
کراچی کا سب سے بڑا ضلع ملیر صدیوں سے مقامی سندھی اور بلوچ قبائل کا مسکن رہا ہے، جو ایک مشترکہ زرعی معاشرے کے طور پر ماحول پر انحصار کرتے تھے۔ تاہم، تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی اور ترقیاتی منصوبے زمین، پانی اور جنگلی حیات کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔
وائلڈ لائف فوٹوگرافر، کارکن اور مصنف سلمان بلوچ تعمیراتی منصوبوں، جیسے 39 کلومیٹر (24 میل) طویل ملیر ایکسپریس وے (اب بھٹو ایکسپریس وے) اور 19,000 ہیکٹر (46,000 ایکڑ) پر مشتمل کراچی کے گیٹڈ سبرب بحریہ ٹاؤن کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں، جو اس خطے کی جنگلی حیات کے لیے سنگین نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔
سلمان بلوچ تاریخی طور پر اس علاقے میں پائی جانے والی سینکڑوں اقسام کی پرندوں کی تصویری دستاویز بندی بھی کر رہے ہیں۔
حال ہی میں، انہوں نے مونگابے سے گفتگو میں اپنے سماجی کام، فوٹوگرافی، کراچی کے ماحولیاتی نظام کے لیے خدشات اور امیدوں پر تبادلہ خیال کیا۔
پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی 2 کروڑ سے زائد آبادی کا مسکن ہے اور ماحولیاتی مسائل جیسے ہیٹ ویوز، شہری سیلاب اور آلودہ ہوا کی وجہ سے کئی بار خبروں میں آ چکا ہے۔ شہر کے مشرقی کنارے پر ملیر واقع ہے، جو کراچی کا سب سے بڑا ضلع ہے اور صدیوں سے مقامی سندھی اور بلوچ قبائل کا گھر رہا ہے، جو ملیر ندی کے کنارے آباد تھے۔
سندھی زبان میں ’ملیر‘ کا مطلب ہریالی اور شادابی ہے، اور یہ طویل عرصے تک کئی اقسام کی سبزیوں اور پھلوں کے باغات کے لیے مشہور رہا ہے۔ ملیر ندی کا کنارہ مقامی اور ہجرت کرنے والی پرندوں کی اقسام جیسے ایشیائی کوئل (Eudynamys scolopaceus)، مصری گدھ (Neophron percnopterus) اور جامنی دھوپ چڑیا (Cinnyris asiaticus) کا مسکن بھی رہا ہے۔ دیگر زرعی معاشروں کی طرح، یہاں کے لوگ بھی صدیوں تک اجتماعی طور پر رہتے آئے ہیں۔ تاہم، تیزی سے بڑھتی شہری آبادی اور تعمیراتی منصوبے آج ملیر کی زمین، ندیوں، نباتات اور حیاتیات کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔
وائلڈ لائف فوٹوگرافر، کارکن اور مصنف سلمان بلوچ ان لوگوں میں شامل ہیں جو ان تعمیراتی منصوبوں کو قدرتی ورثے، جنگلی حیات اور مقامی تاریخ کو مٹانے کی کوشش سمجھتے ہیں۔ جب ان سے بچپن کی یادوں کے بارے میں پوچھا گیا تو سلمان بلوچ نے کہا: ”ترقی کے نام پر ہم پر کرینیں لے آئے۔ میں صرف 10 سال کا بچہ تھا جب مجھے احساس ہوا کہ ہم کچھ کھو رہے ہیں۔۔۔“
انہوں نے مزید وضاحت کی: ”چھوٹے کسان، جو بجلی کے بھاری بل ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے، اپنی زمینیں رئیل اسٹیٹ کو بیچنے لگے، اور آہستہ آہستہ جنگلی حیات کے مسکن ختم ہونے لگے۔ یہ وہ مستقبل نہیں تھا جو ہم چاہتے تھے۔“
2020 سے، 39 کلومیٹر (24 میل) طویل ملیر ایکسپریس وے منصوبہ ملیر کی مقامی آبادی میں اضطراب اور عدم اعتماد کا باعث بنا ہوا ہے۔ یہ منصوبہ سندھ حکومت اور ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) کے درمیان ایک عوامی-نجی شراکت داری کا حصہ تھا۔ مقامی کمیونٹی نے جنگلی حیات کی تباہی اور گھروں کے انہدام کے خلاف احتجاج کیا۔ اپریل 2023 میں، ADB نے ماحولیاتی خدشات کی بنیاد پر اپنی مالی معاونت واپس لے لی۔ اب اس منصوبے کی مالی اعانت تجارتی بینک، سندھ حکومت اور ترقیاتی مالیاتی ادارے کر رہے ہیں۔
سندھ حکومت نے اس منصوبے کے 9.1 کلومیٹر (5.7 میل) طویل حصے کا افتتاح 11 جنوری کو کیا۔ ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر نے نہ صرف جنگلی حیات اور مقامی لوگوں کے روزگار کو خطرے میں ڈالا بلکہ ثقافتی ورثے کو بھی نقصان پہنچایا۔ جون 2024 میں، سیّد ہاشمی ریفرنس لائبریری، جو بلوچ ادب اور تاریخ کے سب سے بڑے آرکائیوز میں شمار ہوتی ہے، کو مسمار کرنے کے لیے نشان زد کیا گیا۔ تاہم، سلمان بلوچ کی سرگرمیوں کے باعث عوامی دباؤ بڑھا اور لائبریری کو بچا لیا گیا۔
سلمان بلوچ کی جدوجہد کا سب سے اہم پہلو ان ناپید ہوتی جنگلی حیات کی تصویری دستاویز بندی ہے، جو بحریہ ٹاؤن کی تعمیر کے باعث خطرے میں ہے۔ بحریہ ٹاؤن، جو کراچی کے شمال مشرق میں 19,000 ہیکٹر (46,000 ایکڑ) پر مشتمل ایک گیٹڈ سبرب ہے، متنازعہ رہا ہے کیونکہ یہ غیر قانونی زمینوں پر قبضے اور جنگلی حیات کی تباہی سے جڑا ہوا ہے۔ ملیر ایکسپریس وے کا مقصد ملیر ٹاؤن کو اس ہاؤسنگ منصوبے سے جوڑنا ہے۔ 2021 میں، ہزاروں مقامی افراد نے بحریہ ٹاؤن کی غیر قانونی توسیع کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
ملیر اور کراچی کی ماحولیاتی توازن اور جنگلی حیات پر ترقیاتی منصوبوں کے اثرات کو سمجھنے کے لیے، مونگابے نے سلمان بلوچ سے فون پر گفتگو کی، جو ذیل میں پیش کی جاتی ہے۔
مونگابے: کراچی کے ماحولیاتی نظام اور ترقی کے تناظر میں ملیر پر بات کرنا کیوں ضروری ہے؟
سلمان بلوچ: ہمیں سب سے پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ ’ترقی‘ کا مطلب کیا ہے۔ کوئی بھی عقل مند شخص ترقی کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ ہم صدیوں تک ایک زرعی طرزِ زندگی گزارتے رہے ہیں۔ ہمارے لیے ترقی وہی ہے جو سماجی اور معاشی طور پر کمیونٹی کو بہتر کرے۔ ترقی کا مطلب ہے صاف پانی، بجلی اور وہ آلات جو زراعت میں ہماری صلاحیتوں کو بڑھائیں۔ لوگ ملیر میں کراچی کے شہر بننے سے پہلے آباد تھے۔ ملیر کے جنگلات، دریا اور پہاڑ اس مقامی حیاتیاتی نظام کی حفاظت کرتے رہے ہیں، جو صدیوں سے کراچی کے ماحول کو متوازن رکھے ہوئے تھا، لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے، ترقیاتی منصوبے اور رئیل اسٹیٹ پروجیکٹس، خصوصاً ملیر ایکسپریس وے جیسے منصوبے، ملیر کے ماحولیاتی نظام کے لیے شدید خطرہ بن چکے ہیں۔
مونگابے: وضاحت کریں کہ ایکسپریس وے کراچی کے ماحولیاتی نظام کے لیے کیسے خطرہ ہے؟
سلمان بلوچ: ملیر ندی ہمارے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے اسی ندی کے کنارے کاشتکاری اور زراعت کے لیے زمین کا انتخاب کیا تھا۔ یہی ندی آبپاشی اور ان سرسبز جنگلات کا ذریعہ ہے جو کھیرتھر پہاڑی سلسلے سے لے کر مرکزی ملیر میٹرو ایریا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ 2020 میں، سندھ حکومت نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے اشتراک سے ملیر ندی کے ساتھ 39 کلومیٹر طویل، چھ لینز پر مشتمل سڑک بنانے کا منصوبہ شروع کیا، جو ملیر سٹی کو کراچی-حیدرآباد موٹر وے سے جوڑے گی، جہاں دو بڑے ہاؤسنگ منصوبے واقع ہیں۔ یہ تمام ترقی صرف امیر لوگوں کے لیے ہو رہی ہے۔
ہیوی مشینری اور کنکریٹ نے اس زمین کو کھود ڈالا جہاں پرندے افزائش کرتے تھے اور مویشی چرائے جاتے تھے۔ یہ تباہی صرف ندی کے لیے نہیں بلکہ ہر اس چیز کے لیے تھی جو ندی پر انحصار کرتی ہے۔ اگر ندی کے قدرتی بہاؤ میں خلل ڈالا جائے تو پورا ماحول متاثر ہوتا ہے۔ کراچی جیسے شہر کو کنکریٹ کے جنگل میں بدل دیا گیا ہے۔ بارش کا ایک قطرہ بھی پڑے تو شہر سیوریج کے پانی میں ڈوب جاتا ہے۔ نکاسیِ آب کے مناسب انتظامات نہ ہونے کے باعث پانی کئی دنوں تک کھڑا رہتا ہے۔ ہیٹ ویوز کی وجہ سے لوگ جان سے جا رہے ہیں، ساحلی علاقوں میں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے، اور مقامی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہو رہی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ ترقی عام لوگوں کی ضروریات کو مدِنظر رکھ کر نہیں کی جا رہی۔ ان کمیونٹیز سے کوئی مشورہ نہیں لیا جاتا جو بارش، ندیوں اور ہوا کے فطری نظام کو سمجھتی ہیں۔
ملیر کو کراچی کے آکسیجن اور زرعی وسائل کا مرکز کہا جاتا ہے۔ اگر کراچی کو رہنے کے قابل بنانا ہے تو قدرتی ماحول کا تحفظ ضروری ہے اور ماحولیاتی نظام کو بے ہنگم منصوبوں سے چھیڑنے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا۔
مونگابے: ملیر ایکسپریس وے منصوبے کے آغاز سے مقامی کمیونٹی کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور لوگ اس کے خلاف کیسے منظم ہو رہے ہیں؟
سلمان بلوچ: قانون کے مطابق، ہر منصوبہ ایک مخصوص طریقہ کار سے گزرتا ہے۔ سب سے پہلے ماحولیاتی جائزہ لیا جاتا ہے، جس کے بعد عوامی سماعت ہوتی ہے تاکہ اگر کمیونٹی کو کوئی اعتراض ہو تو وہ اسے اس موقع پر پیش کر سکے۔ تاہم، سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (SEPA) نے بغیر کسی عوامی مشاورت کے اس منصوبے کے لیے این او سی (NOC) جاری کر دیا۔ منصوبہ 2020 میں شروع ہوا، اور عوامی سماعت دو سال بعد منعقد کی گئی۔ اس دوران، مقامی کمیونٹی کو صرف بے دخلی، زمینوں کے نقصان اور قدرتی ورثے کی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ ملیر ندی پر بغیر این او سی کے ہی تعمیرات شروع کر دی گئیں۔
اب ہمارا آمد و رفت کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ ہم اپنے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں نہیں جا سکتے کیونکہ راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ ہماری عورتیں اب اپنے مویشیوں کے ساتھ ندی کے کنارے نہیں جا سکتیں، کیونکہ پوری ندی ملبے، گرد و غبار اور بھاری مشینری سے بھر چکی ہے۔
ملیر کے لوگوں نے اس منصوبے کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ انڈیجینس رائٹس الائنس وہ پلیٹ فارم تھا جس نے اس کیس کو اٹھایا۔ 2022 میں عوامی سماعت کے بعد ہم نے پہلی مرتبہ SEPA کو تحریری شکایت جمع کرائی۔ ہمارا کیس ماحولیاتی ٹریبیونل میں تھا، لیکن ہمیں صرف تاریخیں دی جاتی رہیں۔ عدالت نے ماحولیاتی اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے ”عوامی مفاد“ کے نام پر NOC جاری کر دیا، جو ایک مضحکہ خیز فیصلہ تھا۔ جب ہر دروازہ بند ہو گیا تو مقامی تنظیموں، سول رائٹس گروپس اور متاثرہ افراد نے ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) میں شکایت درج کرائی۔ ADB نے خود علاقے کا دورہ کیا، متاثرہ لوگوں سے ملاقات کی، اور ہم نے وہاں کے نایاب جنگلی حیات، نباتات اور مقامی تاریخی ورثے کے تحفظ کا مقدمہ پیش کیا۔ ہماری آواز سننے کے بعد ADB نے 2023 میں اپنے مالی تعاون سے دستبرداری اختیار کر لی۔ یہ مقامی لوگوں کے لیے ایک چھوٹی لیکن اہم کامیابی تھی۔
مونگابے: آپ نے کہا کہ یہ منصوبہ ہماری مقامی تاریخ کو بھی متاثر کر رہا ہے، اس سے آپ کا کیا مطلب ہے؟
سلمان بلوچ: بلوچ آبادی اپنی خانہ بدوش تاریخ کی وجہ سے مختلف خطوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ بلوچوں نے حال ہی میں اپنی ادبی تاریخ، زبان اور رسم الخط کو دستاویزی شکل دینا شروع کی ہے۔ ان نایاب دستاویزات کو محفوظ رکھنے والے چند ہی ادارے ہیں، جن میں ملیر میں واقع ’سید ہاشمی ریفرنس لائبریری‘ بھی شامل ہے۔ یہ لائبریری نایاب دستاویزات کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ لغات، شاعری اور تحقیقی کتابوں کے نئے ایڈیشن بھی شائع کرتی ہے۔ اب تک کم از کم 40 کتابیں سید ہاشمی ریفرنس لائبریری سے شائع ہو چکی ہیں۔ یہ لائبریری دنیا بھر سے ان پی ایچ ڈی اسکالرز کی مدد کر چکی ہے جو بلوچ تاریخ اور بلوچستان پر تحقیق کر رہے تھے۔ یہ بلوچ آبادی کے لیے ایک ثقافتی ورثہ ہے۔ میں خود اس لائبریری کا کوآرڈینیٹر ہوں۔
ایک دن جب میں لائبریری پہنچا تو دیکھا کہ ملیر ایکسپریس وے حکام نے اس پر سرخ نشان لگا دیا تھا، کیونکہ یہ منصوبے کے راستے میں آ رہی تھی۔ اس تباہی کو روکنے کا واحد طریقہ احتجاج تھا۔ حکومت نے ہمیں کبھی سہولیات فراہم نہیں کیں، اور ان نایاب تاریخی آرکائیوز کی حالت بھی پہلے ہی نازک تھی۔ جب کراچی میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرتا ہے اور ہوا میں نمی بڑھ جاتی ہے، تو اس سے ان نایاب دستاویزات کو مزید نقصان پہنچنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہاں کوئی ایئر کنڈیشنر تک نہیں۔ ہم اپنی تاریخ کو خود بچا رہے ہیں، اور سندھ حکومت اسے تباہ کرنے کے درپے ہے۔
مونگابے: آپ کو کب احساس ہوا کہ تعمیرات مقامی کمیونٹی کے حق میں نہیں ہیں؟
سلمان بلوچ: جب میں بڑا ہو رہا تھا، مجھے شہرکاری یا ترقی (تعمیرات) کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا۔ میں صرف 10 سال کا تھا جب ملیر کی ’تھدو ندی‘ کے بالائی حصے میں جنگلات کی کٹائی شروع ہوئی۔ پہلے پہل 80 کی دہائی کے آخر میں ہاؤسنگ سوسائٹیز نے ہماری زمینیں حاصل کرنا شروع کیں، پھر ریتی بجری مافیا آئی، اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اسی وقت ہمیں بطور کمیونٹی یہ احساس ہوا کہ یہ ترقی کا ماڈل ہماری بقا کے لیے خطرہ ہے۔ بعد میں، ان ہاؤسنگ سوسائٹیز نے پورے شہر میں ماحولیاتی نظام کو نظرانداز کرتے ہوئے توسیع حاصل کر لی۔ کھیت ختم ہونے لگے، درخت ایسے کاٹے گئے جیسے وہ کبھی وہاں تھے ہی نہیں، پرندوں کی پناہ گاہیں اور ماحولیاتی توازن درہم برہم ہو گیا۔
اب میں آسمان پر پرندوں کو شاذ و نادر ہی اڑتے دیکھتا ہوں، اور جب انہیں دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے، کیونکہ میں نے اپنی آنکھوں سے وہ تباہی دیکھی ہے جو ہم نے ماحولیاتی نظام اور موسمیاتی توازن کے حوالے سے مچائی ہے۔ میں، بطور وائلڈ لائف فوٹوگرافر، ان لمحوں کی تصاویر محفوظ رکھتا ہوں جو اب صرف یادیں بن چکی ہیں۔
مونگابے: آپ نے وائلڈ لائف فوٹوگرافی کا انتخاب کیوں کیا؟ آپ کو اس کا شوق کیسے پیدا ہوا؟
سلمان بلوچ: 80 کی دہائی کے اوائل میں ملیر جیسے علاقے میں کوئی بھی جدید آلات رکھتا تھا تو وہ بہت منفرد بات تھی، کیمرا تو دور کی بات ہے۔ لیکن خوش قسمتی سے میرے والد کے پاس ایک پرانا ریل کیمرا تھا۔ بچپن میں، مجھے ان کا لوگوں اور تقریبات کی تصویریں لینا بہت دلچسپ لگتا تھا، اور یہیں سے میرا شوق پروان چڑھا۔
1992 میں، میرے والد کا انتقال ہو گیا جب میں بہت چھوٹا تھا۔ میرے فوٹوگرافی کے جذبے نے مزید شدت اختیار کر لی، اور میں نے قدرتی مناظر اور بے ترتیب چیزوں کی تصویریں لینا شروع کر دیں۔ 2001 میں، میں نے ایک ڈیجیٹل کیمرا خریدا اور ملیر میں بارش، پرندوں اور جنگلی حیات کو ریکارڈ کرنا شروع کیا۔ میں گھنٹوں ملیر ندی کے کنارے بیٹھ کر اس چیز کا مشاہدہ کرتا تھا کہ وہاں کیا کچھ کیمرے میں قید کیا جا سکتا ہے۔
بعد میں، میں نے اپنی تصاویر آن لائن پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ کرنا شروع کر دیں۔ میری زندگی کا ایک اہم موڑ وہ تھا جب ایک مقامی فوٹوگرافر نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ ”تمہاری پرندوں کی تصویریں منفرد ہیں۔“ میری کھینچی ہوئی یورپی نائٹ جار (Caprimulgus europaeus) کی تصویر پاکستان کے وائلڈ لائف فوٹوگرافی کمیونٹی کے لیے ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوئی۔ اس سے میرا اعتماد بڑھا، اور میں نے خاص طور پر پرندوں کی جنگلی حیات کو دستاویزی شکل دینا شروع کر دی۔
مونگابے: آپ کو اب تک کیا پذیرائی ملی ہے؟
سلمان بلوچ: اگر آپ کی مراد ایوارڈ سے ہے تو مجھے کبھی کوئی ایوارڈ نہیں ملا۔ پاکستان میں، جہاں یہ کام تسلیم کیا جاتا ہو، ایسی تنظیموں تک میری رسائی نہیں ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پذیرائی صرف ایوارڈز سے نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر، میرا کام BirdingASIA میں شائع ہوا، جو میرے لیے اعزاز کی بات تھی۔
2017 میں، میں نے پرندوں کی مختلف اقسام اور ان کے مقامات کا ریکارڈ مرتب کرنا شروع کیا۔ میں نے Collins eBird ایپ پر اپنی تصاویر اپ لوڈ کرنا شروع کیں اور دیکھا کہ پاکستان میں پرندوں کی تصویریں لینے والے زیادہ تر ماہرین مغربی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد، میں نے پاکستان میں 300 پرندوں کی اقسام کو دستاویزی شکل دینے کے بعد اس فہرست میں سب سے اوپر جگہ بنا لی۔ یہ خبر پاکستان میں پھیل گئی، اور بی بی سی نے مجھ پر ایک رپورٹ نشر کی، جبکہ جیو نیوز نے بھی مجھے اپنے پروگرام میں شامل کیا۔ (بعد ازاں وائس آف امریکہ اور دیگر نشریاتی اداروں نے بھی سلمان بلوچ پر رپورٹس نشر کیں۔ ادارہ)
سچ کہوں تو، پاکستان میں کوئی ایسا فورم موجود نہیں جہاں ماہرینِ پرندہ باضابطہ طور پر اپنی تحقیق اور ریکارڈز اپلوڈ کر سکیں۔ میرا کام ایسے غیر دریافت شدہ علاقوں میں ہوتا ہے جو نظرانداز کیے گئے ہیں، اور میں اپنی ذاتی محنت، وقت اور پیسے خرچ کر کے پرندوں کو دستاویزی شکل دیتا ہوں، بغیر کسی گرانٹ یا فنڈ کے۔
مونگابے: چونکہ تنظیموں کی طرف سے آپ کو کوئی مدد نہیں ملتی، تو آپ اپنی زندگی کس طرح سنبھالتے ہیں؟
سلمان بلوچ: میں پیشہ ورانہ طور پر ڈیٹا اینالسٹ ہوں اور ہفتے میں پانچ دن کام کرتا ہوں۔ ان پانچ دنوں میں، میں گھر پر رہ کر اپنی بیوی اور تین بچوں کو وقت دیتا ہوں۔ ہفتہ اور اتوار کی صبح میدان میں نکلتا ہوں، پرندوں کا مشاہدہ کرتا ہوں اور تقریباً 11 بجے واپس آ جاتا ہوں۔ اس کے بعد میں کتب خانے (لائبریری) میں وقت گزارتا ہوں اور بطور کوآرڈینیٹر اپنی ذمہ داریاں نبھاتا ہوں۔ میرا تحریری کام رات کے وقت ہوتا ہے، جب میں رات کے کھانے سے فارغ ہو جاتا ہوں۔ میں اپنے وقت کو مؤثر طریقے سے منظم کرتا ہوں۔
مونگابے: آپ کو یہ خیال کیسے آیا کہ پرندوں کی اقسام کو بلوچی زبان میں دستاویزی شکل دی جائے؟
سلمان بلوچ: میں بلوچی زبان میں مقامی پرندوں پر ایک کتاب لکھ رہا ہوں۔ اس کا مقصد ایسا ادب تخلیق کرنا ہے جسے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا اور غیر اہم سمجھا گیا۔ جب میں نے مختلف وائلڈ لائف پورٹلز پر پرندوں کی تصاویر اپ لوڈ کرنا شروع کیں، تو لوگ اکثر پوچھتے کہ ”یہ پرندہ بلوچی میں کیا کہلاتا ہے؟“
خاص طور پر جب میں نے سید ہاشمی لائبریری میں کام شروع کیا، تو مجھے وہاں کچھ ڈیٹا ملا، لیکن وہ ناکافی تھا۔ پھر میں نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا اور ہم نے فیصلہ کیا کہ بلوچستان میں پائے جانے والے تمام مقامی پرندوں کے بلوچی ناموں کی فہرست تیار کی جائے۔
بلوچستان میں تقریباً 500 اقسام کے پرندے پائے جاتے ہیں، جن میں سے میں نے 400 اقسام کی تصاویر جمع کی ہیں، بشمول ہجرت کرنے والے پرندے۔ ان 400 اقسام میں سے، میں نے 215 اقسام کو اپنی کتاب میں تفصیل سے شامل کیا ہے۔ مثال کے طور پر، میں نے دو اقسام کی سیگل (seagull) کا تفصیلی ذکر کیا ہے، جبکہ پانچ دیگر اقسام کی تصاویر بھی شامل کی ہیں جو بلوچستان میں موجود ہیں۔
مونگابے: یہ دستاویزی کام کیوں ضروری ہے؟
سلمان بلوچ: پاکستان میں جنگلی حیات وہ شعبہ ہے جسے حکومت اور عوام دونوں نے سب سے زیادہ نظر انداز کیا ہے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ جنگلی حیات کے تحفظ پر بحث کا آغاز کیا جائے۔ بلوچستان میں ہجرت کرنے والے پرندے اپنی افزائش کے موسم میں شکاریوں کے ہاتھوں شکار ہو جاتے ہیں، جو درحقیقت ایک حیاتیاتی قتلِ عام ہے۔ اس کتاب کے ذریعے، میں یہ شعور پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ پرندوں کے لیے کون سے موسم نازک ہوتے ہیں اور شکاریوں کو افزائشی موسم میں شکار سے روکنا کتنا ضروری ہے۔ اگر شکاری ان پرندوں کو ختم کر دیں تو اس کے کیا اثرات ہوں گے؟
اس کے علاوہ، میں ایک سادہ کتاب ممالیہ جانوروں (mammals) کی درجہ بندی پر بھی لکھ رہا ہوں تاکہ لوگ جان سکیں کہ ان کی سرزمین پر کون سی انواع پائی جاتی ہیں۔ یہی وہ سوالات ہیں جن پر میں اپنی کتاب میں توجہ دے رہا ہوں۔
مونگابے: آپ نے ماحولیات پر متحرک سرگرمیاں (activism) کب اور کیوں شروع کیں؟
سلمان بلوچ: میں نے ملیر اور اس کے قریب کاٹھوڑ کے جنگلات میں چند نایاب پرندے دیکھے۔ تب میرے پاس کیمرا نہیں تھا کہ ان کی تصویریں لے سکتا۔ میں بڑی بےتابی سے واپس گیا تاکہ ان پرندوں کو ریکارڈ کر سکوں، لیکن وہاں پہنچ کر میں نے دیکھا کہ ان کا مسکن بھاری مشینری کے ذریعے تباہ کر دیا گیا تھا۔
یہ لمحہ میرے لیے بہت تکلیف دہ تھا، اور یہ واقعہ ایک بار نہیں، کئی بار پیش آیا۔ میں نے ابتدا میں سوشل میڈیا پر اس بارے میں لکھنا شروع کیا۔ بعد میں، میں نے محسوس کیا کہ مقامی آبادی کی جبری بےدخلی، غیرقانونی تعمیرات اور ماحولیاتی مسائل پر ہونے والے احتجاجات نے میری سوچ کو مزید جِلا بخشی، اور میں نے موسمیاتی تبدیلی کے مسائل پر عملی جدوجہد شروع کر دی۔
مونگابے: ملیر ایکسپریس وے کے علاوہ آپ نے کن مسائل پر کام کیا؟
سلمان بلوچ: میری پہلی سرگرمی بحریہ ٹاؤن (کراچی) منصوبے کے خلاف تھی۔ یہ کراچی-حیدرآباد موٹروے کے قریب ملک کا سب سے بڑا رئیل اسٹیٹ منصوبہ ہے، جو تقریباً 45,000 ایکڑ زمین پر مشتمل ہے۔ اس منصوبے کے آغاز سے اختتام تک 30 کلومیٹر (18.6 میل) کا رقبہ پھیلا ہوا ہے۔
یہ ساری زمین کبھی جنگلی حیات کا قدرتی مسکن ہوا کرتی تھی۔ میں نے یہاں بہت سی نایاب پرندوں کی اقسام دیکھی تھیں، لیکن پھر یہ مسکن کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہونے لگا، جو میرے لیے ایک اذیت ناک منظر تھا۔ ایک مقامی تنظیم انڈیجینئس رائٹس الائنس (IRA) نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف شکایت درج کروائی۔
2018 میں، میں نے جنگلی حیات کے مسکن کی تباہی پر ایک تحقیقی مضمون لکھا، اور بطور وائلڈ لائف فوٹوگرافر، میں نے انڈیجینئس رائٹس الائنس کو ثبوت اکٹھا کرنے میں مدد دی۔
بعد ازاں، جب ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر شروع ہوئی، تو سندھ حکومت نے ملیر ندی کے کنارے بسنے والے مقامی لوگوں کے گھر مسمار کرنے شروع کر دیے، جو وہاں کھیتی باڑی اور زراعت کرتے تھے۔ ان مسائل کے باعث، میں نے میدان میں جا کر ان لوگوں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔
مونگابے: کیا آپ کے پاس ان پرندوں کا ریکارڈ ہے جو اب نظر نہیں آتے؟
سلمان بلوچ: کاٹھوڑ سے لے کر کھیرتھر نیشنل پارک تک، جہاں اب بحریہ ٹاؤن پھیل چکا ہے، یہ علاقہ کبھی متعدد پرندوں کی افزائشی زمین تھا۔ یہاں striolated bunting (Emberiza striolata) اور grey-necked bunting (E. buchanani) جیسے پرندے رہائش پذیر تھے۔ میں نے حال ہی میں اس علاقے کا دورہ کیا، لیکن مجھے وہاں کوئی بنٹنگ نظر نہیں آیا۔
یہ علاقہ ہجرت کرنے والے پرندوں کا بھی مسکن تھا، خاص طور پر خطرے سے دوچار steppe eagle (Aquila nipalensis)، جو سردیوں میں یہاں چھ ماہ گزارنے کے بعد افزائشِ نسل کے لیے بھارت چلا جاتا تھا۔
یہاں پہلے مصری گدھ (Egyptian vulture)، گِرفن گدھ (Gyps fulvus)، ہمالیائی گدھ (G. himalayensis) اور بلیک وَلچر (Coragyps atratus) ہوا میں جھنڈ بنا کر اُڑتے تھے۔ میں باقاعدگی سے اس جگہ پر پرندوں کا مشاہدہ کرنے جاتا تھا۔
میں نے یہاں verditer flycatcher (Eumyias thalassinus) کو ریکارڈ کیا تھا۔ میرے ایک دوست نے black-naped oriole (Oriolus chinensis) کی تصویر کاٹھوڑ سے لی، جو پاکستان میں اس پرندے کا پہلا ریکارڈ تھا۔ اس علاقے میں تتلیوں اور مختلف اقسام کی بطخوں کو بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔
مگر بحریہ ٹاؤن کے پھیلاؤ کے ساتھ، یہ سب ناپید ہوتا گیا۔
اب کھیرتھر نیشنل پارک کے ایک طرف بھاری مشینری سے کان کنی ہو رہی ہے، اور دوسری طرف یہ نیشنل پارک تفریحی مقام میں بدل دیا گیا ہے۔
گہرے اندرونی علاقوں تک سڑکیں بنا دی گئی ہیں، جس کی وجہ سے اب ہمیں وہاں سڑکوں پر مرے ہوئے جانور نظر آتے ہیں۔
یہ نقصان صرف وہاں بسنے والی مقامی برادری کے لیے نہیں، بلکہ پورے کراچی کے لیے ایک سانحہ ہے۔
مونگابے: آپ کے خیال میں ملیر اور اس کے آس پاس کی مقامی برادریوں کا مستقبل کیسا نظر آتا ہے؟
سلمان بلوچ: ملیر ایکسپریس وے کی وجہ سے ملیر ندی سکڑ گئی ہے، اور اگلے مون سون کے موسم میں شہری سیلاب (urban flooding) کا شدید خطرہ ہے، کیونکہ اگر پانی کو کناروں پر بنی کنکریٹ کی دیواروں سے مزاحمت کا سامنا ہوا، تو وہ شہر میں پھیل سکتا ہے۔ زیرِ زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے زرعی زمینوں کے لیز منسوخ کر دیے ہیں۔ وہ لوگ جو صدیوں سے یہاں زراعت کر رہے تھے، اب زمین پر اپنا حق نہیں جتا سکیں گے۔
ہمیں خدشہ ہے کہ یہ ساری زمین اب رئیل اسٹیٹ مافیا کے نشانے پر ہے۔ سندھ حکومت کراچی میں زراعت کے خلاف پالیسیاں بنا رہی ہے، جس سے لوگوں کے لیے اپنی روزی روٹی چلانا مشکل ہو گیا ہے۔
ملیر، جو کراچی کے لیے آکسیجن کا کام کرتا تھا، اب جنگلات کی کٹائی اور میگا پراجیکٹس کی وجہ سے شہر کی فضائی آلودگی کم کرنے میں مدد نہیں دے سکے گا۔
میں ملیر اور کاٹھوڑ کے مستقبل کے بارے میں بالکل بھی پُرامید نہیں ہوں۔
کھیرتھر نیشنل پارک دم توڑ رہا ہے، ملیر ندی سکڑ رہی ہے، اور جنگلی حیات اور نباتات غائب ہو رہے ہیں۔
مقامی آبادی کے پاس اب صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ اپنی زمینیں بیچ کر کراچی کے گنجان آباد علاقوں میں ہجرت کر جائیں۔
مستقبل یقیناً تاریک ہے، مگر کون قدرت کے خلاف جیت سکا ہے؟
چاہے کچھ بھی ہو، قدرت ہمیشہ اپنی زمین واپس حاصل کر لیتی ہے۔
بشکریہ: مونگابے