کراچی سینٹرل جیل میں سن 2007 میں ایک آرٹ پروگرام شروع کیا گیا تھا، جس کا مقصد طویل سزا کاٹںے والے اور سزائے موت پانے والے قیدیوں کی اصلاح کرنا ہے۔ بعض قیدی اس کمائی سے اپنے گھرانوں کی مالی مدد کے قابل ہوئے ہیں۔
نوآبادیاتی دور میں کراچی میں قائم کی گئی سینٹرل جیل کی دیواریں دیہی زندگی کے رنگوں سے مزین ہیں اور انہیں اسی جیل میں قید سزا یافتہ قاتلوں اور اغوا کاروں نے پینٹ کیا ہے۔ یہ قیدی معمول کی دنیاوی زندگی سے دور ہیں لیکن وہ جیل کی دیواروں کے اندر ایک ہنر سیکھ رہے ہیں
جیل سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ قیدیوں کی رہائی کے بعد انہیں معاشرے میں بہتر مقام دلانے کی غرض سے آرٹ اور موسیقی کا پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ کچھ قیدی مقامی آرٹس کونسل کے تعاون سے نمائشوں میں اپنے فن پارے کئی ہزار ڈالر میں فروخت کر چکے ہیں
ایسے ہی ایک قیدی آرٹسٹ محمد اعجاز بھی ہیں، جو اغوا برائے تاوان کے مقدمے میں قید ہیں۔ جیل کے آرٹ اسٹوڈیو میں بیٹھے بیالیس سالہ اعجاز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ”جیل جانے سے قبل میری ایک اور زندگی تھی، جس میں کوئی ذمہ داری نہیں تھی اور ناپختگی تھی۔۔ لیکن مجھے زندگی کا صحیح مطلب جیل میں بند ہونے کے بعد سے ملا ہے۔ جیل نے ہمیں سکھایا ہے کہ زندگی رنگوں سے بھری ہے اور رنگ خود بولتے ہیں۔‘‘
محمد اعجاز نے اپنے جرم کے بارے میں تفصیل بتانے سے گریز کیا، تاہم انہیں پینل کوڈ کی اغوا کی دفعات کے تحت سزا سنائی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 25 سالہ سزائے قید میں سے وہ تقریباً آدھی کاٹ چکے ہیں۔
اعجاز نے جیل میں قید ہونے کے باوجود گھوڑوں کی تصویر کشی کے اپنے فن سے بھاری رقم کمائی ہے۔ انہوں نے اسی رقم سے اپنی والدہ کو حج کروایا اور اپنی بہن کی شادی کا بندوبست کیا۔
اعجاز نے، حال ہی میں آرٹس کونسل آف پاکستان میں جیل حکام کی جانب سے منعقدہ آرٹ اینڈ کرافٹ نمائش میں اپنا آرٹ ورک 1.3 ملین روپے میں فروخت کیا۔ اس رقم سے انہوں نے عمرہ کرنے کا خواب پورا کرنے کے لیے 10 لاکھ روپے اپنی والدہ کے حوالے کر دیے۔ اعجاز نے اس بات کا اظہار کرتے ہوئے کہ یہ رقم ان کی شب و روز کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے، اپنی والدہ کے عمرہ کے سفر کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ان کی ماں، تشکر سے لبریز، اپنے بیٹے کی اپنی محنت کی کمائی سے مالی طور پر اپنے خواب کو پورا کرنے کی صلاحیت پر خوشی کا اظہار کرتی ہیں
مزید برآں، قیدی اعجاز نے اپنی بہن کی آنے والی شادی کے لیے تین لاکھ روپے کا عطیہ بھی دیا۔ اعجاز کے مطابق، ”شروع میں میرے خاندان کو مجھ پر یقین نہیں تھا کہ میں ایک فنکار بن گیا ہوں، جب انہوں نے مجھے نمائش میں دیکھا تو وہ خوش ہوئے۔‘‘ اعجاز جیل میں اپنے دیگر ساتھیوں کو بھی یہ ہنر سکھاتے ہیں۔
قائم مقام آئی جی جیل خانہ جات محمد حسن سہتو نے بتایا کہ اعجاز کو اغوا برائے تاوان کے مقدمے میں سزا سنائی گئی تھی اور اسے 25 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ وہ 14 دسمبر 2013 سے جیل میں ہیں۔
ان کا فن پارہ دیگر قیدیوں کے ساتھ آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔
قیدیوں اعجاز اور اللہ ودھایو کو جیل سے گزشتہ ماہ آرٹس کونسل آف پاکستان کی احمد پرویز آرٹ گیلری میں منعقدہ آرٹ اینڈ کرافٹ کی نمائش میں لایا گیا تھا جہاں انہوں نے اپنے فنی مشاغل میں اپنے متعلقہ تجربات شیئر کیے تھے۔
اعجاز نے شہر کے معروف دانشوروں کے ایک سامعین سے کہا، ”میں آپ لوگوں کے درمیان آ کر بہت خوش ہوں۔“ اپنے آپ کو عمر قید کے قیدی کے طور پر متعارف کراتے ہوئے، اعجاز نے کہا کہ وہ 2014 سے قید تھے اور 2017 میں انہوں نے پینٹنگ کا آغاز کیا اوع آہستہ آہستہ 3D سٹائل کی طرف بڑھے۔ ”میں جیل میں اپنے استاد کی بدولت یہاں تک پہنچا ہوں۔ میرے پاس اپنے جذبات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں“ انہوں نے جذبات سے بھری آواز میں کہا
اللہ ودھایو نے کہا کہ جیل میں رہتے ہوئے انہیں فنون لطیفہ کا شوق پیدا ہوا اور اپنے شوق میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ”جب آپ جیل میں وقت گزار رہے ہوتے ہیں تو وقت گزارنے کا فن ایک بہترین مشغلہ ہے۔“
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ نے کہا کہ کراچی سینٹرل جیل ایک تاریخی جیل ہے۔ محمد علی جوہر، شوکت علی جوہر، فاطمہ جناح، فیض احمد فیض اور ولی خان جیسی عظیم شخصیات نے یہاں قیام کیا۔
انہوں نے کہا کہ مولانا محمد علی جوہر اور فیض احمد فیض کے سیلوں کو ان کے نام سے منسوب کیا جانا چاہئے اور جیل کا اپنا میوزیم ہونا چاہئے۔
معروف ادیب اور دانشور انور مقصود نے کہا کہ میں اعلیٰ حکام سے درخواست کرتا ہوں کہ ایسے خوبصورت فن کا مظاہرہ کرنے والے قیدیوں کی سزاؤں میں کمی کی جائے۔
سال 2007 میں کراچی کی سنٹرل جیل میں آرٹ پروگرام شروع کیا گیا تھا، جس کا مقصد ان قیدیوں کی اصلاح کرنا ہے جو سزائے موت یا طویل سزا کاٹ رہے ہیں۔
اس پروگرام کے تحت قیدیوں کو عربی، انگلش یا چینی زبان سیکھنے کی بھی سہولت حاصل ہے جبکہ کڑھائی یا موتیوں کا کام بھی سیکھ سکتے ہیں۔
جیل کے ایک سینیئر اہلکار عماد چانڈیو کہتے ہیں ”قیدیوں کو تعمیری سرگرمیوں میں شامل کرنے سے وہ کھل اٹھتے ہیں۔ اس سے انہیں اپنے ماضی پر غور کرنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ انہوں نے کون سا جرم، کون سا گناہ یا کس قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔‘‘
عماد چانڈیو کا مزید کہنا تھا ”کوئی بھی فن، جو ایک اصلاحی سہولت کے اندر تیار کیا جا رہا ہے، وہ دراصل قیدیوں کی ملکیت ہے اور ان مصنوعات کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی ان قیدیوں کی ملکیت ہے۔‘‘
پاکستان بھر کی جیلوں میں قیدیوں کو پانی، صفائی اور خوراک تک محدود رسائی، جیسے مسائل کا سامنا ہونے کے ساتھ ساتھ ان قیدیوں کی تعداد اکثر جیلوں میں گنجائش سےخطرناک حد تک زیادہ ہوتی ہے۔ تاہم بڑے شہروں کی سینٹرل جیلوں کو عام طور پر بہتر فنڈنگ ملتی ہے۔
جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارہ بلال کہتی ہیں ”قیدیوں کی بحالی کی کوششیں سب سے پہلے ہونا چاہییں، سزاؤں کا مقصد انہیں بہتر شہری بننے میں مدد دینا ہے۔‘‘
مہتاب ذاکر کو قتل کے جرم میں پانچ سال قبل سزا سنائی گئی تھی، لیکن ان کے خاندان کا مالی انحصار اب بھی انہی پر ہے۔ چونتیس سالہ مہتاب کا کہنا ہے، ”میں جانتا ہوں کہ میں نے یہاں وقت ضائع نہیں کیا، کم از کم ہم نے کچھ سیکھا ہے، جب میں پینٹنگ مکمل کرتا ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے اور اس سے مجھے یہ اعتماد ملتا ہے کہ کم از کم میں کچھ کر سکتا ہوں۔‘‘