دیوارِ چین کے بارے میں دنیا بھر کے لوگوں میں پائے جانے والے پانچ غلط مفروضے۔۔

ویب ڈیسک

دنیا میں ایسا کون ہے، جس نے ’دیوارِ چین‘ کا نام نہ سنا ہو، جو قدیم چین میں تعمیر جانے والی اُن دیواروں اور قلعوں میں سے ایک ہے، جسے چین کے مختلف حکمرانوں کی طرف سے پانچویں صدی قبل مسیح سے لے کر سولہویں صدی عیسوی تک تعمیر کیا گیا تھا

اس کی لمبائی کے اندازے تقریباً دو ہزار چار سو کلومیٹر سے آٹھ ہزار کلومیٹر کے درمیان لگائے جاتے رہے ہیں، لیکن سنہ 2012 میں چین کی وزارت برائے ثقافتی ورثہ نے ایک تحقیق میں انکشاف کیا کہ دیوارِ چین کی کُل لمبائی تقریباً اکیس ہزار کلومیٹر ہے۔

چین کے شمال میں واقع یہ اکیس ہزار کلومیٹر طویل عظیم دیوار (دیوارِ چین) انسانیت کی سب سے معروف تخلیق ہے۔ یہ تاج محل اور قدیم رومیوں کے سب سے بڑے تھیٹر ’کولوژیم‘ سمیت دنیا کے سات بڑے عجوبوں میں شامل ہے۔ دیوارِ چین کو سنہ 1987 میں یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔

جنگجو حملہ آوروں سے بچاؤ کے علاوہ دیوار بنانے کے دیگر مقاصد میں ملک کا بارڈر یا حدود مقرر کرنا اور تجارتی اغراض و مقاصد کے لئے ذرائع نقل و حمل کی نگرانی کرنا شامل تھے. دیوار پر نگرانی کے لئے فوجی دستوں کے لئے مینار، فوجی بیرک اور خوراک کے گودام بهی بنائے گئے تھے. سپاہی ایک چوکی سے دوسری چوکی تک دهوئیں اور آگ سے ایک دوسرے کو مخصوص پیغام بھیجتے تھے. اس دیوار پر 25,000 کے قریب نگرانی کے مینار موجود ہیں

اس دیوار کو چائینیز زبان کی 100 سال قبل مسیح کی قدیم تحریر میں چانگ چنگ لکها گیا ہے، جس کے معنی ( لمبی دیوار)کے ہیں. انیسویں صدی عیسوی میں جب مغربی ممالک علاقے فتح کرتے ہوئے چین پہنچے تو انہوں نے اس کا نام ’عظیم دیوارِ چین‘ رکھا.

1856ء سے لے کر 1860ء تک چین کی مغربی ممالک سے دوسری جنگ کے بعد جب چینیوں نے تجارت اور سیاحوں کی آمدورفت کے لئے اپنے بارڈر کھول دیے تو چین کی یہ عظیم دیوار سیر و تفریح کے لیے سب سے انوکھا اور پرکشش مقام ہوا کرتا تها.

جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا کہ یہ دیوار دنیا بھر میں اتنی مقبول ہے کہ ہر کوئی اس کے متعلق جانتا ہے، لیکن اس کے بارے میں لوگوں میں بہت سے مفروضے اور غلط معلومات بھی پھیلی ہوئی ہے

ذیل کی سطور میں ہم ’دی گریٹ وال آف چائنا‘ کے مصنف جان مین کی مدد سے اس شاندار فن تعمیر کے متعلق پانچ مشہور مفروضوں کے متعلق بتائیں گے، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

1۔ یہ چاند سے دیکھی جا سکتی ہے

یہ مفروضہ عام کرنے والے امریکی خاکہ نویس رابرٹ رپلے تھے، جنہوں نے کہا تھا کہ دیوارِ چین چاند سے بھی نظر آتی ہے۔ اپنی ایک فلم ’بیلیو اٹ اور ناٹ!‘ (آپ مانیں یا نہ مانیں) میں انہوں نے دیوار چین کو ’انسان کا سب سے طاقتور کام‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اسے چاند سے بھی انسانی آنکھ کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔

یقیناً یہ دعویٰ ٹھوس شواہد پر مبنی نہیں تھا کیونکہ یہ دعویٰ کسی بھی انسان کے چاند پر جانے سے تیس برس قبل کیا گیا تھا۔

یہاں تک کہ تاریخ و ثقافت پر نامور چینی ماہر اور ’سائنس اینڈ سولائزیشن اِن چائنا‘ کے مصنف جوزف نیدھم نے کہا ”دیوارِ چین انسان کی وہ واحد تعمیر ہے، جسے مریخ کے ماہرین فلکیات بھی دریافت کر سکتے ہیں۔“

البتہ ان کے اس دعوے کو خلا بازوں نے مسترد کر دیا تھا مگر پھر بھی چاند سے دیوار چین نظر آنے والی بات کو ایک حقیقت ہی مانا جاتا رہا

لیکن سنہ 2003 میں چین کی پہلی خلائی پرواز کے دوران خلا باز یانگ لیوائی نے اس مفروضےکو ہمیشہ کے لیے دفن کرتے ہوئے کہا ”مجھے خلا سے زمین پر کچھ دکھائی نہیں دیا تھا۔“

2. یہ ایک ہی دیوار ہے

ایک مفروضہ یہ ہے کہ یہ ایک ہی طویل دیوار ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے! دراصل اس کے بہت سے حصے ہیں اور ان میں سے بہت کم اس شاندار تخلیق سے مشابہت رکھتے ہیں، جس کا سیاح دورہ کرتے ہیں۔

اس دیوار کے وہ حصے، جن کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کی گئی ہے، ان حصوں سے جا ملتے ہیں جو جنگلوں اور بیابانوں سے گزرتا ہے اور جہاں پیدل چلنے والوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں جھاڑیاں بھی ہیں اور کھنڈرات بھی، اور یہ حصے آبی ذخائر سے جا ملتے ہیں۔

بہت سے حصوں پر یہ دیوار دہری، تہری حتیٰ کہ چار تہوں میں بنی ہوئی ہے اور یہ حصے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔

دیوارِ چین کا جو حصہ بیجنگ کے اِرد گرد دیکھا جا سکتا ہے، وہاں آثارِ قدیمہ کی نشانیاں ہیں، جن میں سے کچھ اسی دیوار کے بالکل نیچے موجود ہیں۔

اور یہ منقسم حصے دیگر مٹی سے بنی دیواروں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں، جو مغربی چین کی طرف متوازی اور بکھرے ہوئے حصوں میں بنی ہیں۔

3۔ یہ منگولوں کو چین سے دور رکھنے کے لیے تعمیر کی گئی تھی

دیوارِ چین کی تعمیر کا سب سے پہلے حکم چین کے اُس بادشاہ نے دیا تھا، جن کی وفات تقریباً 210 قبل از مسیح میں ہوئی تھی: یعنی منگولوں کے منظرِ عام پر آنے سے قبل، کیونکہ منگول قریباً 800 عیسوی کے قریب آئے تھے۔

پھر چین کو خطرہ ژینگوؤں سے ہوگا، جو ممکنہ طور پر ہنوؤں کے آباؤ اجداد تھے۔

منگولوں کے ساتھ جنگ چودہویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی تھی، جب بادشاہ مِنگ نے منگولوں کو چین سے نکال دیا تھا۔

4۔ دیوارِ چین میں مزدوروں کی لاشیں دفن ہیں

دیوار چین کے متعلق کئی ایسی افواہیں گردش کرتی ہیں کہ دیوارِ چین میں اسے تعمیر کرنے والے مزدوروں کی لاشیں دفن ہیں۔

ان کہانیوں نے غالباً ہان بادشاہت کے دور کے ایک اہم مؤرخ سیما کیان کی طرف سے جنم لیا ہے، جنہوں نے اپنے ہی شہنشاہ کو اپنے پیشرو سلطنت قن کی توہین کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا

یہ متوقع ہے کہ عظیم دیوار کے منصوبے میں تقریباً 20 سے 30 لاکھ لوگوں نے اپنی زندگی اسے تعمیر کرنے میں لگا دی تھی.

ایسی بہت سی باتیں مشہور ہیں کہ فاتحین نے لاکھوں لوگوں کو اس دیوار میں دفن کیا یا چینی حکمرانوں کی توہم پرستی کہ باعث بچوں کی بھینٹ دیوتا کی نظر کی جاتی تهی اور انسانی ہڈیاں پیس کر ان سے اینٹیں تیار کی جاتی تهی تا کہ دیوار مضبوط اور قائم رہے لیکن یہ سب افواہیں ہیں. ابھی تک کسی دیوار کی بنیاد میں انسانی ہڈیاں نہیں ملی ہیں، بنیاد میں بھی چاول کے آٹے سے بنی ہوئی اینٹیں ملی ہیں. البتہ دیوار سے ملحقہ علاقے میں ہلاک ہونے والے مزدوروں کی قبریں ضرور ہیں.

5۔ مارکوپولو نے اسے دیکھا تھا

یہ سچ ہے کہ مارکو پولو نے کبھی دیوارِ چین کا ذکر نہیں کیا، اور دیوارِ چین کا تذکرہ صرف ایک دلیل کے طور پر استعمال کیا کہ وہ کبھی چین نہیں گیا تھا۔

اُس وقت (تیرہویں صدی کے آخر میں) تمام چین پر منگولوں کی حکومت تھی، اس لیے دیوار بے کار ہو چکی ہوگی کیونکہ حملہ آوروں نے پچاس سال پہلے چنگیز خان کے دور میں شمالی چین کو تباہ کر دیا تھا۔

منگول، جنہوں نے جنگ کے دوران دیوارِ چین کو نظر انداز کیا تھا، انہیں امن کے دور میں اس کا ذکر کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

مارکوپولو نے یقیناً اسے بیجنگ سے شانگڈو میں قبلائی خان کے محل جانے کے دوران متعدد مرتبہ عبور کیا ہوگا، لیکن ان کے پاس اس کی جانب توجہ مرکوز کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close