جنگ، فریب، اور کیمپ فائر: بوائے اسکاؤٹس کی حیرت انگیز ابتدا

ویب ڈیسک

دنیا بھر میں بے شمار بوائے اسکاؤٹس اور گرل اسکاؤٹس جنگلوں میں مہم جوئی کر رہے ہیں۔ اگرچہ ان کے خاکی یونیفارم کو بچپن کی مہمات سے جوڑا جاتا ہے، حقیقت میں اسکاؤٹنگ کی بنیاد ایک مایوس برطانوی فوجی افسر نے جنگ کی لپیٹ میں رکھتے ہوئے ڈالی تھی۔

1899 کی گرمیوں میں، برطانوی فوج کے کرنل رابرٹ بیڈن-پاول ایک نازک صورتِ حال میں پھنس گئے۔ انہیں برطانوی سلطنت کے جنوبی افریقی علاقوں کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ قریب ہی بسنے والے ڈچ نوآبادکار، یعنی بوئرز، ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے، اور وہاں انگریز فوجیوں کی تعداد بوئر فوجیوں کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ صورتحال مزید خراب تب ہوئی جب برطانوی حکومت نے رابرٹ بیڈن-پاول کو اضافی فوجی اور سامان بھیجنے سے انکار کر دیا۔ حکام کا خیال تھا کہ بوئرز کو جنگ کے لیے مشتعل کرنے سے بچنا بہتر ہوگا۔

مگر رابرٹ بیڈن-پاول ہمیشہ تیار رہنے کا قائل تھا۔ اس نے خفیہ طور پر حملے کے لیے منصوبہ بندی کی، اپنی فوج اور ضروری سامان اکٹھا کیا۔ اس نے اپنی محدود فوج کو مختلف جگہوں پر تقسیم کرنے کے بجائے مافکنگ نامی اندرونی علاقے میں مرکوز کر دیا۔ اس کا منصوبہ یہ تھا کہ اگر وہ اس قصبے کو زیادہ دیر تک قابو میں رکھ سکے، تو وہ بوئر فوجیوں کو ساحلی علاقوں سے دور رکھ سکے گا، جہاں بالآخر برطانوی کمک پہنچنی تھی۔

اکتوبر میں جب دوسری بوئر جنگ شروع ہوئی، تو کرنل اور اس کے 500 فوجیوں کو 8000 بوئر سپاہیوں نے گھیر لیا۔ ہتھیاروں کی کمی کے باعث، بیڈن-پاول نے چالاکی اور دھوکے کا سہارا لیا۔ اس نے اندازہ لگایا کہ اگر وہ بوئرز کو یہ یقین دلا سکے کہ مافکنگ قصبہ حقیقت میں زیادہ محفوظ اور مضبوط ہے، تو وہ دشمن کو آگے بڑھنے سے روک سکے گا۔

اور یوں، دھوکہ دہی کا کھیل شروع ہوا۔

جنگل کی زندگی سے جنگ کی قیادت تک

بیالیس سالہ کرنل بیڈن-پاول نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ ایسا ظاہر کریں جیسے وہ بارودی سرنگیں بچھا رہے ہیں، حالانکہ ان کے پاس کوئی بارودی سرنگیں نہیں تھیں۔ اس نے انہیں بندوقوں کے برج بنانے کا حکم دیا، حالانکہ ان کے پاس نہ تو کافی فوجی تھے اور نہ ہی توپ خانے کا سازوسامان۔ قصبے کے گرد حفاظتی پہرہ مضبوط دکھانے کے لیے، بیڈن-پاول نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ وہ قصبے کی حدود پر فرضی خاردار تاروں سے بچنے کا ڈراما کریں۔ یہاں تک کہ اس نے فوجیوں کو رات کے وقت ایک جعلی سرچ لائٹ کے ساتھ گشت کرنے کا حکم دیا، جو حقیقت میں ایک عام چراغ اور بسکٹ کے ڈبے سے بنائی گئی تھی۔

بیڈن-پاول کی زیادہ تر حکمتِ عملیاں ایک چالاک کھیل پر مبنی تھیں، لیکن ان میں سے ایک تدبیر حقیقت پر بھی مبنی تھی۔

اس نے ’مافکنگ کیڈٹ کور‘ کے نام سے مشہور بارہ سے پندرہ سال کی عمر کے مقامی لڑکوں کے ایک گروہ کو بلایا اور اس چھوٹے سے ”فوجی دستے“ کو پیغامات پہنچانے، اسپتال میں مدد کرنے، اور اسکاؤٹس اور گارڈز کے طور پر کام کرنے کے فرائض سونپ دیے۔

خاکی یونیفارم اور چوڑے کناروں والی ٹوپیاں پہنے ہوئے یہ کم عمر کیڈٹس گدھوں پر سوار ہو کر قصبے میں گشت کرتے تھے۔ (بعد میں، جب محاصرے کے دوران خوراک کی قلت پیدا ہوئی، تو گدھوں کو کھا لیا گیا اور لڑکے سائیکلوں پر منتقل ہو گئے۔) ان کی ذمہ داریوں نے نہ صرف انہیں مصروف رکھا اور ایک مقصد دیا بلکہ سب سے بڑھ کر، کیڈٹ کور کی موجودگی نے کم تعداد میں موجود برطانوی فوجیوں کو جنگ لڑنے کے لیے آزاد کر دیا، اور یوں ان کی افرادی قوت مؤثر طور پر چار گنا بڑھ گئی۔

سب سے بڑا جنگی ناول، جو نوجوان لڑکوں کے لیے تحریک بنا

یہ محاصرہ 217 دن جاری رہا، اور اس تمام عرصے میں بیڈن-پاول نے قصبے کی دفاعی حکمت عملی سنبھالی، دشمن کے علاقے کا جائزہ لیا، فالتو دھات سے توپیں بنائیں، اپنے اردگرد کے علاقوں کے خاکے تیار کیے، کیڈٹس کو لکڑی کا کام اور کیمپنگ کی تربیت دی، اور ہر اتوار کو کرکٹ میچوں کا اہتمام کیا۔ (اس کی بے پناہ سرگرمیوں کی وجہ سے اس کے کئی سپاہیوں کو یقین تھا کہ وہ سوتا ہی نہیں تھا!)

سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس نے اس دوران اپنے کتابی مسودے Aids to Scouting (یعنی ’اسکاؤٹنگ میں مدد‘) کی بھی تدوین کی۔ یہ جنگل میں زندہ رہنے کے اصولوں پر مبنی ایک رہنما کتاب تھی، جو بعد میں بوائے اسکاؤٹس کے پہلے تربیتی دستور کی بنیاد بنی۔

بیڈن-پاول کی شہرت اور بوائے اسکاؤٹس کی ابتدا

جب برطانوی اخبارات نے مافکنگ کے طویل محاصرے پر روزانہ کی بنیاد پر خبریں شائع کیں، تو بیڈن-پاول کا نام ہر گھر میں جانا پہچانا بن گیا۔ آخرکار مئی 1900 میں جب برطانوی کمک پہنچی اور قصبے کو آزاد کرایا گیا، تو بیڈن-پاول کو ایک ہیرو کے طور پر سراہا گیا۔ وہ فوج کا سب سے کم عمر میجر جنرل بن گیا، اور اس کے 38 کیڈٹس کو ملکہ وکٹوریہ کی جانب سے تمغے دیے گئے۔

برطانیہ میں اس فتح کی خوشیاں اس قدر زور و شور سے منائی گئیں کہ ایک نیا لفظ ایجاد ہوا—”Mafficking“—جو جشن منانے کے لیے استعمال ہونے لگا۔ آج بھی یہ لفظ انگلینڈ میں ’خوشی منانے‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

بوائے اسکاؤٹس کی تشکیل

اگرچہ بیڈن-پاول نے Aids to Scouting کتاب عام نوجوانوں کے لیے نہیں لکھی تھی، مگر مافکنگ کی شہرت کی بدولت یہ جلد ہی برطانیہ بھر کے بچوں کے بیڈ سائیڈ ٹیبلز پر پہنچ گئی۔ دراصل، بیڈن-پاول ہمیشہ اس بات سے پریشان رہا تھا کہ نئے فوجی بھرتی ہونے والے سپاہی بنیادی جنگلی بقا کی مہارتوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اس نے یہ کتاب انہی کے لیے لکھی تھی، مگر مافکنگ کیڈٹ کور کی بہادری دیکھنے کے بعد، اسے احساس ہوا کہ یہ کتاب نوجوانوں کے لیے بھی کتنی اہم ہو سکتی ہے۔

1908 میں، اس نے Aids to Scouting کا بچوں کے لیے نیا ورژن لکھا، جس کا نام Scouting for Boys رکھا۔ اس کتاب میں دیے گئے اصولوں کو آزمانے کے لیے، بیڈن-پاول نے 22 لڑکوں کو انگلینڈ کے ساحل کے قریب واقع براؤن سی آئی لینڈ پر ایک مہم پر لے جایا، جہاں اس نے انہیں جنگل میں زندہ رہنے کی مہارتیں سکھائیں۔ یہ پہلا باضابطہ بوائے اسکاؤٹ اجلاس سمجھا جاتا ہے۔

جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی، یہ کتاب فوری طور پر بیسٹ سیلر بن گئی، اور برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ہندوستان، اور کینیڈا میں بوائے اسکاؤٹ گروپس خود بخود بننے لگے۔

1910 میں، پہلی گرل اسکاؤٹس نے بھی اس تحریک میں شمولیت اختیار کی، اور اسی سال بیڈن-پاول نے فوج چھوڑ کر اپنی ساری توجہ اسکاؤٹنگ پر مرکوز کر دی۔ محض 12 سال میں، 32 ممالک میں 10 لاکھ سے زائد اسکاؤٹس شامل ہو چکے تھے۔

آج، دنیا بھر میں 50 ملین سے زائد ممبران ہیں، اور جو تحریک ایک جنگی ضرورت کے طور پر شروع ہوئی تھی، وہ آج بھی پوری قوت سے جاری ہے۔

بیڈن-پاول نے کم عمر لڑکوں کو جنگ میں استعمال کرنے کا خیال کہاں سے پایا؟

اس کی جڑیں اس کے غیر معمولی بچپن میں ملتی ہیں۔ نیچرل ہسٹری کے ایک پروفیسر کا بیٹا، رابرٹ بیڈن-پاول ایک قدرتی ماحول سے محبت کرنے والے خاندان میں پلا بڑھا۔ جب 1860 میں اس کے والد کا انتقال ہوا، تو وہ صرف تین سال کا تھا۔ اس کی بیوہ ماں نے اپنے پانچ بیٹوں کو خودمختار اور مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا، اس لیے اس نے انہیں باہر کی دنیا کو بھرپور طریقے سے دریافت کرنے کی ترغیب دی۔ ایک بار، اس نے اپنے بیٹوں کو چیلنج دیا کہ وہ خود سے لندن میں واقع اپنے گھر سے ویلز کے ایک کرائے کے کاٹیج تک کا سفر کریں۔

بیٹوں نے دریائے تھیمز میں اپنی کشتی خود چلاتے ہوئے سفر شروع کیا اور باقی راستہ پیدل طے کیا۔ کئی دنوں بعد، وہ بخیریت کاٹیج پہنچ گئے، جہاں ان کی ماں ان کا انتظار کر رہی تھی۔

اپنے کیمپنگ اور کشتی رانی کے ایڈونچرز کے دوران، انہوں نے کم از کم سازوسامان کے ساتھ گزارا۔ وہ جھاڑیوں اور گھاس کے ڈھیروں کے نیچے سوتے، اور اپنا کھانا خود پکڑ کر تیار کرتے۔ اس تجربے نے نہ صرف انہیں جنگلی ماحول میں زندہ رہنے کے لیے ضروری مہارتیں سکھائیں بلکہ ان میں خوداعتمادی اور ثابت قدمی بھی پیدا کی۔ بیڈن-پاول جانتا تھا کہ صحیح حالات میں لڑکوں پر بھروسا کیا جا سکتا ہے۔ مافکنگ کے محاصرے کے دوران، ان کی اہمیت ثابت ہو گئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close