکھنے، اسٹریٹ کار کی منتقلی کے ٹکٹ جمع کرنے، اور یہاں تک کہ کچھ غیر ہنر مند کام کرنے میں صرف کیا، جو اس جیسے ہونہار ذہانت کے حامل شخص کے لیے بہت ہی کم سمجھا جا سکتا ہے۔

زندگی کے آخری دور میں، ولیم گوشہ نشین ہو گیا اور عوامی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ ولیم سڈیس 1937 تک گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے میں کامیاب رہا جب نیو یارک میں شائع ہونے والا ایک مضمون ’جینئس بوائے‘ اسے دوبارہ روشنی میں لے آیا۔ مضمون کے مندرجات سے ناخوش، ولیم سڈیس نے نیویارکر میگزین پر ہتک غزت اور اس کی رازداری کی خلاف ورزی کا الزام لگایا اور اشاعت کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ اس نے 1944 میں ہتک عزت کا مقدمہ جیت لیا

اسے ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا رہا اور شیزوفرینیا کی تشخیص ہوئی۔ 17 جولائی 1944 کو 46 سال کی عمر میں برین ہیمرج کی وجہ سے اس کی موت ہو گئی۔

ولیم جیمز سائیڈس کا آئی کیو 250 اور 300 کے درمیان بتایا جاتا ہے، جو اسے سب سے ذہین شخص بناتا ہے۔ ظاہر ہے، اگر ہم زیادہ آئی کیو کو ذہانت کے ساتھ جوڑیں تو یہ سچ ہوگا۔

موازنہ کے طور پر، آئن اسٹائن کا آئی کیو تقریباً 160 تھا، اس لیے ولیم جیمز سڈیس کا آئی کیو تقریباً دگنا ہوگا۔ اگرچہ ولیم نے معاشرے پر آئن اسٹائن جیسا اثر نہیں ڈالا، لیکن اگر ہم آئی کیو کو مختلف چیزوں کو تیزی سے سیکھنے کی صلاحیت کے طور پر لیں تو ولیم یقینی طور پر سب سے ذہین لوگوں میں سرفہرست ہے۔

اپنی بے شمار کامیابیوں کے باوجود، ولیم جیمز سڈیس کی زندگی تنازعات سے خالی نہیں تھی۔ اسے اکثر میڈیا کی توجہ کا نشانہ بنایا جاتا اور ان کے والدین کی تربیت پر تنقید کی جاتی تھی۔ کچھ لوگوں نے سوال اٹھایا کہ ولیم کی ذہانت اس کی پرورش کا نتیجہ تھی یا یہ پیدائشی تھی۔

ولیم جیمز سڈیس کی زندگی کا اجمالی جائزہ لیں تو یہ نکات سامنے آتے ہیں

1. ابتدائی پڑھنے کی صلاحیت: ولیم نے بہت کم عمر میں پڑھنا شروع کیا، بتایا جاتا ہے کہ 18 ماہ کی عمر میں نیویارک ٹائمز پڑھنا شروع کر دیا تھا۔

2. ریاضی میں نابغہ: لسانی صلاحیتوں کے علاوہ، اس نے ریاضی میں بھی غیر معمولی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ اس نے ریاضی میں نئے اور اعلیٰ نظریات تیار کیے اور ریاضی کے شعبے میں نابغہ سمجھا جاتا تھا۔

3. خود سیکھنے والا یا سیلف لرنر : ولیم سڈیس بنیادی طور پر خود سیکھنے والا تھا۔ اس کے والدین نے ابتدائی تعلیم میں اہم کردار ادا کیا، لیکن جیسے جیسے وہ بڑا ہوا، اس نے زیادہ تر موضوعات خود ہی سیکھے، خاص طور پر ریاضی، سائنس، اور ادب کے اعلیٰ موضوعات۔

4. کثیر لسانی صلاحیت: ولیک سڈیس کو زبانوں میں غیر معمولی مہارت حاصل تھی۔ وہ 30 سے زائد زبانوں اور بولیوں پر عبور رکھتا تھا، جن میں کچھ غیر معروف زبانیں بھی شامل تھیں۔

5. قانونی مسائل: ذہنی صلاحیتوں کے باوجود، ولیم سڈیس کو زندگی کے بعد کے عرصے میں قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 1919 میں، اسے بوسٹن میں ایک سوشلسٹ مئی ڈے پریڈ میں حصہ لینے پر گرفتار کیا گیا اور اسے پہلی جنگ عظیم کے خلاف اپنے احتجاج کی وجہ سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ گرفتاری اور قانونی کارروائیاں اس کی زندگی کا ایک مشکل دور تھیں۔

6. ابتدائی دلچسپی علم نجوم میں: ولیم سڈیس نے کم عمری میں علم نجوم میں دلچسپی لی۔ اس نے اس موضوع کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور 11 سال کی عمر میں بوسٹن اسکول آف ایسٹرولوجی میں علم نجوم پر لیکچر دے رہا تھا۔

7. وینڈر گڈ زبان: ولیم سڈیس نے ’وینڈر گڈ‘ نامی اپنی ایک زبان بنائی، جسے وہ عالمی زبان قرار دیتا تھا، تاہم اسے عام قبولیت حاصل نہ ہو سکی۔

8. کام کی تاریخ: اپنی ذہنی صلاحیتوں کے باوجود، ولیم سڈیس نے مختلف ملازمتیں کیں، جن میں کلرک، بک کیپر، اور عام مزدور بننا شامل ہیں۔ وہ اکثر ایسے کاموں کو ترجیح دیتا تھا جو اسے اپنے علمی مفادات کی پیروی کے لیے وقت فراہم کرتے۔

9. کیلنڈر کی اصلاح میں دلچسپی: ولیم سڈیس کو کیلنڈر کی اصلاح میں دلچسپی تھی اور اس نے ’سیڈیسیئن کیلنڈر‘ کے نام سے ایک نیا کیلنڈر نظام تجویز کیا۔ اس کیلنڈر کا مقصد دنوں اور مہینوں کی ترتیب کو آسان بنانا تھا، لیکن اسے وسیع پیمانے پر قبولیت حاصل نہ ہو سکی۔

10. تعلیمی اصلاحات کی حمایت: ولیم جیمز سڈیس نے اعلیٰ تعلیم کے حق میں آواز اٹھائی۔ 1919 میں، 21 سال کی عمر میں، اس نے تعلیم میں اصلاحات کی تجویز پیش کی، جس میں فرد کی آزادی اور تخلیقی صلاحیت پر زور دیا گیا۔

ظاہر ہے، ولیم ایک غیر معمولی سطح کا ذہین انسان تھا لیکن ذہانت انسان ہونے کے بہت سے پہلوؤں میں سے صرف ایک ہے ۔ ولیم سیڈیس کا سفر یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ انسانی زندگی میں بہت سے مختلف عناصر ہیں کہ صرف ذہانت ہمیشہ ایک مکمل زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close